tag:blogger.com,1999:blog-11207821931166709392024-03-06T00:19:22.304-08:00Ibrahim JammalAnonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.comBlogger27125tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-70824073041051961122017-07-17T21:14:00.001-07:002017-07-17T21:14:37.730-07:00کشمیر: رواں سال کے چھ ماہ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="post-excerpt" style="background-color: white; box-sizing: border-box; font-family: nafeesnastaleeqregular1; font-size: 16px; line-height: 40px;">
<span style="color: red;">غموں کے سایے، مصایب کی آندھی </span><br />
<div style="color: seagreen;">
<span style="box-sizing: border-box; color: red;"><br /></span></div>
<div style="color: seagreen;">
<span id="ContentPlaceHolder1_lblAuthor" style="box-sizing: border-box; color: red;">ابراہیم جمال بٹ</span></div>
</div>
<div style="box-sizing: border-box;">
نہایت افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ سال رواں کے پہلے نصف حصہ میں کشمیر جابجا مقتل بنا رہا ،مقتل بھی ایسا کہ جس میں نہ صرف نہتے مقامی جوان جان بحق ہوئے بلکہ عسکریت سے وابستہ جنگجو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس کی بھینٹ چڑھتی رہی اور اس کے علاوہ علاقائی پولیس سے وابستہ کئی اہلکار بھی ہلاک ہو گئے ہیں اور بھارتی فوج سے وابستہ نوجوان بھی کام آئے۔ گزشتہ چھ ماہ میںکہیں عسکریت پسندوں کے ساتھ مسلح جھڑپیں ہوئیں، کہیں احتجاجی مظاہرین پر گولیاں چلیں، جب کہ کہیں کہیں پر پولیس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان سارے خو نخوارانہ واقعات میں من جملہ انسانیت لہو لہاں ہوتی رہی ہے۔ انکائونٹر کے مقامات پر ایک طرف گولیاں اور مارٹر شیلنگ ہو ، دوسری جانب فورسز کے خلاف عین مسلح تصادموں کے دوران عوامی مظاہرے پھوٹتے ہیں، اس بیچ ایک جانب کشمیری جنگجو نوجوان مارے جاتے ہیں اور دوسری جانب عوام گولہ باری کی زد میں آتے ہیں ، مظاہرین پر گولیاں اورپیلٹ چھروں کا استعمال بالعموم ہو تا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف جنگجو نوجوانوں کا لہو سرزمین وطن کو ترکر تا ہے بلکہ عام انسان بھی کی جانیں بھی تلف ہوجاتی ہیں۔ کہیں ایک زخمی ہوکر عمر بھر کے لئے معذور بھی ہوجاتے ہیں ۔ بھارتی فوج اور پولیس کے لوگ اس مقتل کی نذر ہو تے ہیں۔ رواں سال کے چھ ماہ اسی مقتل کی آدم خوری میں گزر گئے۔ غرض یہ کہ وادیٔ کشمیر میں انسانیت کا خون اس قدر سستا ہوتا جارہا ہے مگر ارباب ِ اقتدار میں سے کسی کو بھی فکر ہے نہ غم کہ ایسا کیوںہو رہا ہے۔ ان چھ ماہ کے دوران کشمیر وادی کی زمین اس خون انسانی سے اتنی تر بتر ہوگئی کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہان کے ندی نالے اب پانی کے بجائے خون اُگل دیںگے۔ عسکریت پسند، عام شہری اور پولیس وفوجی اہلکاروں کے مارے جانے کی خبریں آئے روز کا معمول بن چکا ہے۔ ڈر اور خوف کی اس کیفیت میں کرسی والوں کی طرف سے دعوے ہورہے ہیں کہ کشمیر کے حالات جلد ہی سدھر جائیں گے مگر زمینی سطح پر حقائق انہیں جھٹلا رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ انسانیت کے اس بہتے لہو کو روکنے کی تدابیریں اختیار کی جاتیں ، اس میں مزید اضافہ لانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کشمیر وادی میں فوج کو عسکریت سے وابستہ نوجوانوں کو ختم کرنے کے لیے تین ماہ کا وقفہ دیا جاتا ہے۔ اسی مہلت کا نتیجہ ہے کہ جموں وکشمیر میں قتل وغارت کا بازار گرم ہو چکا ہے۔ ماہ جنوری سے عموماً اور ماہ جون سے لے کر آج تک خصوصاًہر روز کسی نہ کسی طرح انسانیت کا قلع قمع کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ </div>
<div style="box-sizing: border-box;">
یکم جنوری کو جب صبح لوگوں نے اخبار اٹھایا تو سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ ’’چوگل ہندوارہ میں پولیس پار ٹی پر ایک حملے کے دوران پولیس اہلکار بنام عبد الکریم مارا گیا۔اسی طرح ۶؍ جنوری کو ماچھو بڈگام میں ایک جھڑپ کے دوران مقامی جنگجو کمانڈر مظفر اقبال نائیکو عرف مظہ مولوی مارا گیا۔ ۱۰؍ جنوری کو حاجن میں ایک جھڑپ کے دوران ایک غیر شناخت شدہ جنگجو مارا گیا۔ ۱۶؍جنوری کو آوورہ پہلگام میں ایک خون ریز جھڑپ کے دوران تین مقامی جنگجو عادل احمد ریشی ساکن بجبہاڈہ، عابد احمد شیخ ساکن تکی پورہ اور مسعود احمد شاہ ساکن بیورہ بجبہاڈہ جان بحق ہو گئے۔۱۹؍جنوری کو حاجن میں فوج کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران ایک جنگجو ابو موسیٰ عرف مصعیب مارا گیا۔ ۲۴؍ جنوری کو ایک خون ریز جھڑپ کے دوران شہامہ آلسٹینگ میں دو جنگجو جان بحق ہو گئے۔ </div>
<div style="box-sizing: border-box;">
جنوری کے بعد ماہ فروری کی ۴؍ تاریخ کو سوپور میں ایک جھڑپ کے دوران مقامی جنگجو اظہر خان عرف غازی عمر ساکن نتہ نوسہ کپوارہ اور سجاد احمد لون عرف بابر ساکن عادی پورہ بومئی سوپور حیات جاوداں پاگئے۔ ۱۲؍ فروری کے دن ایک خون ریز جھڑپ میں چار جنگجوجن میں مدثر احمد عرف عاصم ساکن ریڈونی بالا، وکیل احمد ٹھاکر ساکن ہری گام، فاروق احمد بٹ ساکن چک داسند اور محمد یونس لون ساکن ہاورا کولگام کے علاوہ دو عام شہری اشفاق مجید ریشی ساکن بجبہاڈہ اور مشتاق احمد یتو ساکن سری گفوارہ بجبہاڈہ جان بحق ہوگئے۔ اس کے علاوہ دو بھارتی فوجی بھی اس جھڑپ میں کام آگئے۔ اسی طرح کے دواور واقعات میں۱۴؍ فروری کوحاجن اور ہندواڑہ میں جھڑپوں کے دوران تین فوجی اور چار جنگجو از جان ہو گئے۔ ۲۳؍ فروری کو شوپیان میں ایک جھڑپ کے دوران ایک عام خاتون جانہ بیگم ساکن چتراگام شوپیان کے علاوہ چار فوجی از جان ہو گئے۔</div>
<div style="box-sizing: border-box;">
ماہ مارچ کی ۴؍تاریخ کو جب لوگوں نے صبح اخبار پڑھا تو ایک بڑی خبر یہ پائی کہ ’’مرن چوک پلوامہ میں گرنیڈ حملہ، جس کے نتیجے میں ایک راہ گیر محمد ایوب وانی ساکن گوسو پلوامہ شہید ہو گیا۔ ۵؍مارچ کو ترال میں ایک معرکہ کے دوران دو جنگجو عاقب احمد بٹ عرف عاقب مولوی ساکن ہائن ترال اور ایک غیر ملکی جنگجو جان بحق ہو گئے جب کہ اس دوران ایک پولیس اہلکار منظور احمد ساکن سلام آباد اوڈی بھی مارا گیا۔ ۹؍مارچ کو پدگام پورہ پلوامہ میں ایک جھڑپ کے دوران ۲؍عام شہری جن میںنویں جماعت کا طالب علم عامر نذیر وانی ساکن کاکہ پورہ پلوامہ اور ۲۳ سالہ نوجوان جلال الدین ساکن ٹہب پلوامہ کے علاوہ دو جنگجو جہانگیر احمد گنائی عرف سیف اللہ ساکن قوئل پلوامہ اور محمد شفیع وگے عرف احسان ساکن بانڈی پورہ پلوامہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ۱۵؍ مارچ کے دن کپواڑہ میں ایک جھڑپ کے دوران ایک معصوم بچی کنیزہ دختر خوشی محمد ساکن بٹہ پورہ ہایہامہ کپواڑہ کے علاوہ تین جنگجو جان بحق ہو گئے۔ ۲۶؍ مارچ کو پدگام پورہ پلوامہ میں ایک خون ریز جھڑپ کے دوران ۲؍جنگجو فاروق احمد حرا ساکن نازنین پورہ شوپیان اور رئیس احمد کاچرو ساکن بلوراجپورہ پلوامہ جان بحق ہو گئے۔ ۲۸؍ مارچ کو ایک جھڑپ کے دوران ایک جنگجو توصیف احمد ماگرے ساکن کولگام کے علاوہ تین عام نوجوان زاہد رشید گنائی ساکن باربگ چاڈورہ، عامر فیاض وازہ ساکن وازہ محلہ واتھورہ چاڈورہ اور اشفاق احمد ساکن رنگریٹ جان بحق ہوگئے۔</div>
<div style="box-sizing: border-box;">
ماہ اپریل کی تیسری تاریخ کے دن اخبار کی سرخیوں میں ایک اہم سرخی یوں تھی ’’نوہٹہ میں پولیس پارٹی پر حملے کے دوران ایک پولیس اہلکار شمیم احمد ساکن گریز بانڈی پورہ ہلاک‘‘ ضمنی انتخابات کے سلسلے میں ۹؍ اپریل کے روز الیکشن بائیکاٹ کے دورا ن فورسز کی فائرنگ سے ۸؍ عام شہری جانیں گنوا بیٹھے۔ ۱۵؍اپریل کو بتہ مالو سرینگر میں ایک راہ گیر سجاد حسین شیخ ساکن چندوسہ دودھ بگ بارہمولہ پر اندھا دھند فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا۔ مذکورہ نوجوان فٹ پاتھ پر وازہ وان بیچتا تھا۔ ۲۲؍ اپریل کو چاڈورہ معرکہ آرائی میں ۲؍جنگجو یونس مقبول گنائی ساکن باتری گام چرار شریف اور غیر ملکی ابو علی جان بحق ہو گئے۔ اسی طرح ۳۰؍ اپریل کو خانیار سرینگر میں پولیس پارٹی پر ایک حملے کے دوران ایک عام شہری غلام محمد خان ساکن الٰہی باغ سرینگر جو کہ ۶۵ سال کا تھا جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ </div>
<div style="box-sizing: border-box;">
اپریل کے بعد ماہ مئی کی ۲؍ تاریخ کو جنوبی کشمیر کے پم بائی کولگام میں جموں وکشمیر بنک کی کیش گاڑی کے ساتھ پولیس گاڑیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ۵؍پولیس اہلکار اور ۲؍بنک ملازمین جان گنوا بیٹھے ۔ مارے گئے پولیس اہلکار میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر بشیر احمد ، کانسٹیبل فاروق احمد، کانسٹیبل محمد قاسم، کانسٹیبل مظفر احمد اور کانسٹیبل اشفاق احمدشامل تھے جب کہ ۲؍بنک ملازمین مظفر احمد لاوے اور جاوید احمد ڈار تھے جو جان بحق ہوئے۔ ۵؍مئی کو کپواڑہ میں فورسز کیمپ پر فدائن حملہ کے بعد جب مقامی آبادی جنگجوؤں کی لاشوں کا مطالبہ کرنے کے لیے احتجاج کر رہے تھے تو فوج نے لوگوں پر اپنی طاقت کا استعمال کر کے ۶۰؍سالہ بزرگ محمد یوسف بٹ ساکن پنزگام کپواڑہ کو جاں بحق کردیا۔ اسی دوران ۵؍ مئی کو باس کجن شوپیان میں فوجی جو کہ ایک سول سومو گاڑی میں سوار ہو چکے تھے پر گولیوں کی بوچھاڑ کے نتیجے میں سومو ڈرائیور نظیر احمد شیخ ولد احد شیخ ساکن کچہ ڈورہ شوپیان جان سے گیا۔ ۶؍مئی کو میر بازار اسلام آباد میں ایک خونریز جھڑپ کے دوران لشکر کمانڈر فیاض احمد جان کے علاوہ ایک عام شہری محمد حسین ڈار ساکن ملہ پورہ اسلام آباد جان بحق ہو گئے۔ ۱۴؍مئی کو واری پورہ ہندوارہ میں ایک مختصر سی جھڑپ کے دوران ۲؍جنگجو جان بحق ہو گئے۔ ۱۹؍مئی کو گڈورا پلوامہ میں ایک نوجوان محمد یوسف لون کی پراسرار طور پر ہلاکت ہوئی جس کے بارے میں لوگوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ فورسز کی طرف سے زیر حراست قتل ہے۔ ۲۷؍ مئی کو سیمو ترال میں ایک خون ریز جھڑپ کے دوران دو جنگجو جاں بحق ہو گئے جن میں ایک معروف نوجوان حزب کمانڈر سبزار احمد بٹ اور اس کا ساتھی فیضان احمد ساکنان ترال شامل تھے۔ جب کہ اسی لمحے احتجاج کے دوران ایک نوجوان عاقب احمد ساکن ترال اور ایک اور نوجوان حافظ قرآن عاقب مولوی پر راست گولیاں چلا کر انہیںابدی نیند سلا دیا گیا۔ ماہ مئی کی آخری تاریخ کو آرونی میں مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں ۲؍شہری جان بحق ہو گئے۔ </div>
<span id="ContentPlaceHolder1_lblPostContent" style="background-color: white; box-sizing: border-box; color: #444444; font-family: "nafeesnastaleeqregular1"; font-size: 20px;"></span><br />
<div style="box-sizing: border-box;">
یکم جون سوپور میں ایک خون ریز معرکہ آرائی میں دو جنگجو اعجاز احمد میر ساکن براٹھ کلاں سوپور اس کے اس کا ساتھی بشارت احمد شیخ ساکن بومئی سوپور ابدی نیند سلا دئے گئے۔ ۳؍جون کو جموں شاہراہ پر قاضی گنڈ کے قریب فوجی کانوائے پر اچانک حملے کے دوران دو فوجی مارے گئے ۔ ۵؍جون کو سمبل بانڈی پورہ میں ایک فدائن حملے کے دوران چار جنگجو مارے گئے ۔۶؍جون کو غنہ پورہ شوپیان میں مظاہرین اور فورسز کے درمیان ایک جھڑپ میں ایک مقامی ۱۶؍ سالہ نوجوان عادل فاروق ماگرے جان بحق ہو گیا۔</div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-82337295746663278062017-06-13T08:44:00.000-07:002017-06-13T08:44:21.804-07:00<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div>
<br /></div>
<div>
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: "noto nastaliq urdu draft" , "jameel noori nastaleeq" , "alvi nastaleeq" , "tahoma" , "arial"; font-size: 11.211pt;">ابراہیم جمال بٹ</span></div>
<div>
<span original_font_attr="13px" original_line_height_attr="" style="background-color: white; color: #333333; font-family: "noto nastaliq urdu draft" , "jameel noori nastaleeq" , "alvi nastaleeq" , "tahoma" , "arial"; font-size: 11.211pt; line-height: 140%;"> جنگل کا راجا ،شیر ایک دن گہری سوچ میں تھا کہ ایک نیا حربہ کون سا استعمال کروں جس سے شکار بھی آسان ہو جائے اور کوئی مزاحمت بھی نہ کرنی پڑے۔ کچھ دیر سوچ بچار کے بعد راجا جنگل کی سیر پر نکل پڑا کہ اس نے چند گائیں دیکھیں …کیا دیکھتا کہ اُن میں آپسی تال میل اور یکجہتی ہے… شیر ان کی یہ خصوصیت دیکھ کر سوچ میں پڑا، دور ایک دوسری جگہ بیٹھ کر کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک اس کے خوفناک چہرے پر امسکراہٹ نمودار ہوئی… شیر کھڑا ہوا اور ایک آواز نکالی جس سے پورا جنگلی علاقہ لرز اٹھا…! </span></div>
<div>
<span original_font_attr="13px" original_line_height_attr="" style="background-color: white; color: #333333; font-family: "noto nastaliq urdu draft" , "jameel noori nastaleeq" , "alvi nastaleeq" , "tahoma" , "arial"; font-size: 11.211pt; line-height: 140%;">چند روز بعد شیر کا پھر اسی جانب سفر ہوا، لیکن اس بار شیر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے دھاڑتا ہوا چل رہا تھا…جس سے پورا جنگل کانپنے لگا… جب شیر اس جگہ پہنچا جہاں اس نے یہ رنگ برنگی گائیں دیکھی تھیں تو کیا دیکھتا ہے کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ایک دیوار کی مانند بیٹھی ہیں … شیر کو دیکھ کر اگرچہ کسی حد تک انہیں خوف ہوا لیکن شیر اپنا دوسرا چہرہ ان کے سامنے اختیار کر کے اُن سے بولا… کیا ہو رہا ہے…؟ جب کہ اس دوران ایک ایک کر کے سبھی گائیں کھسکتی جا رہی تھیں …!</span></div>
<div>
<span original_font_attr="13px" original_line_height_attr="" style="background-color: white; color: #333333; font-family: "noto nastaliq urdu draft" , "jameel noori nastaleeq" , "alvi nastaleeq" , "tahoma" , "arial"; font-size: 11.211pt; line-height: 140%;"> شیر نے جب یہ دیکھا تو آخری اکیلی گائے سے بولا گھبرائو مت میں تمہارے ساتھ کچھ نہیں کروں گا… مجھے تم سے بے حد ہمدردی ہے، تمہاری نسل ہی مجھے اچھی لگتی ہے… البتہ یہ جو کالے رنگ کی گائے ہے مجھے اس نسل سے ہی نفرت ہے، اور جس سے مجھے نفرت ہو اُسے میں زندہ نہیں رہنے دیتا…تم مزے کرو، تمہارے ساتھ کوئی نہیں چھیڑ سکتا… مگر خبردار !یہ میری باتیں جو میں نے تم سے کہیں کسی کو کہنا نہیں بصورت دیگر میں دوست اور دشمن میں فرق نہیں کرتا… گائے نے اپنی خیریت سمجھ کر ہاں میں ہاں بھر لی اور وہاں سے کھسک گئی… شیر یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا…! </span></div>
<div>
<span original_font_attr="13px" original_line_height_attr="" style="background-color: white; color: #333333; font-family: "noto nastaliq urdu draft" , "jameel noori nastaleeq" , "alvi nastaleeq" , "tahoma" , "arial"; font-size: 11.211pt; line-height: 140%;">شیر آگے بڑھ کر جب خوف کی ماری دوسرے رنگ کی گائے کے درمیان آدھمکا تو وہ ڈر کے مارے ہانپنے لگی… شیر نے اسے بھی اسی طرح تسلی دی اور اسے اس بات کا اطمینان دلایا کہ اس کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہو گی۔ ایک ایک کر کے سبھی گائیوں سے یہی باتیں اور طریقہ اختیار کر کے جب شیر تھک گیا تو، ہنستے ہنستے شیر اپنی کھچار میں پہنچ گیا… تھکاوٹ کی وجہ سے جلد سو گیا…صبح جب نیند سے بیدار ہوا تو اس کے چہرے پر ایک بار مسکراہٹ پھر نمودار ہوئی… اپنے آپ سے مخاطب ہو کر بولا کہ اگر ان گائیوں کے درمیان کا یہ رشتۂ محبت و یکجہتی نہ ٹوٹتا تو ان پر کنٹرول حاصل کرنا ناممکن تھا… اب ایک ایک کر کے سب شکار ہو جائیں گی اور زیادہ مزاحمت بھی نہیں کرنی پڑے گی… واہ واہ واہ…</span></div>
<div>
<br style="background-color: white; border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, arial; font-size: 13px; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;" />
<span original_font_attr="13px" original_line_height_attr="" style="background-color: white; color: #333333; font-family: "noto nastaliq urdu draft" , "jameel noori nastaleeq" , "alvi nastaleeq" , "tahoma" , "arial"; font-size: 11.211pt; line-height: 140%;">نہیں لگایا…! پہلے ایک گائے کو پھر دوسری، تیسری اور اس طرح سبھی گائیں شکار ہو گئیں اس کی شکار ہو گئیں …یہ منظر دیکھ کر پہلی والی گائے کو اپنی یکجہتی یاد آگئی۔ اسے اب یہ محسوس ہو گیا کہ شیر نے کیسی چال چلی… اب نہ ہی ہماری یکجہتی رہی اور نہ ہی ہمارا نام ونشان… شیر اس کی آنکھوں سے آنسو دیکھ رہا تھا اور بولا… میں شیر ہوں … جنگل کا راجا ہوں …اور راجا دوراندیشی اور چاپلوسی اختیار نہ کرے تو کیسا راجا… ہا ہا ہا…!</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<div>
<span original_font_attr="13px" original_line_height_attr="" style="background-color: white; color: #333333; font-family: "noto nastaliq urdu draft" , "jameel noori nastaleeq" , "alvi nastaleeq" , "tahoma" , "arial"; font-size: 11.211pt; line-height: 140%;">پھر آخر میں پڑی اس غمگین اور بے سہارا گائے پر بھی جھپٹا اور مزے سے کھا گیا…! برابر یہی صورت حال آج مسلم ممالک کی ہے… عالمی پولیس مین کا کردار ادا کرنے والے امریکہ نے ایک ایک کر کے سب ملکوں کے سربراہان کو ایک ایسا چاکلیٹ تھما دیا، جو اصل میں چاکلیٹ نہیں زہر ہے… بجائے اس کے کہ مسلم ممالک ان کے اس بظاہر ’’مدھر سندیش‘‘ کو سمجھ جاتے …وہ پے درپے اسی کی طرف لپک رہے ہیں … ایران، عراق، افغانستان، شام، سوڈان، یمن، پاکستان، اور اب سعودیہ وقطر کا تنازعہ کھڑا کراکے خود دور تماشائی بنا بیٹھا ہے… گویا اس کی وہ ساری خواہشیں جو اس نے اپنی خواب گاہ میں دیکھیں تھیں ، وہ پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہیں ۔ مسلم ممالک اپنی اپنی سوچ کر تباہی کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں لیکن خیال کر رہے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں …کیوں ہم ان کے اپنے ہیں جو کبھی اپنے ہو ہی نہیں سکتے۔ ہمارے مسلم حکمرانوں کی اس سوچ پر وائے افسوس صد افسوس …!</span></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-24390258350132225442017-01-22T19:29:00.001-08:002017-01-22T19:29:16.806-08:00قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں!<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="entry" style="background-color: white; border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, arial; font-size: 13px; line-height: 22px; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify; word-wrap: break-word;">
<b><span style="color: blue;"><br /></span></b></div>
<div class="entry" style="background-color: white; border: 0px none; box-sizing: border-box; line-height: 22px; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify; word-wrap: break-word;">
<span style="color: blue; font-family: Noto Nastaliq Urdu Draft, Jameel Noori Nastaleeq, Alvi Lahori Nastaleeq, Alvi Nastaleeq, Tahoma, serif;"><span style="font-size: 19.4px;"><b>ابراہیم جمال بٹ</b></span></span></div>
<div class="entry" style="background-color: white; border: 0px none; box-sizing: border-box; line-height: 22px; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px; word-wrap: break-word;">
<div style="text-align: justify;">
<b style="font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif; font-size: 19.4px;"><span style="color: blue;">۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے اپنے آخری نبی وپیغمبر حضرت محمد مصطفیﷺ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جسے آج اگر دور سے دیکھیں تو بظاہر ایک کتاب معلوم ہوتی ہے لیکن بغور اس کے کارناموں کی فہرست تلاش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب الٰہی کے کارنامے اس قدر ہیں کہ ان کا شمار کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔ تاہم سرسری طور پر اگر دیکھیں تو عام انسانوں کو یہ کہے بغیر چارہ ہی نہیں رہتا کہ ’’یہ کتاب اور اس میں موجود ’’دین‘‘ یعنی نظام حیات دراصل ایک ایسی تحریک ہے جس کا مسلمانوں نے سہارا لے کر اس دین اور کتاب کی تعلیمات کی تبلیغ کی، اسے تبلیغ کی بنیادوں پر قائم کیا، اسی کی قوت سے ترقی کی، اور اسی پر اس کی زندگی کا انحصار ہے، اس کتاب کی دکھائی ہوئی راہ راست سے مسلمانوں عروج پا گئے اور عروج اس قدر کہ دنیا پر چھا گئے، دنیا کے کونے کونے میں آج مسلمان اور اسلام کا نام ہے،اس کی بنیادی وجہ اس کتاب کو صحیح معنوں میں اخذ کرنا ہے۔ ہر دور میں اس قرآن کی کیا اہمیت رہی ہے اس کا اندازہ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے صحیح طور سے ہوتی ہے کہ کس طرح انسان جاہلانہ طرز عمل سے اُٹھ کر امامت کے منصب پر فائز ہو گیا۔ کس طرح ایک انگڑ وجاہل قوم حاملِ قرآن ہو کر دنیا کے لیے رہبری کے مرتبے تک پہنچ گیا۔ چنانچہ قرآن انسان کی ابدی ضرورت ہے اور اس ضرورت کے بغیر انسانی فلاح وکامیابی ناممکن ہے۔ انسان ہمیشہ سے اپنی نجات کی فکر میں کوشاں رہا ہے اور وہ ہمیشہ رہے گا، البتہ نجات کی راہ کون سی ہے اور کون سے راہِ ضلالت وگمراہی کی ہے۔ اس جانب انسانیت کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ اسی جانب ایک جگہ دور حاضر کے مفکر و مصنف سید مودودیؒ رقمطر از ہیں :</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’قرآن ایک ایسا چراغ ہے جس کا برحق ہونا بجائے خود روشن ہے، اور اس کی روشنی میں انسان ہر اس مسئلے کو سمجھ سکتا ہے جسے سمجھنے کے لیے اس کے اپنے ذرائع علم وعقل کافی نہیں ہیں ۔ یہ چراغ جس شخص کے پاس ہو وہ فکر وعمل کی بے شمار پر پیچ راہوں کے درمیان حق کی سیدھی راہ صاف صاف دیکھ سکتا ہے اور عمر بھر صراطِ مستقیم پر اس طرح چل سکتا ہے کہ ہر قدم پر اسے یہ معلوم ہوتا رہے کہ گمراہیوں کی طرف لے جانے والی پگڈنڈیاں کدھر جا رہی ہیں اور ہلاکت کے گڑھے کہاں کہاں آرہے ہیں اور سلامتی کی راہ ان کے درمیان کون سی ہے‘‘۔</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">قرآن کس طرح انسان کے لیے روشنی ہے اور انسان کو اس روشنی کی کس قدر ضرورت ہے ، اس کے بغیر انسان کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے اور اس سے دور ہو کر ایک انسان عموماً اور مسلمان خصوصاً کس طرح بھٹک کر اندھیرے کی نذر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ آج دنیا کی یہی حالت دکھائی دیتی ہے۔ دنیا کا وہ کون سا حصہ ہے جس میں انسان نہ بستے ہوں ، جس میں مسلمان نہ رہتے ہوں ۔ زمین کے چپے چپے پر مسلمان نے اپنا مسکن قائم کیا ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود آج مسلمان ہر جگہ ظلم وبربریت کا شکار ہیں ، مظلومانہ زندگی گزار کر اپنے ایام گزار رہے ہیں ۔ گویا روشنی ان کے پاس ہونے کے باوجود وہ آج اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں ۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ کیوں مسلمان آج کے اس نام نہاد’’ جدید اور ماڈرن‘‘ دور میں سب سے آگے ہونے کے بجائے پیچھے ہی کی طرف رہ کر رہ گیا ہے؟ جب سرسری طور پر اس معاملے پر غور کیا جاتا ہے تو یہی نظر آتا ہے کہ آج کا مسلمان قرآن خوان تو بن چکا ہے لیکن حاملِ قرآن نظر نہیں آرہا ہے۔ حالاں کہ اگر دیکھا جائے تو آج دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ’’قرآن کریم‘‘ ہی ہے اور کیوں نہ ہوتی یہ تو اس ہستی ٔ لافانی کا کلام ہے جس نے ساری دنیا کی تخلیق کی ، اس نے اپنے سب سے بہترین بندے اور خاتم النبیین حضرت محمدﷺ پر اس کو نازل کیا۔ اس کے ذریعہ سے رہتی دنیا تک کے انسانوں کو ہدایت و رہنمائی پہنچی ہے ، اس کے آتے ہی دنیا مکمل طور سے بدل گئی۔ بکریوں کو چرانے والے اس کے ذریعے انسانیت کے محافظ بن گئے۔ پتھروں اور ذلیل و حقیر ترین چیزوں کے آگے جھکنے والے بادشاہوں کی آنکھوں سے آنکھیں ملانے لگے۔ لوگوں کا حق مارنے والے یتیموں کے والی و غمخوار بن گئے، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والے عورت کے عظیم ترین محافظ بن گئے۔ اسی قرآنی تعلیم نے عورت کے قدموں تلے جنت بنائی، زیور تعلیم سے اسے آراستہ کیا، باپ بھائی اور شوہر پر معاشی کفالت کی ذمہ داری ڈال کر معاشرے کے بھیڑیا نما انسانوں سے اسے محفوظ کیا ، مردوں کے شانہ بہ شانہ حقوق و ذمہ داریاں دے کراسے اس مقام پر کھڑا کیا جس کو آج کی عورت لباسِ عصمت تار تار کراکر بھی نہ پاسکی۔ غرض اس کتاب نے، اللہ رب العالمین کے کلام نے ،پتھروں کو پانی کیا ، صحرائوں کو سبزہ زار کیا اور ساتھ ہی ساتھ دریائوں میں ایک ایسی حیات بخش روانی پیدا کی کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی انسان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ حقیقت میں یہ ایک انقلاب تھا جس نے دنیا کا رخ ہی موڑ دیا ، اس کے آنے سے علم و ہنر کے وہ چشمے پھوٹے کہ کسی دوسری قوم نے اس قدر علمی و فنی خدمات اتنے زیادہ میدانوں میں کبھی نہیں کیں ۔ خود مغرب و مشرق، شمال و جنوب اس کا قائل ہے ، چنانچہ بقول کارلائل :</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’ میرے نزدیک قرآن میں سچائی کا وصف ہر اعتبار سے موجود ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی خوبی کسی کے اندر پیدا ہو سکتی ہے تو اسی کے ذریعہ سے پیدا ہو سکتی ہے۔‘‘</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">برطانوی دانشور روڈ ولف لکھتا ہے کہ :</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’ یورپ کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ قرآن کااس پر عظیم احسان ہے کیونکہ وہ قرآن ہی ہے جس سے پورے یورپ میں علم و دانش کی روشنی پھیلی‘‘۔</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">جارج سیل لکھتا ہے کہ :</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’ قرآن بالیقین سب سے بہتر اور مستند کتاب ہے ، انسان کا قلم ایسی معجزانہ شان کی کتاب لکھنے سے قاصر ہے اور یہ وہ معجزہ ہے جسکا درجہ مُردوں کو زندہ کرنے سے بھی بڑھ کر ہے‘‘۔</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">مگر آج یہ قصہ ٔتاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ آج اس قرآن سے وابستہ لوگوں (مسلمانوں ) کی زندگیاں برف سے زیادہ ٹھنڈی ہیں ، علم وعمل سے بے بہرہ مخصوص رسومات کے پیروکار ہیں ، جو مختلف مواقع پر بغرضِ ’’برکت‘‘ بے سوچے سمجھے کچھ آیتیں پڑھ لیتے ہیں ، اوہام و خرافات بنیادِ عمل ہے، معاشی طور پر یا تو دست نگر ہیں یا اپنی معیشت کی باگیں باطل خدائوں کے ہاتھوں میں دے رکھی ہیں ۔ ایک طوفان ِ بد تمیزی برپا ہے جو صرف اور صرف اس کے خلاف ہے۔ جموں وکشمیر، فلسطین، برما،عراق، شام، اور بے شمار مسلم ممالک اور نہ جانے کتنے رستے ہوئے زخم ہیں جس نے پوری ملت کو لہو لہو کر رکھا ہے۔ایسے میں کوئی تعلیم و ترقی کی طرف متوجہ ہے تو کوئی معاشی استحکام کی طرف ،کوئی آزادیٔ نسواں کا علمبردار بن کر نصف امت کی فلاح میں فکر مند ہے ،تو کوئی باطل کی خدمت میں فلاحِ قوم و حفاظت ِ وطن ڈھونڈ رہا ہے۔ غرض دنیا کا کوئی لادین نظریہ ،کوئی اِزم ،کوئی طریقہ ، سیکولرزم ہو یا لادین جمہوریت ، قوم پرستی ہو یا مفاد پرستی، کیپٹلزم ہو یا سوشلزم کوئی طریقہ ایسا نہیں چھوٹا جس کے ذریعہ فلاح ِقوم اور بگڑتے ہوئے معاشروں کی سدھار کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ ہاں اگر چھوٹا تو صرف ایک ہی طریقہ چھوٹا ہے اور وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کا عمل بہ کتاب۔ اس کتاب کو لے کر دنیا پر چھا جانے والی قوم اسی کتاب کو پس پشت ڈال کر ذلیل و خوار ہے۔</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">وہ معزز تھے مہمان مسلمان ہو کر</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">بنیاد ہی جب غائب ہو تو عمارت کہاں سے وجود میں آئے گی؟بے جا تاویلات کے ذریعہ اس قرآن پر عمل بھی چھوٹا ہے مگر ایمان بھی باقی۔ خوبصورت ترین جُزدانوں میں رکھی جانے والی اس کتاب کی انقلابی تعلیمات سے یہ اُمت غافل ہے۔ کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ اس قرآن کو سمجھنا آسان کام نہیں ، یہ علماء کا کام ہے، بھلا عوام کہاں اللہ کے کلام کو سمجھیں گے۔ کتنا بڑا بہتان ہے جو یہ خدا پر باندھتے ہیں ۔سورج ،چاند ، درخت، پہاڑ وغیرہ جیسی عظیم خدائی مخلوقات سے یہ براہ راست فائدہ اٹھا سکتے ہیں مگر اس سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ بتانے والی چیز (قرآن)ان علماء کے لئے ہے۔ حالانکہ قرآن کریم خود کہتا ہے ’’ھدی للناس‘‘ یہ سارے انسانوں کی ہدایت کے لئے ہے۔ جو ڈرے اس کے لئے رہنمائی ہے۔بار بار اعلان کرتا ہے کہ :</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو ہے کوئی جو نصیحت پکڑے‘‘۔</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">پھر یہ جو سارے ترجمے اور تفاسیر لکھی گئی ہیں وہ کس کے لئے ہیں ؟ علماء تو عربی جانتے ہیں پھر دنیا بھر کی زبانوں میں تراجم کس کی خاطر ہوئے ہیں ۔ صرف اردو زبان میں شاہ عبدالقادر ؒ ،شاہ رفیع الدین ؒ، مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا محمود الحسن ؒ، مولانا امین احسن اصلاحی ؒ، مولانا سید ابولاعلیٰ مودودیؒ، مولانا سید حامد علیؒ ،مولانا عبدالرحمٰن کیلانیؒ ، مولانا جوناگڑیؒ، مولانا صدر الدین اصلاحیؒ ، مفتی محمد شفیعؒ ، مولانا ابولکلام آزادؒ ، مولاناعبدالماجد دریاآبادی ؒ، اور کشمیری میں ترجمۂ قرآن کرنے والے میرواعظ محمد یوسف شاہؒ وغیرہ نے کس کے لئے تراجم وتفسیریں لکھیں ہیں ۔یہ ایک سازش ہے جو امت کو قرآن سے دور کرنے کے لئے چلائی گئی ہے۔ نہ امت قرآن پڑھے گی، نہ رہبرانِ قوم و ملت کا احتساب ہو سکے گا۔ وہ جس وقت جس چیز کو چاہیں گے من جانب اللہ کر دیں گے اور جس شخص کو چاہیں گے ’’ولی اللہ‘‘ بنا دیں گے۔</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">اس بارے میں علامہ سر محمد اقبالؒ ارمغان حجاز فارسی میں کہتے ہیں :</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">بہ بند صو فی و ملا اسیر ی</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">حیات از حکمت قرآں نگیر ی</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">بآ یا تش تراکار ی جزایں نیست</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">کہ از یسینِ اُو آساں بمیر ی</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’ اے مسلمان! تو صوفی و ملا کے فریب کم نگہی اور کج ادائی کا اسیر ہے اور حکمت قرآں سے پیغام حیات اور اسلو ب زندگی حاصل نہیں کر رہا۔ قرآن کی آیات سے تیرا تعلق بس اتنارہ گیا ہے کہ تیرے ہاں کسی کے وقتِ نزع سور ہ یسٓین کی تلاوت بس اس لیے کی جاتی ہے کہ مرنے والے کا دم آسانی سے نکل جائے۔‘‘</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">حالاں کہ اگر دیکھا جائے تو قرآن صرف اس لئے آیا ہے کہ تمام انسانوں کو فطرت پر قائم کرے تاکہ دنیا میں امن و سکون ہو، دنیا صلح و آشتی کا گہوارہ بن جائے ، اخلاقی گراوٹ ہو یا سماجی پسماندگی سارے مسائل کا تدارک و حل ہو۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑھو‘‘مگر قرآن کو صحیح طور سے پڑھے اور سمجھے بغیر کیسے پتہ چلے گا کہ اللہ کی رسی کون سی ہے۔ چنانچہ آج ہم نے مختلف شیطانوں کی چھوٹی بڑی دُموں کو رسی سمجھ کر تھام لے رکھا ہے اور وہ ہمیں دنیا میں تو ذلیل کر ہی رہے ہیں جب کہ آخرت کا حساب ابھی باقی ہے۔ہم نے اس کتابِ زندگی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اس کے نتیجے میں ہم ضلالت کے ہی سزا وار تھے، کبھی تو مومن سیرت و کردار میں منہ بولتا قرآن ہوا کرتا تھا اور آج حال یہ ہے کہ ع</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائے یہود</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">آج مسلمان شیطان کی چکا چوند سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ وہ اپنے زوال کی وجہ ’’مال کی کمی اور ٹیکنالوجی سے دوری ‘‘سمجھتے ہیں ، جبکہ اصل وجہ کمی ٔ مال و زر نہیں بلکہ کمی ٔ فہم قرآن و عمل بالقرآن اور کمیٔ ایمان ہے۔</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">محبت کا جنون باقی نہیں ہے</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">اگر ہم پھر زمانے میں معزز و مکرم ہونا چاہتے ہیں ، اگر ہم پھر دنیا کی قیادت و سیادت چاہتے ہیں ،اگر ہم دنیا و آخرت میں سرخروئی چاہتے ہیں تو ہمیں اس کتاب اللہ کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ ارشاد نبویﷺ ہے:</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’ قرآن کو بس تکیہ ہی نہ بنائو بلکہ دن اور رات کے اوقات میں اسکی تلاوت کرو ،اس کو چہار جانب پھیلائو، اس میں تدبر اور غور و فکر کر و‘‘۔</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">ارشاد نبویﷺ ہے:</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’قرآن کو بس تکیہ ہی نہ بنائو بلکہ دن اور رات کے اوقات میں اسکی تلاوت کرو ، اس کو چہار جانب پھیلائو، اس میں تدبر اور غور و فکر کرو‘‘۔</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">غور و فکر تو درکنار ہم تو اس قرآن مجید ،فرقانِ حمید ، نورِ ہدایت، کتاب ِمبین کو فراموش کر بیٹھے۔ اللہ کی رسی کو چھوڑ دیا ، نورِ حکمت کے خزانے سے مکمل طور سے بے نیاز ہو گئے اور زوال ، فساد ،انحطاط ، بگاڑ ہمارا مقدر بنا ، مغلوب و مقہور ہو گئے ، حقیر و ذلیل ہو گئے، عقائد خراب ، اعمال بگڑ گئے، معاشرہ تباہ و برباد، غرض ہم لٹ گئے ، برباد ہو گئے ،قیمتی ترین متاع کھو بیٹھے، سرمایۂ حیات سے ہاتھ دھو بیٹھے، ہم ہمیشہ کے لئے برباد ہو گئے ،ہم ٹوٹ گئے، بکھر گئے، ہمارے معاشرے فساد و بگاڑ سے بھر گئے، ہماری دعائیں غیر مقبول ، ہماری نمازیں بے اثر ، ہماری صفیں ٹیڑھی، یہاں تک کہ اقبال کہہ اٹھا ع</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">صفیں کج ،دل پریشان ، سجدہ بے ذوق</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">کی جذب اندروں باقی نہیں ہے</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">ان حالات سے نکلنے کے لئے کوئی راہ ہے؟ اگر ہے تو ہمیں جلد از جلد اس کی طرف رجو ع کرنا چاہئے۔مندرجہ بالا سید مودودیؒ کی تحریر سے اسی چیز کی طرف رغبت دی جا رہی ہے کہ مسلمان اس چیز پر کھڑا ہو جائے جو اس کے لیے روشنی ہے اور اگر مسلمان روشنی کے بجائے اندھیری راہوں میں رہنا پسند کرتا ہے تو اس کے نتائج عیاں دکھائی دے رہے ہیں ۔ وہ نہ اس دنیا میں خیر وفلاح حاصل کر سکتا ہے اور نہ یہاں سے رخصت ہونے کے بعد آخرت کے دربار میں اس کے لیے کوئی فلاح و کامیابی ہے۔ اسی چیز کی طرف مولانا فاروق خان صاحب ایک جگہ رقمطراز ہیں :</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’سارے ہی مصائب و مسائل اور شدائد کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسانوں نے اپنی عظمت کو فراموش کر دیا ، وہ بھول گئے کہ ان کی قدروقیمت کا اصل راز کیا ہے۔ وہ بھول گئے زندگی کی علامت عطا و بخش ہے، خدمت و رہنمائی ہے، غمگساری اور سوز ہے ، نہ کہ ظلم و ستم ، خود غرضی ، کبر اور سخت گیری۔ ضرورت ہے کہ انسان اپنی عظمت کو پہچانے اوراسے اپنے مقامِ بلند کا علم ہو اور وہ ہر قسم کے تعصبات اور تنگ نظری سے پاک ہو کر سارے عالم کی فلاح و بہبود کے لئے سرگرم عمل ہو، اس کا ذہن آفاقی ہو ، اس کی فکر آفاقی ہو، اس کا دل کشادہ ہو، کہیں سے بھی کسی قسم کی تنگ نظری ، جہل اور پستی اس کے یہاں نہ پائی جائے اور یہ آرزو ، نیک آرزو اسی وقت پوری ہو سکتی ہے جب کہ ہم قرآن حکیم کو سمجھیں اور اس کتاب پر ہمیں سچا ایمان حاصل ہو اور ہم یہ طے کر لیں کہ اس کتاب سے دنیا کو، برادران وطن کو واقف کرانا ہے ،دنیا تک اس کا پیغام پہنچانا ہے، اس لئے کہ دنیا کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے سچی رہنمائی اور ہدایت، اور وہ رہنمائی و ہدایت قرآن ہی سے حاصل ہو سکتی ہے‘‘۔… ’’قرآن سے ہمیں فکری قوت بھی حاصل ہو گی اور اس کے ذریعے سے عملی راہیں بھی واضح ہوتی چلی جائیں گی اور اسی کے ذریعہ سے انسانی قلوب (دلوں )کی تطہیر اور انکا تزکیہ بھی ممکن ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ قرآن کی صحیح طریقے سے اشاعت کی جائے اور مسلمان قرآن کی چلتی پھرتی تصویر بن کر رہیں ۔ قرآن ہی ان کا اخلاق ہو ،قرآن ہی ان کا کردار ہو، قرآن ہی سے وہ قوت حاصل کرتے ہوں ، قرآن ہی ان کا اصل ہتھیار ہو، قرآن ہی ان کے لئے امید کی کرن ہو اور قرآن ہی ان کے لئے کامیابی کا ضامن ہو۔ قرآن پر انہیں پورا یقین حاصل ہو اور صحیح معنیٰ میں پوری مسلم قوم کی یہی ایک رہنما کتاب ہو۔ قرآن ہی وہ روشنی ہے جس سے ساری ظلمتیں کافور ہو جاتی ہیں اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل حل ہو جاتے ہیں ۔‘‘</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">کسی شاعر نے کیا خوب فرمایاہے ع</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">عمل جن کا ہو اس کلامِ متیں پر</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">وہ سر سبز ہوئے روئے زمین پر</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">گویا مسلمانوں کی کامیابی اس کلام متیں پر عمل پیرا ہونے میں ہے، اگر انسان آج بھی ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر کلام الٰہی کو تھام لے تو زمین پر آج انسانی کی بدبختی کو نیک بختی میں تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ کیوں کہ یہ کتاب ’’کتابِ انسان‘‘ ہے، اور اس میں ایک ایک انسان سے انفرادی اور اجتماعی طور خطاب کیا گیا ہے۔</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">لَقَدْ اَنزَلْنَا اِلَیْکُمْک کِتَابًا فیْہِ ذکْرُکُمْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (سورۃ انبیاء)</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی جس میں تمہارا ہی تذکرہ ہے، کیا تم نہیں سمجھتے ہو۔‘‘</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">ایک جلیل القدر تابعی اور عرب سردار احنف بن قیس ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے یہ مذکورہ بالا آیت پڑھی۔</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">وہ چونک پڑے اور کہا کہ ذرا قرآن مجید تو لاؤ۔ اس میں ، میں اپنا تذکرہ تلاش کروں ، اور دیکھوں کہ میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں ، اور کن سے مجھے مشابہت ہے؟</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">انھوں نے قرآن مجید کھولا، کچھ لوگوں کے پاس سے ان کا گزر ہوا، جن کی تعریف یہ کی گئی تھی:</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’رات کے تھوڑے حصے میں سوتے تھے، اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے، اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں ) کا حق ہوتا تھا‘‘۔(الذاریات)</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا:</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’ان کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور اُمید سے پکارتے ہیں ۔ اور جو (مال) ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں ‘‘۔(السجدہ)</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا:</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’اور جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کرکے اور (عجز و ادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں ‘‘۔ (الفرقان )</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">اور کچھ لوگ نظر آئے جن کا تذکرہ اِن الفاظ میں ملا:</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں ، اور غصہ کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں ، اور خدا نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔ (آل عمران)</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">اور کچھ لوگوں کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ:</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’(اور) دوسروں کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں ، خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو، اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہوتے ہیں ‘‘۔(الحشر)</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">اور کچھ لوگوں کی زیارت ہوئی جن کے اخلاق یہ تھے:</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں ، اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں ‘‘۔(الشوریٰ)</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں ، اور اپنے کام آپس کے مشورہ سے کرتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ‘‘۔(الشوریٰ)</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">اتنے مناظر کو پڑھ کر وہ ٹھٹک کر رہ گئے، اور کہا : ’’اے اللہ میں اپنے حال سے واقف ہوں ، میں تو ان لوگوں میں کہیں نظر نہیں آتا۔‘‘</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">پھر انہوں نے ایک دوسرا راستہ لیا، اب ان کو کچھ لوگ نظر آئے، جن کا حال یہ تھا:</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’ان کا یہ حال تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو غرور کرتے تھے، اور کہتے تھے، کہ بھلا ہم ایک دیوانہ شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں ؟‘‘(سورہ صافات)</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">پھر اُن لوگوں کا سامنا ہوا جن کی حالت یہ تھی:</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’اور جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ان کے دل منقبض ہو جاتے ہیں ، اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں ‘‘۔ (الزمر)</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">کچھ اور لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جن سے جب پوچھا گیا:</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم جھوٹ سچ باتیں بنانے والوں کے ساتھ باتیں بنایا کرتے اور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا‘‘۔ (المدثر)</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">یہاں بھی پہنچ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے دم بخود کھڑے رہے۔ پھر کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا: ’’اے اللہ! ان لوگوں سے تیری پناہ! میں ان لوگوں سے بری ہوں ۔‘‘</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">اب وہ قرآن مجید کے اوراق کو ا لٹ رہے تھے، اور اپنا تذکرہ تلاش کر رہے تھے، یہاں تک کہ اس آیت پر جا کر ٹھرے:</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’اور کچھ اور لوگ ہیں جن کو اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار ہے، انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا، قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے، بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔(التوبہ: 102)</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">اس موقع پر ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا، ہاں ہاں ! یہ بیشک میرا حال ہے۔</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">علامہ اقبالؒ جس کی رگ رگ میں قرآن کریم رچا بسا تھا ایک جگہ اپنے اشعار میں فرماتے ہیں ع</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">امت مسلمہ کی موجودہ ابتر حالت کو دیکھ کر اگر دیکھا جائے تو یہی محسوس وہوتا ہے کہ ہم نے صرف اس قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے بلکہ اس کے پیغام امن و سلامتی کو ہم نے بھلا دیا ہے ، جس کی وجہ سے ہم آج ہر جگہ ذلیل وخوار ہو کر رہ گئے ہیں ۔ جب تک نہ آج انسان اس قرآن میں غوطہ زن ہو جائے گا تب تک کسی انقلاب اور کسی تبدیلی کا خواب دیکھنا بھی ایک لاحاصل مشق ہو گی۔ دنیا میں موجود انسان بحیثیت انسان اُس پیغام کے منتظر ہیں جس میں امن وسلامتی کا پیغام ہے لیکن ان تک یہ پیغام پہنچانے والے ہی اس پیغام الٰہی سے کوسوں دور جا بیٹھے ہوئے ہیں ۔ مسلمان غوطہ زنی کرے اور امن وسلامتی کا ماحول قائم نہ ہو جائے یہ ناممکن ہے۔</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">علامہ اقبال کے ہم عصر ایم اسلم اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’ میں نے متعدد بار قرآن مجید کو اقبال ؒ کے مطالعے کے میز پر دیگر کتابوں کے ساتھ پڑا دیکھا۔ ایک مرتبہ میں نے ادب کے ساتھ انھیں اس طر ف متوجہ کیا تو فرمانے لگے : یہ کسی قیمتی اور خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر اور عطر میں بسا کر اونچی جگہ پر رکھنے والی کتاب نہیں بلکہ یہ تو انسان کے ہر وقت کام آنے والی کتاب ہے۔ چونکہ مجھے اکثر اس کی ضرورت پیش آتی ہے اس لیے یہاں پاس ہی رکھی ہے۔‘‘</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">یعنی قرآن تو ایسی کتاب ہے جو ہر وقت کام آنے والی کتاب ہے، غلافوں میں لپیٹ کر صرف برکت کے لئے رکھنے کی کتاب نہیں ۔لیکن آج صورتحال اس کے برعکس ہے، ہم نے قرآن کو طاق نسیاں کی زینت بنا دیا ہے، جب اپنا دنیاوی مفاد ہوتا ہے تو ہم اسے اٹھاتے ہیں ، گرد صاف کرتے ہیں اور چومتے ہیں ، باقی ہمارے کاروبار زندگی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">آخر پر حضور اکرمﷺ کا وہ فرمان جس میں آپﷺ نے حاملینِ قرآن کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">اے اہل قرآن اس قرآن کو پس پشت نہ ڈالو، اور اس کی تلاوت کرو جیسا اس کا حق ہے صبح اور شام، اور اس کو پھیلاو، اور اسے خوبصورت آوازوں سے پڑھو، اور اس میں تدبر کرو تاکہ تم فلاح پاو۔(بیہقی)</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">٭قرآن کو پس پشت نہ ڈالو</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">٭قرآن کی صبح وشام تلاوت کرو</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">٭قرآن کی تعلیمات کو عام کرو یعنی داعی بن کر اس کو پھیلائو</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">٭قرآن کی خوب صورت آوازوں سے تلاوت کرو</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">٭قرآن کو نہ صرف تلاوت بلکہ اس پر غور وفکر اور تدبر کرو۔‘‘</span></b></div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 19.4px; line-height: 40.8px; list-style: none; margin-bottom: 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">یہ وہ پیغام ہے جو ایک مومن ومسلم کے لیے سمجھنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین</span></b></div>
</div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-39577549622991387922016-12-22T03:04:00.002-08:002016-12-22T03:04:25.936-08:00انسانیت کی پکار اندھیرا چھاگیا روشنی کہاں سے لاؤں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h3 dir="rtl" style="text-align: justify;">
<strong style="border: 0px none; box-sizing: border-box; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;">ابراہیم جمال بٹ</strong>’’جو خدا رات کی تاریکی میں سے دن کی روشنی نکال لاتا ہے اور چمکتے ہوئے دن پر رات کی ظلمت طاری کر دیتا ہے، وہی خدا اس پر بھی قادر ہے کہ آج جن کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر ہے ان کے زوال و غروب کا منظر بھی دنیا کو جلدی ہی دکھاوے، اور کفر وجہالت کی جو تاریکی اس وقت حق وصداقت کی فجر کا راستہ روک رہی ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے حکم سے چَھٹ جائے اور وہ دن نکل آئے جس میں راستی اور علم ومعرفت کے نور (فضا)سے دنیا روشن ہوجائے۔‘‘<br />مذکورہ بالا اقتباس جس سے خدا ذو الجلال والاکرام کی بڑائی اور عظمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خدا کی ذات ایسی طاقتور ذات ہے کہ جسے چاہے حکومت وطاقت دے ۔۔۔جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذِلت کا شکار کر دے۔۔۔ کیوں کہ اسی کی قدرت میں خیر کی کنجی ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے ۔<br />اقتباسِ مذکورہ میں تاریخِ انسانیت کا ایک ایسا کھلا باب ہے جسے پڑھ پر ہر ایک شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ جب بھی کبھی کوئی قوم یا گروہ اس عارضی وفانی دنیا میں طاقت بن کر نمودار و غالب ہوا تو اس غلبے کے بعد وہی قوم وگروہ کیسے زوال وغروب کے شکار ہو گیا۔ جو طبقے و اقوام اس دنیائے فانی میں ’’سپر پاور‘‘ جیسے ناموں سے پکارے جاتے تھے انہی قوموں پر زوال وغروب نے ایسے راہ بنائی کہ وہ اقوام ہی نہیں بلکہ عام لوگ بھی دیکھتے ہی رہ گئے۔<br />اس اقتباس سے اُمید کی ایک کرن بھی دکھائی دے رہی ہے۔ اُمید اس بات کی کہ کفروجہالت کی تاریکی سے جو آج اندھیرا چھایا ہوا ہے، جس کی وجہ سے دنیائے انسانیت اندھیرے کا شکار ہو چکی ہے۔ ہر طرف بدامنی اور بداخلاقی کا دور دورہ دکھائی دیتا ہے،انسانیت اگر سنبھل جائے، انسان بحیثیت انسان اگر سمجھ جائے کہ اس کی اس عارضی وفانی زندگی جو جہالت وتاریکی کی نظر کر دی گئی ہے، آئندہ آنے والے دور میں اس کی اس موجودہ غلامی سے نجات حاصل ہو جائے گی۔ اسے علم ومعرفت کے نور سے اس قدر جلا ملے گی کہ وہ بدامنی سے نکل کر امن کی شاہراہ کو پا لے گا، اسے حیوان نما ہوس پرست حکمرانوں کی حکمرانی سے نجات مل جائے گا۔<br />چنانچہ حال ہی میں عالمی تناظر کے حوالے سے ایک ایسی خبر سامنے آئی کہ دنیا اور اس میں رہنے والے لوگ دیکھتے ہی رہ گئے۔ ’’ناپسندیدہ ذات پسندیدہ ذات کے طور پر تسلیم کی گئی‘‘ عالمی ’’پولیس مین‘‘ کا کردار ادا کرنے والے متحدہ امریکہ کا نیا صدر ’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ جس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ امریکی صدارتی انتخابات میں اس کی جیت ناممکن ہے، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ’’ٹرمپ‘‘ قصر ابیض کا مکین ہو گیا۔ دنیا کے مالدار ترین شخص ڈونلڈ ٹرمپ ’’رہاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے‘‘۔ برابر اسی طرح جس طرح بھارت میں 2014ء میں ہوئے انتخابات میں ایک ایسے شخص وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہو گئے جنہیں اس سے قبل ’’دنیا کے دس ظالموں اور قاتلوں‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ جنہوں نے گجرات فسادات میں خون خرابہ کاماحول پیدا کر دیا تھا، جس میں سینکڑوں مسلمانوں کی جانیں تلف ہو گئیں۔ ’’ہندو راشٹر‘‘ کا دم بھرنے والے اس ’’صاحبِ براجمان‘‘ نے آر ایس ایس کے رنگ میں پورے بھارت دیس کو رنگنے کا ایک ایسا پروگرام مرتب کیا ہوا ہے کہ پورا بھارت جو جمہوریت اور سیکولرازم کا دم بھرتا ہے ، کا جنازہ ہی نکلا جا رہا ہے۔ آج اسی صورت حال کا اکثر وبیشتر ممالک پرسامنا ہے۔ یہ بات کسی نے بہت ہی اچھی کہی ہے کہ ’’آج جو دنیا میں طاقتور قومیں کمزوروں کو نگل لیتی ہیں اور جو بڑے اور وسیع و عریض رقبہ رکھنے والے ملک چھوٹے اور محدود وسائل والے ملکوں کو اپنا غلام اور باجگذار بنالیتے ہیں۔ یہ سب وطنیت ۔۔۔قومیت ۔۔۔جمہوریت اور سیکولرازم کے زہریلے ثمرات ہیں اور اسی کے نتیجے میں دنیا کے گوشے گوشے میں خون خرابہ بھی ہے اور جنگیں بھی ہورہی ہیں۔‘‘ چنانچہ جس ذہنیت کے لوگ آج کل لوگوں پر بحیثیت حکمران وغیرہ چنے جا رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ آنے والے ایام کے لیے ایک ایسے ماحول تیار ہو رہا ہے جس میں انسانیت کی بھلائی سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ اس کا عالمی تناظر میں آج مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ ہر جانب انسانیت کا خون بہہ رہا ہے، ہر ملک اور ہر قوم اپنے ہی ہاتھوں یا اپنے ہی لوگوں سے پٹ رہے ہیں۔ ’’جب ہماری ذہنیت اس انداز کی ہو جائے کہ خوب سے خوب تر کے بجائے ہم ناخوب کو ہی پسند کرنے لگیں تو یاد رکھنا چاہیے کہ ’’ناخوب‘‘ سے تباہی آتی ہے نہ کہ بھلائی۔‘‘ اس لحاظ سے اس مجموعی صورت حال کا مشاہدہ کر کے انسانوں کی ان بستیوں میں ذی حس وذی شعور لوگوں کا غور کرنا چاہیے کہ ہم کس جانب جا رہے ہیں۔<br />بہر حال اس مجموعی صورت حال کے بیچ میں ایک ایسا ’’معطرفضا‘‘ بھی تیار ہو رہی ہے جس کے متعلق منفی اظہارِ خیال کر کے عالمی طا قتیں مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں۔ تاریخ کا غائر مطالعہ کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ ایسی فضا ہے جسے غیروں نے نہ کبھی برداشت کیا ہے اور نہ ہی برداشت کیا جائے گا۔ یہ فضا اور اس سے ظاہر ہونے والے ثمرات کا تعلق اس ذاتِ یکتا سے ہے جس کے مقابلے میں عام انسان ہی نہیں بلکہ خاص الخاص بھی کچھ نہیں۔ یہ ماحول اور فضا روئے زمین کے چپے چپے پر عام ہو رہا ہے۔ اگرچہ رفتار ابھی اس قدر نہیں کہ بگاڑ کی اس موجودہ صورت حال کو بناؤ میں تبدیل کیا جائے، تاہم ایسے آثار نمایاں ہو رہے ہیں کہ شاید وہ وقت قریب ہے، جب اس آسمانِ دنیا کے نیچے اس زمین پر وہ فضا کا ماحول چھا جائے جس کے عموماً لوگ متمنی ہیں۔<br />یہ بات ذہین نشین رہے کہ آج عام انسانیت بدامنی کے اس بھنور سے نکلنا چاہتی ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہے کہ دنیا جہنم میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ایک عام انسان کو اپنے ضمیر کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اسے ایک ایسا نظام ملنا چاہے جس میں ہر ایک انسان کے لیے امن ہو۔ ’’دنیا کا ہر انسان آزادی اور امن کا متمنی ہوتا ہے۔ اس لئے کہ یہ انسان کی فطرت کی آواز ہے اور فطرت کی آواز کو زور زبردستی سے دبایا اور مٹایا نہیں جاسکتا ہے۔‘‘<br />جب بار بار عام انسانیت کو پست اخلاقیت سے سابقہ پیش آتا ہے اور پست اخلاق سے متصف لوگ محض اپنی جہالت اور خود غرضی وتنگ نظری کی بنا پر انسانیت کی خیر خواہانہ مساعی کو روکنے کے لیے گھٹیا درجہ کی چال بازیوں سے کام لیتے ہیں تو فطرتاً اس کا دل ہی دُکھتا ہے۔ اس لحاظ سے آج دنیا میں بسنے والے عام انسان جب انسانیت کی دھجیاں اڑتے دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ ہر طرف خون خرابہ اور ظلم وستم کا بازار کا نظارہ کر رہے ہیں۔۔۔ عادل وانصاف پسند حکمرانوں کے بجائے ’’ناپسندیدہ اور ظالم وقاتل حکمران‘‘ اپنی چودھراہٹ قائم کئے جا رہے ہیں تو انسانیت بحیثیت انسان جس میں ضمیر نام کی ایک چیز بھی ہوتی ہے کراہ کراہ کر آواز دے رہی ہے کہ کاش وہ فضا اور ماحول قائم ہو جائے جس میں عام انسانیت کے لیے امن وانصاف ہو۔ آج بظاہر پوری دنیا میں بسنے والے مخالف اور ظالم نظر آرہے ہیں لیکن حقیقت اس سے بعید ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک عام انسان انسانیت اور عدل وانصاف کا متمنی ہے۔ اسے اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ ہمارے ہاتھوں جو فی الوقت ہو رہا ہے وہ صحیح نہیں ہو رہاہے، اسے ظالم اور ظلم کے مقابلے میں عادل وعدل کا انتظار ہے۔ اسے انصاف کے علم برداروں کی تلاش ہے۔ اسے ایسی فضا اور ماحول کی تلاش ہے جس میں اس کے لیے امن اور آشتی ہو۔<br />یہی وہ فضا ہے جس کی کرنیں آہستہ آہستہ نمودار ہو رہی ہیں، مختلف ممالک میں کام کرنے والے ایسے پاکباز لوگ جو اس فضا کے نہ صرف متمنی ہیں بلکہ اس کے قیام کے لیے قربانیاں بھی دے رہے ہیں، ان کے مکمل کام کا اندازہ کرنا آج پوری طرح سے اگرچہ ناممکن ہے لیکن ایک سرسری جائزے کے طور پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ کام میں وسعت ،گہرائی اور اثرات ہے لیکن ابھی پوری طرح سے ظاہر نہیں ہو پا رہے ہیں، اور جہاں کہیں اس فضا کے نمودار ہونے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں تو مخالف جانب سے اس کی روکتھام کے لیے انتھک کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن کامیابی بہرحال اسی کی نصیب ہوتی ہے جس کے پاس ’’بناؤ‘‘ ہو نہ کہ’’ بگاڑ‘‘۔<br />یہ ’’فضا جس کی کرنیں نمودار ہو رہی ہیں‘‘ اسلام کا نظامِ عدل کے سوا کچھ اور نہیں۔ آج اگر کوئی قوم اور مذہب اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ ہمارے پاس انسانیت کے لیے فلاح وکامرانی، امن اور انصاف پر مبنی ہے تو انہیں اپنے اُن نظاموں کو اپنے اپنے ملک میں قائم کر کے عام انسانیت کے سامنے رکھنے کا موقع دیا جانا چاہیے ، تاکہ دنیا دیکھے کہ حقیقی انسانیت کسے کہتے ہیں۔۔۔ حقیقی امن کیا ہے۔۔۔ انصاف اور عدل کس عظیم شئی کو کہتے ہیں۔ مگر بہرحال ان تمام مذاہب سے وابستہ لوگوں کو موقع دینے کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی یہ موقعہ فراہم کیا جانا چاہیے ۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام ایک ایسا نظام عدل وانصاف ہے جس میں ہر ایک کے لیے عدل ہے، ہر ایک کے لیے انصاف ہے، ہر ایک کے اپنے اپنے حقوق ہیں،بلکہ یہ ایسا دعویٰ ہے جس کا ثبوت تاریخ کے سنہرے اوراق میں موجود ہے، کس طرح سے پورے عالم کے لیے یہ دین امن وآشتی ہے ،اس کا نظارہ دنیا دیکھ چکی ہے۔<br />تاریخ کے اوراق سنہرے الفاظ سے بھرے پڑے ہیں کہ کس طرح اسلام عالم انسانیت کا دین ہے۔۔۔ عالم انسانیت کی بھلائی کا خواہاں ہے۔۔۔ کس طرح اسلام نے امن اور انسانیت کو فروغ دیا۔ یہ نظام نہ صرف اس کے ماننے والوں کے لیے نظامِ عدل قرار پایا بلکہ پوری بنی نوع انسانیت کے لیے اس میں عدل وانصاف ہے۔<br />بہرحال انسانیت انتظار میں ہے لیکن ان کے اِس انتظار کا جواب اگر اسلام کے پاس ہے تو پورے عالم میں بسنے اور رہنے والے مسلمانوں کو اپنا وہ بنیادی فریضہ ادا کرنا چاہیے تاکہ امن اور انسانیت سے مذین نظام کا لوگ خود مشاہدہ کریں ۔ لیکن وائے افسوس۔۔۔ بقول ایک عالم دین کے کہ:<br />’’عصر حاضر میں پورے انسانی معاشرے میں جو ہمہ جہتی بگاڑ اور فساد پیدا ہو گیا ہے، اس کی بنیادی وجہ اُمت مسلمہ کا اپنے فرائض منصبی سے شعوری اور غیر شعوری غفلت اور لاپرواہی ہے۔ اس امت کے بگاڑ اور فساد نے پوری انسانی برادری کو فساد اور بگاڑ کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔‘‘</h3>
<div dir="rtl" style="background-color: white; border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, arial; font-size: 13px; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;">
</div>
<div dir="rtl" style="background-color: white; border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, arial; font-size: 13px; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;">
</div>
<div dir="rtl" style="background-color: white; border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, arial; font-size: 13px; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;">
</div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-10973876995873952682016-12-22T03:00:00.000-08:002016-12-22T03:00:08.724-08:00انسانی حقوق کا عالمی دن انسانیت کے نام پرخون ناحق کا بہاؤ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h3 style="border: 0px none; box-sizing: border-box; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;">
<div style="text-align: justify;">
<a href="http://mazameen.com/oped/%d8%a7%d9%85%d8%b1%db%8c%da%a9%db%81-%da%a9%db%92-%db%81%d9%88%d8%aa%db%92-%db%81%d9%88%d8%a6%db%92-%d8%b4%d8%a7%d9%85-%da%a9%d8%a7-%d8%ad%d9%84%d8%a8-%d8%a8%d8%a7%d8%ba%db%8c%d9%88%da%ba.html" style="background: rgb(0, 0, 0); border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #444444; display: inline !important; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; font-size: 0px; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px; text-decoration: none; transition: all 0.2s ease-in-out;"><b><img alt="images-1" class="attachment-tie-medium size-tie-medium wp-post-image tie-appear" data-lazy-loaded="true" height="165" src="https://i2.wp.com/mazameen.com/wp-content/uploads/2016/12/images-1-1.jpg?resize=259%2C165" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; display: inline; height: auto; list-style: none; margin: 0px; max-width: 100%; outline: none; padding: 0px; transition: all 0.4s; vertical-align: middle; width: 686.688px;" width="259" /></b></a></div>
</h3>
<h1 class="name post-title entry-title" itemprop="itemReviewed" itemscope="" itemtype="http://schema.org/Thing" style="background-color: white; border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Nafees Web Naskh", BebasNeueRegular, arial, Georgia, serif; font-size: 28px; font-weight: normal; list-style: none; margin: 0px 0px 10px; outline: none; padding: 0px;">
<span itemprop="name" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #d70808; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, serif !important; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;">انسانی حقوق کا عالمی دن انسانیت کے نام پرخون ناحق کا بہاؤ</span></h1>
<h3 style="border: 0px none; box-sizing: border-box; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;">
<strong style="border: 0px none; box-sizing: border-box; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;"><div style="text-align: justify;">
<strong style="border: 0px none; box-sizing: border-box; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;"><div class="post-meta" style="background-color: white; border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #888888; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, arial; font-size: 11.05px; font-weight: normal; list-style: none; margin-bottom: 7px; margin-top: 7px; outline: none; padding: 0px; text-align: left;">
</div>
<span style="background-color: white; border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, arial; font-size: 13px; font-weight: normal; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px; text-align: left;"><br style="border: 0px none; box-sizing: border-box; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;" /><strong style="background-color: transparent; border: 0px none; box-sizing: border-box; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;"><div style="display: inline !important; text-align: justify;">
<strong style="border: 0px none; box-sizing: border-box; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;">ابراہیم جمال بٹ</strong></div>
</strong></span></strong></div>
<div style="text-align: justify;">
<strong style="border: 0px none; box-sizing: border-box; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;"><br /></strong></div>
</strong><b><div style="text-align: justify;">
<b>ہر سال کی طرح امسال بھی 10 دسمبر کو ’’حقوق انسانی کے تحفظ کا عالمی دن‘‘ منایا جاتاہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے اس عالمی دن کے موقع پر دنیا بھرمیں مختلف قسم کی تقاریب اور کانفرنسوں وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے، جن میں انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے اپنے خیالات پیش کئے جاتے ہیں۔ اس بات پر تبصرہ کیا جاتا ہے کہ فی الوقت پوری دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے کیا کچھ ہو رہا ہے، کیا ہو چکا ہے اور آئندہ اس حوالے سے کہاں پر کیا کچھ ہونے کا احتمال ہے۔ اس ساری صورت حال پر اس عالمی دن کے موقع پر محاسبہ کیا جاتا ہے۔</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b>جہاں تک حقوق انسانی کے تحفظ کا سوال ہے تو بحیثیت ایک انسان کے یہ حق بنتا ہے کہ دنیا میں اسے تحفظ فراہم ہو سکے۔ انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اسے ہر حیثیت اور ہر مقام پر تحفظ فراہم ہو سکے۔ انسان اس دنیا میں آزاد پیدا ہوا ہے اس لئے انسان کو جب تک ہر حیثیت سے آزادی نصیب نہیں ہوتی تب تک اس کی زندگی کا کوئی صحیح مطلب نہیں ہے۔ انسان اپنی مرضی کا آپ مالک ہے لہٰذا وہ کیا چاہتا ہے، اس لحاظ سے انسان کو کہنے، سننے کا پورا پورا حق ملنا چاہیے، جب تک یہ سب کچھ انسان کو میسر نہ ہوں تب تک انسان فطری طور پر ایک چوپایہ سے کم نہیں۔ جانور چاہے جس قدر بھی فائدہ مند ہو لیکن بہر حال جانو ر ہی رہتا ہے۔ اس کا منافع بخش ہونا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ اسے جانوروں کی فہرست سے نکال کر کسی اور مخلوق میں شمار کیا جائے۔ برابر اسی طرح ایک عام انسان کو اگر اپنے فطری حقوق سے محروم کر کے رکھ دیا جائے تو اگرچہ وہ بحیثیت انسان، انسان ہی رہے گا لیکن اس کے ذریعے سے وہ کچھ بھی حاصل نہیں ہو پائے گا جو اس کی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ اس اصل مقصد کے لئے انسان کی آزادی ضروری ہے تاکہ وہ انسانی فطرت کے لحاظ سے فیصلہ کرے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ انسان بلا روک ٹوک اور خوف کے یہ فیصلہ کر سکے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ انسان فطرتاً آزاد پیدا کیا گیا ہے اور فطرت کے ساتھ جنگ چھیڑ کر اس کی آزادی کو سلب کرنا انسانیت پر حملہ کرنے کے برابر ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو انسانی حقوق کا تحفظ تب تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک اس دنیا میں انسان شخصی ، فکری اور قومی غلامی سے آزاد نہ ہو۔ ہر انسان غلامی سے پاک ہو کرانسانیت کے تحفظ کا مقام حاصل کر سکتا ہے، کیوں کہ انسان کو پیدا کرنے والے خدائے ذوالجلال نے بھی اس پر زور زبردستی سے کوئی بات منوانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اسے آزاد رکھ کر اوراس پر واضح کر کے اس کے سامنے دو راستے رکھے، اب اس کی مرضی کہ کس کو پسند کرے اور کس کو ناپسند؟ صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنا اب ا س کے ہاتھ میں رکھا گیا ہے۔ اس لحاظ سے ہر حیثیت سے انسان آزاد ہونا چاہیے تاکہ وہ آزادی کے ماحول میں اپنی زندگی کا فیصلہ کر سکے۔ انسانیت کا تحفظ انسان کی ہی آزادی میں مخفی ہے۔ جب تک انسان کو انسان بن کر رہنے نہ دیا جائے تب تک نہ تو کسی کو تحفظ فراہم ہو سکے گا اور نہ ہی یہ دنیا صحیح معنوں میں ترقی کر سکتا ہے۔</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b>پوری دنیا میں 10 دسمبر کے دن اگرچہ انسانی حقوق کے تحفظ کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کا انسان کئی حیثیتوں سے غلام ہو کر انسانیت کے نام سے دور جا چکا ہے، جس کا خمیازہ پوری دنیا اٹھا رہی ہے۔ دنیا کا وہ کون سا حصہ ہے جہاں امن ہے۔۔۔؟ چہار جانب بدامنی، ظلم و فساد، جنگ و جدل، قتل و غارت گری، لوٹ مار، اغوا کاری، بے راہ روی اور ایک دوسرے کا حق مارنا جیسے قبیح حرکات میں انسان محو ہے۔ گویا انسان انسان نہیں ،مثل چوپایہ بن چکا ہے کہ اسے یہ خیال نہیں رہتا کہ وہ کب کیا کر رہا ہے۔ آج انسان کسی دوسری مخلوق کا نہیں بلکہ انسان کا ہی دشمن بن چکا ہے۔ ایک دوسرے کو مارنا ، ایک دوسرے کی آزادی چھین کر اسے غلام بنانا، ایک دوسرے کے حقوق پر حملہ کر کے خود خوش رہنے کی کوشش کرنا، یہ سب کچھ آج یہی انسان کر رہا ہے۔ شخصی غلامی سے لے کر قومی اور فکری غلامی میں انسان کو مبتلا کیا جا چکا ہے، جس کا نتیجہ پوری دنیا میں واضح ہے۔ کسی انسان یا قوم پر کوئی چیزجبراً ٹھونسنا ا انسانیت کا تحفظ نہیں بلکہ صریح طور پر انسانیت کی تذلیل ہے۔ انسانیت کا تحفظ انسان کی خوش حالی میں مضمر ہے اور انسانیت کا تحفظ اس کے حقوق سلب کرنے میں نہیں بلکہ حقوق دینے میں ہے۔ انسان کے بے شمار حقوق میں سے اس کی شخصی، فکری اور قومی آزادی ہے۔ جب تک یہ میسر ہے تب تک انسانیت موجود ہے اور جب اس آزادی پر حملہ کیا جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں انسان سے یہ سب کچھ چھین کر انسانیت کی تذلیل کر کے جینا لاحاصل عمل ہے۔ اس حوالے سے اگر آج کی دنیا پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو صاف واضح ہوتا ہے کہ آج انسان سے اس کے فطری حقوق چھین کر پوری دنیا میں اندھیرا چھا چکا ہے۔ آج انسان کو بے شمار غلامیوں میں مبتلا کیا جا چکا ہے۔ شخصی غلامی، فکری غلامی، قومی غلامی ، اونچ نیچ کی غلامی، زبان، رنگ و نسل کے تفاخر کی غلامی ، ان ساری قبیح غلامیوں میں انسان کو مبتلا کر کے رکھ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ بارود کا ڈھیر کب پھٹ جائے کچھ خبر نہیں، اپنی اپنی فکر میں سب مشغول ہیں۔ وادی کشمیر میں جاریہ ایجی ٹیشن کے دوران وادی میں سینکڑوں افراد جسمانی طور معذور ہوچکے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ انسانی حقوق کے دن کے موقعے پر پر ان کی کوئی داد رسی کا کوئی امکان نہیں۔پہلے یہاں سمیناروں اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا تھا اور ایسی روایت ہر ملک میں ہے لیکن یہاں وادی میں اب ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا حالانکہ آج کل یہاں اس کی اہمیت کچھ زیادہ ہی تھی۔وادی میں جاریہ ایجی ٹیشن کے دوران فورسز کی کارروائی میں قریباً 100افراد کی جانیں چلی گئیں، 120کے قریب افراد جسمانی طور پر معذور ہوگئے ہیں جس میں سے آنکھوں پر پیلٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے تاہم ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔معالجین کا کہنا ہے کہ جسمانی طور پر ناخیز افراد کو مختلف زمروں میں شامل کیا جاتا ہے اور اس کیلئے مختلف پیمانے مرتب کئے گئے ہیں۔8جولائی کو حزب کمانڈرر برہان وانی کے جان بحق ہونے کے ساتھ ہی وادی میں شروع ہوئی احتجاجی لہر اور سیکورٹی کی مختلف ایجنسیوں کی کارروائیوں میں16ہزار کے قریب لوگ زخمی ہوئے جن میں مجموعی طور پر1600کے قریب لوگوں کی آنکھوں میں پیلٹ لگے۔اعدادو شمار کے مطابقپانچماہ تک کے عرصے میں زخمی ہونے والوں میں سے120کے قریب لوگ جسمانی طور پر نا خیز ہوئے جن میں پیلٹ لگنے کی وجہ سے آنکھوں کے نور سے محروم ہونے والوں اور آنکھوں کے نقائص سے جھوجھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔صحت کی عالمی سطح پر نگہداشت کرنے والے بین الاقوامی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنایشن کی جسمانی طور پر ناخیزی کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے ’’ معذوری، جسمانی نقائص کے بنیادوں پرسرگرمیوں کی شرکت میں پابندی و حد بندی کی مشترکہ اصطلاح ہے‘‘۔محکمہ صحت اور طبی تعلیم کے علاوہ میڈیکل کالج سرینگر کے زیر اثر چلنے والے اسپتالوں کے پاس اگر چہ اس بارے میں مکمل تفصیلات معلوم نہیں ہیں کہ کتنے لوگ جسمانی طو ر پر ناخیز ہوئے تاہم جو اعداوشمار ان کے پاس موجود ہیں اس سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ قریب120لوگ جسمانی طور پر نا خیز ہوئے ہیں اور اس میں ممکنہ طور پر اضافہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ قبل از وقت نہ ہی کسی کو جسمانی طور پر ناخیز قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو مستثنیٰ رکھا جاسکتا ہے۔ میڈیکل کالج سرینگر کے پرنسپل ڈاکٹر نے کہا کہ ابھی تک اگر چہ جسمانی طور پر ناخیز افراد کے بارے میں صحیح معلومات جمع نہیں ہوئی اور نہ ہی دستیاب ہے،تاہم کچھ عرصے کے بعد ہی کچھ کہا جاسکتا ہے۔ڈاکٹرصاحب نے کہا’’ زخمیوں اور مریضوں کے مرض کی نوعیت کی تشخیص کرنے سے ہی اصل صورتحال سامنے آتی ہے اور کچھ کہا جا سکتا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ بیشتر زخمیوں کی مرض کی نوعیت کی تشخیص ابھی جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جسمانی طور پر ناخیز افراد کو قرار دینے کیلئے پہلے ہی قواعد طے کئے گئے ہیں اور اس سلسلے میں میڈیکل بورڑ بھی تشکیل دئے جاچکے ہیں جو طے کرتے ہیں کہ کون شخص جسمانی طور پر ناخیز ہے۔انہوں نے کہا کہ جسم کے الگ الگ حصوں کیلئے علیحدہ علیحدہ طریقہ کار طے کیا گیا ہے۔معروف معالج ڈاکٹر نٹراجن نے اس سلسلے میں پہلے ہی کہا تھا کہ پیلٹ سے زخمی ہونے والے افراد کی زخموں کی اصل نوعیت اور اس میں پیش رفت کا6ماہ کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے۔اس دوران آنکھوں پر پیلٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ بیشتر معالجین کا کہنا ہے کہ چونکہ ابھی بیشتر زخمیوں کا علاج و معالجہ جاری ہے اور ڈاکٹروں نے بھی اپنی کاوشیں جاری رکھی ہیں اس لئے قبل از وقت جسمانی طور پر ناخیز افراد کی صحیح تعداد بتانا مشکل ہے۔ یہ سب کچھ وادی کشمیرمیں نہیں بلکہ دنیا کے چپے چپے پر ہو رہا ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ فلسطین کا خون ناحق اسرائیل بہا رہا ہے، پاکستان میں ایک دوسرے سے لڑا کر خون بہایا جا رہا ہے، عراق اور افغانستان میں عالمی دہشت گرد ’’امریکہ بہادر‘‘ خون مسلم بہا رہا ہے، مصر میں وہاں کی کٹھہ پتلی فوجی آمریت وہاں کے جمہوری طور سے برسراقتدار آنے والی حکومت کا تختہ پلٹ کر انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔ اسی طرح شام کی صورت حال ہے۔ اس سب کے ہوتے ہوئے تحفظ حقوق انسانی کی باتیں کرنا سب فضول نظر آتا ہے۔ اس ایک دن پر کانفرنسیں، جلسے جلوس، ریلیاں، مظاہرے، قرار دادیں اور اس طرح کے بے شمار طریقے اختیار کیے جاتے ہیں لیکن سب کچھ خانہ پوری محسوس ہوتی ہے۔ بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن عملاً ٹائیں ٹائیں فش ، حقوق انسانی کے تحفظ پر خطابات ہوتے ہیں لیکن مقررین خود اصل معنی میں حقوق انسانی کے معنی سے نابلد نظر آتے ہیں۔ جس کی مثال پوری دنیا میں دیکھی جا سکتی ہے۔ فلسطین میں لاکھوں لوگوں کو قبروں میں پہنچا دیا گیا مگر آج تک یہ نہیں دیکھا گیا کہ اتنی بڑی تعداد میں فلسطینی کیوں مارے گئے؟ حقوق انسانی کا تحفظ کا جذبہ کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ اسی طرح مصر، فلسطین ،پاکستان، کشمیر، افغانستان، عراق، شام ، لبنان، چیچنیا، داغستان وغیرہ ممالک میں جو خون مسلم بہایا جا رہا ہے کسی حقوق انسانی کے نام نہاد علم بردار کے کان میں اصل معنی میں آج تک جوں تک نہیں رینگی، اپنی اپنی جگہ سب خاموش تماشائی بن کر صرف بیان بازی تک محدود نظر آتے ہیں۔ تحفظات کا راگ الاپ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دوسروں کو دھوکہ دینا نہیں بلکہ اپنی دنیا آپ برباد کرنے کے برابر ہے، جیسی کرنی ویسی برنی والا معاملہ ہے۔ آج ہم دوسروں کو غلامی میں جکڑنے کے خواب میں خود ہی مشکلات و مصائب کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں پوری دنیا میں امن قائم ہو جائے تو کیسے۔۔۔؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر کوئی بآسانی جان سکتا ہے لیکن معلوم نہیں کیوں جان بوجھ کر انسان انسانیت سے دور بھٹکتا جا رہا ہے؟ کیوں اس کا ذہن روز بروز تعمیر کے بدلے تخریب کاری پر ہی اترتا جا رہا ہے؟دراصل اس سب کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔ برسر اقتدار حکمرانوں نے وقت وقت پر قوموں کے قوم تباہی کے دہانے پر پہنچا دئے، صرف اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لیے، اپنی چودھراہٹ کے نشے میں چور، ان حکمرانوں کی وجہ سے دنیا جہنم میں تبدیل ہو چکی ہے اور جہنم خوشبو کا نام نہیں بلکہ اس کے برعکس بدبو اور درد ناک بارود کا نام ہے،جس کا کام جلانا اور تباہ و برباد کرنا ہے۔ لوگوں کے حقوق سلب کر کے وہ کچھ پانے کا خواب دیکھنا جس کی انسانی فطرت منکر ہے، سب لاحاصل عمل ہے اور اس لا حاصل سعی و کوشش میں اپنا قیمتی وقت صرف کرنا اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی سے وار کرنے کے برابر ہے۔ آج کے حکمران جو بار بار اپنی تقریروں اور بیانات میں حقوق انسانی کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کرتے نظر آتے ہیں، اپنے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے لیے دنیا کو جہنم میں تبدیل کر رہے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چور یہ طاقتیں صرف آج دیکھتے ہیں لیکن کل کیا کچھ ہو سکتا ہے اس پر انہیں نظر ڈالنے کی صحیح معنوں میں فرصت ہی نہیں ملتی۔ اس طبقے کی وجہ سے جو پوری دنیا تباہی وبربادی کی طرف دھکیل دی گئی ہے اس کی روک تھام کرناضروری ہے۔ اس کی لگام کو پکڑنا پوری دنیا کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ عنقریب یہ دنیا نہ تو عوام الناس کے لیے رہے گی اور نہ ہی اس حکمران طبقے کے لیے۔رہنے کے لئے یہ عمدہ جگہ (دنیا) کوبارود کے ڈھیر پر کھڑا کر دیا گیا ہے ، اب یہ ہماری سوچ ہے کہ ہم دیکھتے رہیں کہ کس طرح بارود کے ڈھیر پر رکھا ہوا یہ دنیا راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو کر پوری دنیا کا خاتمہ کرے۔ بہرحال جو کرنا ہے عوام کو کرنا ہے۔ ’’مَن جَدَّ فَوَجَدَ‘‘ (جس نے سعی وکوشش کی اس نے پایا) انسان کی سعی و کوشش اور خدائے ذوالجلال کی مدر ونصرت، یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کی ضرورت اور اہمیت سے واقف ہونا لازمی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ ان دونوں چیزوں کا انسان کی زندگی میں ایک اہم رول ہے، انسان کی کوشش اورخدا کی نصرت ومدد انسان کے لیے کافی ہے۔</b></div>
</b></h3>
<div class="entry" style="background-color: white; border: 0px none; box-sizing: border-box; font-family: "Noto Nastaliq Urdu Draft", "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", Tahoma, arial; font-size: 13px; line-height: 22px; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px; word-wrap: break-word;">
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;">
</div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;">
</div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;">
</div>
<div dir="rtl" style="border: 0px none; box-sizing: border-box; list-style: none; margin: 0px; outline: none; padding: 0px;">
</div>
</div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-64684387401108142482016-05-13T03:36:00.000-07:002016-05-13T03:37:24.911-07:00مضطرب فرد منتشرسماج خودفراموشی کی اندھی دوڑ ہے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<table bgcolor="#FFFFFF" border="0" cellpadding="3" cellspacing="1" style="text-align: justify; width: 100%px;"><tbody>
<tr><td style="text-align: right;" valign="top" width="50%"><b class="newshead" style="font-family: Nastaleeq, 'Pak Nastaleeq', Helvetica, Geneva, Arial, SunSans-Regular, sans-serif; font-size: 24px;"><span style="color: blue;"><b class="Byline" style="font-size: 16px;">ابراہیم جمال بٹ</b></span></b><br />
<div style="text-align: justify;">
<b class="newshead" style="font-family: Nastaleeq, 'Pak Nastaleeq', Helvetica, Geneva, Arial, SunSans-Regular, sans-serif; font-size: 24px;"><span class="text" style="color: blue; font-size: 18px; font-weight: normal; text-align: right;"></span></b><br />
<div style="text-align: justify;">
<b class="newshead" style="font-family: Nastaleeq, 'Pak Nastaleeq', Helvetica, Geneva, Arial, SunSans-Regular, sans-serif; font-size: 24px;"><span class="text" style="color: blue; font-size: 18px; font-weight: normal; text-align: right;">مکان جل رہا تھا اور نہ صرف عام لوگ بلکہ وہ افرادِ خانہ بھی جنہوں نے اس گھر کی تعمیر کی تھی، اس کو ہر حیثیت سے مزین کیا تھا ، اس کے مالکانہ حقوق ان کے نام تھے،بھی اس آگ کا دور سے تماشا دیکھ رہے تھے…! کیا کبھی آپ نے ایسی حالت دیکھی یا سنی ہے…؟ اگر دیکھی ہے تو آپ کو ضرور عجیب سا لگ گیا ہو گا لیکن ایسی حالت سے آپ کو سامنا نہیں کرنا پڑا تو میری یہ بات ذرا غور سے سنئے کہ ایسا ہونا آج کی دنیا میں کوئی عجیب واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے واقعات اب آئے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ یہ نہ صرف وادیٔ کشمیر میں بسنے والے لوگوں کی حالت ِزار کی تصویر ہے بلکہ یہ اور اس جیسے واقعات عمومی طور پر ہرزوال آمادہ ملک اور ہرروبہ تنزل قوم میں عیان وبیاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہاں ،ا س کو دیکھنے اور تاڑنے کے لئے چشم بصیرت اور دیدہ ٔ بینا چاہیے ۔ اس غلط روش کی وجوہات کیا ہیں؟ بالفاظ دیگر ایسا کیوں ہو رہا ہے…؟ ان سوالات کا جواب ذی حس اور باہوش لوگ تلاش کریں تو کیا کچھ معلوم نہیں ہو سکتا۔ پوری دنیا کی بات کریں تو ایک لمبی بحث چھڑے گی اور ہمیںبہت ساری مثالوں میں غرق ہو نا پڑے گا ۔ اب طوالت کو اختصار کی قنچی سے کا ٹ کاٹ کے اگر برصغیر کی ہی بات پر محدودرہیں تو اس کے لیے بھی ورق ہا ورق کم پڑیں گے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ اول خویش بعد درویش کے مصداق ہم اپنی سرزمین یعنی وطن ِ عزیز کشمیر کی بات کریں تو کسی حد تک ان سوالات کا جواب معلوم کر نے کے لئے سوچ بچار کے سمندر میں فکر کا سفینہ ڈال کر حالات کی لہروںسے اخذ کر سکتے ہیں کہ ایسا کیوں اور کس لیے ہو رہا ہے…؟ ممکنہ طورایسے سوالات کا تشفی بخش جواب مل سکتا ہے، باایں ہمہ تڑپ یہ ہونی چاہیے کہ انسانیت کی بابت دردِ دل ہمارے وجود کے بحر میں موجزن رہے تب ہی ہم ان جوابات یہ سب مستفید ہو نے کی امید کرسکتے ہیں۔ </span></b></div>
<b class="newshead" style="font-family: Nastaleeq, 'Pak Nastaleeq', Helvetica, Geneva, Arial, SunSans-Regular, sans-serif; font-size: 24px;"><span style="color: blue;"><span class="text" style="font-size: 18px; font-weight: normal; text-align: right;">
<div style="text-align: justify;">
ا نفراد ی حالت: </div>
<div style="text-align: justify;">
اپنے گھر کا معاملہ ہی دیکھیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے ہر فرد میں بس ایک چیز رچی بسی ہے کہ کس طرح مال وجائیداد میں اضافہ ہو، کس طرح نوکری ، گاڑی اور دیگر سامان تعیش میسر ہوں… تاہم اس کے لیے ہر سطح کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن گھر کا نظام بگڑ رہا ہے… گھر جل رہا ہے… گھر کے ہر فرد میں خدا فراموشی کے جرثومے جنم لے ر ہے ہیں، ماں باپ ہی نہیں، بھائی بہن بھی گھر سے بے گھر ہو رہے ہیں۔ بیٹا بیٹی کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کی ملکہ ’’بیوی‘‘ بھی گھر سے بغاوت کر کے گھر میں فساد کی موجب بن رہی ہے، ہر طرف مادی دوڑ دھوپ ، جذبۂ مسابقت اوراخلاق باختگی کی آگ ہی آگ ہے جو ہمارے گھروں میں لگ چکی ہے… یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق گھر کا ذمہ دار یا خانہ دا ریہ سب کچھ دیکھ کر بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے بلکہ دور کا تماشائی بنا اس سب کا نظارہ کھلی آنکھ سے کر رہا ہے۔ گویا گھر کا ذمہ دار اپنی بربادی پہ بے فکری کی نیند سو رہا ہے اور لا اُبالی پن سے بغیر کسی ند امت وپشیمانی کے اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ رہی ہماری انفرادی حالت کی ایک خفیف جھلک ۔</div>
<div style="text-align: justify;">
اجتماعی حالت: </div>
<div style="text-align: justify;">
گھر کے بعد اپنے علاقے، اپنے محلے، اپنے گائوں، اپنی ریاست اور اپنے آس پاس کے انبوہ ِ انسانی پر نظر دوڑاتے ہیںتو اسی فساد و بے نیازی کی بو ہر مقام پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ گھر میں فساد، علاقہ میں فساد، دفتروں میں لوٹ مار، قریہ قریہ خون خرابہ، دکانوں، کارخانوں، سرکاری وغیر سرکاری اداروں حتیٰ کہ ایسے اداروں جہاں انسان کے اخلاق کی تعمیر ہوا کرتی تھی، جہاں آدمیت کی نشوونما ہوا کرتی تھی، جہاں انسان بطور انسان بن کر جینے اور رہنے کے قواعد سیکھتا ، وہاں بھی صدارتوں ،امارتوں اور مال پر ہاتھ مارنے کے فتنے فساد پنپ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اورانسانیت کی معماری کے دعوے دار بس تماشا بین بنے ہوئے ہیںاور کہیں بحالت مجبوری کہیں بر ضا و رغبت سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر رہے ہیں، حال یہ ہے کہ ان کے چہرے مہرے کے تاثرات سے ایسے لگ رہا ہے جیسے کچھ غلط ہوہی نہیں رہا ہے۔ </div>
<div style="text-align: justify;">
آخر ایسا کیوں…؟</div>
<div style="text-align: justify;">
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کیا جا سکتا ہے اور کیا بھی جانا چاہیے، مگر تب ہی ممکن ہے جب ہم اس ہمہ گیرآگ کو بجھا سکتے ہوں یا اس کی تڑپ رکھتے ہوں۔ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ آگ کی فطرت جلانا ہے تب تک اس سے کوئی خوف اور غم لاحق نہیں سکتا، بچہ ِاس آگ سے ناواقف ہوتا ہے، اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ آگ ہر چیز کو جلا دیتی ہے، اس کا کام ہی ہر شئے کو خاک میں ملا دینا ہے۔جب یہی حالت ایک ذمہ دارشخص اور قوم کی بھی ہو جائے، تو برابر اسی صورت حال کا سامنا ہونا لگ بھگ طے ہے۔اس شخص کے اندرون میں ہی نہیں بلکہ بیرون میں بھی اسی آگ کے شعلے بھڑک اٹھیں گے۔ ہاں اگر پہلے سے معلوم ہو جائے کہ آگ کا کام جلانا ہے، آگ کا کام خاک میں ملانا ہے، آگ کا کام بادشاہی سے فقیری میں تبدیل کرنا ہے، آگ کا کام ہر بنائی ہوئی چیز کو نیست ونابود کرنا ہے، تو ہم انتھک کوشش کریں گے کہ اس آگ سے کہیں سابقہ ہی نہ پڑے۔ اس آگ کے نمودار ہونے کے بعد پھر ہم کاہے کو تماشا بین بنیں گے ؟۔ اس لئے بہتر بلکہ ا فضل ترین یہی ہے کہ اس سوال کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے کہ آگ کیوں لگی، بحث ومباحثے کے لئے نہیں ، تقریر بازی کے لئے نہیں ، چندہ پیٹیاں بھر نے کے لئے نہیں ، انجمن سازی کے لئے نہیں، اکیڈمک ڈسکورس کی کتابیں اور رپورٹوں سے لا ئبرئریون میں سجانے کے لئے نہیں بلکہ ایک جذبہ ٔ دل اور ایثار کے چھڑکاؤ سے اس آگ کو صرف بجھانے کے لئے تاکہ انسانیت فساد کی آگ سے بچائی جا سکے۔ ایک انسان جب صبح گھر سے کام دھندے، ملازمت، یا کسی اور غرض کے نکلتا ہے تو اس گھر سے نکلتے وقت اسے معلوم ہونا چاہیے کہ گھر کے تئیں میری ذمہ داریاں کیا کیا ہیں؟ وہ ساری ذمہ داریاں ادا کر کے اگر گھر سے نکل پڑے تو اس گھر میں فساد برپانہیں بلکہ اس گھر کے اندرون کے ساتھ ساتھ بیرون بھی باقی علاقہ میں رہنے والے لوگوں کے لیے خوشبو پھیلانے کا باعث بن سکے گااور اگر اپنی ذمہ داریاں گھر کے مالک ہی بھول گیا تو اس گھر میں آگ نہیں تو اور کیا ہوگا؟ اسی طرح جو گھر آٹھوں پہر گھر کی ملکہ کا دارلسلطنت ہے اسے بھی اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ خاوند کے گھر سے نکلتے ہی میری ذمہ داریاں کیا کیا ہیں؟ میں اپنے گھر کی ہی نہیں بلکہ اس میں پل رہے بچوں کی بھی نگہداروذمہ دار ہوں ۔ اپنی عزت وعصمت کی حفاظت کرنا، اپنے خاوند کے مال وجائیداد کا خیال رکھنا، یہ سب میری اپنی کلیدی ذمہ داریاں ہیں۔ جب بیوی ایسے انداز سے گھر کی ملکہ بنتی ہے تو وہ گھر آگ کی شکار نہیں ہو سکتا۔ برابر اسی طرح جب گھر سے بیٹا یا بیٹی سکول کالج کے لیے نکلے تو اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں، وہاں جانے کا مدعا ومقصد کیا ہے، وہاں کس وقت تک رہنا ہے اور وہاں سے کب واپس گھر کی جانب لوٹ کر آنا ہے۔ انہیں جواب دہی اور احساس ِ ذمہ داری ہونی چاہیے۔ انہیں اپنی ذمہ داری کا خیال رہنا چاہیے، انہیں اس بات کا شوق وجذبہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو ہی علم کے نور سے منور کرنے کے لیے نہیں بلکہ گھر ،اپنے آس پاس کے ماحول کو اخلاقیات کی خوشبوؤں سے معطر کرنے کے لیے بھی اپنے گھر سے نکلے ہیں۔ ہماری زندگی ایسی گزرنی چاہیے کہ ہمیں دیکھ کر باقی پڑوسی و دیگر ہماری طرف دیکھ کر محسوس کریں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اپنی اپنی صحیح طور ذمہ داریاں ادا کرنے سے ہی بدامنی مٹ سکتی ہے، امن برپا ہو سکتا ہے۔خالی نعرے اور خیالی باتیں، خشک وعظ ونصیحت، خالی پریس بیانات وغیرہ سے نہ تو معاشرہ فساد سے بچ سکتا ہے اور نہ ہی بدامنی کو امن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ </div>
<div style="text-align: justify;">
email: ibrjamal38@gmail.com</div>
<div>
<br /></div>
</span></span></b></div>
<b class="newshead" style="font-family: Nastaleeq, 'Pak Nastaleeq', Helvetica, Geneva, Arial, SunSans-Regular, sans-serif; font-size: 24px;"><span style="color: blue;">
</span></b></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-88890913637423289232015-11-12T05:33:00.002-08:002015-11-12T05:33:58.140-08:00گوہر نذیر۔۔۔کس جرم کی بھینٹ چڑھا؟ ...............کتنی آہیں ، کتنی چیخیں ، کتنی قبریں چاہیے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<table bgcolor="#FFFFFF" border="0" bordercolor="#EFEFEF" cellpadding="0" cellspacing="0" style="border-collapse: collapse; height: 1px; width: 100%px;" valign="top"><tbody>
<tr></tr>
</tbody></table>
<table bgcolor="#FFFFFF" border="0" cellpadding="3" cellspacing="1" style="text-align: justify; width: 100%px;"><tbody>
<tr><td style="text-align: right;" valign="top" width="50%"><b class="newshead" style="font-family: Nastaleeq, 'Pak Nastaleeq', Helvetica, Geneva, Arial, SunSans-Regular, sans-serif; font-size: 24px;"><b class="Byline" style="color: #4b7baf; font-family: Nastaleeq, 'Pak Nastaleeq', Helvetica, 'Urdu Naskh Asiatype', Geneva, Arial, SunSans-Regular, sans-serif; font-size: 16px;">ابراہیم جمال بٹ ۔۔۔ سری نگر<br /><div style="text-align: justify;">
<b class="newshead" style="background-color: transparent; font-family: Nastaleeq, 'Pak Nastaleeq', Helvetica, Geneva, Arial, SunSans-Regular, sans-serif; font-size: 24px; text-align: left;">.................</b>۷ نومبر کو وزیراعظم ہند نریندر مودی سری نگر میں سرکاری سطح پر جمع کئے گئے ایک مختصر سے مجمعے میں اپنی تقریر دلپذیر میں کشمیر یت ، جمہوریت اور انسانیت کے ہم وزن الفاظ کا وِرد ہی کررہے تھے کہ ان تینوں ہم قافیہ الفاظ کے معنی سی آرپی ایف نے زینہ کوٹ میں گوہر نذیر ڈار کی جان لے کر عوام الناس کو بخوبی سمجھائے۔ گوہر اسی طرح قتل ِ عمد کا شکار ہو اجیسے زاہد بٹ کو ادہم پورہ جموں میں ہندو بلوائیوں نے جان بحق کیا ، فرق صرف یہ ہے کہ جواں عمر زاہد کو بم حملے کا نشانہ بنانےوالے بلوائی بے وردی تھے اور خوب رُو گوہر کو قبر میں اُتارنے والے وردی والے تھے ، مقصد کے اعتبار سے مشن دونوںکا ایک ہی ہے کہ کشمیری نوجوانوں کو بہانے تراش تراش کر تہ ِ تیغ کرو،ا ن کے حقِ حیات پر ڈاکے ڈال دو ، وہ سر اٹھا نے کی جسارت کریں تو اُنہیں کچل دو،اُن کے پتھر کا جواب گولی سے دو۔ یہ ۷۴ءسے وردی پوش ابابیلوں کی طرف سے ہماری نسل کشی کا وہ آزمودہ حربہ ہے جس کی حقیقت چھپانے کے لئے نرسمہا راو ¿ نے ”آسمان کی حدتک“ کا جھوٹاخواب لوگوں کو دکھایا، جسے باجپائی نے ”انسانیت کے دائرے“ کی فریب کارانہ اصطلاح وضع کر کے رائے عامہ کو گمراہ کر نے کا سیاسی کھیل کھیلا ، جسے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے”زیروٹالرنس “ کی بانسری بجا کر فورسز کے ہر جرم اور پاپ کی پردہ پوشی کی اور جسے مودی اپنی تقریری ڈائیلاگ بازی سے کشمیرکو ”جنت نما“ کہہ کر حقوق انسانی کی گردن مروڑ ر ہے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ گوہر نذیر کے والدصاحب پر کیا بیت گئی ہوگی جب اس کے بائیس سالہ دُلہے کا خون سے لت پت لاشہ ان کی نگاہوں کے سامنے لایا گیا ہوگا؟ ان کی والدہ اور دیگر اہل ِ خانہ کے دل وجگر پر کتنی چھریاں چلی ہوں گی جب اپنے اس لاڈلے کی بے حس وحرکت میت ان کے روبرو آئی ہوگی؟ پتہ نہیں کیا کیا خواب سجائے تھے انہوں نے کہ بیٹا پڑھ لکھ کر گھر کی شان بڑھا دے گا ، بڑھاپے میں والدین کا سہارابنے گا، دھوم دھام سے اس کی شادی رچائی جائے گی مگر ان بے چاروں کو کیا معلوم تھا کہ” کشمیریت اور انسانیت“ کے محافظ ان کے معصوم گوہر نذیر پر گولی چلاکر سرراہ بے گور وکفن ہی نہ چھوڑ دیں گے بلکہ ایک ایک کر کے اس کے عزیز واقارب کو تاعمر درد کی ٹیسوں کا شکار بناکرزندہ درگور کردیں گے۔ کشمیر کے اکثر وبیشتر گھر انوں کی اسی جیسی کہانی پڑھنے کو ملتی ہے۔ ہمارے ہر ہر علاقے سے مقتول جوانوں کایہ سوال لگاتار ضمیر وں کے درودیوار سے ٹکراتا ہے کہ ”مجھے کس جرم کی پاداش میں قتل کر رہے ہو؟“ یہ تیکھا سوال دل کو جھنھوڑنے والی ایک ایسی آواز ہے کہ جس میں درد بھی ہے اور ایک خونچکاں داستان بھی چھپی ہے۔ کشمیری عوام کب تلک ان خون آشام واقعات کا مشاہدہ کرتے رہیں ؟گزشتہ اٹھائیس برس میں اس سوال نما آواز نے بار بار پورے عالم میں لوگوں پر واضح کردیا کہ کشمیر میں جمہوریت، کشمیریت یا انسانیت پر صرف سیاسی تقریر بازیاں ہوتی ہیں ، جب کہ یہ چیز یںسطحِ زمین پر کہیں بھی موجود ہی نہیں۔دلی کے حکمران اور سری نگر میں ان کے حواری ببانگ دہل اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ وہ امنِ عامہ کے خواہاں ہیں، حقوق البشر کے محافظ ہیں ، انسانیت کے رکھوالے ہیںبلکہ نوع ِانسانی کے خیر خواہ ہیں مگر یہ سب دکھاوا ہے، ڈھکوسلہ ہے ، کذب بیانی ہے۔ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ یہاں انسانیت ماری جارہی ہے؟ یہاں جمہوریت کا دَم گھٹ رہاہے، یہاں بندوق کی نوک پر بدامنی پھیلائی جارہی ہے ، لوگوں کا تحفظ اور ان کی خیر خواہی تو ودر کی بات، یہاں معمولی سنگریزے کا جواب گولیوں اور توپوں سے دیا جا رہا ہے ۔ افسوس کہ نامساعد حالات کی زبانی اس حق گوئی کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوتی جب کہ کشمیر کے مظلوم عوام زیادہ سے زیادہ ایک ودسرے کو اپنا درد بتاکر اپنا غم غلط کر تے ہیں اور زخم سہلاتے ہیں۔<br /> یہ آج کی ہی خونچکاں داستان نہیں بلکہ گزشتہ 28برسو ں سے وادی میں آئے روز گوہرجیسے المیے وقوع پذیر ہوتے چلے آرہے ہیں۔المیے جو ایک سے بڑھ کر ایک ہیں دل دہلانے والے، المیے جو آنکھوں میں آنسوو ¿ں کی موجیں ، لبوں پر آ ہ وفغان اور سینوں میں درد کی ٹیسیں اُٹھاکر کشمیریوں کو بے موت مار ہے ہیں۔ ان ہی درد انگیز المیوں کی لمبی فہرست میں مصطفی آباد کے گوہر کے جاں بحق ہونے کی سر گزشت اب آہوں اور سسکیوں کی زبانی درج ہو چکی ہے۔ جواں عمری کی دہلیز پر پڑھائی میں محنت مشقت کے پہاڑ سر کرتے ہوئے گوہر اب زندگی کی اہم ذمہ داریاں اپنے شا نوں پر اٹھانے کے لیے تیاریوں میں تھا کہ موت کے فرشتے نے اس پر بجلی گرا دی اور پلک جھپکتے ہی اسے اُچک لیا۔ پڑھائی لکھائی میں کٹھن محنت اور اپنا خون پسینہ ایک کر کے گوہر اس دن کے انتظار میں بیٹھا پل پل گن رہاتھا کہ اپنے والد کا بوجھ کس طرح ہلکا کر سکوں مگر آہ ! اُسے معلوم نہ تھا کہ یہ دن اسے دیکھنا ہی نصیب نہ ہو گا بلکہ بہت جلد وہ خود روتے بلکتے سوگواروں، دوستوں ، رشتہ ادروں اورہمسایوں کے کندھوں پر سوار ہو کر مقبر ے کی زینت بنے گا۔ اب گوہر حیاتِ مستعار کے محدود لمحات ختم کر کے منوں مٹی نیچے آرام فرماہے اور اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں۔<br />وادی ¿ کشمیر میں یہ تازہ کر ب ناک واقعہ معمولات ِ زندگی سے جڑا ایک ایسا دلخراش واقعہ ہے جس کی صدائے بازگشت ہم برس ہا برس سے سنتے آرہے ہیں۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس سے سابقہ واقعات کی طرح پھر ایک بار آنکھوں سے خون ٹپکتا ہے۔ ایسے دلآزار واقعات انجانے میں نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر نسل کشی کے ارادے سے فورسز اور بلوائیوں کے ہاتھوںکرائے جاتے ہیں۔ یہ نیا غم انگیز سانحہ بھی اسی بیمار سوچ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تازہ واقعہ کے عینی شاہدین کاکہنا ہے کہ گوہر کے سر کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔یہ ایک امر واقع ہے کہ جوکچھ دنیا میں ہوتا سب باذن اللہ ہوتا ہے مگر کسی قتل ناحق کا طوق جس کسی ظالم کے گلے میں پڑ جائے، اس کا نام جریدہ ¿ عالم میں ہمیشہ سیاہ حروف سے لکھا جا تا ہے۔ ظلم کے ہاتھ اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ ان کو پکڑنا آسان بنتا ہے لیکن انہیں کبھی کبھار کارخانہ ¿ قدرت سے ایسی چھوٹ دی جاتی ہے کہ نہ صرف ظالم کے ہاتھ بظاہرلمبے نظر آتے ہیں بلکہ محسوس یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ایک ایک کر کے سب کو ظلم کا شکار بناتا بھی پھرے کوئی اس کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔ ہر گز نہیں ، جس کسی کو خدا کے ”سپریم پاور “ہونے کا احساس رگ وپے میں پیوست ہو ، اُسی کا خوف ہمہ وقت لاحق ہو، اُسی کے بے لاگ انصاف اور قدرت کی بے آواز لاٹھی یا قانون ِ مکافات ِ عمل پر ایمان و یقین کامل ہو، اُسے اس بات پر شر ح صدر حاصل ہوتا ہے کہ ظلم کی سیاہ رات چاہے کتنی بھی طویل کیوںنہ ہو، آخر کار اس کا خاتمہ ہو کر ہی رہتا ہے۔ یہی وہ انمول عقیدہ ہے جس سے ہما رے ارادوں کو تقویت اور اُمیدوں کو نئی زندگی ملتی ہے۔ اس لئے یہ بات سو فی صد طے ہے کہ ظالموں کا سامان ِ حرب وضرب اور لاو ¿ لشکروادی ¿ کشمیر میں خونِ مسلم بہاتا جائے لیکن ایک دن ایسا آئے گا کہ جب قانون قدرت کے عین مطابق ان کا حشر سوویت یونین ، ہٹلر اور اس جیسے ظالموں کا ہونا ہی ہے۔ گو ہر نذیر کے قتل میں ملوثین اور اُن کے سیاسی وقانونی پشت پناہ جان لیں کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔ا ن حضرات کے لئے بہار میں مودی اِزم کا حال چشم کشا ہونا چاہیے۔<br />بے گناہ گوہر نذیر ڈار ولد نزیر احمد ساکنہ مصطفی آباد ایچ ایم ٹی کا جنازہ اٹھنا تھا سو اُٹھا ،اُس پاک نفس نوجوان نے ایک لاکھ سے زائد قبروں میں ایک اور مرقد کا اضافہ کیا، اُس کی یاد میں اہل ِخانہ ، دوست احباب برسوں سینہ کوبیاں کر تے رہیں گے ، آہیں بھر تے رہیں گے ، غم والم سے نڈھال ہوتے رہیں گے لیکن اس جنازہ کے ساتھ ہی ظالمانہ کارستانیوں اور حقوق البشر کی پامالیوںکے باوجودظالم کے ہاتھ مضبوط اور توانانہیں بلکہ صرف ظلم کے خون سے کہنیوں تک بھر گئے ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا بر آمدہو نا ہے، دیر سویر ظلم کے پرستار کھلی آنکھوں سے ا س کا نظارہ ضرورکر یں گے۔ اگر کسی فرد بشر کو ہلاک کر نے یا کسی قوم کو تہ تیغ کر نے سے ظالم کا سکہ رائج ہوتا تو افغانستان میں نہ روس بے آبرو ہوکر اوربے سروسامان افغانوں کے ہاتھوں ہزیمتیں اُٹھا کر دُم دبا کر بھا گ جاتا اور نہ امریکہ ذلیل وخوار ہوکر اپنے لئے راہ ِفرارکی تلاش اور جان کی اما ن میں طالبان کے پاو ¿ں پڑ تا۔ اسی طرح کسی ظالم وجابر کو اگر فوری طور اس دنیا میں سزا نہیں ملتی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یزید یت کی جیت ہوتی ہے ۔ کسی نے کیا ہی اچھی بات کہی ہے:”دنیا میں نوعِ انسانی کی زندگی کی بقا منحصر ہے اس پر ہے کہ ہر انسان کے دل میں دوسرے انسانوں کی جان کا احترام موجود ہو اور ہر ایک دوسرے کی زندگی کے بقاءوتحفّظ میں مددگار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل حیاتِ انسانی کے احترام سے اور ہمدردیِ نوع کے جذبہ سے خالی ہے، لہٰذا وہ پوری انسانیت کا دشمن ہے“۔اس قماش کے لوگوں کا انجام کیا ہو تاہے ہٹلر کے خاتمے کو دیکھ کرسمجھ لیجئے ۔ بایں ہمہ گوہرکے والدین، اس کے بڑے بزرگ اور دوست واحباب واقعی ان سب پر مصائب کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے (اللہ تعالیٰ ان کو صبر جمیل سے نوازے، ان کو یہ صدمہ ہمت اور ان کے حوصلے سے برداشت کر نے کی توفیق دے، انہیں اپنے لاڈلے گوہرکی حیاتِ جاوداں کا قدردان بنائے)۔ قابل غورہے کہ سری نگر میں اس روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے آپ کو ہیرے کی کان جتلا کر کشمیر میںدودھ اور شہد کی نہریں بہانے کا سپنا دکھا رہے تھے۔ اُدھر مودی جی مالی پیکج کی لن ترانی کا ساز بجارہے تھے ،اِدھر کشمیر ی آہنی حصاروں اور بندشوںکے اندر اس ساز اورسپنے کا مذاق بنا رہے تھے۔ ملین مارچ نہ ہو ،ا س کے لئے پورا کشمیر یرغمال بنایا گیا! کشمیر میں بسنے والے انسانوں کو معلوم ہے کہ بھارت کے ان خوشنما مگر خیالی پیکجوںکا مطلب کیا ہے۔ اگر بھارت کو اہل کشمیر کے لئے کوئی پیکج دینا ہی ہے تو اُسے فوراّسے پیش تر افسپا واپس لینا چاہیے ، اُسے گوہر اور زاہد سمیت تمام بے گناہوں کے قاتلوں کو کڑی سزا دینی چاہیے ،ا ُسے یہاں انسانی حقوق کا قلع قمع کر نے والوں سے حساب لینا چاہیے ، اُسے قتل وغارت گری بند کرکے مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈنا چاہیے، اُسے قتل وانہدام میں ملوث فورسز کی شبابا شی کے بجائے ان کےخلاف قانون کے مطابق ایکشن لینا چاہیے ۔۔۔کیوں کہ انہوں ہمارے پُرا من وطن کے طول وعرض میں معلوم اور نامعلوم قبرستانوں کی زینتیں بڑھا دی ہیں ، عصمت ریزیوں سے قوم کو آسیاو ¿ں اور نیلوفروں کے جیسے دکھ دئے ہیں۔ ہمارے لئے وہی پیکج قابل قبول ہوسکتاہے جو ”واندر راج “کے تسلسل کے لئے ”افسپا“ کو مقدس صحیفے کا درجہ دینے سے گریز اں ہو، جوگوہر کی مظلومانہ موت سمیت اٹھائیس برس کے دوران دوسرے جوانوں، بچوں،بچیوں، خواتین اوربزرگوںکی ماورائے عدالت بہیمانہ قتل کا حساب قاتلوں سے لے سکے ۔ کیا یہ پیکیج کبھی کشمیر کے نام کیا جائے گا یا ابھی ہمیں مزید آہوں ، چیخوں اور قبروں سے گزرنا ہوگا؟ مختصر اّیہ سب دلدوز واقعات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ کشمیر کے قضیے کی جانب اصل توجہ نہیں دی جاتی بلکہ کشمیریوں کی مبنی برحق آواز دبانے کے لئے ظلم کے ہتھکنڈے آزما ئے جا ر ہے ہیں۔ یادرکھیں جب جب ظلم بڑھتا ہے تو مظلوم کی پکار ٹوٹے دلوں سے آہ بن کرنکل کر مملکتوں اور سلطنتوں کو ڈھا جاتی ہے ، استکبار کی عمارتیں زمین بوس ہوجاتی ہیں ، سامان ِ حرب وضرب کے انبار بے معنی ہوجا تے ہیں، ظلم وجبر کی آندھیاں تھم جا تی ہیں ۔ تاریخ کابے لاگ فیصلہ یہی ہے ۔ بہرکیف گوہر کے داغِ مفارقت نے ہمیں اس کا بھی من حیث القو م مقروض بنایااور زیر بارا حسان کیا اور ایسی بیش قیمت قربانیوں کا قرضہ چکانا ہمارا اجتماعی فرض ہے۔ ہمیں یہ بات گرہ میں باندھ لینی چا ہیے کہ قوموں میں مثبت تبدیلی آنا اس کی مستقل مزاجی پر منحصر ہے۔ اگر وادی ¿ کشمیر کے لوگوں میں وقتی تماشوں کے مکروفریب کے دام ِ ہم رنگ زمین سے دور رہیں، خدا خوفی، احتسابِ نفس اور ایک دوسرے کے تئیں نیک گمانی کی خُو پیداکریں تو خدائے لم یزل کے سامنے یہ کون سی بات ہے کہ اس قوم کو وہ مصطفی آباد سری نگرکے مقتول گوہر نذیرکے پاک خون کے طفیل ظالموں کے نظام ِ جبر سے نجات دے۔ البتہ اس کے لئے ضرورت ہے تواتحادواتفاق، صبرو ثبات اور مستقبل مزاجی ، نظریاتی ہم آہنگی اور یک رنگی کی۔</div>
</b></b></td></tr>
</tbody></table>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-43677849012887567432015-10-03T09:02:00.004-07:002015-10-03T09:02:52.480-07:00رضائے الٰہی کے لیے قربانیاں لازم<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
٭ابراہیم جمال بٹ<br />
<div>
...................</div>
<div>
<br /></div>
<div style="text-align: justify;">
<div>
<b>چند روز قبل ہی عید الاضحی کی مبارک ساعتیں ہم سے رخصت ہوئیں۔اس عید کے موقعہ پر ہم نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکرانہ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی تکبیرات بلند کرتے ہوئے عید نماز ادا کی۔ عید الاضحی کی حقیقت کیا ہے؟ جب یہ سوال اللہ کے رسول ﷺ سے کیا گیا تو رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ ’’ یہ تمہارے باپ کی سنت ہے۔‘‘ سیدنا ابراہیم ؑکی پوری سیرت پاک توحید کی اقامت اور اس کی پاسداری کی خاطر غیر معمولی تلاش وجستجو،ہجرتوں اور قربانیوں سے عبارت ہے، یہ حق تعالیٰ کے لئے جینے اور مرنے کا فارمولہ اور ابتلاء و آزمائش کا مرقع ہے۔ آپؑ کی پوری زندگی بعد کے لوگوں کے لئے اُسوہ طیبہ ہے اور اسلام کی سچی مثال اور حقیقی تفسیر ہے۔ حضرت خلیل الرحمٰن ؑصحیح معنوں میں مسلمِ حنیف تھے۔ اسلام کے مثالی نمونے کی توضیح انبیائی عظمتوں کے ساتھ سیدنا ابراہیم و اسماعیل نے از خودکی۔ اس کے بالمقابل اسلام کی یہ تفسیر و تعبیر بتاتی ہے کہ یہ اپنے مزاج ومنہج، نتائج و ثمرات اوراپنے مطالبات اور تقاضوں کے اعتبار سے سراپا عمل اور جہد مسلسل کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی انقلابی زندگی سے عبارت ہے جس میں ہر آن اللہ کی رضا جوئی کی دُھن مومن کے قلب وجگر پر سوار ہو اور اس کے ہر اشارے کی بہر صورت تکمیل ہو، یہاں سر تسلیم خم کر تے ہوئے آگ اور خون سے گزرنا پڑ تا ہے،یہاں اپنی پسند و ناپسند میں، جائز و ناجائز میں، حلال و حرام میں ہر حیثیت سے اور ہر وقت ’’سمعنا و اطعنا‘‘ کی بالا دستی قائم ودائم رہتی ہے۔</b></div>
<div>
<b>اسلام کو روبہ عمل لانے کے لئے حضرت ابراہیم ؑ کی پاک زندگی کا ایک ایک پل اللہ تعالیٰ سے لولگا نے ا ور اس کی خوشنودی کو ہر چیز پر مقدم رکھنے اور اس کے علاوہ اسی راہ میں عشق کے تقاضوں اور عقل کے مطالبات پورا کر نے کی جان فزا تصویر ہمارے سامنے لاتا ہے۔ اس سیرت ِمحبت و جہد مسلسل میں دنیا ئے عمل سے مصلحت پسندانہ فرار نہیںبلکہ محبّانہ اقدام، عارفانہ جفاکشی اور پیغمبرانہ معرفت اور سرمستی کی انتہا ملتی ہے۔</b></div>
<div>
<b>آج اس حُب سے مشرف ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور حقیقت کی پہچان کی اشد ضرورت ہے۔ ایک مسلم کی حقیقت کیا ہے؟ کیا اس کے سوا کچھ اور کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میںایک بکا ہوا مال اور اللہ کا زر خرید غلام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین کے جان ومال کو جنت کے عوض خر ید لیا ہے۔جنت کتنی بے بہا اور تصور سے ماورا دولت ہے ،اس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ اس کے بالمقابل جس جان کی حفاظت کے لئے ہم اورآپ جس محبت کا دامن تھامے رہتے ہیں اس کی بے وقعتی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ روزِ قیامت جہنم سے رستگاری اور عذابِ آخرت سے نجات کی خواہش میں یہ تمنا کی جائے گی کہ اے کاش! بیوی، بیٹے اور دیگر اہل خانہ حتیٰ کہ سارے عالم کے لوگوں کی جانیں بطورِ فدیہ لے کر عذاب سے نجات دی جائے۔ لیکن روزمحشر کو اتنی ساری جانیں اور قربانیاں خوشی خوشی پیش کرنے کے باوجودبھی، جن سے دامن بچا بچاکر ہم نے چند روزہ دنیوی زندگی میں حقیقی اسلام سے بے وفائی کی تھی، ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی ہیں۔ کتنی بے وقعت ہے یہ انسانی جان لیکن کتنا بڑا معاوضہ دیا ہے اس کا ہمارے رب نے کہ وہ مردمومن کی ایک جان کے عوض اسے محض عذابِ جہنم سے نجات ہی نہیں بخشتا بلکہ جنت کے انعام واکرام سے بھی نوازتا ہے۔ یقینا یہ مستقل منافع کا سودا حضرت ابراہیم نے اللہ عزوجل سے کیا۔ </b></div>
<div>
<b>’’اسوہ ٔابراہیمی ؑکی روشنی میں یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ حق تو دراصل وہی ہے جو باطل کی آنکھوں کا کانٹا بن جائے اور اس سے باطل کی نیند حرام ہو جائیں۔ وہ’’ حق ‘‘حق نہیں ہے جسے باطل نہ صرف یہ کہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر ے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی اور بسا اوقات نوبل پرائز کا ڈھنڈورا پیٹ کر اس کی عزت افزائی بھی کرتا پھر ے کیونکہ ’’ حق ‘‘ کا فرضی وجود باطل وابلیس کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ حق دراصل ایک پیمانہ ہے جس کو پرکھنے کے لئے قربانیوں کا آلۂ پیمائش استعمال کر کے کھرے اور کھوٹے کی تمیز اور پہچان کرائی جاتی ہے۔آج بھی اگر’’ حق ‘‘کا دعوے دار کوئی فرد یا کوئی جماعت یا گروہ ایسا موجود ہو جسے باطل کی سرپرستی اور شاباشی حاصل ہو تو جان لینا چاہئے کہ وہ منافقت کے پر دے میں باطل کا آلۂ کار ہے۔ اللہ ہم کو ایسے’’ حق ‘‘کے شر ور سے محفوظ رکھے۔ آمین</b></div>
<div>
<br /></div>
<div>
<br /></div>
<div>
<br /></div>
</div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-74392079390204952572015-08-08T10:15:00.001-07:002015-08-08T10:15:44.234-07:00محبت نہ ہو تو محبوب سے کیا رشتہ!<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<b><span style="color: red;"><br /></span></b>
<b><span style="color: red;">٭ابراہیم جمال بٹ</span></b><br />
<b><span style="color: red;">...................</span></b><br />
<h2 style="text-align: justify;">
<b><br /></b><b>محبوب کی محبت ایک فطری عمل ہے لیکن اگر اس محبت کے بیچ محبوب کی پسند وناپسند کا خیال نہ رکھا گیا ہو تو یہ محبت نام کی ایک ’’مشق گردانی‘‘ کہلائے گی۔ محبت محبوب کی ہر عمل پر وقت، پیسہ حتیٰ کہ جان بھی قربان کردینے کا نام ہے۔ اس کی ہر ادا ہی نہیں بلکہ ہر حکم کی تعمیل میں محبت لفظ کی تشریح موجود ہوتی ہے،بلکہ اگر یوںکہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اس کے دوستوں اور ہمنوائوں کی قدرکرنے میں محبوب کی ہی کی خوشبو محسوس کی جا سکتی ہے۔ مرزا غالب ؔنے کیا ہی خوب کہا ہے ؎</b><b>’’غالب ندیم دوست سے </b><b>آتی ہے بوئے دوست‘‘</b><b>غرض محبت ایک ایسے عمل کا نام ہے جس میں مٹھاس ہے، جس کی مٹھاس کا نتیجہ تازہ تازہ پھل اور پھولوں کی خوشبو ہے۔ یہ تازہ پھل اور گلابی خوشبو جس شخص کو حاصل ہو جائے اسے اور کیا چاہیے۔ ایک طرف لذیز اور تازہ پھل اور دوسری جانب رہنے کو پھولوں سے بچھا ہوئی ایسا نرم نرم بچھونا کہ چاہتے ہوئے بھی کوئی اس سے نہ اُٹھے۔ </b><b>آج دیکھئے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں پوری دنیا میں اس محبوب کے محب ستارے ہر جانب چمکتے نظر آرہے ہیں۔ ہر ستارہ انسانی دلوں پر راج کر رہا ہے، زبانوں پر ان کا نام ادب واحترام سے لیا جا رہا ہے، اور جب کبھی بھی ان ستاروں کے متعلق بات چھیڑی جاتی ہے تو ہر جانب آہ آہ کی صدا ئیں سنائی دیتی ہے۔ یہ سب کچھ اسی اصل محبت کا نتیجہ توہے۔ </b><b>اس کی ہر ادا ہے میری جان</b><b>وہ جان ہی کیا جو نہ ہو اُس پر قربان</b><b>لیکن! محبوب نے جو کہا ہم نے اس پر غور نہیں کیا… اس کو سنا مگر سنتے ہی رہ گئے، نہ حکم کی تعمیل، اور نہ ہی سن کر کوئی ہمارے اندر وبیرون کوئی تبدیلی رونما ہوئی،بس سنتے ہی رہ گئے۔ محبوب کی بات سننی تھی تو ہم نے لبیک کہا… جب قریب سے دیکھا تو لبیک کے سوا کچھ نہ پایا… محبوب کی محبت کا اصل (اس کی ہر ادا اور ہر حکم پر قربان ہونا) مقصد ہی نہیں پایا۔ </b><b>محبت کی راہ میں جو اقرار کرنے کا وقت آیا</b><b>تو زبان پر صرف محبوب محبوب ہی نکل رہا تھا</b><b>یاد رہے! وہ دعوی ہی کیا جس میں زبان پر محبت ہو لیکن عمل سے خالی ، وہ محبت نہیں بلکہ خود اپنے آپ کو ہی دھوکاہے۔ جس دل میں خمیرِ محبت کے ساتھ ساتھ قربان علی المحبوب کا جذبہ نہ ہو اس محبت میں کوئی دم نہیں۔ افسوس ہم لوگ محبت کے معنی، مفہوم اور مقصد وغایت سے ناآشنا ہونے کی بنا پرہی ’’زبانی محبت‘‘ کو اصل محبت سمجھ بیٹھے ہیں۔ نتیجہ سامنے ہے کہ ایک جانب محبوب کی زبانی محبت ہے اور دوسری جانب محبت کی ہر ادا اورہر پسندو ناپسند پر ہمارا عملی انکار۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل اور مطلوب ومقصودِ محبت کی کوئی حیثیت ہمارے دلوں میں موجود ہی نہیں۔ </b><b>خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں محبت اور محبوب کی ہر خواہش پر عمل ہے۔ جس انسان میں محبت کے ساتھ اتباعِ محبوب نہیں، اس کے اندر مطلوبہ محبت نہیںہے۔ دراصل ان کے دل محبت کے نور سے خالی پڑے ہیں۔وہ دل محبت کے اصل جوہر سے خالی ہیں، جو اگرچہ زبان سے بکھیر دیتے ہیں محبت کے پھول، مگر عملی اعتبار سے محبوب کے وفادار نہیں ہوتے ہیں۔محبوب سے محبت کرنے والے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ:</b><b>’’اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو (میرے محبوبؐ) کی اتباع کرو، میں تم سے محبت کروں گا۔‘‘</b><b>اے کاش ہم نے بات مانی ہوتی!</b><b>آج ہم اس قدر ذلیل وخوار نہ ہوتے، ہم محکوم ومجبور نہ ہوتے، ہم اعلیٰ سے ادنی نہ بن جاتے، ہم ہر کسی کا نوالہ نہ بن جاتے۔ </b><b>یہ بات واضح ہے کہ جب تک ہم محبوب کی اصل محبت میں کام کر رہے تھے تو دنیا کی کوئی بھی شئی ہماری تابع وفرماں برداری سے خالی نہ تھی اور جب ہم نے راہ بدلی تو دنیا کی ہر حقیر شئی ہم پر غالب وحاکم ہو گئی۔ </b><b>٭٭٭٭٭</b><b><br /></b><b><br /></b></h2>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-43624607451505312262015-07-12T22:58:00.002-07:002015-07-20T04:04:51.114-07:00ماہ رمضان : ایک عہد وپیماں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br />
<h3 style="text-align: left;">
<b><span style="color: blue;">٭ابراہیم جمال بٹ </span></b></h3>
.......................<br />
<br />
<h2 style="text-align: justify;">
<b>ماہ رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں ہم سے رُخصت ہو رہی ہیں… اس میں ہم نے محنت کر کے اللہ کی رضا جوئی حاصل کرنے کی انتھک کوشش کی… فرض نمازوں کی وقت پر پابندی، نوافل کا زیادہ سے زیادہ اہتمام، قرآن کی تلاوت میں مزید اضافہ… نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا… اور اسی طرح دیگر ایسے کام کئے جن سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشی حاصل ہو جاتی ہے… الحمد للہ علی ذالک… اس پر جتنا بھی اللہ کے دربار میں شکر ادا کیا جائے کم ہے… ہم نے مسلسل روزہ رکھ کر یہ اعلان کیا کہ ہم وقت آنے پر پیٹ پرپتھر باندھ سکتے ہیں…ہم بھوکے رہ سکتے ہیں… لیکن اللہ کی نافرمانی نہیں کر سکتے… اس کے حکم کی تعمیل میں بھوک کی حالت میں جان بھی نکل جائے تو مضائقہ نہیں… ہم نے مسلسل اور وقت کی پابندی کا خیال کر کے نماز کی پابندی کا مزاج اپنے اندر پیدا کیا… یہ اس بات کا اعلان ہی تو ہے کہ ہم اللہ کے دربار میں سلامی دینے کے لیے ہر وقت تیار ہیں… جب اللہ کے دربار سے منادی آئے گی، ہم حاضر ہونے کے لیے تیار ہوں گے… اُس کے آگے جھکنے اور دوسروں سے ’’لا‘‘ کرنا اسی نماز کا ایک اہم درس ہے… ہم نے فرائض نماز کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی بڑے ذوق وشوق سے اہتمام کیا… یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کے حکم (فرض) کے علاوہ بھی اس کے آگے جھکنے (نوافل) میں اپنی زندگی گزار کر اپنے باغ کو مزید پھولوں اور خوشبو سے منور کر سکتے ہیں… ہم نے صبح سے لے کر شام تک جب بھی فارغ وقت پایا بلکہ وقت نکال نکال کر تلاوت قرآن پاک میں گزارا… یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن ہماری رہبر ورہنما کتاب ہے… اسی کی روشنی سے ہمیں وہ راستہ مہیا ہو سکتا ہے جس کے ہم متلاشی ہیں… ہم دُعا کرتے ہیں… اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا… وہ راستہ جس پر آپ نے انعام رکھا ہے… اس راستے پر چلنے اور کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے، قرآن واحد کتاب ہے… گویا کہ دوسرے الفاظ میں ہم اعلان کرتے ہیں کہ اس دنیا میں اگر امن وآشتی کا پیغامبر ہے تو وہ یہی قرآن ہے… اس دنیا پر اگر کوئی نظام حق ہے تو وہ اسی قرآن کا نظام ہے… اس دنیا پر بسنے والے لوگوں پر اگر کوئی قانون صحیح اور کامیاب ہو سکتا ہے تو وہ اسی قرآن کا قانون ہے… اس ماہِ مبارک کے آخری ایام ہم اب شب خوانی میں گزارہے ہیں… جس میں نوافل نماز میں افضل ترین نماز ’’تہجد‘‘ کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے… یہ بھی اسی اعلان کی ایک کڑی ہے کہ ہم نہ صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے دن میں کام کر سکتے ہیں بلکہ کبھی کبھار رات کی نیند کو بھی قربان کر سکتے ہیں… ہم اللہ کی راہ میں دن کے شاہسوار اور رات میں پہرہ داری کی ذمہ داری بھی انجام دے سکتے ہیں…ہمارا دن اللہ کی راہ میں گزر سکتا ہے اور ہم رات بھی اسی کے لیے قربان کر سکتے ہیں… اس ماہ ہم نے اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا… زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ صدقات وخیرات بھی دل کھول کر دئے… یہ اس بات کا تو اظہار ہے کہ اللہ کی راہ میں وقت… دن ورات… پیسہ… اور صلاحیتیںقربان کر سکتے ہیں… یہ اس بات کا اعلان تھا کہ… مال دینے والی اللہ کی ذات ہے… اور اسے اسی کی راہ میں قربان کرنابھی عبادت ہے… ۔ </b><b>غرض اس ماہ مبارک میں ہم نے اللہ کے ساتھ بے شمار عہدوپیمان کئے ہیں… اس کی ہر ادا پر قربان ہونا… اس کی سلامی کاوقت پر جواب دینا… اس کی راہ میں اپنا جیب خالی کرنے میں خوشی کا اظہار کرنا… یہ سب عہد وپیمان ہی تو ہیں جو ہم نے اس ماہ مبارک میں کئے… اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس ماہ کے اختتام کے بعد شوال کے مہینے میں اپنے عہدو پیمان پر برقرار رہ پائیں گے یا نہیں… اللہ کا جو اس ماہ کے روزوں کا مقصدانسان کے اندر ’’تقویٰ ‘‘پیدا کرنا ہے… جب ایک مومن اللہ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اور اللہ کی رضا کی خاطر روزہ رکھتا ہے تو اس کے دل میں تقویٰ کا شعور اجاگر ہوجاتا ہے…یہ تقویٰ ہی ہے جو دلوں کا نگہبان ہے اور جو انسان کو روزے کے احکام کی خلاف ورزی سے بچاتا ہے…اگرچہ وہ ایسی معصیت سے بھی انسان کو بچاتاہے ،جو کسی حد تک محض وسوسہ ہو۔قرآن کریم کے اول مخاطب صحابہ کرام ؓا س کے معنی سے اچھی طرح واقف تھے۔وہ جانتے تھے کہ اللہ کے ہاں تقویٰ کس قدر وزنی ہے۔اس لئے تقویٰ ہی ان کا نصب العین تھا۔وہ برابر اس کی طرف بڑھتے جاتے تھے اور روزہ ذرائع حصول ِتقویٰ میں سے چونکہ ایک ذریعہ ہے اس لئے یہ فرض کیا گیا۔دراصل روزہ وہ راہ ہے جس کی آخری منزل تقویٰ ہے۔یوں لگتا ہے کہ قرآن مجید ،ایک بلندمقام پر ،بالکل سامنے تقویٰ کا ایک روشن نشان رکھ دیتا ہے اور اہل ایمان کی آنکھیں اس نشانہ پر جم جاتی ہیں اور وہ روزہ کے واسطے اورروزے کی امداد سے تقویٰ تک پہنچنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔</b><b>دیکھنا یہ ہے کہ تقویٰ ہمیں حاصل ہوتا ہے یا نہیں…؟ ماہ رمضان المبارک کی ساعتیں گزرنے کے بعد ماہ شوال کے پہلے ہی دن معلوم ہو جائے گا کہ ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا… تقویٰ و پرہیز گاری حاصل ہوئی یا کچھ اور… ؟ماہ رمضان المبارک سے قبل جس قدر ہماری حالت تھی اگر وہی حالت برابر قائم رہی… تو ہمارا احتساب آخر کب ہو گا… اس ماہ بھی اگر ہم نے وقت ضائع کیا تووقت سے کب فائدہ اٹھا پائیں گے۔؟ </b></h2>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
<br /></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-66406448770074893132015-04-17T19:54:00.005-07:002015-04-17T19:54:58.678-07:00خبردار :سوائن فلو کی ہے یلغار !<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 style="text-align: left;">
<b>٭ابراہیم جمال بٹ</b></h2>
<div>
.....................</div>
<div>
<br /></div>
<div>
<div style="text-align: justify;">
’’سوائن فلو‘‘ نے گزشتہ کئی ماہ سے ایک ایسی خوفناک صورت حال اختیار کی ہے کہ ہر کوئی پریشان و بے حال ہے۔ ہر جانب لوگ اس سے بچائو کی تدابیر کے بارے میں اظہار خیال کرتے نظر آرہے ہیں ، لیکن کیا کیا جائے ابھی تک اس کا رکائو نہیں ہو رہا ہے ،البتہ میڈیا نے کسی حد تک اس شہ سرخی کو چھوڑ دیاہے۔ حالانکہ اکثر لوگ ابھی تک چہرے پر ’’ماسک‘‘ لیے پھرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا ہے کہ’’ ماسک‘‘ پہننا فضول عمل ہے بلکہ کہنے کا مقصد بس یہ ہے کہ لوگ پریشان ہیں اور جان کی حفاظت کرنے کے لیے ہی ایسا کرتے ہیں۔ </div>
<div style="text-align: justify;">
اب ذرا اس سوائن فلو جس نے اتنا تہلکہ مچا دیا ہے… کو غور وفکر کا نقطہ بنا کر اپنی اپنی جگہ سوچیں کہ کیا ہم ہر اس جان لیوا شئی سے برابر اسی طرح پرہیز کر کے، ان سے بچنے کی سوچتے ہیں…؟ اگر ہمارا حال ہر ایسی چیز کے بارے میں جس سے ہمارا نقصان ہو رہا ہو یہی ہے تو الحمد للہ… اور اگر اس سے مختلف ہے تو ذرا سوچئے…! یہ تضاد کیوں؟ </div>
<div style="text-align: justify;">
سوائن فلو سے متاثرہ انسان سے بچنے کے لیے بے شمار اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں کیوں کہ یہ جان لیوا وائرس ہے۔ حالاں کہ ہمارے موجودہ معاشرے میں اِس سے زیادہ مہلک ترین بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن ان سے بچنے کی تدابیر نہیں کی جاتی، بلکہ ان کے پھیلائو کو ’’ماڈریٹ‘‘ کے لقب سے مذین کیا جاتا ہے۔ معاشرے میں ہر طرف بے حیائی کا بازار گرم ہے… ہر طرف لوٹ مار، قتل وغارت گری، ظلم وفساد، بے راہ روی، بددیانتی، رشوت خوری، اور دھوکہ دہی جیسی بیماریاں روز بروز پھیلتی ہی جا رہی ہیں اور ان کے پھیلائو سے کوئی انسان پریشان وبے حال نہیں ہوتا… ایک طبقہ تو انہیں وقت کی ضرورت کہتا ہے اور ایک دوسرا طبقہ مجبوری کا بہانہ بنا کر اپنی آنکھیں بند کر یہ سب کچھ دیکھ کرمطمئن نظر آتا ہے۔ آخر اتنا تضاد کیوں…؟ کیا معاشرے میں پھیل رہی بے راہ روی اور فحاشی ہمارے لیے سمِ قاتل نہیں؟ کیا دھوکہ دہی،لوٹ مار، قتل وغارت گری، ظلم وفساد، بے راہ روی، بددیانتی اور رشوت خوری ہمارے معاشرے کے لیے جان لیوا اور مہلک ترین بیماریوں میں سے نہیں …؟ </div>
<div style="text-align: justify;">
اصل حقیقت یہ ہے کہ بنی نوع انسان اچھی طرح سے سمجھ رہا ہے کہ یہ سب مہلک ترین بیماریاں ہیں، ان سے نہ صرف انسانی جان کو خطرہ لاحق ہے بلکہ منجملہ پوری قوم و انسانیت کو نقصان پہنچ رہا ہے، لیکن پھر بھی انسان آنکھیں موندھ کر اندھوں اور بہروں کی طرح زندگی کے یہ گنے چنے ایام گزار رہے ہیں۔ کسی چیز کی بھی فکر نہیں۔ اپنا آج کا دن اچھی طرح سے گزرے، یہی ہماری سوچ بن چکی ہے۔ اسی لیے جب ’’سوائن فلو‘‘ جیسی بیماری کا اعلان ہو جاتا ہے تو دل تھر تھر کانپنے لگتا ہے اور جلد ہی بچائو کی تدابیر کی جاتی ہیں۔ یعنی موت کا کومحسوس کر کے، ’’آج‘‘ کا نقصان نظر آتا ہے، اسی لیے تدابیر کے طور پر ’’ماسک‘‘ وغیرہ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ’’آج‘‘ کا بچائو اور اس کا خطرہ دیکھ کرکیا جاتا ہے ۔ لیکن وائے افسوس! ’’آج ‘‘ کا خطرہ محسوس کیا جاتا ہے لیکن کل اور آنے والے ایام کے ساتھ ساتھ پوری زندگی، اور عالم انسانیت کو ہونے والے نقصان کا اندازہ ہونے کے باوجود بھی کوئی تدبیر نہیں کی جاتی۔ افسوس… صد افسوس!</div>
<div style="text-align: justify;">
زندگی انمول شئی ہے اور جہاں یہ گزر رہی ہو وہاں کا ماحول اس سے بھی انمول ہے۔ اس لحاظ سے ترجیحات کی بنیاد پر اولیت اور ثانویت کی بنیاد پر ہمارا قدم اُٹھنا چاہیے۔ سوائن فلو جیسی مہلک بیماری سے بچائو کی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُن ساری بیماریوں کا تدارک اور بچائو کی صورتیں نکالنا بھی ضروری اور لازم ہیں جن سے پوری قوم وملت متاثر ہو کر نیست نابود ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔ زندگی قیمتی ہے لیکن جس معاشرے میں ہم جی رہے ہوں وہ کس قدر قیمتی ہے اس کا اندازہ لگانا چاہیے اور پھر اس میں پھیل رہی بیماریوں کا تدارک بھی کرنا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭</div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-88006367506442882442015-01-23T08:30:00.003-08:002015-01-23T08:30:47.965-08:00سیلاب بنام عوام<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<table bgcolor="#FFFFFF" border="0" bordercolor="#EFEFEF" cellpadding="0" cellspacing="0" style="border-collapse: collapse; height: 1px; width: 100%px;" valign="top"><tbody>
<tr></tr>
</tbody></table>
<table bgcolor="#FFFFFF" border="0" cellpadding="3" cellspacing="1" style="width: 100%px;"><tbody>
<tr><td align="right" valign="top" width="50%"><b class="newshead" style="font-family: Nastaleeq, 'Pak Nastaleeq', Helvetica, Geneva, Arial, SunSans-Regular, sans-serif; font-size: 24px;"><b class="newshead2" style="color: olive; font-size: 20px;">خود کلامی</b><br /><b class="Byline" style="color: #4b7baf; font-family: Nastaleeq, 'Pak Nastaleeq', Helvetica, 'Urdu Naskh Asiatype', Geneva, Arial, SunSans-Regular, sans-serif; font-size: 16px;">ابراہیم جمال بٹ</b>..................<br /><br /><div align="justify">
<span class="text" style="font-size: 18px; font-weight: normal; text-align: right;"><div align="right" class="MsoNormal" style="margin: 0in 0in 10pt;">
<span style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.5333347320557px;"><span dir="rtl" lang="ER">میرے پیارے کشمیری بھائیو بہنو</span><span dir="ltr"></span><span dir="ltr"></span>!<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" style="margin: 0in 0in 10pt; text-align: justify;">
<span dir="rtl" lang="ER" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.5333347320557px;">ماہ ستمبر </span><span dir="rtl" lang="FA" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.5333347320557px;">۲۰۱۴</span><span dir="rtl" lang="FA" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.5333347320557px;"> </span><span dir="rtl" lang="ER" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.5333347320557px;">کو جب میں نے اپنا جلوہ دکھایا تو لوگ یا تو مجھے مذاق تصور کرتے تھے یا اپنے گھمنڈ اور غرور کے شکار ہو کر اپنی ہی من مانیوں میں مست تھے، ایسے میں جب میں نے اپنا جلال دکھایا تو ڈر کے مارے تم لوگ یا تو بھاگ گئے یا اپنے مال و جائداد کی محبت میں اپنے ہی گھروں میں ٹکے رہے، اور پھر جب میں سر سے گزر گیا توبھاگنے کا راستہ بھی نہ پاگئے۔ دراصل میرا ایک اصول ہے کہ میں آنے سے قبل ’’باخبر‘‘ نہیں کرتا ، میری آمد ایک اشارے کی محتاج ہوتی ہے اور جوں ہی یہ مجھے مل جائے اُسی دم میری آمد آمد ہو جاتی ہے لیکن یاد رہے میں بن بلایا مہمان نہیں ہوتا بلکہ میری آمد کے پیچھے راز ہائے دروں اور اسباب کا فسانۂ عجائب چھپا ہوتا ہے ان کو جاننے کے لیے انسان کے پاس ایک جام ِجم ہے، جس سے وہ جب چاہے یہ معلوم کر لے کہ مجھے کس نے بُلایااور کیوں۔ ماہ ستمبر کو جب میں نے اپنی آمد کا بگل بجا دیا تو وادی معمول کے مطابق اپنی زندگی جی رہی تھی، کوئی کاروبار میں مست تھا تو کوئی ملازمت میں محو، سکولی بچے امتحانات کی تیاری کر رہے تھے اور کئی لوگ خر چیلی شادیوں کی تیاریوں میں بھی مصروف تھے، ایک طرف لوگ فصلوں کی تیاری دیکھ کر کٹائی کی سوچ رہے تھے تو دوسری جانب لوگ سردی کے لیے انتظامات میں لگے ہوئے تھے کہ اچانک میں نے بستیوں اور بازاروں کھیت کھلیان اور کا رگاہوں میں اپنا ڈیرا جمایا ، لوگ ششدر تھے کہ میں نے نہ آئو دیکھا اور نہ ہی تائو ،بس اوپر چڑھتا ہی گیا، جہاں حکم ملا وہاں کی راہ لی، تم لوگ دوسری سے تیسری اور تیسری سے چوتھی منزل کی جانب بھاگتے رہے اور میں برابر پیچھا کرتا رہا۔ تم سے میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی بلکہ یہ حکم کی تعمیل تھی، جس حکم کی تعمیل کے آگے کسی اور کا حکم مجھ پر نہیں چلتا۔ میرے آنے سے قبل وادیٔ کشمیر کے بازار کس طرح چمک دمک رہے تھے ،یہ تم سب کو معلوم ہے اور آج بازاروں اور اس میں تجارت پیشہ دکانداروں وغیرہ کی حالت کیا ہے؟ اس سے بھی تم لوگ بخوبی واقف ہو۔ گویا خوشبوئیں بدبو میں تبدیل ہو گئیں۔ شاید دنیا کی اصل حقیقت یہی ہے کہ ہر چیز فانی ہے۔ بہر حال میری آمد تو ہوئی مگر ایک حد پار کر نے کے بعد مجھے بھی آخر کار حکماًرُکنا پڑا ، لیکن اس بیچ کیا سے کیا ہو گیا… اس کا اندازہ بھی تم لوگوںکو نہیں تھا۔</span><span dir="ltr"></span><span lang="ER" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.5333347320557px;"><span dir="ltr"></span></span><span style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.5333347320557px;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" style="margin: 0in 0in 10pt; text-align: justify;">
<span dir="rtl" lang="ER" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.5333347320557px;">اب جو ہوا سو ہوا، ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، لیکن کیا اسی پر بس کیا جائے یا اس پر سوچ کر کچھ کیا جانا چاہیے۔ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ جب بھی اسے کسی مشکل حالت کا سامنا پڑتا ہے تو وہ پہلے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے، جب مشکلات کے بھنور میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے تو کئی لوگ اپنی ہار تسلیم کر کے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ اس وقت یہ ہتھیار ڈال دینا انسان کے لیے فائدہ مند مانا جاتا ہے۔ وادی کے لوگوں پر جب مجھے بھیجا گیا تو لوگوں کی عقلمندی اسی میں تھی کہ وہ ہتھیار ڈال دیں، لیکن کیا کیا جائے کہ اکثر لوگ اب بھی ہتھیار ڈالنے کی نہیں سوچ رہے ہیں۔ اپنی من مانیاں کرنے میں ہی مست ہیں۔ یہ صرف اس وجہ سے کہ شاید اس غلط فہمی میں ہیں کہ یہ سیلاب ایک عارضی معاملہ تھا جو اب ٹل گیا، جان بچ گئی، اب پھر شروع کریں گے لیکن ان کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ جس حکم کی تعمیل میں میں نے یہ سخت ترین جلوہ دکھایا وہ پھر واپس بھی لوٹے گا، اسی کا حکم ایک بار پھر آسکتاہے۔ پہلے میں سیلابی ریلا بن کر آیا ، کیا پتہ خشک سالی ا ور وبا بن کر نمودار ہونے کا حکم ملے ۔میری آمد کئی ایک دوسرے طریقوں سے بھی ہو سکتی ہے، اس وقت میرا مزاج کیا ہو گا اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ اس وقت یہ ہتھیار نہ ڈالنے والے وادی کشمیر کے حق فراموش لوگ مشکلات کے بھنور میں پھنس جائیں گے۔یہ ضروری نہیں اس وقت پھر سے مہلت مل جائے۔ تو یہ ایک مہلت تھی جو تم لوگوں کو دی گئی، اب اگر رواں مہلت میں بھی من مانیاں جاری رکھ کر حاکمِ کائنات اور مد برِ آفاق کے آگے ہتھیار نہ ڈالے تو نہ جانے آنے والا کل تمہارا کل کیسا ہو گا۔ وہ کل جس کے متعلق اب افواہوں کی صورت میں آئے روز اخباروں میں شائع ہورہاہے کہ ’’عنقریب ایک زلزلہ آئے گا جس میں جانی ومالی نقصان کا بھاری خدشہ ہے۔‘‘ غرض یہ ہے کہ گناہوں اورجرائم سے باز اآؤ، اپنی من مانیاں ترک کر لو ، خالق ومالک کے سامنے عاجزانہ انداز میں سرتسلیم خم کر دو ، کردار اور گفتار بدل دو،لوٹ آئو، لوٹ آئو !ورنہ ایک ایسا طوفان آنے والا ہے جس کی زد میں آکر کوئی نہیں بچ سکتا۔ عقل مند لوگوں کی اصل بہادری یہی ہے کہ وہ اپنی خطا ولغزش تسلیم کر کے واحدا لقہار کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیں۔ اس لحاظ سے وادی کشمیر کے لوگوں سے میری دردمندانہ اپیل ہے کہ جلد از جلد اپنی اَنا چھوڑ کر، اپنی من مانی ترک کر کے، ایک مالک کے حکم کی تعمیل کریں تاکہ پھر سے ان کے لیے آفات وبلیات کا دروازہ نہ کھل پائے ،یہ میری عاجزانہ گزارش ہے ع</span><span style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.5333347320557px;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" style="margin: 0in 0in 10pt; text-align: right;">
<span style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.5333347320557px;"> <span dir="rtl" lang="ER">شاید کہ ُاترجائے تیرے دل میں میری بات</span><o:p></o:p></span></div>
<div>
<span style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.5333347320557px;"><span dir="rtl" lang="ER"><br /></span></span></div>
</span></div>
</b></td></tr>
</tbody></table>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-60452518295107663882015-01-02T07:27:00.003-08:002015-01-02T07:27:50.931-08:00پرانی یادیں اور نئی تیاریاں؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 style="text-align: left;">
<div style="text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">٭ابراہیم جمال بٹ</span></b></div>
<b><div style="text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">.....................</span></b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;"><br /></span></b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">نئے ہجری سال کے بعد اب ایک اور عیسوی سال کی کرنیں نمودار ہوئیں۔ سالِ ماضی جس میں ہم نے بہت سے اُتار چڑھائو دیکھے۔ کہیں پر امن دیکھا تو کہیں بارود کی بو محسوس کی، کہیں خوشیاں دیکھیں تو کہیں غم کے بادل ہی بادل نظر آئے۔ غرض سالِ ماضی بھی بدستور اپنی فطرت پر قائم رہ کر ہر چیز کو سامنے رکھئے ہوئے انسان کو ماضی سے مستقبل کی طرف دھکیل کر آخر کار رخصت ہوا مگر پنے پیچھے ایک تاریخ رقم کر کے انسان کے لیے نصیحت وعبرت کے نشان چھوڑ گیا۔ </span></b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">عالمی حالات پر ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو یہی کچھ معلوم ہوتا ہے کہ سالِ ماضی بنی نوع انسان کے لیے ایک پیغام چھوڑ گیا…اور وہ پیغام کسی خاص ذات کے لیے نہیں بلکہ عام انسانیت کے نام چھوڑ گیا ہے۔ پیغامات جب بھی بھیجے جاتے ہیں تو ایک عام انسان کے ساتھ ساتھ خاص لوگ بھی اسے دلچسپی کے ساتھ پڑھتے اور سنتے ہیں، بلکہ جس قدر پیغام دینے والا اہم ہو اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس پر سوچ سمجھ کرکسی حد تک غور بھی کیا جاتا ہے۔ انسانیت کے نام سالِ ماضی کا پیغام شاید اس سے زیادہ کچھ نہ تھا کہ ’’آئے تھے ہم اِک خوشی کا سامان لیکر اور گئے تو دیکھا غم کی بارش میں تم ہو ڈوبے ہوئے‘‘ چنانچہ سال ماضی ایک عبرت بھرا پیغام ہے انسانیت کے نام… انسان جس نے اپنی فطرت کے خلاف بدستور جنگ چھیڑرکھی ہے… اس کی طرف سے مسلسل اپنی اس غیر فطری جنگ میں شدت ہی لائی جا رہی ہے… غرض پوری دنیا جسے خالق کائنات نے امن کا گہوارہ بنا دیا تھا، جس کی فطرت عدل وقسط پر مبنی تھی، اس دنیا میں جب انسان کو بھیجا گیا تو اس کے بارے میں کہا گیا ’’ کہ انسان کی پیدائش فطرت پر ہوئی ہے‘‘… فطرت امن ہے نہ کہ بد امنی… جب بھی دنیا میں بدامنی یا فساد کا بازار گرم ہوا تو وہ انسان ہی کے ہاتھوں کی کمائی تھی… ’’ظہر الفساد فی البر والبھر بما کسبت ایدی الناس‘‘ ۔ </span></b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’عقل کا فلسفہ، پیغام اور درس ہے کہ خوش رہو، آباد رہو …’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ عیش وعشرت اور نازونعم سے زندگی گزارو۔ بس یہی دنیا ہے موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ ‘‘ بس یہی وہ چیز ہے جس نے انسان کو عیش کوش بنا ڈالا جس سے اس کی پوری زندگی میں فساد رونما ہوا کیوں کہ اس کی فطرت میں عیش کوشی نہیں تھی بلکہ اس میں عشق کا پیغام تھا کہ شعور کی بیداری کے ساتھ آئو ، خالق کائنات کی بندگی کا راستہ اور طریقہ اختیار کرو اور تمام ان چیزوں سے نہ صرف پرہیز بلکہ مقابلہ بھی کرو جو فطرت کے خلاف ہوں۔آزادی جس کے ساتھ تمہیں پیدا کیا گیا ہے ،آزاد رہ کر زندگی گزارو۔ اصل خوشی اور آزادی یہی ہے کہ تم فطرت پر قائم رہو۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’انسان فطرت میں آزاد تھا لیکن اب نسل در نسل غلام… غلامی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے… جس آزادی سے پیدا کیا گیا تھا اس کا تصور بھی اس کے لیے حرام۔ پیٹ کے بندے اور پیٹ کے غلام۔ ان کو چاہیے صرف اور صرف روٹی کپڑا اور مکان۔ بہر حال یہ آرزو ہے خام… بلند اور ارفع فطری آزادی کا پیغام… زندگی کا مقدس مقام، فطری آزادی کی زندگی کا ایک لمحہ اور غلامی کی زندگی کا دوام۔ غلام انسان کو اس کی ہے بہت کم پہچان… جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ہو رہا ہے بدامنی میں ہمارا بڑا مقام۔‘‘ </span></b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">بہر حال سالِ ماضی نے درس عبرت دے کر پھر سے ایک یاد تازہ کر دی کہ اے انسان! تو ہو جا بیدار! اپنی فطرت کا خیال کر! اور فطرت پے قائم ہو کر دنیا میں حاصل کر وہ مقام جس کی بابت تجھے کیا پیدا خالق کائنات نے۔ شر وفساد کے پھیلائو کو روکنے، ظلم واستحصال کے خلاف اُٹھنے، بدیوں کے مقابلے میں اچھائیوں کو پھیلانے کا کام ہاتھ میں لے کر اٹھ اور اپنی فطرت کاوہ نمونہ دکھا جس سے پوری بنی نوع انسان باخبر ہو جائے کہ اصل فطرت اور اصل آزادی کا تصور کیا ہے؟ </span></b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">ہر نیا سال انسان کے لیے ایک نیا میقات لے کر آتا ہے اس سال کا میقات سالِ ماضی کو دیکھ کر عبرت و نصیحت حاصل کرنی ہے… کیا کھویا اور کیا پایا… ؟اس پر غور کرنا ہے… کہاں جکے، کہاں بکے…؟ کہاں مرے ، کہا جئے… ؟ کیا کیا اور کیا کرنا تھا…؟ ان سب پر غور کرنا ہو گا، سوچ سمجھ کر ،صحیح راستہ اختیار کر کے اس نئے سال میں نئی شروعات کرنی ہے،یہی سالِ نو کا پیغام ہے اور یہی انسانی فلاح وکامیابی کا زینہ ہے۔ </span></b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">اگر اس نئے میقات میں انسان نے وہی کچھ کیا جو سال ماضی میں کرتے رہے،تو نہ جانے آگے جاکر ہمارا کیا حال ہو گا…؟ لیکن خالق کائنات نے اس بارے میں صاف کر دیا ہے کہ انسان نے اگر ظلم کی روش پر اپنی زندگی گزاری تو عنقریب وہ وقت آئے گا جب ـ:</span></b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">’’اور ذرا اُس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن (ظلم کرنے والے) دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے اُن کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا۔ پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟وہ جواب دیں گی :ہمیں اُسی خدا نے گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویا کر دیا ہے، اُسی نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اُسی کی طرف تم واپس لائے جا رہے ہو۔ تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمہیں یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے جسم کی کھالیں تم پر گواہی دیں گی بلکہ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو بھی خبر نہیں ہے۔ تمہارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا، تمہیں لے ڈوبا اور اسی کی بدولت تم خسارے میں پڑ گئے۔ اس حالت میں وہ صبر کریں (یا نہ کریں) آگ ہی ان کا ٹھکانا ہو گی، اور اگر رجوع کا موقع چاہیں گے تو کوئی موقع انہیں نہ دیا جائے گا ۔ ہم نے ان پر ایسے ساتھی مسلط کر دیے تھے جو انہیں آگے اور پیچھے ہر چیز خوشنما بنا کر دکھاتے تھے، آخر کار اُن پر بھی وہی فیصلہ عذاب چسپاں ہو کر رہا جو ان سے پہلے گزرے ہوئے جنوں اور انسانوں کے گروہوں پر چسپاں ہو چکا تھا، یقیناً وہ خسارے میں رہ جانے والے تھے ۔‘‘(حٰمٓ سجدہ)</span></b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span style="color: blue;">سال نو کی آمد مبارک ہو مگر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سالِ ماضی کا کیا پیغام ہے…؟ ’’ بنی نوع انسان کو پیام اور پیغام دیا جاچکا ہے اور آج کے دور اور ابتدائے آفرینش سے جب جب انسان اس اِلٰہی اور ابدی ہدایت کے راستے سے منحرف ہوا ہے وہ اپنے لئے بھی اور پوری انسانیت کے لئے بھی تباہی اور بربادی کا سبب بنا ہے۔… انسان کا اصل کام اور مقام یہ ہے کہ وہ آنکھیں کھول کر حق کو دیکھے، یہی اُس کی بندگی کا تقاضا اور مطالبہ ہے۔ اپنے آپ کو پہچاننا اور کسی چیز کو اس پہچان میں حائل نہ ہونے دینا، اصل زندگی ہے۔ جب آج کا بندہ زندگی کے حقائق کو پہچانتا اور بندگی کے فرائض انجام دیکر اس کو زینت بخشتا ہے تو خود باری تعالیٰ اس بندے پر رحمت برساتا اور اُس کو اپنی عنایات اور نوازشات سے نوازتا ہے۔ ٭٭٭٭</span></b></div>
</b></h2>
<div>
<br /></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-20238702877017780942014-11-30T09:11:00.004-08:002014-11-30T09:11:54.048-08:00آفاتِ سماوی بنام عوام الناس <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 style="text-align: justify;">
<b><span style="color: red;">٭ابراہیم جمال بٹ</span></b><b>......................</b><b><br /></b><b>ماہ ستمبر ۲۰۱۴ء کو جب میں نے اپنا جلوہ دکھایا تو لوگ یا تو مجھے مذاق تصور کرتے تھے یا اپنے گھمنڈ اور غرور کے شکار ہو کر اپنی ہی من مانیوں میں مست تھے، ایسے میں جب میں نے اپنا سخت اور تاریخ ساز جلوہ دکھایا تو ڈر کے مارے لوگ یا تو بھاگ گئے یا اپنے مال و جائداد کی محبت میں اپنے ہی گھروں میں ٹکے رہے، اور پھر جب میں چڑھتا ہی گیا تولوگ بھاگنے کا راستہ بھی نہ پائے۔ دراصل میرا ایک اصول ہے وہ یہ کہ میں آنے سے قبل ’’باخبر‘‘ نہیں کرتا ، میری آمد ایک اشارے کی محتاج ہوتی ہے اور جوں ہی مجھے اشارہ مل جاتا ہے اُسی دم میری آمد آمد ہو جاتی ہے۔ لیکن یاد رہے میری آمد یوں ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے ایک راز چھپا ہوتا ہے جس کو جاننے کے لیے انسان کے پاس چابی مہیا رکھی گئی ہے۔ وہ جب چاہے یہ راز کھول کر اپنی جگہ معلوم کر سکتا ہے کہ ’’میری آمد کی آخر وجہ کیا تھی۔‘‘ </b><b>گزشتہ ماہ کی پہلی دہائی میں جب میں نے اپنی آمد کا اشارہ دیا تو وادی کے لوگ معمول کے مطابق اپنی زندگی جی رہے تھے، کوئی کاروبار میں مست تھا تو کوئی ملازمت کی ذمہ داری میں محو، سکولی بچے امتحانات کی تیاری کر رہے تھے اور کئی لوگ شادیوں کی تیاریوں میں بھی مست تھے، ایک طرف لوگ فصلوں کی تیاری دیکھ کر کٹائی وغیرہ کی سوچ رہے تھے تو دوسری جانب لوگ سردی کے موسم کے لیے انتظامات میں لگے ہوئے تھے… اچانک میرا اشارہ محسوس کیا گیا… لوگ آپس میں چہ میگوئیاں ہی کر رہے تھے کہ میں نے نہ آئو دیکھا اور نہ ہی تائو ،بس چڑھ گیا، جہاں اشارہ مل چکا تھا وہاں کی راہ لی،اور چڑھتا ہی گیا، لوگ دوسری سے تیسری اور تیسری سے چوتھی منزل کی جانب سفر کرتے رہے، لوگ بھاگتے گئے اور میں برابر پیچھا کرنے میں مست تھا۔ یہ میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں ، بلکہ حکم کی تعمیل تھی، جس حکم کی تعمیل کے آگے کسی اور کا حکم مجھ پر نہیں چلتا… مجھے حکم ملا اور میں نے ’’آمنا واطعنا ‘‘کہہ کر سرتسلیم خم کر دیا۔ جب میں آیا تو وادی کشمیر میں اس سے قبل کی حالت اور تھی اور اب میرے لوٹ جانے کے بعد حالت کچھ اور ہی ہے۔ میرے آنے سے قبل وادیٔ کشمیر کے بازار کس طرح چمک دمک رہے تھے یہ سب کو معلوم ہے اور آج بازاروں اور اس میں تجارت پیشہ دکانداروں وغیرہ کی حالت کیا ہے اس سے بھی آپ بخوبی واقف ہیں۔ جہاں دکانوں سے خوشبو آرہی تھی آج ایک عام انسان وہاں سے گزر کر اپنی ناک پر رومال رکھ کر چل رہا ہے، گویا خوشبو بدبو میں تبدیل ہو گئی۔ شاید اسی کا نام دنیا ہے، شاید دنیا کی اصل حقیقت یہی ہے۔ بہر حال میری آمد تو ہوئی اور آخر کار میرا ہاتھ اور میرے پیر رُک گئے، مجھے بھی آخر کار رُکنا پڑا… اپنی مرضی سے نہیں بلکہ پہلے ایک حکم نامہ ملا اور میں چڑھ دوڑا اور اب پھر حکم ملا تو میں مکمل طور سے رُک گیا۔ لیکن اس بیچ کیا سے کیا ہو گیا… اس کا اندازہ بھی لوگوںکو نہیں تھا۔ </b><b>اب جو ہوا سو ہوا، ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، لیکن کیا اسی پر بس کیا جائے یا اس پر سوچ کر کچھ کیا جانا چاہیے۔ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ جب بھی اسے کسی مشکل حالت کا سامنا پڑتا ہے تو وہ پہلے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے، جب مشکلات کے بھنور میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے تو کئی لوگ اپنی ہار تسلیم کر کے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ اس وقت یہ ہتھیار ڈال دینا انسان کے لیے فائدہ مند مانا جاتا ہے۔ کیوں کہ جس قدر جو طاقت ہو اسی کے لحاظ سے انسانی ردعمل کا اظہار ہوتا ہے۔ وادی کے لوگوں پر جب مجھے بھیجا گیا تو پہلے پہل لوگوں نے یہی طریقہ اختیار کیا، انہوں نے اپنے گھروں میں رہ کر ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ٹھان لی لیکن جب پانی سر سے اُوپر ہو گیا تو لوگوں کی عقلمندی اسی میں تھی کہ وہ ہتھیار ڈال دیتے، لیکن کیا کیا جائے کہ اکثر لوگ اب بھی ہتھیار ڈالنے کی نہیں سوچ رہے ہیں۔ اپنی من مانیاں کرنے میں ہی مست ہیں۔ یہ صرف اس وجہ سے کہ شاید وہ سوچ رہے ہیں کہ یہ ایک عارضی معاملہ تھا سو معاملہ اب ٹل گیا، جان بچ گئی، اب پھر شروع کریں گے۔ لیکن ان کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ جس حکم کی تعمیل میں میں نے یہ سخت ترین جلوہ دکھایا وہ پھر واپس بھی لوٹے گا، اسی کا حکم ایک بار پھر آسکتاہے، ایک بار پھر میری آمد دوسرے طریقوں سے ہو سکتی ہے، اس وقت میرا مزاج کیا ہو گا اس کا اندازہ کرنا ہی مشکل ہے، اس وقت یہ ہتھیار نہ ڈالنے والے وادی کشمیر کے لوگ مشکلات کے بھنور میں پھنس جائیں گے، آج اگرچہ ایک موقعہ مل چکا ہے ،یہ ضروری نہیں اس وقت پھر سے موقعہ مل جائے۔ تو یہ ایک مہلت تھی جو تم لوگوں کو دی گئی، اب اگر اس مہلت میں بھی من مانیاں جاری رکھ کر حاکم کے آگے ہتھیار نہ ڈالے تو نہ جانے آنے والا کل ہمارا کیسا ہو گا۔ وہ کل جس کے متعلق اب افواہوں کی صورت میں آئے روز اخباروں میں شائع ہورہاہے کہ ’’عنقریب ایک زلزلہ آئے گا جس میں جانی ومالی نقصان کا بھاری خدشہ ہے۔‘‘ </b><b>غرض یہ ہے کہ ہتھیار ڈال دیا جائے، اپنی من مانیاں ترک کی جائیں اور جس نے مجھے آپ پر چڑھنے کا حکم دے کر پھر ایک موقعہ عنایت فرمایا اس کے آگے سرتسلیم خم کر دیا جائے۔ یہی ایک راستہ ہے جس راستے پر چل کر ہماری آنے والی مشکلات کا ازالہ ممکن ہے۔ ورنہ یوں ہی اگر زندگی من مانیوں کی پٹری پر چلتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب میرا جلوہ اس قدر سخت ترین ہو گا کہ نہ تم رہو گے اور نہ ہی تمہاری یہ من مانیاں۔ </b><b>لوٹ آئو، لوٹ آئو !ورنہ ایک ایسا طوفان آنے والا ہے جس کی زد میں آکر کوئی نہیں بچ سکتا۔ مصیبت ٹال کر یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم پست ہو گئے بلکہ عقلمندی یہی ہے اور عقل مند لوگوں کی اصل بہادری یہی ہے کہ وہ اپنی خطا تسلیم کر کے ہتھیار ڈال دیں۔ اس لحاظ سے وادی کشمیر کے لوگوں سے میری دردمندانہ اپیل اور گزارش ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی ’’اَنا‘‘ کو چھوڑ کر، اپنی من مانی زندگی کو ترک کر کے، ایک مالک کے حکم کی تعمیل کریں تاکہ پھر سے ہمارے لیے آفات کا دروازہ نہ کھل پائے۔ میری گزارش بس ایک امید پر ہے کہ شاید آپ سمجھ جائیں۔ باقی والسلام ٭٭٭٭٭</b></h2>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-32760598678342082642014-10-21T09:22:00.000-07:002014-10-21T09:22:32.903-07:00کمر ٹوٹی پر کیا دل بھی ٹوٹا…؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: justify;">
<b>(ابو محمد حمزہ…سرینگر) </b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>..................................</b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b><br /></b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b><br /></b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>وادیٔ کشمیر کے عزیزو!حالیہ سیلاب نے کس قدر ہماری کمر توڑ ڈالی اس کا اندازہ کرنا اگرچہ بہت مشکل ہے تاہم ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ سیلاب سیلاب نہیں بلکہ ایک ایسا طوفان تھا جس نے بستیوں کی بستیاں اُجاڑ کر رکھ دیں، بے شمار علاقوں کوزمین بوس کر دیا، کئی مقامات پر اس قدر جانی نقصان ہوا کہ جس کی تلافی ناممکن ہے، جانی نقصان کے ساتھ تجارت سے وابستہ لوگوں کی مالیات کانظام اس قدر متاثر ہوا کہ شاید برسوں لگ جائیں گے اُسے پھر سے حاصل کرنے میں۔ لاکھوں نہیں، کروڑوں نہیںبلکہ اربوں اورکھربوں کی مالیت کا نقصان ہوا، سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا، پانی کے اس طوفانی ریلے نے اس قدر اچانک تباہی مچا دی کہ کئی لوگ آج آنکھیں موندھ رہے ہیں کہ شاید یہ کوئی خواب تھا… پر کیا کریں یہ خواب نہیں ایک زندہ حقیقت ہے، آنکھیں موندھ لینے سے حقیقت خواب میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔ یہ ایسا طوفان تھا جس سے یہ بات عیاں ہو کر سامنے آگئی کہ جب خدا کی مار پڑتی ہے تو اس طرح پڑتی ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ کہاں سے پڑی؟ خدا کا غضب ہو یا خدا کی طرف سے آزمائش، یہ دونوں صورتیں اچانک اپنا جلوہ دکھاتی ہیں۔ یہ سیلابی طوفان جس نے وادیٔ کشمیر کو اپنی گرفت میں لے لیا، ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ طوفان خدا کا غضب تھا یا آزمائش… لیکن اگر خود کو اپنی اپنی جگہ جانچ لیں تو ضرور معلوم ہو گا کہ یہ کیا کچھ تھا…؟ </b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>وادیٔ کشمیر کی بہنو اور بھائیو! خدا کی طرف سے بھیجا گیا یہ سیلابی طوفان اب جو کچھ بھی تھا … آگیا، لیکن اس طوفان سے ہم نے دیکھا کہ اس نے وہاں وہاں قدم ڈالے جہاں کے ساکنین اس کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، جہاں کے لوگوں کو خیال تھا کہ ’’ہم وہاں رہ رہے ہیں جہاں ایسے طوفانوں کا سایہ بھی نہیں پڑ سکتا‘‘ اس طوفان نے نہ آئو دیکھا نہ تائو، جہاں جی چاہا گھس آیا، جسے مٹانا چاہامٹا دیا، جس رکھنا چاہا اسے اس طرح محفوظ رکھا کہ لوگ دیکھتے ہی رہ گئے۔ مجموعی طور سے یہ سیلابی ریلا ایک عبرت ناک اور وحشت ناک منظر تھا، اس ریلے نے ایک طرف جانی نقصان کا نظارہ کرایا تو دوسری جانب مالی نقصان سے اس قدر دوچار کرایا کہ عمر بھر کی کمائی یکدم خاک میں ملا دی۔ اس کی مار نے نہ گائوں دیکھا اور نہ ہی شہر … نہ اسلام آباد وکولگام دیکھا نہ شہر سرینگر کا دل لال چوک ، نہ ہی کرن نگر دیکھا اورنہ ہی بمنہ بلکہ جہاں جہاں اس سیلابی ریلے کو اجازت ملی تھی اس نے وہاں گھس کر تباہی مچا دی۔ </b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>میرے عزیزو! طوفان آیا اور اب لگ بھگ ایک مہینہ گزرنے کے بعد تھم گیا، اس طوفان نے کیا کچھ دیا اور کیا کچھ لیا اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے لیکن میرے عزیزو! یہ جان لینا چاہیے کہ یہ طوفان طوفان نہیں بلکہ ایک قیامت تھی، قیامت کا ایک ایسا منظر تھا جب النفسی النفسی کا عالم ہو گا، جب لوگ بھاگنے کی کوشش کریں گے لیکن وہ دن ایسا ہو گا کہ اس کا بھاگنا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا، اس کو گھیر لیا جائے گا، اس پر اس قدر گھیرائو کیا جائے گا کہ بھاگنے کی سوچ بھی لے تو بھی نہیں بھاگ سکتا اور اگر بھاگ بھی جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ سیلابی طوفان جب آیا اس نے بھاگنے کا موقع بھی نہیں دیا، اس قدر چڑھا کہ یکدم منزلوں کی منزلیں پانی میں گم ہو گئیں۔جہاں لوگوں کے مسکن تھے وہاں پانی ہی پانی نظر آرہا تھا، چھتوں کے اوپر سے کشتیوں میں درماندہ لوگ سفر کر رہے تھے۔ لوگوں کی تین تین منزلہ عمارتیں بھی کم پڑ گئیں۔ </b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>وادیٔ کشمیر کی بہنو اور بھائیو! ہم نے اس سیلابی سفر کا نظارہ کر لیا، اس کا مشاہدہ ہو چکا، اس کے خطرات سے ہم فی الحال نکل چکے، اس کی تباہی دیکھ چکے۔ اب ہماری سوچ کیا کچھ کہتی ہے؟ کیا یہ طوفانی ریلا آزمائش تھی یا خدا کا غضب اور عذاب…؟ عزیزو! کیا ہم نے اس پر غور کیا ہے؟ یا پھر اسی طرح دن گزار رہے ہیں جس طرح اس سے قبل کی زندگی گزر رہی تھی۔ کیا ہم نے اپنے نفس کا خود ہی جائزہ لیا؟ کہ یہ طوفان عذاب تھا یا آزمائش؟ اگر آزمائش تھی تو اس کا ثمر ’’زاد ایمانھم‘‘ ہے اور اگر عذاب تھا تو ہم نے اپنی تبدیلی کا کیا کچھ سوچا ہے؟ کہیں ایسا نہ کہ ہم پھر سے گھیر لیے جائیں… کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کو پھر اس طرح کے مناظر دیکھنا پڑھیں… مشہور مقولہ ہے کہ ’’اپنا حساب لو قبل اس کے کہ آپ کا حساب لیا جائے‘‘۔ میرے بھائیو! حساب و جائزہ کا وقت آگیا ہے۔ </b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>اس طوفان نے ہماری کمر توڑ ڈالی لیکن ہمارا دل ابھی بھی ویسا ہی ہے جیسا اس سے قبل تھا؟ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’کمر ٹوٹی مگر دل نہ ٹوٹا‘‘ کہیں یہ سچ تو نہیں؟ اگر اس سیلابی طوفان سے ہماری کمر کے ساتھ ساتھ دل بھی ٹوٹ چکے ہیں تو تبدیلی آنی ضروری ہے، تبدیلی آئے گی تو خدا کا یہ ایک اور موقعہ ہم کو اپنی منزل پانے کا ایک ذریعہ بن جائے گا اور اگر زندگی برابر اسی نہج پر چلتی رہے جس پر اس سے قبل چل رہی تھی تو خدا کا یہ دیا ہوا ایک اور موقعہ شائد ہماری مکمل تباہی و خسرانِ دارین کا موجب بن جائے گا۔ </b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>یاد رکھئے جب ایسے مناظر پیش آتے ہیں تو کوئی کسی کا اصل مدد گار نہیں بنتا، سب اپنی اپنی راہ چلتے دکھائی دیتے ہیں، خدا کی دی ہوئی یہ زندگی جو اب بھی باقی ہے… شائد ایک اور موقعہ عنایت فرمایا گیا ہے، ہمیں اس کا فائدہ اُٹھانا چاہیے، اس ایک موقعے کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہو گا کہ ہم پلٹ کر اپنے وجود کا حساب لیں، ہم وہ سب کچھ چھوڑ دیں جس کی پاداش میں ہمیں اس طوفان نے آگھیر لیا… جس کی وجہ سے ہم کو برسوں کی کمائی کا خسارہ دیکھنا پڑا۔ </b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>خیالی باغ دکھانے والے ہم کو اس طوفان میں اکیلے چھوڑ گئے… کوئی حامی ومددگار نہیں دکھائی دیا… ہم سب نے جو کچھ کیا بس وہی کچھ تھا… باقی خواب دکھانے والے لوگ یا تو خود بھاگ گئے یا اس قدر خاموش رہے کہ جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا تھا۔ بھانت بھانت کی بھولیاں بھولنے والے لوگ اپنی کرسیاں اور اپنا الو سیدھا کرنے اب ہمارے شہروں، علاقوں اور گھروں کا رخ کر رہے ہیں، کہیں نامنہاد ریلیف کے نام پر تو کہیں چادر اور چاول وغیرہ کے نام پر۔ لیکن ان کا اصل مقصد کیا کچھ ہے اس کا اندازہ شائد ہم کو ہو گیا ہو گا۔ جب ہم گرفتارِ طوفان تھے تو نظر نہیں آئے اور اب جب ہم کو ایک اور مہلت نصیب ہوئی تو دور سے ہمیں زندہ دیکھ کر واپس ہماری طرف آئے… ا س طرح آئے کہ جیسے کہ وہ سچ مچ ہمارے مسیحا ، حامی ومددگار ہوں، لیکن حقیقت پر سے پردہ نہیں ہٹایا جا سکتا، وہ لوگ کس قدر بے وقوف اور نادان ہوں گے جو اب بھی ان کی شاطرانہ چالوں کا شکار ہو کر اپنی زندگی کو خطرات کے بھنور میں دکھیل دیں۔ یہ نادانی ہی نہیں بلکہ مستقل خسران اور تباہی کا نظارہ ہو گا۔ </b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>میرے عزیزو!ہم میں تبدیلی ضروری ہے، تبدیلی ایسی کہ دوبارہ ایسی جان لیوا صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہماری زندگی گزارنے کی سوچ بدل جانی چاہیے۔ ہمارا رہن سہن، ہماری تجارت، ہماری تعلیم وتعلم، ہماری سیاست ومعیشت، ہمارا چلنا پھرنا، ہمارا ایک ایک لمحہ گزارنا، اس سب میں تبدیلی ضروری ہے۔ </b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>میرے بھائیو اور عزیز بہنو! ہمیں دل کا جائزہ لے کر ،اپنے اعمال کا حساب لے کر، ایک ایسا طریقہ اختیار کرنا ہے جس میں فلاح وکامیابی ہو، جس میں دارین کی خوشیاں ہوں، جس میں ترقی اورامن وسکون ہو۔ </b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>یہ ایک درد بھری پکارہے ، اس پکار کو کوئی تحریر نہ سمجھ لیں بلکہ یہ پکار دل کی ایک آواز ہے، ایک بد نصیب کی زبان ہے، جس نے سمجھ لیا ہے کہ یہ طوفان اس کے لیے ایک عذاب تھا نہ آزمائش۔ اُٹھئے اور خود کا جائزہ خود ہی لیجئے، اپنا مفتی آپ بنئے، اپنے طور طریقے کے انداز کو خود دیکھئے اور جاننے کی کوشش کیجئے کہ ہم کو کس نے گھیر لیا ،کیوں گھیر لیا؟ اور اب کیوں ایک اور مہلت دی گئی۔ ؟؟؟اللہ ہمارا حامی وناصر ہو،آمین۔ </b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>///……///</b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b><br /></b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>……………………</b></div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-60941523512620003232014-06-23T22:52:00.000-07:002014-06-23T22:52:06.823-07:00قلت وکثرت ایک لاحاصل بحث <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: justify;">
<b>٭ابراہیم جمال بٹ</b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>....................</b></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<b><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjWkTEPiiiznt5PPW_jc7AWAysLE-OlufgaayQ877D42cxAnWMCaXWAqbYcSOpWsy18eSulmfejYhpU6R7q22WgKbaZH2imV8wXacTU9AuC-gdD5OTFNke7Jf4i-2FoKHD_b1FdFcmtQMM/s1600/563833_579850168709240_1194658745_n.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjWkTEPiiiznt5PPW_jc7AWAysLE-OlufgaayQ877D42cxAnWMCaXWAqbYcSOpWsy18eSulmfejYhpU6R7q22WgKbaZH2imV8wXacTU9AuC-gdD5OTFNke7Jf4i-2FoKHD_b1FdFcmtQMM/s1600/563833_579850168709240_1194658745_n.jpg" height="200" width="188" /></a></b></div>
<br />
<div style="text-align: justify;">
<b><br /></b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>تاریخ اس بات پرگواہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی انقلاب آیا اس کااکثریت کے بجائے اقلیت نے ہی ساتھ دیاہے۔ ہر دور میں کسی نہ کسی سطح کے انقلابات آئے ، جن میں کئی عوامی انقلابات تھے اور کئی سیاسی سطح کے انقلابات، کہیں اصلاحی تحریکوں نے اصلاحی انقلاب لائے تو کہیں سماجی، سیاسی، معاشی اور اسی طرح دیگر انقلابات لائے گئے، غرض جس قسم کا بھی انقلاب آیا، اس کے لانے والے اکثریت میں نہیں اقلیت میں رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اکثر مذہبی انقلابات بھی اقلیت میں شمار لوگوں نے لائے بلکہ وہ بھی ایک قلیل تعداد کی وجہ سے ہے لائے جا چکے ہیں۔ چنانچہ اس تناظر میں آج کے حالات پر غور کیا جائے تو دنیا میں فی الوقت کئی ایسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ آئندہ اس دنیا میں ایک ایسے انقلاب کی خاموش آواز سنائی دے رہی ہے جس سے پوری دنیا میں ایک تبدیلی رونما ہو گی۔ اس قدر تبدیلی کہ دنیا میں بسنے والے لوگ اس انقلاب کے بیچوں بیچ اپنے آپ کو پُر سکون محسوس کریں گے۔ اس کی صدائیں آج پوری دنیا سے آرہی ہیں، یہ انقلاب آئے گا لیکن اس انقلاب کو لانے والا نہ تو کوئی خاص قوم ہو گی اور نہ ہی کوئی خاص ذات، بلکہ اس انقلاب کولانے والا دنیا کی ایک قلیل تعداد ہو گی، جس سے تاریخ کے اوراق پر ایک بار پھر سنت الٰہی کا وہ قاعدہ سامنے آئے گا کہ ایک چھوٹی سے جماعت پوری قوم، انسانیت، اور دنیا میں بسنے والے لوگوں کے لیے باعث ِفخر ،امن وسکون کا موجب قرار پائے گا۔ یہ چھوٹی موٹی جماعت جس کی افرادی قوت اگرچہ مخصوص اور قلیل تعداد ہو گی، تاہم ان میں ایسا ولولہ اور جزبہ ہو گا جو قلت کے باوجود اکثریت پر غالب ہو کر انقلاب کا باعث بن جائیں گے۔ سابقہ تواریخ کی ورق گردانی بھی کریں تو یہی کچھ سمجھ آتا ہے کہ انقلاب کثرت (Quantity) نہیں بلکہ (Quality)چاہتی ہے اور جب بھی کوئی انقلاب آیا تو اسی اصول پر آیا۔ غرض آج جس انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں وہ تو دیر سویر آکر ہی رہے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس میں ہمارا کس قدر حصہ ہو گا۔ لہٰذا اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے انقلابی صفات پیدا کر کے، اپنے اندر ولولہ وجذبہ ٔانقلاب پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ ولولہ اور جذبۂ انقلاب کوئی ایسی چیز نہیں کہ انسان چاہے تو حاصل کر سکتا ہے،بلکہ اس جذبہ اور ولولہ کے لیے ایک سہارے کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ سہارا ہے خدائے ذوالجلال۔ خدا کا فضل ۔ انسان کی کوشش اور مسلسل استقامت کے ساتھ اللہ کی تائید و نصرت کا خیال کرتے ہوئے انقلاب کی خواہش رکھنا ہی انقلاب برپا ہونے کی دلیل ہے۔ آج جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں وہاں بہت سارے لوگ جو اپنے آپ کو ’’داعیٔ انقلاب‘‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ انقلاب ایک ایسی شئے ہے کہ ایک بڑی تعداد کو جمع کر کے انقلاب لایا جا سکتا ہے، لیکن ان کی یہ سوچ تب تک ’’خیالی سوچ ‘‘ہی کہلائے گی جب تک نہ ان کے اندر اس بات پر ایمان مستحکم ہو جائے کہ’’ انقلاب میں قلیل و کثیر کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ قلیل ہی اکثر و بیشتر کثرت پر غالب ہو کر اس کے باعث بن چکے ہیں‘‘ حق اور ناحق کا فیصلہ کرنا ہو تو یہ ضروری نہیں کہ اکثریت جس طرف ہو، وہی حق اور قلت جس جانب ہو گی وہی ناحق کہلائیں گے بلکہ تاریخ ِاسلامیہ میں یہ رقم طراز ہے کہ میدان اُحدمیں جب جیت مسلمانوں کی ہو رہی تھی تو صحیح اور غلط میں تمیز کرنا خدائے ذوالجلال کا اصل منشا ء تھا، قلت وکثرت کی عمومی سوچ پر ضرب لگانی مقصود تھی، کہ جس مختصر سی جماعت کو جو غالباً چالیس صحابیوں سے زیادہ نہ تھے کو ایک درّے پر رکھ دیا گیا، جنہیں حکم دیا گیا تھا کہ جو کچھ بھی جنگ کا فیصلہ ہو ، اس درّے سے نہ ہٹنا، اورجب مسلمانوں نے کفار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور وہ پیٹھ پیچھے بھاگتے نظر آئے ، تو اس درّے پر یہ جانثار صحابی جنہیں اللہ کے آخری ومکمل پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺنے اس درے سے کسی بھی حالت میں نہ ہٹنے کا حکم دیا تھا جب انہی میں سے ایک بڑی تعداد (غالباً 40میں سے30) نے اس درّے سے ہٹتے ہوئے مالِ غنیمت وغیرہ جمع کرنا شروع کیا تو جنگ کی دوسری ہی حالت سامنے آئی۔ جس درّے پر چالیس مسلمانوں کا پہرا تھا اس پر اب چند گنے چنے مسلمانوں ہی رہے… جیت کے اس لمحہ میں جنگ کے دوران ایسا پلٹ وار ہوا کہ بے شمار مسلمان شہید ہو گئے… لیکن اس قلیل اور کثیر کے فیصلے پر ایک ضرب لگانی تھی سو اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیغمبرِ اسلامﷺ کے ذریعے سے مسلمانوں تک یہ پیغام پہنچا دیا کہ جو قلیل تعداد ہونے کے باوجود، جیت کا سماں دیکھتے ہوئے بھی درّے پر ہی برابر کھڑے رہے، اگرچہ ان کی تعداد میں اب تین حصے کم ہو گئے تھے، وہی اس وقت صحیح تھے بجائے کثیر تعداد کے۔ غرض اس دنیا میں جب بھی کوئی انقلاب آیا تو اس انقلاب میں قلیل وکثیر بحث ایک لاحاصل عمل رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی ہوئی ہے کہ انقلاب کثرت تعداد نہیں بلکہ خصوصیات کے حامل لوگوں کو دیکھتی ہے۔ آج بھی اگر ہم دیکھیں تو کئی لوگ اسی زعم میں مبتلا ہیں کہ ایک بڑی تعداد جمع کی جائے تاکہ ایک انقلاب لایا جائے لیکن ان کے سامنے اسلامی تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں کہ انقلاب ہمیشہ انقلابی لوگوں نے لائے ہیں اور وہ لوگ اکثر وبیشتر قلیل ہی ہوتے آرہے ہیں۔ چنانچہ ان حالات میں عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو یہی کچھ سامنے آرہا ہے کہ جہاں بھی کوئی اصل تبدیلی آئی اس کے پیچھے مخصوص اور محدود صالح عنصر کارفرما تھا ۔ آج دنیا کے جس کونے میں بھی دیکھیں تو بظاہر بے شمار تبدیلیوں کے اشارے مل رہے ہیں لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ جن سے تبدیلیوں کا اشارہ مل رہا ہے ان کا بھی یہی ذہن بن چکا ہے کہ جب تک نہ افرادی قوت میں اضافہ ہو جائے کوئی مضبوط اور مستحکم انقلاب نہیں لایا جا سکتا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اسلامی تاریخ کا ہی مطالعہ غور سے کریں تو وہاں بھی یہی کچھ نظر آتا ہے کہ ایک طرف پوری عرب دنیا اور دوسری جانب مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد ہے، لیکن اس کے باوجود بھی اسلامی انقلاب آیا … ایسا انقلاب کہ جس نے اپنے پیچھے آج تک اپنے وہی اثرات چھوڑے ہیں کہ آج بھی اسی انقلاب کی باتیں ہی نہیں بلکہ انتظار ہو رہا ہے۔ اس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی انقلاب کی آمد آمد کی جو آج کل باتیں ہو رہی ہیں، انشاء اللہ وہ اصل صورت میں آئے گا، لیکن اس کے لیے کسی ایسے خیال میں رہنا کہ جب لوگوں کی ایک جم غفیر جمع ہو گئی تو یہ انقلاب آئے گاایک لاحاصل سوچ ہے جس کا حاصل کچھ نہیں ہے۔ </b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>٭٭٭٭٭</b></div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-6812370089292660892014-06-23T22:39:00.000-07:002014-06-23T22:39:17.498-07:00روزہ کی غا یت اولیٰ .............انقلاب کے بد ن میں اصلا ح کی روح<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h3 style="text-align: justify;">
<b>٭ابراہیم جمال بٹ</b></h3>
<h3 style="text-align: justify;">
<b>....................</b></h3>
<h3 style="text-align: left;">
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
<b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>ہر سال کی طرح امسال بھی ایک بار پھر ماہ رمضان کی مبا رک دستک سنا ئی دے رہی ہے۔ اہل ایمان اس ماہ مقدس کے انتظار میں ہمیشہ بیتاب وبے قرار رہتے ہیں۔ یہ اسی مہینے کا ثمرہ ہے کہ گناہ گار انسان نہ صرف پچھلے تمام گناہوں کو سامنے لا کر ان کو خدا کے حضور معاف کرانے کے لئے اس کی چوکھٹ پر گویا دھرنا دے کر بیٹھتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ با بر کت مہینہ ایک آئینہ ہے جو مومن اور مسلمان کے ظاہر وبا طن کی پہچان کراتا ہے کہ وہ اصلاً کیا ہے، کس حال میں ہے اور اس کی اصل کامیابی و ناکامی کن امور اور اعمال میں پنہا ں ہے۔ یہ اسے دیکھنے اور سنبھالنے کا سنہری موقع فراہم کرتا ہے کہ اس کو کہا ں کہا ں صفائی اور پاکی حا صل کر نے میں لگ جا نا ہے۔ چناں چہ حقیقتِ صیام کو سمجھنے کے لیے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی وہ مثال کافی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ:</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>’’سکتہ کے مریض کا آخری امتحان اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں۔ اگر آئینہ پر کچھ دُھندلاہٹ پیدا ہو تو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے، ورنہ اس کی زندگی کی آخری امید بھی منقطع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی کسی بستی کا تمہیں امتحان لینا ہو تو اسے رمضان کے مہینے میں دیکھو۔ اگر اس مہینے میں اس کے اندر کچھ تقویٰ، خوفِ خدا، کچھ نیکی کے اُبھار کا جذبہ نظر آئے تو سمجھو ابھی زندہ ہے، اور اگر اس مہینے میں نیکی کا بازار سرد ہو، فسق وفجور نمایاں ہوں، اور اسلامی حس مردہ نظر آئے تو ’’انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لو‘‘ اس کے بعد زندگی کا کوئی سانس مسلمان کے لیے مقدر نہیں ہے‘‘۔</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>شاعر مشرق علامہ اقبالؒنے فرمایا ہے ؎</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b>سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b>ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>ماہ رمضان المبارک انسان میں تبدیلی لانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ گمراہی، بد عملی یا گناہ سرزد ہو نے کے بعد اگرایک ایما ن والے میں صحیح اسلا می ہدایا ت و تعلیمات کی طرف رحجان نہ بڑھے تو اس کا خسارے میں پڑ جانا یقینی ہے۔ ماہ مبارک کا یہی پیغام اور یہی کام ہے کہ ایسے شخص کو پھر سے تائب ہوکر ایمان اور نیک عملی کی طر ف بڑ ھنے کا حو صلہ ملے۔ چناں چہ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ:</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>’’جب عالم انسانیت میں اخلاق و کردار کے چشمۂ سافی سوکھنے لگتے ہیں، روحانیت دم توڑنے لگتی ہے، چمنستان قلوب میں ویرانی چھا جاتی ہے، گلستانِ خیر و خوبی کی رعنائیاں شروفساد کی ظلمتوں میں بدل جاتی ہیں اور انسانیت سسکنے لگتی ہے تو رحمتِ خدا وندی جوش میں آجاتی ہے۔ گردش لیل و نہار نیکی وتقویٰ کی بہار کا مژدہ سناتی ہے اور عالم روحانیت میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا سماں برپا ہونے لگتا ہے۔ہمہ گیر ایسا کہ اس کی آمد کا اعلان کسی خطۂ زمین پر نہیں بلکہ پورے عالم پر ہلالِ رمضان المبارک کی نمود سے ہوتا ہے۔ وسعت تغیرات کی یہ شان کہ ابتدا ہی جنت کے تمام دروازوں کے کھلنے اور دوزخ کے سارے دروازے بند کئے جانے سے ہوتی ہے۔چنانچہ احادیث میں آتا ہے: ’’جب رمضان المبارک آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔‘‘ایک اور روایت میں ہے’’اور جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور شیاطین باندھ دیئے جاتے ہیں‘‘۔ (متفق علیہ) وقت ، مقدار، کمیت اور کیفیت کے سارے پیمانے بدل دئے جاتے ہیں۔ اجر وثواب کی مقدار بڑھا کر معمول سے 70گنا بلکہ لامحدود کر دی جاتی ہے۔ اس ماہ مبارک کی ایک رات ( شب قدر)ہزار راتوں سے زیادہ افضل قرار دی جاتی ہے۔ عرشِ بریں کے حامل فرشتوں کو حکم خدا وندی ملتا ہے کہ اپنی عبادت بند کر دو اور اہل زمین کی دعائوں میں شامل ہو کر آمین کہو۔ آسمانوں کا یہ سارا انقلاب اس لئے برپا کیا جاتا ہے کہ زمین پر آباد مرکز ِعالم اور مسجود ِملائک انسان کی دنیا کو ایک اندرونی انقلاب سے دوچار کرنا مقصود ہے۔ اس طرح عالم انسانیت میں ایک ایسا انقلاب رونما ہونے لگتا ہے جس کی وسعت بے پناہ اور جس کا نفوذ بے انتہا ہو جاتی ہے‘‘۔</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>غرض رمضان المبارک انسان کی تبدیلی، احتساب اور جائزے کا مہینہ ہے، اور اس مہینے میں انسان اگر صحیح معنوں میں اپنا احتساب کرے تو اس کی کامیابی و کامرانی اس کے نصیب میں درج کی جاتی ہے اور اگر اس ماہ میں بھی انسان نے اپنا جائزہ و احتساب نہ لیا تو انسان کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لیے اس کا رہنا ایک طرح کا فساد بن جاتا ہے۔ احتساب و جائزہ لینے کے لیے ہمارے پاس دو مضبوط قلعے رکھے گئے ہیں جن میں رہنا اور سہنا ہماری کامیابی اور جن سے باہر نکل کر دوسرے نام نہاد ’’ جا ئے پناہ‘ ‘کی تلاش کرنا گمراہی و ضلا لت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ کی اطا عت کرو اور رسو ل کی اطاعت کرو۔‘‘</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>اسلام کا نظام ِحیات جس میں انسانیت کی فلاح و کامرانی مضمر ہے، وہ صرف اور صرف قرآن اور رسول خداﷺکی تعلیمات پر عمل پیرا ہو نے سے مشروط ہے۔ ماہ ِمبارک میں انسان اگر خود اپناجائزہ لے تو پیمانہ صرف یہی قرآن اور اس کی تشریح محمدﷺکی سنت قرار پائے گی۔ اس سے الگ ہو کر کسی اور جگہ فلاح و کامرانی تلاش کرنا فضول اور لاحاصل عمل ہے۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس ماہ مبارک میں قرآن کا نزول کیا۔اللہ تعالیٰ کا ار شاد گرامی ہے:</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت (فلاح و کامرانی) ہے اور ایسی واضح تعلیمات جو راہ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘۔(البقرہ)</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>گویا اگر اس ماہ مبارک کو ماہ قرآن کہیں تو صد فیصد درست ہو گا۔ یہ رب العالمین کا بے انتہا کرم و احسان ہے کہ وہ ہر سال ماہ ِرمضان کے بہا نے انسانیت پر اتمامِ نعمت، یعنی نزول قرآن سے شعور و آگاہی کا موقع بہم پہنچاتا ہے۔ ماہ رمضان دراصل علامتی یاد ہا نی ہے نزول قرآن کے انقلا ب واصلا ح کی ندائے خدا وندی کی۔ یہ صرف یادہا نی ہی نہیں بلکہ انقلاب کا پیام بھی ہے اور ساتھ ہی اس مہینے کو ان تمام صفات و خصوصیات سے نوازا گیا جو انقلاب اور صلح کل کے لئے معاون وسازگار ہوتی ہیں۔ اس ماہ مبارک کو اعمال خیر و صلاح کی فصل و بہار والی تاثیر عطا ہوتی ہے۔</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>اس زاویۂ نگاہ سے ماہ رمضان المبارک کو ماہ انقلاب کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، کیوں کہ انسانی بستوں میں یہی ’’ماہِ انقلاب‘‘ نیک اعمال کا باعث بن جاتا ہے۔ زمین کا چپہ چپہ قانون خدا وندی کے حکم کے سامنے سر نگو ں ہو نے کا اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہر طرف تکبیرات، تسبیحات خدا وندی اور اس کے دربار میں عاجزانہ مناجات وردِ زبا ن ہو جا تے ہیں۔ اس ماہ مبارک میں منزل مقصود کی نشان دہی بھی ہے اور راہ ِہدایت سے آگاہی بھی، راہ روی کی تربیت بھی ہے اور رہبری کا ساماں بھی، سفر کی سہولتیں بھی اور ہر منزل آ شنا ئی پر انعام بھی۔ اس ماہ مبارک میں رحمتوں کی بارش بھی ہوتی ہے ، مغفرت کی بخشش بھی اور نارِ جہنم سے نجات بھی۔ سابقہ اعمال وافعال کا جائزہ لینے پر جنت الفردوس کی نعمتوں اور رفعتوں کی لذت آشنائی بھی ہوتی ہے۔ راہِ حق کی منزل کے حصول کے لئے اسے صراط مستقیم، یعنی دین اسلام کی مکمل رہنمائی میسر ہوتی ہے۔ تقویٰ اور احساسِ ذمہ داری کا زادِ راہ اس کے ہا تھ میں تھما دیا جاتا ہے۔ پاک و مطہراجتماعی ماحول کے ذریعے راہ کی مشکلات کو آسان کر دیا جاتا ہے اور اس راہ پر چلنے کے لیے بے حساب اجر وثواب کی امید بھی دلا ئی جاتی ہے۔</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>یہ سارا کچھ اس ماہ مبارک میں انسان کو اس لئے عطا کیا جاتا ہے تاکہ ایک صاحب ایمان کا مقدر سنور جائے، اسے فلاح وکامیابی نصیب ہوجائے اور وہ ابدی زندگی کی خو ش کن فضا ؤ ںسے ہم کنار ہو جائے۔ اسی ماہ قرآن کا نزول ہوا جس کا صاف اور واضح مطلب یہی ہے کہ یہ مہینہ انسان کی واحدراہ ہدایت کا مہینہ ہے کیوں کہ قرآن تمام عالم انسانیت کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے۔</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>قرآن پاک کے نزول کا یہ مہینہ ہمیشہ سے انسان کو پکارتا رہا ہے کہ:</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>’’ آئو اس قرآن کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑو ‘‘۔ ’’بے شک ہم نے تمہاری طرف کتاب (قرآن) نازل فرمائی، جس میں (اے انسان) تمہارا ہی ذکر موجود ہے‘‘۔ اس کتاب کے ذریعے اللہ تعالیٰ کچھ گروہوں کو بلند و سرفراز کرے گا اور کچھ دوسرے گروہوں کو پستی میں جھونک دے گا‘‘۔</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>غرض یہ ماہ ِمبارک جس میں قرآن کا نزول ہوا، جو انسان کی فلاح وکامرانی کے لیے بھیجا گیا، جس میں بحیثیت انسان ، انسان کا ہی ذکر ہے اور جس پر چل کر لوگ بلند و بالا مقام کے حقدار قرار دئے جاتے ہیں اور جسے ٹھکرا کر انسان تباہی و بربادی کا حقدار قرار پاتا ہے۔ انسان اگر خود کا جائزہ لے تو اسے معلوم ہو گا کہ قرآن کریم اس کے دل کی آواز ہے ، یہ اسے اس کا آئینہ دکھاتا ہے، اسے واضح طور بتاتا ہے کہ تو کیا ہے، کیا تھا اور مو جودہ عالم آ ب وگل اورآ نے والی دنیا میںکیا ہو گا؟ انسانی دنیا کی کا میابی کے لئے مخصوص یہ صاف وشفاف دستور العمل دنیا میں اگر کہیں موجود ہے تو وہ صرف اور صرف قرآن کی شکل میں موجود ہے۔</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس نے بھی اس قرآن کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا اس کی دنیا اس قدر سنور گئی کہ صدیاں گزرنے کے باوجود ادب واکرام کے ساتھ ساتھ ان کی تقلید کی جا تی ہے۔ نہ صرف ان کی یہ عارضی دنیا سنور گئی بلکہ آخرت کی دائمی خوشخبری بھی ان کی مقدر بن گئی۔ قرآ ن مجید کی معجزہ نما ئی سے یہ ہوا کہ کل تک جو گمراہ تھے وہ تمام عالم انسانیت کے لئے روشن چراغ کے مانند قرار د ئے گئے اور ان چراغوں کی روشنی کے سہارے جس نے اپنی زندگی سنوارنی کی کوشش کی تو اسے ہدایت یافتہ مانا گیا۔</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>ماہ مبارک کی شان یہ ہے کہ اس میں عالم انسانیت کے لیے درسِ ہدایت کا پیغام مخفی ہے۔ یہ ماہ کسی خاص رنگ و نسل، لسانی گروپ ، جغرا فیہ یا کسی مخصوص زما نے کے لئے نہیں ،بلکہ عام انسان کے لئے ، ہر طبقے کے لئے ، ہر زما نے کے لئے ، ہر مقام کے لئے ایک پر درد آواز ہے، ایک پیام انقلاب ہے، ایک صالح نظام کی طرف دعوت ہے۔</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>چناں چہ اس پر امن اور عالم انسانیت کے پیغام کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت عالم انسانیت بکھری پڑی ہے۔ اس میں بہت سارے کنفیوڑن پیدا کئے جاچکے ہیں۔ کہیں انسانیت کو خدا بیزاری اور الحاد کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے تو کہیں اسے سوشلزم کا ساحرانہ درس دیا جاتاہے، کہیں اس کے سامنے قوم پرستی کا سبز باغ رکھا جاتا ہے تو کہیں لادین جمہوریت کا میٹھا زہر پلا کر اسے مدہوش کیا جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی انسانیت روز بہ روز پستی کی طرف ہی اترتی جارہی ہے۔ سب کچھ آزمایا گیا ، اِزمو ں اور فلسفو ں کو ناپا گیا ، تجربات اور حسین دعوؤ ں کے سہا نے سپنے دکھا ئے گئے ، امن ، ترقی ، احترام آدمیت کے ترانے بجا ئے گئے ، خو شحالی اور مساوات کے وعدو ں کی خوب سوداگر یا ں کی گئیں مگر نتیجہ صفر۔ اس ساری فضو ل مشق میں اگر ایک بار بھی نہ آزمایا گیا تو وہ صرف اور صرف اسلام کا نظام حیات ،قرآن اور محمدﷺکی سنت، خلفائے راشدین اور تبع وتابعین اور اولیا ئے کرامؒ کے بے عیب مشن اور ان کی روشن سیر تو ں اور نقوش ِپا کو نہ آزمایا گیا۔ اس لحاظ سے ایک بار پھر قرآن کا، نظام حیات کے پیغام کا، عالم انسانیت تک اصل نظام اور صحیح راہ پہنچانے کا مہینہ رمضان المبارک کل پرسو ں سے شروع ہو نے والاہے، جس میں مسلمان خصوصاً نوجوان اپنے آپ کو قرآن کے رنگ میں رنگ کر ’’صبغۃاللہ ‘‘دوسرو ں کے واسطے پیغام ِ امن وسلامتی لے کر اٹھیں، کیوں کہ پیغام رمضان یعنی قرآن کی تعلیمات اور احکا ما ت کو عام انسانیت تک پہنچانے کا اگر کو ئی ظا ہر ی ذریعہ ہے تو وہ یہی مسلم نوجوان ہے۔ اس لحاظ سے ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اٹھیں اور خو د کو صیام کے اسپرٹ میں ڈھا ل کراپنی ذمہ داریوں اور فر یضے کے عین مطابق دنیا کے سامنے صاف وشفاف پیغامِ الٰہی کو پیش کریں۔ یہ پیغام نہ صرف خود ان جوانو ں کے لئے بے انتہا فائدہ مند ہے بلکہ تمام عالم ِانسانیت کے لیے فضائے امن وسلا متی کا ضامن بھی ہے۔</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>دنیا فساد کی لپیٹ میں اس قدرآچکی ہے کہ کہیں نکلنے کا کوئی اشارہ تک دکھائی نہیں دیتا۔ اس پُر طہا رت ماحول میں رمضان المبارک کا یہ پا ک ومقدس مہینہ جس کاایک بار پھر بس ظہور ہونے ہی والا ہے، پکار پکار کر ہم سب مسلمانوں کو اپنی پہچان بہ حیثیت امت وسط اور نیکی کا حکم کر نے والا اور بدی سے رو کنے والی امت کے طور کرا نے کی تلقین کر تے ہو ئے ضبط ِ نفس اور بلا چو ن وچرا صرف اللہ کے سامنے ہر اعتبار سے سر نڈر کر نے کی ہدایت دیتا ہے۔ ہما ری کو شش ہو نی چا ہیے کہ اس ہد ایت کو اپنی عملی زندگیو ں کا گہنہ بنا نے کا عز م با مصمم کر یں۔ اللہ ہمارا حافظ و نگہبا ں ہو۔</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b>٭٭٭٭٭</b></div>
</b></h3>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-4671086833817407822014-05-26T22:02:00.000-07:002014-05-26T22:02:01.379-07:00مودی ۔۔۔ آر پار کایار ؟...................ہر زماں ہے امتحاں کہ ہرنفس ہے احتساب<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<table bgcolor="#FFFFFF" border="0" bordercolor="#EFEFEF" cellpadding="0" cellspacing="0" style="border-collapse: collapse; height: 1px; text-align: justify; width: 100%px;" valign="top"><tbody>
<tr></tr>
</tbody></table>
<table bgcolor="#FFFFFF" border="0" cellpadding="3" cellspacing="1" style="text-align: justify; width: 100%px;"><tbody>
<tr><td style="text-align: right;" valign="top" width="50%"><b class="newshead" style="font-family: Nastaleeq, 'Pak Nastaleeq', Helvetica, Geneva, Arial, SunSans-Regular, sans-serif; font-size: 24px;"><b class="Byline" style="color: #4b7baf; font-family: Nastaleeq, 'Pak Nastaleeq', Helvetica, 'Urdu Naskh Asiatype', Geneva, Arial, SunSans-Regular, sans-serif; font-size: 16px;">ابراہیم جمال بٹ</b>.............<br /><div style="text-align: justify;">
<span class="text" style="font-size: 18px; font-weight: normal; text-align: right;"><div class="MsoNormal" style="margin: 0in 0in 10pt; text-align: right;">
</div>
<div class="MsoNormal" style="margin: 0in 0in 10pt; text-align: justify;">
<span style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;"> <span dir="rtl" lang="ER">نریندر مودی نے آج انپے عہد ے کا حلف ایک شاندار تقریب میں اٹھایا اور اب وہ رسما بھارت کے نئے وزیراعظم ہیں ۔ انہوں نے دن کی شروعات راج گھاٹ میں گاندھی کی سمادھی پر گل باری اور پرارتھنا سے کی ۔ اور بعد ازاں حلف لیا۔ حلف برداری کے فنکشن میں ان کے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کے علاوہ سارک ممالک کے سربراہوں کی شرکت نے محفل کا ایک الگ ہی سماں باندھا۔ راج گھاٹ پر مودی کی اولین فرصت میں حاضری دینا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ گاندھی واد کے شیدائی ہیں اور نتھو رام گوڈسے کی اس فلاسفی سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں جو اس نے آر ایس ایس کی کوکھ میں سیکھی۔ یہ اگرنمائشی معاملہ نہ ہو تو خود میں ایک بہت بڑی پیش رفت ہے ۔بھارت میں پارلیمانی انتخابات کے بعد جو چونکا دینے والے نتائج سامنے آئے انہیںدیکھ کر یہ واضح ہو گیا کہ ملک میں وہ لوگ جنہوں نے اس الیکشن میں عملی طور حصہ لے کر ووٹ ڈالا ، چاہتے ہیں کہ برسوں پراناخاندانی نظام کا خاتمہ ہو اور ایک نئی سیاسی تبدیلی آئے تاکہ ان کے مسائل حل ہوں اور مصائب ٹل جائیں۔ الیکشن کے نتائج سے ہی یہ واضح ہو گیا کہ جس مودی لہرکی باتیں چہارر سُوہو رہی تھیں اسی لہر نے آخر کار خاندانی راج کا خاتمہ کر کے ایک ایسی عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا کہ پوری دنیا دیکھتے ہی رہ گئی۔ کئی لوگوں کا عندیہ ہے کہ بھارت واسیوں نے ہندو توا کو ووٹ دے کرجتایا جب کہ کئی ایک طبقاتِ فکر الیکشن نتائج کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔۔۔ایک ایسی تبدیلی جس سے خزاں آلودہ فضا میں ایک بہار آجائے اور بھارت دیس ایک ایسا ملک بن جائے جہاں فتنہ وفسادکا خاتمہ اور مسائل کا نپٹارا ہو ۔ بہرحال مودی لہر نے اپنا پہلا جلوہ دکھایا اور دیس اور دنیا پر واضح کر دیا کہ بھارت واسی فکر وعمل کی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک تعمیر وترقی اور سکھ شانتی کی پٹری پر آجائے۔ بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تاج پوشی کے حوالے سے صدر ہند پرنب کمار مکھرجی کے نام پیغام قبل از وقت ببھجوا دیا کہ روایت سے ہٹ کر وہ وزیر اعظم کا حلف راشٹر پتی بھون کی چار دیواری کے اندر نہیں بلکہ کم وبیش تین ہزار مہمانوں سے بھرے دربار کو لے کر اس بھون کے آنگن میں لیں گے۔ ان کی اسی خواہش کے عین مطابق 26مئی کو یہ تقریب ہوئی جس میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی شرکت سے مودی کے ساتھ ساتھ ان پر عالمی میڈیاکی آنکھیں مرکو زرہیں۔ یاد رہے کہ انہیں خصوصی دعوت نامے بھیجاگیا تھا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے پہلے ہی جب انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا ، بھارت کے نومنتخب وزیر اعظم نریندر مودی کو مبارک باد دیتے ہوئے اس بات کا کھل کراظہار کیا کہ نئی سرکار کی آمد سے یہ امید اور توقع رکھی جا سکتی ہے کہ آئندہ ہند پاک مذاکرات کا دروازہ کھل جائے گا اور تمام مسائل کا حل نکالنے کی بھر پور کوشش کی جائے گی۔ دونوں ممالک کے درمیان جو تلخیاں اور سردمہریاںپائی جاتی ہیں، ممکن ہے بھارت میں اس کلیدی اہمیت کی حامل سیاسی تبدیلی سے واجپائی ودر کی یادیں تازہ ہوںجب آر پار اعتماد سازی کے بہت سارے اقدامات کئے گئے۔ بھارت پاک تعلقات کے حوالے سے جو آئے روز میڈیا رپورٹیں سامنے آرہی ہیں ان سے کچھ نیا ہونے کے اشارے ملتے ہیں بلکہ کئی مباحثوں اور میڈیا رپورٹوں سے ایسا تاثر جھلکتا ہے کہ شاید دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کچھ تبدیلیاں آئیں گی۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے سابق سفارت کار اور بھارت کے خلاف سخت رویہ رکھنے والے کئی پاکستانی لیڈروں نے بھی دوطرفہ تعلقات میں بہتری کی خوش امیدیاں ظاہر کی ہیں۔ حال ہی ایک مباحثے میں سخت رویہ اختیار کرنے والے پاکستان کے سابق سفارت کار ظفر ہلالی نے کہا کہ’’ نریندر مودی کی جیت کے فوراً بعد بغیر کسی تاخیر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے مودی کو نہ صرف مبارک باد دی بلکہ بھارت کے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا جس کے بعد نریندر مودی نے حلف برداری کی تقریب میں نواز شریف کو مدعو کیا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’بی جے پی کی سرکار سے پاکستان کے تعلقات دوسری حکومتوں کے بالمقابل بہتر رہنے کی توقع ہے۔‘‘ نئی دہلی میں پاکستان کے ایک اور سابق سفیر شہر یار خان نے بھی اسی طرح کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ شروعات بہتر ڈھنگ سے ہو چکی ہے اور اب امید کی جانی چاہیے کہ دونوں ملک مسائل کے حل کے لئے مثبت کوششیں کریں گے۔’’ ایک اور سابق سفیر اسلم رضوی نے کہا کہ ’’بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کے نمایاں آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ ‘‘سابق سفیر اور خارجہ سیکرٹری عبد العزیز خان نے یہاں تک بھی بتایا کہ ’’بھارت کی یو پی اے سرکار تعلقات کے حوالے سے محض وقت کاٹتی رہی جب کہ اب دونوں ملکوں کی سرکاریں مضبوط ہیں اس لئے مضبوط رشتوں کی پوری اُمید ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں اطراف سے شکوک وشبہات کا سلسلہ ترک ہو جانا چاہئے۔‘‘ برگیڈر راشد قریشی نے ہندو پاک تعلقات میں خوشگوار تبدیلی کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ’’ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ملک ٹھوس اور مثبت اقدامات کا آغاز کریں تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں کے حوالے سے جو غیر یقینیت بنی ہوئی ہے ،اس کا خاتمہ ہو جائے۔ ‘‘ چنانچہ اسی طرح کے بیانات بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے بھی آتے رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میںیہاں تک بھی کہہ دیا کہ ’’میری سرکار کو پاکستان کے ساتھ دشمنی نہیں دوستی ہو گی‘‘ ۔انہوں نے واضح طور کہا کہ’’ پاکستان کے ساتھ بھارت کے رشتے مزید مستحکم ہوں گے،اپنے پڑوسیوں کے بارے میں کبھی غلط سوچا نہیں ہے بلکہ چین کے ساتھ بھی مضبوط رشتوں کو اہمیت دی جائے گی۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ملک کے اندر اس قدر استحکام لائیں گے کہ پاکستان خود بھارت کے ساتھ دوستی کی آرزو کرے گا۔‘‘ یہ پوچھے جانے پر کہ’’اگر آپ اب وزیر اعظم بن گئے،تو کیا اب آپ پاکستان کو ڈرائیں گے؟ نریندرمودی نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ ایسا کیوں کروں گا؟ پاکستان ہمارا پڑوسی ملک ہے، ہم اس کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کریں گے بلکہ پڑوسیوں کے ساتھ آنکھ دکھا کر یا جھکا کر نہیں بلکہ آنکھیں ملا کر بات چیت کر کے راہ ِامن ہموار کریں گے۔‘‘ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ سینئر سیاسی و سماجی لیڈروں اور سفارت کاروں کی طرف سے اسی طرح کے بیانات آرہے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آگے کیا ہو گا ؟اس کا اندازہ کرنا ابھی اگرچہ مشکل ہے ، تاہم آج تک جو ہوتا آرہا ہے اس سے کئی لوگوں کے خدشے ابھی بھی یہی ہیں کہ ’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ بہر حال جو بھی ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا لیکن پاک بھارت کے درمیان جو تلخیاں کبھی کبھار جنگ کی دہلیز تک انہیں پہنچاتی ہیں، اسے دیکھ کر یہ خدشہ ہے کہ حکومت چاہے کسی کی بھہ ہو یہاں ایک دن کی خوشی کئی برسوں کا ماتم جیسا منظر سامنے نہ آتارہا ہے۔ چونکہ بھارت کے نئے وزیر اعظم کی گجرات تاریخ کا سیاہ باب ابھی مکمل طورسے بندنہیں ہوا ہے، وہ باب اس قدر خونچکاں ہے کہ انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ گجرات فسادات کے دوران نریندر مودی کی سرکار نے مسلمانوں کے ساتھ کیسا ناقابل بیان سلوک روا رکھا، اس کے متعلق پوری دنیا اچھی طرح سے واقف ہے۔ اور تو اور مسلمانوں کے علاوہ باقی اقلیتوں کے تئیں ان کے خیالات کیسے ہیں وہ بھی واضح ہیں۔ تاہم اس بار مرکزی حکومت کی باگ ڈور بی جے پی کے ہاتھوں میں اس طرح آگئی ہے کہ انہیں کسی سہارے کی کوئی ضرورت بھی نہیں رہی، اس نے </span></span><span dir="rtl" lang="FA" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;">۴۸</span><span dir="rtl" lang="ER" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;">ء کے بعد اپنے بل بوتے پر حکومت قائم کر کے ایک ایسا چمتکار دکھایا کہ پوری دنیا دیکھتے ہی رہ گئی۔</span><span dir="ltr"></span><span lang="ER" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;"><span dir="ltr"></span></span><span style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;"><o:p></o:p></span></div>
<br />
<div class="MsoNormal" style="margin: 0in 0in 10pt; text-align: justify;">
<span dir="rtl" lang="ER" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;">پاک بھارت تعلقات میں مثبت تبدیلی کہ امید کرنا کوئی گناہ نہیں ہے لیکن دونوں ممالک کے مابین جو بھی معاملات ہوں گے ان میں جو حل طلب اہم مسئلہ ہے وہ جموں وکشمیر کا متنازعہ و دیرینہ مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ دلی اوراسلام آبادکے دویگر مسائل لٹکے چلے آرہے ہیں، جن کا حل نکلتے نکلتے بھی نہیں نکل پا رہا ہے۔ نئی مرکزی حکومت نے اگر کانگریس سرکار کی وہی پالیسی اختیار کی جس میں وہ بار بار بات چیت کے میز پر بیٹھ بھی گئے لیکن صرف اپنا ووٹ بٹورنے کے لئے، ان کے دور میں کئی بار مذاکراتی میز سجائے گئے ، ایک دوسرے کا آمنا سامنا ہوا لیکن حل دور دور تک بھی نظر نہ آیا۔ اگر بالفرض بھارت کی یہ نئی سرکار برابر اسی نہج پر برقرار رہی تو شاید اس سرکار کا بھی آخر کار وہی حشر ہو نا ہے جو اس سے قبل کی حکومتوں کاہوا۔</span><span dir="ltr"></span><span lang="ER" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;"><span dir="ltr"></span></span><span style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" style="margin: 0in 0in 10pt; text-align: justify;">
<span dir="rtl" lang="ER" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;">یہ بات واضح ہے کہ پاک بھارت کا جڑنا ایشیا ء کے اس خطے کے لئے بے حد ضروری ہے۔ برصغیر میں ان دونوں کے درمیان چپقلش اور تلخیاں اگر ختم ہو جائیں تو یہ ایک ایشیائی طاقت کا ایک اور نمونہ ہو گا۔ یورپ، جس کا نام ایک ’’طاقتور بیلٹ ‘‘کے طور پر لیا جاتا ہے، اس کے آگے ایشیائی ممالک سرجکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں جن میں سے پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔ بدیہی حقیقت یہی ہے کہ پاک بھارت کے درمیان بغض وعداوت کی جو نفسیاتی خلیج پائی جاتی ہے، ان کے مابین جو یہ دشمنی کا بیج روز بروز اُگنے کے ساتھ ساتھ پھیلایا بھی جا رہا ہے، یہ برصغیر کے مسائل حل ہونے میں مانع ہے۔ یورپین طاقت جس کا سکہ اور جس کی چودھراہٹ برصغیر میں اس لئے چل رہی ہے کیونکہ کہ برصغیر بٹاہوا ہے، ان کے درمیان جو ممالک آباد ہیں وہ ایک دوسرے سے اس قدر نالاں وپریشان ہیں کہ دور سے ان کا یک جٹ ہونا محال دکھائی دے رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جو برصغیر سے باہر رہنے والے نام نہاد ترقی پسند ممالک کی کارستانیاں ہیں۔ پاک بھارت تعلقات میں تلخیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اگر کسی حد تک حل ہو سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف کشمیر حل سے ہو سکتا ہے۔ مسئلہ جو 60سال سے زائد عرصہ سے لٹکا چلا آرہا ہے۔ اس دوران ہزاروں نہیںبلکہ لاکھوں کی جانیں تلف ہو گئیں، ہزاروں بہنیں بیوہ ہو گئیںاور ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے جن پر سوچ کر بھی رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہی کشمیر حل باقی ہے۔ بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی ہے کہ ’’جموں وکشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے‘‘ اور پاکستان کا یہ کہنا کہ ’’جموں وکشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘۔ اس آپسی بیان بازیوں کے درمیان جموںوکشمیر کی عوام آج تک کٹتی جاری ہے، اسے دن و رات کے جس لمحے بھی چاہیں پابند زنداں کیا جاسکتا ہے، گھروں میں توڑ پھوڑکے علاوہ لوٹ مار کی جا سکتی ہے، پرامن احتجاج کے دوران گولیوں سے جواب دے کر انسانوںکی لاشوں کاڈھیر کیا جاسکتا ہے۔ غرض کہ یہاں کے لوگ پاک بھارت تعلقات اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کٹے مرے جا رہے ہیں ۔ بھارت کی نئی سرکار اگر چاہے تو مسئلہ کشمیر کے بارے میں روایتی ہٹ دھرمی کو خیر باد کر کے پرامن طریقے سے پاکستان اور ریاست جموںوکشمیر کے عوام کے منتخب اور حریت پسند سیاسی لیڈران کوایک جگہ جمع کر کے اس دیرینہ مسلے کا حل نکال سکتی ہے۔ بہرصورت یہ مسئلہ حل ہو گیا تو کسی حد تک پاک بھارت تعلقات میں اصل معنی میں تبدیلی تو آ نی ہی ہے مگر نریندر مودی کا قد تاریخ کے پنوں میں اتنا اونچا وہوگا کہ شاید ہم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے ؎</span><span style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" style="margin: 0in 0in 10pt; text-align: center;">
<span dir="rtl" lang="ER" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;">امیدوں کے سہارے جئے جا رہے ہیں</span><span style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" style="margin: 0in 0in 10pt; text-align: center;">
<span dir="rtl" lang="ER" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;">ورنہ حقیقت کا منظر کچھ اور ہی ہے</span><span dir="ltr"></span><span lang="ER" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;"><span dir="ltr"></span></span><span style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;"><o:p></o:p></span></div>
<div style="text-align: center;">
<span dir="rtl" lang="ER" style="font-family: 'Adobe Arabic', serif; font-size: 16pt; line-height: 24.533334732055664px;"><br /></span></div>
</span></div>
</b></td></tr>
</tbody></table>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-58316484148585037952014-03-11T20:24:00.001-07:002014-03-11T20:24:29.179-07:00خلافت علی منہاج النبوہ ، شبھات اور حقائق <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h3 style="text-align: left;">
<b><span style="color: red;">سید علی گیلانی</span></b></h3>
<h3 style="text-align: left;">
<b>.................</b></h3>
<h3 style="text-align: left;">
<b><br /><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>سورہ فتح کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، عالمِ انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے اور جو دین حق ، جو ہدایت کا پیغام انکو عطا کیا گیا ہے وہ دنیا پر غالب ہو جائے۔ یہ ہدایت اور دین حق ماتحت رہنے اور باطل کے سائے تلے زندہ رہنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لئے بھیجا گیا ہے کہ وہ تمام ادیان پر غالب ہو جائے اور اس کے لئے اللہ کی گواہی کافی ہے اسکے کسی اور کی گواہی طلب نہیں کرنا ، اسکے لئے کسی سامراج اور کسی استعمار اور کسی فرماں روائے اقتدار اور لشکر جرار سے اجازت طلب اور تصدیق حاصل نہیں کرنا ہے۔ اللہ کی گواہی کافی ہے، دین کے غلبے کو قرآن پاک میں مختلف مقامات پر مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا ہے، اسی کو اقامت دین سے تابیر کیا گیا ہے اور کئی مقامات پر اسے خلافت سے موسوم کیا گیا ہے۔</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>خلافت علی منہاج النبوہ کا قیام اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز فرض ہے، جس طرح روزہ، حج، اور زکوٰۃ فرض ہے، اور جس طرحشہادت دینا فرض ہے اللہ کے واحد ہونے کی، اور رسول ؐ کے رسول اور خاتم النبین ہونے کی، ٹھیک اسی طرح خلافت علی منہاج النبوہ قائم کرنے کی جدوجہد کرنا فرض بنتا ہے ان لوگوں پر ، اس امت پر جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ آج بیسویں صدی کے آخری عشرے (موجود اکیسویں صدی) میں جب یہ بات کہی جاتی ہے کہ خلافت کا نظام قائم کرنا ہے تو مسلم ملت میں بھی انتشار پیدا ہو جاتا ہے، وہ بھی سوال کرنے لگتے ہیں، کیا یہ دور ہے خلافت کے قیام کا؟ اور بعض لوگ تو کھل کر کہتے ہیں کہ یہ بے وقت کی راگنی ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ انہونی بات ہے، اور بعض لوگ کہتے ہیں یہ حالات کا صحیح تجزیہ نہیں ہے۔ جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں (یعنی ہندوستان) جہاں مسلمان منتشر ہوں، (یعنی پوری دنیا) جہاں مسلمان تسبیح کے بکھرے دانوں کی طرح ہوں، جہاں مسلمانوں کی کوئی مرکزیت نہ ہو، اور پھر ایسے ماحول میں خلافت کا نام لینا خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنا یہ مسلمانوں کے لئے اور مسلمانوں کے حق میں کوئی بہتر اور قابل عمل پروگرام نہیں ہو سکتا۔ یہ باتیں مسلمان کہتے ہیں۔ اور جہاں تک غیر مسلم بھائیوں کا تعلق ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان اپنا قومی غلبہ چاہتا ہے وہ اسی حیثیت سے اسے تابیر کرتے ہیں کہ مسلمان ہمارے اوپر غالب ہونا چارہے ہیں۔ دونوں طرف غلط فہمیاں ہیں اور جو لوگ خلافت علی منہاج النبوہ کا فریضہ انجام دینے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ان کیلئے پہلا مرحلہ یہی ہے کہ وہ غلط فہمیاں دور کریں۔ مسلمانوں سے صرف اتنا کہنا ہے کہ آپ یہ بتائیں کہ کیا یہ فرض ہے؟ اگر یہ فرض ہے، قرآن میں بھی اسے واضح الفاظ میں کہہ دیا گیا ہے کہ یہ فرض ہے۔ خلافت کا نظام قائم کیا جائے، دین حق کو غالب کیا جائے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی ایک پسندیدہ دین ہے۔ :’’ومن یبتغ غیر الاسلام دین فلن یقبل منہ وھو فی الآخرت من الخاسرین‘‘ (جو لوگ اسلام کے بغیر زندگی کا کوئی اور طریقہ اختیار کریں وہ اللہ کے نزدیک قبول نہیں ہو گا اور وہ لوگ آخرت میں خسارے اور گھاٹے سے دوچار ہوں گے)۔ </b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>تو یہ مسلمان سے کہنا ہے جوخلافت کے، نظام کی جدوجہد کو بے وقت کی راگنی کہتے ہیں ، ان سے یہ کہنا ہے ، کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں بتائو یہ فرض نہیں ہے؟ اور وہ نہیں بتا سکے گا کہ نہیں۔ وہ قرآن کو تحریف نہیں کر سکیں گے، قرآن تحریف سے محفوظ رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک محفوظ رہے گا۔ پھر ان سے یہ کہیں کہ جب یہ فرض ہے تو پھراس کے قیام کے لئے اٹھنا پڑے گا۔ یہ کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وقت کا اقتدار انکا ساتھ دیگا اور یہ شرط تو کوئی بھی فریضہ انجام دینے کیلئے نہیں لگائی جا سکتی۔ فرض انجام دینے کے لئے اٹھنا ہے، اٹھنے کے بعد وہ فرض انجام دیا جا سکے یا نہیں یہ اٹھنے والی کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ایک شخص کو حج کرنے کی استچاعت ہے اس پر حج فرض ہے وہ تیاری کرتا ہے حج کو جانے کے لئے، اس کو کوئی گارنٹی نہیں دی سکتا کہ وہ حج پر پہنچ جائے گا، لیکن ان کو جانا ہے۔ یہ فرائض جو ہونے ہیں تو انکو ادا کرنے کیلئے شرطیں عائد نہیں کی جا تیں، اور مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ خلافت کا نظام قائم کریں، دین کو قائم کریں، جب تک دین قائم نہیں ہو گا مسلمان کی زندگی اسلام کے سانچے میں نہیں ڈھلے گی۔ آپ کے یہاں ہندوستان میں بڑ کا پیڑ ہوتا ہے اور ہمارے ہاں (کشمیر ) میں بڑ کی قدوقامت کا چنار ہوتا ہے، آپ بڑ کے پیڑ کے نیچے اس کے سائے میں کوئی آم کا پیڑ لگائیں وہ پنپے گا نہیں، چنار کے پیڑ کے سائے تلے اگر ہم سیب کا پیڑ لگائیں وہ پنپے کا نہیں۔ ٹھیک اسی طرح باطل کے سائے میں اسلام کا پیڑ نہیں پنپے گا، باطل کا سایہ جہاں ہوتا ہے، باطل اپنا سایہ پھیلاتا ہے۔ باطل کے سائے میںسورج کی روشنی بند ہو جاتی ہے، باطل کے سائے میں اسلام کی روح مردہ ہو جاتی ہے، باطل کے سائے میں مسجد کی چار دیواریاں بھی محفوظ بھی نہیں رہتی(جیسے بابری مسجد) اس لئے باطل کے سائے میں اسلام کے مطابق زندگی گزارنا ایسا ہی ہے جیسے کہ بڑ کے سائے میں آپ کوئی سبزی کا چمن لگائیں۔ اس لئے ضروری ہے جس دین کو ہم اپنا دین مانتے ہیں اس کے قیام کی ہم کوشش کریں اور خلافت کا نظام یہی کوشش ہے۔</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span> جہاں تک غیر مسلموں کا سوال ہے ان سے یہ کہنا ہے کہ ہم قومی غلبہ نہیں چاہتے ۔ہم ایک اصول کی بالادستی چاہتے ہیں، اور اصول کسی قوم کی میراث نہیں ہوتے۔ سورج پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے، سورج چمکتا ہے کوئی خدا کو نہ بھی مانتا ہو لیکن سورج کی روشنی اسے بھی مل جاتی ہے۔ پانی پر کسی قوم کی اجارہ داری نہیں ہے، ہر ایک کے لئے ہے، سور جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے وہ بھی دریا پر جاکر پانی پی سکتا ہے۔ ہوا پر کوئی اجارہ داری قائم نہیں کر سکتا، جس طرح یہ نعمتیں ہیں ہیں اللہ کی ٹھیک اسی طرح اسلام بھی اللہ کی نعمت ہے، اور اس نعمت سے ہر انسان کو استفادہ کرنے کا موقع ہے۔ جب خلاف تک نظام قائم ہو گا تو یہ ضروری نہیں ہیں کہ آج کا کوئی مسلمان خلیفہ بنے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آج جو لوگ اسلام کے دائرے سے باہر ہیں وہ اسلام میں آجائیں اور وہی خلیفہ بنیں۔ حضرت عمر فاروقؓ رسالت کے ابتدائی دور میں مسلمان نہیں تھے وہ رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنے کے ارادرے سے نکلے اللہ نے ان کو اسلام کی نعمت سے نوازا اور وہ خلیفہ دوم بنے۔ تو یہ خلافت کا نظام ہمارے غیر مسلم بھائیوں کو گھبرانا نہیں چاہئے، انہیں خوف و ہراس میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ </b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>پھر تیسری بات ، کیا خلافت کی ضرورت ہے اس دور میں؟ : ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ دنیا کا انسان کیا چاہتا ہے؟ ہم دیکھیں گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ دنیا کا ہر انسان امن چاہتا ہے، خوشحالی اور فراغت چاہتا ہے، عدل و انصاف چاہتا ہے۔ یہ انصاف کی فطرت ہے ہے ، تو دیکھنا یہ ہے کہ یہ چیزیں ملتی ہیں آج کے زمانے میں؟ آج کے زمانے میں نظریات پیدا کئے گئے، یہی دعوہ لیکر نظریات سامنے لائے گئے کہ انسان کی امیدیں اور تمنائیں پوری کی جائیں گی۔ اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا میں کو مختلف نظریات لائے گئے کیا انہوں نے دنیا میں امن قائم کیا؟ آپ دیکھ لیجئے دو عظیم جنگیں دنیا میں لڑی گئیں، جنگ عظیم اول میں اور جنگ عظیم ثانی میں کتنی جانیں ضائع ہوئی ہیں، کتنا مالی نقصان ہوا اس کا کوئی اندازہ لگایا نہیں جا سکتا۔ لیگ آف نیشن وجود میں لائی گئی، مقصد تھا کہ یہ ادارہ دنیا میں امن قائم کرے گا اور اس کے سائے تلے دو عالمی جنگیں لڑی گئیں۔ اس کے بعد اقوام متحدہ (اصلاً جو اقوام متفرقہ ہے) کا ادارہ وجود میں لایا گیا، اس میں اس وقت ایک سو چوراسی (۱۸۴) ملک ہیں، آپ نے سنا ہو گا امریکہ کا صدر بھی اسے قبول کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کے وجود میں آنے کے بعد بیس ملین (بلکہ اس سے زیادہ) لوگ اب تک ہلاک ہو چکے ہیں، جو اقوام متحدہ امن قائم کرنے کی امیدوں کے ساتھ وجود میں لائی گئی تھی اس کے سائے تلے اس کی ناک کے نیچے بیس ملین لوگ اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ آج اقوام متحدہ پر اجارہ داری ہے، چند اجارادار ہین۔ پانچ ملک جن کے پاس ویٹو کا اختیار ہے۔ روس، چین، برطانیہ، فرانس اور امریکہ اسے ایک لونڈی کی حیثیت سے استعمال کر رہا ہے، اقوام متحدہ نے قراردادیں پاس کی فلسطین کے بارے میں، لیکن اسرائیل نہیں مانتا ، اور اسے کوئی نہیں چھوڑتا، اس کے ساتھ کوئی اقتصادی بائیکاٹ نہیں کرتا، اس لئے کہ وہ امریکہ کا پروردہ ہے، وہ امریکہ کا پالتو ہے۔ اور اسی طرح بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روند ڈالا، جو جموں و کشمیر کے ایک کروڑ تیس لاکھ لوگوں کے بارے میں اقوام متحدہ نے پاس کی تھیں کہ انہیں (Right to Self Determination ) دیا جانا چاہئے، تاکہ وہ اپنے مستقبل کا تعین کر سکیں، لیکن بھارت نے اقتدار کے نشے میں طاقت کے بلبوتے پر ان قراردادوں کو روند ڈالا اور آج بھی ۶ لاکھ فوجیں کشمیر کی زمین پر انسانی کھوپڑیوں کے ساتھ فٹبال کی طرح کھیل رہی ہیں۔ اقوام متحدہ انصاف نہیں دے سکا، آج اقوام متحدہ ایک معچل ادارہ بن چکی ہے۔ </b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>دوسری امن کی کوشش یہ کی جارہی ہے کہ جمہوریت کو فروغ دیا جائے، اسے پروان چڑھایا جائے، تاکہ زندگی کے مسائل حل ہوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جمہوریت کے راستے سے جب الجزائر میں اسلام آگے آتا ہے تو جمہوریت کا راستہ روک دیا جاتا ہے کہ نہیں یہ جمہوریت ہمیں منظور نہیں، جس کے راستے سے اسلام سامنے آجائے۔ ترکی میں جن جمہوریت کے ذریعے اسلام آتا ہے تو اس کا راستہ روک دیا جاتا ہے۔ یہ جمہوریت بھی ایک فریب ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ ؎</b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b>دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے جوب <span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری </b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>یہ تو ظلم کا دیو ہے، جس نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، اسی جمہوریت کے سائے تلے ہندوستان میں بقول مولانا اسعد مدنی ؒ تیس ہزار مسلم کش فسادات ہوئے، اسی جمہوریت کے سائے تلے بابری مسجد کو شہید کیا گیا، جو لوگ شہید کرنے والے تھے انکی ساری کارکردگی اس وقت کے وزیر اعظم دیکھ رہا تھا، اس نے ایک گولی بھی نہیں چلوائی، جب مسجد کو شہید کردیا گیا اور مسلمان مجروح جذبات کے ساتھ سڑکوں پر نکل آیا تو بارش کی طرح گولیاں برسائی گئیں اور دو ہزار مسلمان شہید ہوئے، یہ جمہوریت ہے۔ ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۴ ء کو اندرا گاندھی کو اپنے محافظوں نے قتل کیا وہ سکھ تھے، یہ کونسی جمہوریت ہے کہ ایک طرف سے پورے چار دن تک دہلی میں سکھ قوم کا صفایا کیا گیا، اور پانچ ہزار سکھ مارے گئے۔ اسی جمہوریت کے سہارے ہم سے کہا جارہا ہے کہ جمہوریت امن قائم کرے گی۔ جس جمہوریت نے انسان کے جان و مال کا، عزت و آبرو کا تحفظ نہ کیا ہو جس میں اعتقاد و ایمان کا تحفظ نہ ہو، جس میں لوگوں کی عبادت گاہ کا تحفظ نہ ہو وہ جمہوریت بے کار ہے، اس کے سہارے جیا نہیں جاسکتا، اس کا علاج سوچنا ہے۔ اور علاج اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ دین قائم ہو، خلافت علی منہاج النبوہ قائم ہواور یہ تو ایسا فریضہ ہے کہ اگر اس کے لئے ہماری جانیں قربان ہو جائیں تو اس سے بڑھ کر کوئی قیمت نہیں ہو گی کہ وہ دنیا کو امن دینے کیلئے ، ایک ایسا نظام لانے کے لئے قربانیاں دی گئی جو نظام عدل و انصاف کا واحد ضامن ہے۔ </b></div>
</b><b><div style="text-align: justify;">
<b> نوٹ:یہ محترم مولانا سید علی گیلانی صاحب کی ایک تقریر ہے۔ آیڈیو اور ویڈیو ٹیپ کی مدد سے اسے تحریری شکل میں قارئین کے پیش خدمت کیا جا رہا ہے ۔</b></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>(ابراہیم جمال بٹ)</b></div>
</b></h3>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-40936990992277472332014-03-10T20:57:00.003-07:002014-03-10T20:57:55.987-07:00تکریمِ اساتذہ ............ یہ شئے نایاب ہے انمول عالم تاب ہے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h3 style="text-align: left;">
<b><span style="color: red;">٭ابراہیم جمال بٹ</span></b></h3>
<h3 style="text-align: left;">
<b>.....................</b></h3>
<h3 style="text-align: left;">
<b><br /></b><b>آج کے اس دور میں جہاںمادّی منفعت اور خود غرضی کی بنا پر ہر رشتہ اور تعلق کی اہمیت مفقود ہوتی جارہی ہے، وہیں اُستاد اور شاگرد کے مبارک روحانی رشتہ کی اہمیت کم اور اس کاتقدس بھی پامال ہوتا جارہا ہے۔اس سلسلے میں اساتذہ سے اپنا مقام ومرتبہ سمجھنے میں کوتاہی ہورہی ہے ا ورطلبہ بھی ان کی قدر ومنزلت سے ناواقف ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے آئے دن طلبہ اپنے اساتذہ کے تئیں بدتمیزی اور گستاخی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اگرچہ اس بارے میں آج پوری دنیا کے ذی حس لوگ فکر مندتو ہیںمگر یہ روگ ہے کہ اس میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہاہے۔نتیجہ یہ کہ پورا تعلیمی ڈھانچہ اس قدر متاثر ہوا ہے کہ تعلیمی ادارے اور ان سے فارغ ہونے والے طلبہ بہت ساری خرابیوں کے موجب بن رہے ہیں۔ اگرچہ تعلیمی اداروں سے طلبہ عملاً مشین تو بن جاتے ہیں لیکن جس مقصد کے لیے تعلیم دی جاتی تھی وہ مقصد ان طلبہ میں نہیں پایا جاتا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :</b><b>’’ تعلیم ایک ہنر ہے جس سے ماہرانِ خصوصی نہیں بلکہ انسان بنائے جاتے ہیں‘‘۔</b><b>چنانچہ آج اسی صورت حال کا سامنا ہے، ماہرینِ خصوصی یعنی ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر اور سیاستدان تو بنائے جا رہے ہیں لیکن ان تعلیمی اداروںمیں انسان کی اصل تعمیر نہیں ہو پارہی ہے۔ روح کے سکون کا ایک ذریعہ تعلیم بھی ہے ، اور اگر صحیح معنوں میں یہ تعلیم ایک طالب علم کو نہ ملے تو انسان جانوروں سے بدتر صورت اختیار کر سکتا ہے، جس کا عملی نمونہ آج ہم خود بنے بیٹھے ہیں۔ ایک جگہ ایڈیسن لکھتا ہے :</b><b> ’’سنگ مر مر کے ٹکڑے کے لیے جس طرح سنگ تراشی ہے ویسے ہی انسانی روح کے لیے تعلیم ہے‘‘۔</b><b>ایک اور جگہ پر فروبل لکھتا ہے کہ: ’’تعلیم کا مقصد کھری، پُر خلوص، بے عیب اور پاک وصاف زندگی بسر کرنے کے قابل بنانا ہے‘‘۔</b><b>علامہ اقبالؒ ایک جگہ فرماتے ہیں ؎</b><b>شیخ مکتب ہے اِک عمارت گر</b><b>اس کی صنعت ہے روحِ انسانی</b><b>غرض تعلیم اگر صحیح معنوں میں ایک طالب علم کو دی جائے تو یہ واضح ہے کہ طلبہ کے ذریعے سے وہ عملی انقلاب آئے گا جس کا آج ذی حس انسان متمنی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آج کیا کچھ پڑھایا جا رہا ہے اور اس پڑھائی کے نتیجے میں کیا کچھ حاصل ہو رہا ہے…؟پڑھائی کا مقصد کیا بن چکا ہے…؟ اور مقصد کے حصول کے لیے کیا کیا عملی طور کیا جا رہا ہے…؟ ان جیسے سوالات کا اگر آج کے تعلیمی نظام کی روشنی میں جواب طلب کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ تعلیم بس ماہرانِ خصوصی بنانے کے لیے دی جارہی ہے اور وہ بھی ایسے ماہران بنائے جا رہے ہیں جن سے انسان نام کی چیز اس دنیا میں رہنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں استاد اگرچہ موجود ہیں لیکن استاد کے معنی کیا ہیں، استاد کا مقام کیا ہے، اور اس کے حقوق طلبہ اور طلبہ کے حقوق اساتذہ پر کیا ہیں ،اس سے آج کا طالب علم اور استاد دونوں کا دور دور کا کوئی واسطہ نہیں رہا۔ اس کی لا پروائی یا آزاد خیالی نے اس قدر تعلیمی نظام اور اس سے جڑے لوگوں کا کام ختم کر دیا کہ آٓج حقیقی معنوں میں نہ ہی کوئی اُستاد ہے اور نہ ہی کوئی شاگرد، یہ رشتہ کب کا اس دنیا سے نابود ہوچکا ہے۔ چنانچہ یہ رشتہ مثلِ باپ بیٹے کا جیسارشتہ تھالیکن آج اس رشتہ کو ختم کر کے اس عظیم اور پاک رشتہ کی جگہ آزاد خیالی کے نام پر ایک دوسرا رشتہ قائم کیا جا چکا ہے جس کے موجدبھی ہم خود ہی ہیں۔ آج زندگی کے دوسرے تمام شعبوں کی طرح تعلیم کے بارے میں بھی مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ کوئی آزاد خیالی کے علمبرداروں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر صرف اور صرف اپنے ذہن و گمان کو ہی جگہ دیتے ہو ئے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے اور کوئی آج کے اس نام نہاد دور ِجدید کا سہارا لے کر اپنے آپ کو ایک عملی مشین بنانے کی دوڑ میںلگ کر اسی مشین کی طرح اپنی زندگی کی گاڑی کو چلانا چاہتا ہے۔ تیسری جانب کوئی اس قدر تعلیم میں مست ومگن ہو چکا ہے کہ اسے صرف اور صرف اپنی فکر اور اپنے سوچ کی بالادستی کا خیال رہتا ہے۔ دین ومذہب کا انسانی زندگی میں کیا مقام ہے اس جانب یہ سارے طبقہ ہائے طلبہ کم ہی دیکھتے ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ انسان اس قدر مذاہب اور دین کو بالائے طاق رکھ کر اس تعلیمی نظام کی رنگینیوں میں مست ہوچکے ہیں کہ وہ ڈاکٹر اور انجینئر تو بن رہے ہیں، وہ سائنس دان اور سیاست دان بھی بن رہے ہیں، پروفیسر اور فلاسفر بن رہے ہیں، لیکن ایک انسان جو تعلیم کا اصل مقصد تصور کیا جاتا تھا نہیں بن پا رہے ہیں۔ آج تعلیمی اداروں میں دھنگے فساد ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ قتل وغارت گری بھی ہو رہی ہے ،یہ نتیجہ ہے کہ تعلیم کے اصل مقصد کو پس پشت ڈال کر اپنی ’’آزاد خیالی‘‘ کابھرم قائم کر نے کا۔ شاگرد اگرچہ آج بھی طالب علم اور شاگرد (Student)ہی کہلاتا ہے لیکن ان دونوں کے درمیان جو رشتہ قائم ہونا چاہیے تھا وہ مقدس رشتہ آج کی دنیا میں لگ بھگ کہیں نہیںپایا جاتا۔ اُستاد جو روحانی باپ کے مرتبہ پر فائز تھا، اسے چند روپیوں کے عوض ایک ملازم تصور کر کے اس سے ملازمت کروائی جاتی ہے۔ دوسری جانب اساتذہ بھی اپنے مقصد اور مرتبہ سے اس قدر دور نکل چکے ہیں کہ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ’’کس طرح کہاں سے پیسہ آتا ہے ، وہ اپنے آپ کو ملازم ،اور شاگرد کو پیسے دینے والا مالک بنا دینے میں ہی اپنی بھلا سمجھتے ہیں۔جس کے نتیجے میں آزاد خیال طالب علم نہ تو گھر کا ہو پاتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ کے۔گھروں میں اپنے ماں باپ کا سہارا بننے کے بجائے یہ طالب علم ان کو ایک مقام پر بوجھ تصور کرتے ہیں اور انہیں اپنے ہی گھروں سے دھکے مار مار کر یا تو نکال باہر کر دیتے ہیں یا انہیں اس طرح جینے پر مجبور کر دیتے ہیں ،وہ نہ تو اپنے گھر کے رہتے ہیں اور نہ ہی گھر کے لوگوں کے۔ اسی طرح ایک استاد بھی اس معاشرے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہا ہے ، وہ بھی نہ تو اس تباہی سے خود بچ پاتا ہے اور نہ ہی اپنے زیر تربیت طلبہ کو بچا پاتا ہے۔ یہی سوچ ہے جو آج کی اس دنیا میںپنپ رہی ہے اور اسی سوچ کے نتیجے میں آج ہم اپنے گھر اور معاشرے کی تباہی کا نظارہ کر رہے ہیں۔ بایں ہمہ اس میںایک گہری تبدیلی آسکتی ہے لیکن پہلے اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا۔ طریقہ تعلیم اور نظام تعلیم کو بدلنا ہو گا، ہر ایک شخص کو وہ مقام دینا ہو گا جو اس کا ازل سے ابد تک متعین ہے، اور ہر اس محدودو لایعنی خیال سے اپنے آپ کو آزاد ہو کر اس لامحدودہستی کو بسر وچشم تسلیم کرنا ہو گا جس کی لامحدودیت میںہی انسان اور انسانیت کی بقا اور کامیابی کا راز مضمر ہے۔ اور یہ سب کچھ آج بھی مذہبی اور دینی تعلیمات میں موجودہے۔ اصلاح احوال کی مخلصانہ نیت ہو تو اس جانب توجہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دین و دنیا کی تفریق ختم کر کے ایک ایسا تعلیمی نظام کا قیام ضروری ہے جس سے انسان کی تعمیر سیرت ہو سکے، ہنر مندی کے ساتھ ساتھ دیانت داری اور امانت پسندی کا ایک نمونہ قائم کیا جاسکے، جس سے ایک دھوکہ باز سیاست دان کے بجائے ایک باکردار اور باادب سیاست دان پیدا ہو جائے، ایک ایسا ڈاکٹر اور انجینئر پیدا ہوسکے جو لوگوں کا علاج اور ان کی تعمیر وترقی نہ صرف اپنا ذریعہ معاش بنائے بلکہ اس کے لئے اس کا ہر کام عبادت کا مرتبہ پا جائے۔ استاد اپنے شاگردوں کا روحانی باپ جیسا بن کر ان کی روحانی تربیت کا ذریعہ بن جائے اور اس طرح اپنی تعلیم سے شاگرد کو آراستہ کر دے کہ وہ شاگرد ماہر بھی بن جائے اور انسان بھی باقی رہے۔</b><b>چنانچہ اس ضرورت کے پیش نظر سب سے پہلا کام معلّم کی ہے، معلم صحیح تعلیمات سے آراستہ ہو گا تو طالب علم بھی صحیح تعلیم کے نور سے منور ہو پائیں گے اور اگر استاد ہی اصل اور حقیقی روحانی تعلیم سے نابلد ہو تو اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہماری تربیت کے بجائے ہماری تباہی کے ہتھیار ہی بن جائیں گے۔ حق یہ ہے کہ اسلام ایک ایسادین ہے جس کا اپنا ایک نظام تعلیم ہے۔ اس سسٹم اور طریقہ کار کے نتیجے میں کس قدر لوگوںکا جنم ہو چکا ہے اس سے تاریخ کے اوراق سنہرے الفاظ سے بھرے پڑے ہیں۔ اسلام کے اس تعلیمی نظام میں معلم کا اپنا ایک درجہ ہے۔ وہ طلبہ کا روحانی باپ ہے اور ملت کا معمار بھی۔ آئندہ نسلوں کی سیرت سازی اسی کے ذمہ ہے اور مستقبل کے شہریوں کا بننا اور بگڑنا بہت حد تک اسی کی کوششوں اور فکر پر منحصر ہے۔ چنانچہ اس اہم منصب کے لحاظ سے ایک معلّم کے اعلیٰ اوصاف ہونے چاہییں۔ معلم کے اوصاف اعلیٰ ہوں گے تو طلبہ کے اوصاف پر ان کی چھاپ پڑے گی اور اگر معلم اوصاف ِحمیدہ سے خالی ہو تو طالب علموں کی کھیپ سے اعلیٰ اوصاف کا حامل انسان نکل آنا مشکل ہے۔ معلم اعلیٰ سیرت وکردار کا حامل ہونا چاہیے، اس میں علمی لیاقت اور تدریسی صلاحیت کے ساتھ ساتھ بچوں کی نفسیات اور طریقِ تعلیم سے واقفیت بھی ہونی چاہیے۔ ایک معلم میں صبر وتحمل، معاملہ فہمی ، قوتِ فیصلہ، طلبہ سے فکری لگائو، خوش کلامی اور مؤثر اندازِ بیان ہونا چاہیے۔ اس کے کام میں اخلاص اور لگن، ہمدردی اور دل سوزی اور اصلاح کے جذبہ کے ساتھ ساتھ نظم وضبط قائم کرنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔ یہ صفات اور لوازمات لازم وملزوم ہیں اور یہ وہ ضروری اوصاف ہیں جنہیں ہر معلّم کو اپنے اندر پروان چڑھانے کی ضرورت ہے کیوں کہ ان کے بغیر اصل اور حقیقی تعلیم وتربیت جیسا کام نتیجہ خیز ہو ہی نہیں سکتا ؎</b><b>سبق پھر پڑھ صداقت کا، شجاعت کا، عدالت کا</b><b>لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا</b><b>ان حالات میں سماج میں بیداری مہمات چلانے کی اگرچہ ضرورت ہے لیکن ساتھ ساتھ اس میدان میں عملی طور اُتر کر وہ کچھ کرنے کی کوشش بھی ضروری ہے جس کا ایک عام انسان آج متمنی ہے۔ ایسے میں وادی کشمیر میں طویل مدت سے طلبہ تنظیم ’’اسلامی جمعیت طلبہ جموں وکشمیر‘‘ نے جو24تا30مارچ2014 تک ایک ریاست گیر’’ احترام اساتذہ ‘‘مہم چلائی جا رہی ہے،وہ قابل صد تحسین ہے۔ اس کے ذریعے حتی الوسع ریاست بھر کے تعلیمی اداروںاورکوچنگ سینٹرز میں خطابات، مکالمات، پوسٹرز،بینرزاورفولڈرزکے ذریعہ طلبہ میں یہ احساس زندہ کر نے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ اساتذہ ہمارے انبیاء علیہم السلام کے وثاء ہیں،وہ دنیائے انسانیت کے درخشاں ستارے ہیں۔ ان کے اندر یہ جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اساتذہ کی عزت ہماری دینی روایت ہے اور یہ ہماری تہذیب کا ایک اہم حصہ ہے،تاکہ پھر سے اساتذہ اور شاگرد کا باہمی رشتہ مربوط ہوجائے،باہمی محبت واحترام زندہ ہوجائے، ان کی اصل ساکھ کو از سرنو بحال کر کے انہیں اپنا مقدس مقام مل سکے۔اگرچہ اس مہم کا اپنا ایک الگ انداز اور وقت ہے تاہم اس میں فی الحال مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مہم سے اس مسلسل کام کے لیے ایک تحریک ملنا ممکن ہے، یہاں وادی کشمیر میں جو طلبہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں انہیں اس کام میں آگے آنا ہو گا، بلکہ اسلامی جمعیت طلبہ جموں وکشمیر کو اس کام کے لیے اُنہیں ’’تعانوا علی البر والتقویٰ‘‘ کے اصول پر اپنے کام میں شامل کر کے یا اس میں مدد ومعاونت کی ضرورت کے پیش نظر انہیں اس کام میں لانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی اس کارخیر میں شمولیت کی دعوت دینی چاہیے جو اگرچہ اس میدان سے وابستہ نہیں ہیں لیکن عملاً اگردیکھا جائے تو وہ بھی اس معاشرہ سے وابستہ ہیں جس میں آج ہمہ گیر تباہی مچی ہوئی ہے۔ ان سے سخنے،قدمے، درہمے اورقلمے آکر اس ریاست گیر مہم میں معاونت کی اپیل کر کے ان کو اس اصلاحی تحریک میں شامل کرنا چاہیے۔ اس تحریک کو عام لوگوں تک پہنچانے کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ کام صرف طلبہ اور اساتذہ کا نہیں ہے بلکہ یہ کام یہاں بس رہے لوگوں کو کام ہے، بچوں سے لے کر نوجوانوں تک سارے اس معاشرے کے پُرزے ہیں اور ایک ایک پرزہ اپنے اپنے کام پر لگ جائے تو مشین اور گاڑی کا کسی ویران مقام پر چلتے چلتے بیٹھ جانا ناممکن ہے ؎</b><b>شیخ مکتب ہے اِک عمارت گر</b><b>اس کی صنعت ہے روحِ انسانی</b><b><br /></b><b>٭٭٭٭٭</b></h3>
<br /></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-11208355690098664732014-02-23T18:23:00.005-08:002014-02-23T18:23:53.632-08:00آہ ! یہ زندگی … بندگی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h3 style="text-align: left;">
<b><br /></b><b>٭ابراہیم جمال بٹ </b><b>.......................</b><b><br /></b><b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>’’دن و رات ‘‘وقت کے لحاظ سے 24 گھنٹوں کا نام ہے۔ ان24گھنٹوں پر اگر گہرائی و گیرائی سے غور کیا جائے تو دارین کی خوش حالی کے لیے کافی ہے۔ ان24 گھنٹوں میں ایک ایک لمحہ بلکہ ایک ایک سیکنڈ میں انسان کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔ چناں چہ اگر انسان صحیح جذبہ سے لیس ہو کر، بلا کسی تعصب کے، اپنی زندگی کے ان 24 لمحات یا گھنٹوں کے لیے ایک مسلسل اور قابلِ عمل پروگرام ترتیب دے کر اس پر عمل کرے تو انسان کے ساتھ ساتھ پوری عالم ِانسانیت کا نام روشن ہو جائے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ انسان کو اپنے ان24گھنٹوں پر غور و فکر کرکے پروگرام ترتیب دینے کی چنداں بھی فرصت نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے آج حضرت انسان ، انسانیت سے ہی نہیں بلکہ ہر حیثیت سے دور نکل چکا ہے۔ </b><b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>یہ بات واضح ہے کہ جس فرد اور قوم کو اپنی فکر نہیں وہ دوسروں کا خیر خواہ ہو ہی نہیں سکتا۔ جو اپنی کامیابی اور خیروعافیت کا طلب گار نہ ہو، وہ دوسروں کے لیے خیر خواہ ثابت نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی کو اپنی قدر نہ ہو تو وہ دوسروں کی قدر حقیقی معنوں میں نہیں کرسکتا۔ اس لحاظ سے انسان کو اگر خود کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے خیر خواہ ، غم خوار اور قابل بننا ہے تو اسے دن و رات کے ان 24لمحات پر صحیح معنوں میں غوروفکر کر کے اپنی زندگی میں ایک ایسا انقلابی پروگرام تلاش کرنا چاہیے جس پر چلنے سے اس کی زندگی ہی کامیاب زندگی نہ کہلائے بلکہ وہ دوسروں کے لیے بھی نمونہ بن جائے۔ بحیثیت مسلم اگر ہم صحیح ڈھنگ اور ترتیب وار ان لمحات پر غور کریں تو ہمارے لیے سچ مچ یہ 24گھنٹے کافی ہیں۔ </b><b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>ان 24لمحات کی شروعات ہم صبح نیند کی بیداری سے کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ ایک مسلم کی حیثیت سے کیا کبھی ہم نے نیند سے بیدار ہو کر اس بات پر غور کیا کہ یہ نیند کیا ہے…؟ نیند ہماری آنکھوں پر کب سوار ہوکر دنیا سے بے خبر کر گئی…؟ ہم اس نیند میں کہاں کہاںتھے…؟ کس نے ہمیں اس نیند سے جگا کر دن کی شروعات کے لیے اُٹھنے کا جذبہ اور تحریک پیدا کی…؟ ان جیسے سوالات پر اگر ہم بحیثیت مسلم غور کریں تو ہماری صحیح راہ پانا طے ہے۔ یہ سوالات ہماری خود کی زندگی کے بارے میں ہیں اور ان کا جواب ہمیں خود تلاش کر کے اپنی کامیابی اور کامرانی کی راہ طے کرنی ہے۔</b><b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>انسان چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین، بوڑھے ہوں یا جوان، جب نیند سے بیدار ہو جاتے ہیں تو اکثر ان کا کہنا ہے کہ ہم نے رات کے اس وقفۂ نیند میں بہت کچھ دیکھا جس میں کئی باتیں یاد رہتی ہیں اور کچھ باتیں یاد نہیں رہتی۔ کیا یاد رہنا چاہیے اور کیا نہیں…؟ یہ انسان پر منحصر نہیں ہے۔ انسان سویا کب…؟کچھ خبر نہیں اور اب نہ چاہتے ہوئے بھی کیوں اور کیسے اچانک بیدار ہوا …؟ اس سب پر انسان کی کچھ نہیںچلتی۔ آخر یہ سب کچھ انسان کے ساتھ کیسے ہو رہا ہے…؟ کیوں ہو رہا…؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ کون کرا رہا ہے…؟ کیا کبھی ہم نے ان باتوں پر غور کیا …؟ </b><b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>دن و رات کے ان24گھنٹوں میں یہ پہلی ساعت جب ہم نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو بحیثیت مسلمان ہم پر فرض کی ادائیگی کا وقت شروع ہو جا تا ہے یعنی ہاتھ منہ دھو کر (باوضو) سب سے پہلے مسجد میں جا کر صبح کی نماز (فجر) ادا کرنی پڑتی ہے۔ صبح کے اس پہلے کام ـــــــ’’نماز ‘‘کی شروعات پر ہی اگر غور کیا جائے تو انسان اپنے آپ سے باخبر ہو جائے، انسان کو اپنی حیثیت کا حقیقی علم ہو جائے۔ 24گھنٹوں میں سے اس ایک شروعاتی گھنٹے میں انسان غور وفکر سے وہ کچھ پا سکتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہیں ہو گا۔ صبح کی نماز سے شروعات کا مطلب اپنی صحیح حیثیت سے باخبر ہونا ہے۔ پہلے ہی لمحے میں انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ادنیٰ اور کمزور انسان ہے جسے اپنی زندگی پر کوئی کنٹرول نہیں۔وہ نہیں جانتا ہے کہ وہ کب تک اس دنیا میں ہے، اس پر خود کا نہیں بلکہ لا ثانی و لا فانی ذات کا کنٹرول ہے، جس کے آگے جھکنا اس کی فطرت کی رگ رگ میں ہے، اور فطرت کے آگے غیر فطری عمل کرنا اپنی ہی زندگی کے حقیقی خاتمے کا نام ہے۔ اسی لیے ایک مسلم ہونے کے ناطے صبح بیداری کے بعد پہلا کام حقیقی مالک ربِ ذوالجلال کے دربار میں سلامی (نماز) کے لیے حاضر ہونا انسان کے لیے پہلا اور اہم سبق ہے، کہ تو بندہ اور غلام ہے، تیرا کام مالک حقیقی کی بندگی اور عبادت ہے، اس شروعات سے انسانی زندگی کی ابتدا ہو تی ہے اور جس دن کی ابتدامالک ِحقیقی کے حضور سلامی (نماز)سے ہو اس دن کا کیا کہنا…؟ </b><b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>بحیثیت مسلم ہمارے لیے صبح کی نیند سے بیدار ہو کر خدا کے حضور سلامی (نماز) پیش کرنا اس بات کا اعلان ہے کہ ہم کسی کے بندے اور غلام ہیں۔ چناں چہ اس اعلان کی وجہ سے بندے کی شروعات بندگی سے ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی شروعات بندگی کے بجائے اپنے نفس کے بنائے ہوئے طریقوں سے کرے تو یہ قانون الٰہی کے خلاف ہے اور یہ واضح ہے کہ جو اپنے مالک کا وفادار نہ ہو، جو اپنے سب سے بڑے مالک کی فرماں برداری نہ کرے، اس کی دن بھرکی دوڑ دھوپ میں مالک کی رضا مندی و خوشی کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا ۔ 24 گھنٹوں کے ان لمحوں میں پہلا سبق خدا کے حضور اپنی اصلیت تسلیم کر کے اس کے آگے جھکنے کا درس دیتا ہے۔ اب یہ ہم پر انحصار ہے کہ ہم قانونِ الٰہی کو مان کر اس کے آگے زندگی کی شروعات اس کی بندگی سے کریں یا اپنی مان کر غیر الٰہی طریقے اختیار کر کے خدا کے غضب کا شکار ہو جائیں۔ ہماری صبح بیداری کا اعلان ہماری پہچان ہے۔ مسلم ہونے کی حیثیت سے ہم بندے ہیں اور ہماری شروعات بندگی سے ہی ہونی چاہیے۔ مسلم ہوتے ہوئے اب کوئی بندگی کا طریقہ چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اختیار کر لے ،تو اسے اپنے مسلمان ہونے پر غور کرنا چاہیے۔اس سلسلے میں قابل تحریک بات مفکر اسلام سید مودودیؒ نے فرمائی ہے کہ: </b><b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>’’اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ عبادت کا مطلب جانناآپ کے لیے کس قدر ضروری ہے۔اگر آپ اس کے صحیح معنی نہیں جانتے تو اس مقصد ہی کو پورا نہیں کرسکیں گے جس کے لیے آپ کو پیدا کیا گیا ہے، اور جو چیز اپنے مقصد کو پورا نہیں کرتی وہ نا کام ہوتی ہے۔ڈاکٹر اگر مریض کو اچھا نہ کرسکے توکہتے ہیں کہ وہ علاج میں ناکام ہوا، کسان اگر فصل نہ پیدا کرسکے توکہتے ہیں وہ زراعت میں نا کام ہوا، اسی طرح اگر آپ اپنی زندگی کے اصل مقصد یعنی’’عبادت‘‘ کو پورا نہیں کرسکتے تو کہنا چاہیے کہ آپ کی ساری زندگی ہی نا کامیاب ہوگئی۔ اس لیے آپ عبادت کا مطلب ضرور سمجھ لیں کیوں کہ اسی پر آپ کی زندگی کے کامیاب یا نا کامیاب ہونے کا انحصار ہے۔اس عبادت کے معنی ہیں بندگی اور غلامی۔ جو شخص کسی کا بندہ ہو، اگر وہ اس کی خدمت میں بندہ بن کر رہے اور اس کے ساتھ اس طرح پیش آئے جس طرح آقا کے ساتھ پیش آنا چاہیے تو یہ بندگی اور عبادت ہے۔اس کے برعکس جو شخص کسی کا بندہ ہو اور آقا سے تنخواہ پوری پوری وصول کرتا ہو،مگر آقا کے حضور میں بندوں کا سا کام نہ کرے تو اسے نافرمانی اور سرکشی کہا جاتا ہے۔بندے کا پہلا کام یہ ہے کہ آقا ہی کو اپنا آقا سمجھے اور یہ خیال کرے کہ جو میرا مالک ہے، جو مجھے رزق دیتا ہے، جو میری حفاظت اور نگرانی کرتا ہے، اسی کی وفاداری مجھ پر فرض ہے،اس کے سوا اور کوئی اس کا مستحق نہیں کہ میں اس کی وفاداری کروں۔بندے کا دوسرا کام یہ ہے کہ ہر وقت آقا کی اطاعت کرے،اس کے حکم کوبجالائے،کبھی اس کی خدمت سے منہ نہ موڑے اور آقا کی مرضی کے خلاف نہ خود اپنے دل سے کوئی بات کرے نہ کسی دوسرے شخص کی بات مانے۔غلام ہر وقت ہر حال میں غلام ہے۔ اسے یہ کہنے کا حق ہی نہیں کہ آقا کی فلاں بات مانوں گا اور فلاں بات نہیں مانوں گایا اتنی دیر کے لیے میں آقا کا غلام ہوں اور باقی وقت میں اس کی غلامی سے آزاد ہوں۔بندے کا تیسرا کام یہ ہے کہ آقا کا ادب اور اس کی تعظیم کرے،جو طریقۂ ادب اور تعظیم کرنے کا آقا نے مقرر کیا ہو اس کی پیروی کرے،جو وقت ’’سلامی‘‘ کے لیے حاضر ہونے کا آقا نے مقر ر کیا ہو، اس وقت ضرور حاضر ہوا ور اس بات کا ثبوت دے کہ میں اس کی وفاداری میں ثابت قدم ہوں‘‘۔ </b><b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>اسی تناظر میں اگر ہم اپنی زندگی کے ان24لمحات پر گہرائی و گیرائی سے غور کریں تو ہماری زندگی کا مقصد بھی واضح ہو جائے گا اور اس دنیا کی حقیقت کا بھی علم ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے ہمارے اسلاف راتوں میں شب بیداری کر کے ایک طرف خدا کی یاد میں مشغول رہتے تھے اور دوسری طرف اس وسیع کائنات پر، اپنی زندگی پر غور و فکر کرتے رہتے تھے۔ بلکہ ایک بزرگ کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ شام کے وقت نیند کا غلبہ محسوس کرتے تو نیند سے پہلے باوضو ہو کر اس طرح لیٹا کرتے تھے کہ دوسروں کو محسوس ہو کہ وہ انتقال کر گیا ہے۔ تھوڑی دیر اس حالت میں رہ کر وہ بزرگ اپنے آس پاس خاموشی کے ان لمحات میں اپنی موت کے بارے میں غور وفکر کرتا تھا کہ جب میری موت ہو گی تو برابر اسی طرح میری نعش کمرے میں پڑی ہو گی، لوگ آئیں گے، مجھے دیکھ دیکھ کر چلے جائیں گے، لیکن میں ان کی طرف نہ دیکھ سکوں گا اور نہ ہی ان کی کسی بات کا جواب دے پائوں گا۔ میرے غسل کا انتظام ہو گا، غسل دے کر میری میت کو جنازہ پڑھایا جائے گا، جنازے کے بعد میری نعش سپرد خاک کی جائے گی، قبرستان تک میرے قریبی رشتہ دار بھی آئیں گے، لیکن دفن کرنے کے بعد سب مجھے چھوڑ کر اپنے اپنے گھر چلے جائیں گے۔ پھر کیا ہو گا …اس بارے میں کسی کو فکر نہیں ہو گی، سب کچھ مجھے سہنا ہو گا۔ یہ سب کچھ کر کے اس بزرگ کے متعلق آتا ہے کہ وہ جب اس کے بعد اُٹھ کھڑا ہو جاتا تھے تو جیسے ان کی آنکھوں میں آنسوئوں کا سمندر بھرا ہوا ہوتا تھا اور اس طرح وہ اپنی زندگی میں ہی اپنا احتساب کر کے اس دوسری زندگی کے بارے میں خدا کی فرماں برادری کا عہد کرتا تھا۔دیکھا جائے تو قرآن ِمجیدبھی اس بات کی بار بار یاد دہانی کراتا رہتا ہے کہ ’’افلا تذکرون، افلا تدبرون، افلا تتفکرون۔ </b><b><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>24گھنٹوں کے اس دن و رات میں ہمارے لیے کیا اور کیسے کیسے راز پوشیدہ ہیں ان کے بارے میں انسان تب ہی جان سکتا ہے جب وہ ان لمحات پر صحیح طور سے غور کرے۔ </b><b>٭٭٭٭٭٭</b></h3>
<div>
<br /></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-75838270521850302132014-02-17T01:41:00.004-08:002014-02-17T01:41:58.141-08:00آہ…! وہ خلافت کا نظام <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<b><br /></b>
<div>
<b><span style="color: blue;">٭ابراہیم جمال بٹ</span></b></div>
<div>
<b><span style="color: red;">....................</span></b></div>
<div>
<b><br /></b></div>
<div>
<b>قائد تحریک ِاسلامی، مایہ ناز سپوت ،بزرگ رہنما ،جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد جس کی ولولہ انگیز تقاریر سے شاید ہی کوئی سننے والا متاثر نہ ہوا ہو۔ ایک مرتبہ پاکستان کے ایک جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے جب سامعین حضرات نے کھڑے ہو کر ولولہ انگیز شخصیت کا اثر لئے ہوئے انقلابی نعرے بلند کئے۔ ان نعروں میں ایک طرف اللہ کی تکبیر (نعرۂ تکبیر) بلند ہو رہے تھے اور دوسری جانب ’’لاشرقیہ ولا غربیہ…اسلامیہ اسلامیہ‘‘ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ اسی دوران سامعین میں ایک نوجوان نے جب پاکستان کا مطلب کیا؟ کا نعرہ بلند کیا تو ہر جانب سے ایک ہی صدا سنائی دی : ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ پھر ایک اور نعرہ بلند کیا گیا : ’’یہاں کیا چلے گا؟… نظام مصطفیﷺ‘‘تو یکا یک قاضی حسین مرحوم جس کے ہونٹ اس سے قبل نعروں کا جواب میں ہل رہے تھے، نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھا کر سامعین کی طرف ایسے اشارہ کیا کہ محسوس ہوا کہ لوگوں سے چپ رہنے کی کہہ رہے ہیں۔ چند ہی لمحوں بعد جب انقلابی نعروں کے درمیان لوگوں نے یکایک خاموشی اختیار کر لی ،تو قاضی مرحوم نے ایک ایسی بات کہہ ڈالی کہ سب لوگ جن میں ڈائس کے آس پاس موجود تحریکی زعما ء اور سامعین سن کردھنگ رہ گئے۔ قاضی حسین مرحوم نے کہا: ’’میرے دوستو! میرے عزیز نوجوانو! مجھے ایک بات کا جواب دو… جب ہی میں سمجھوں گا کہ آپ دل ودماغ کی پوری یکسوئی سے نعرے دے رہے ہیں۔ مجھے یہ بتائو کہ اگر ہمارے ملک عزیز ’’پاکستان‘‘ میں آج ابھی اس وقت اعلان ہو جائے کہ اس سرزمین پر شریعت نافذ کرو ، تو آپ میں سے کون ہے جو اس شرعی نظام ’’خلافت‘‘ کے سسٹم کو کو نافذ کرنے کے لیے ایک ’’پولیس مین ‘‘کا کردار ادا کرے؟ چنانچہ یہ سنتے ہی سب لوگوں پر خاموشی طاری ہوگئی، کسی کے منہ سے کوئی جواب نہیں، کوئی زبان نہیں ہلی، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سب سامعین و ڈائس پر موجود زعماء گھونگے اور بہرے ہو گئے ہیں۔اس حالت کا مشاہدہ کر کے قاضی حسین مرحوم نے ایک بار پھر اپنی زبان کھولی اور کہا : ’’جب تم میں سے اس نظام کے لیے کوئی ’’پولیس والا‘‘ بننے کے لیے ابھی تیار نہیں ،تو کس زبان سے یہ نعرے ’’یہاں کیا چلے گا…نظامِ مصطفی‘‘ اور ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ‘‘ دے رہے ہو۔اس نظام کے لیے تم میں سے کوئی ’’پولیس والا‘‘ بننے کو تیار نہیں تو اسلامی نظام کا تمہارے ہاتھوں کیا حشر ہو گا۔ اس سرزمین پر اسلام کا نفاذ ہو گا لیکن اس کے لیے ہمیں تیاری کرنی چاہئے۔ اس کا ایک ادنی سپاہی بننے کے لیے اپنے اندر امانت داری کے ساتھ ساتھ بہادری کا وصف پیدا کرنا چاہئے۔ ‘‘چنانچہ اگر حقیقت کی آنکھوں سے دیکھا جائے، دل اور دماغ کو صحیح استعمال کر کے سوچا جائے تو اس بات میں صد فیصد دم ہے کہ ہم کس نظام کی بات کر رہے ہیں۔نعروں کی گونج سے نہ آج تک کوئی انقلاب آیا ہے اور نہ ہی آنے کی آئندہ توقع رکھنی چاہئے۔ بلکہ گرم گر م جذبات کے ساتھ جب تک صحیح تیاری نہ ہو تب تک اسلامی نظام کا نفاذ اصل صورت میں نہیں ہو سکتا ۔ اسلامی نظام کوئی ایسا نظریہ نہیں جو انسانوں کے اذہان کی اختراع ہے بلکہ یہ نظام خدا برتر واعلیٰ کا مکمل اور لاثانی نظام ہے۔ اس نظام کو دنیا میں نافذ کرنے کے پیغمبر آخر الزماں محمد مصطفی ﷺ نے ایک طرف لوگوں کے اذہان تیار کئے اور دوسری طرف اس کے نفاذ کی کوشش میں بیش بہا قربانیںپیش کیں۔ گویا افراد سازی کے ساتھ ساتھ اس کے قیام کے لیے ایک ایسی جماعت تیار کی جس میں ہر طرح کے انسان پائے جاتے تھے۔ خلیفۃ المسلمین کی ذمہ داری کے لیے ایک طرف ابوبکر وعمر تو دوسری جانب عثمان وعلی رضی اللہ عنہم اجمعین کو پروان چڑھایا۔سپہ سالاری کے لیے کس کس کا نام لیا جائے، ہر ایک صحابی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہر دم تیار رہتا تھا۔ نظام اسلامی کے جن شعبوں کے لیے بھی کوئی ضرورت پڑتی تو کوئی مشکل نہیں تھا، ایک سے بڑھ کر ایک فرد تیار تھا۔ غرض یہ کہ نظامِ اسلامی افراد سازی چاہتا ہے۔ یہ نظام قربانیاں چاہتا ہے۔ یہ نظام مستقل مزاجی کا طلب گار ہے، یہ نظام محبت، ایمان داری، بہادری، جذبہ جہاد، اور مالی، جانی اور وقتی قربانی چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ نہ ہو تو ہمارے نویہ نعرے جو اکثر وبیشتر سنائی دیتے ہیں کھوکھلے ثابت ہوں گے۔ کیوں کہ ان نعروں کی جو اصل حقیقت ہے اس سے ہم کوسوں دور ہیں۔ تو ضرورت ہے اس بات پر سوچنے کی، اس جذبہ جو کہ صحیح جذبہ ہے کہ پورا عالم اسلام کے سائے تلے آجائے کے لیے ہر حیثیت سے تیاری مطلوب ہے۔ جذبہ صحیح ہو مگر تیاری نہ ہو تووہ کچھ نہیں پایا جا سکتا جو خیال ہو، بلکہ جذبہ کے ساتھ ساتھ جب تک امت مسلمہ اٹھ کر اس کے لیے ذہنی، فکری اور نظریاتی طور سے کھڑی نہ ہو جائے تب تک یہ خیال است محال است کے مصداق ہے۔ </b></div>
<div>
<b>٭٭٭٭٭</b></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-85213155963058352772013-12-24T05:09:00.000-08:002013-12-24T05:09:01.640-08:00<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg0cg0VXhv8BU9W1RRpGQztp1wJhcbh9tI55GDpBrJuY_He1a9JBjl4-1ksLvu0EP-RfPPhKBENJI85vwG7MXGlUQsjKb9IFckkc7zWAqqg4nUaFmu9XOO5wBrTa8IU2RpA0q5LYr3WFSU/s1600/1455940_198752276980160_1909772250_n.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="286" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg0cg0VXhv8BU9W1RRpGQztp1wJhcbh9tI55GDpBrJuY_He1a9JBjl4-1ksLvu0EP-RfPPhKBENJI85vwG7MXGlUQsjKb9IFckkc7zWAqqg4nUaFmu9XOO5wBrTa8IU2RpA0q5LYr3WFSU/s320/1455940_198752276980160_1909772250_n.jpg" width="320" /></a></div>
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjb6Nsq6f69vT3wCgSsr95SwJz0iV6cRA4X2c20hWnTJjwIMV5xM7eZhBmuxhqL2vxdL5IAnmDxZ0KSiWvG3ZAgI5CIkjurhI2OV59w4yiS3oPPwa-Rt7RSaLWOgO3xn-Mva2GRiBG6sec/s1600/1476232_379037145565698_2060593751_n.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjb6Nsq6f69vT3wCgSsr95SwJz0iV6cRA4X2c20hWnTJjwIMV5xM7eZhBmuxhqL2vxdL5IAnmDxZ0KSiWvG3ZAgI5CIkjurhI2OV59w4yiS3oPPwa-Rt7RSaLWOgO3xn-Mva2GRiBG6sec/s320/1476232_379037145565698_2060593751_n.jpg" width="320" /></a>ذرا توجہ فرمائیے</div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-75141507959185715102013-12-23T20:27:00.003-08:002014-03-11T20:17:39.080-07:00اسلام …قربانیوں کی تحریک ۔۔۔۔۔۔ ملا عبد القادر شہید <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h3 style="text-align: left;">
<b><span style="color: red;">ابراہیم جمال بٹ</span></b><b>۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</b><b>ایک کے بعد ایک قربانی… جہاں بھی دیکھو بس ایک ہی چیز …قربانی… اللہ کی راہ میں، خدا کی خوشنودی کے لیے، اور رسول اللہﷺ کی محبت کے خاطر، دین اسلام کا جھنڈا لئے ہوئے، ہاتھوں میں قرآن وسنت کا پرچم لئے ایک اور قربانی کا منظر 13دسمبرکی رات کو سامنے آیا۔ بنگلہ دیش کے عبد القادر ملا کی شہادت نہ تو کسی انسان کو خوش کرنے کے لیے تھی اور نہ ہی کسی لالچ میں آکر انہوں نے اپنی جان قربان کر دی۔ بس ایک تمنا تھی کہ شہادت کی موت ملے… اللہ کی راہ میں زندگی گزارنے والے اس مرد مجاہد کا آخر بھی اسی کی راہ میں ختم ہو جائے۔ اللہ اکبر… ایسی موت کا کیا کہنا… جس میں اللہ کی رضا مطلوب ہو… جس سے اللہ خوش ہو… جس کے بدلے گناہوں کی تلافی ہو… جس سے جنت کی خوشبو نصیب ہو… اللہ اکبر۔</b><b>بنگلہ دیش ہو یامصر، پاکستان ہو یا شام، دنیا کا وہ کون سا حصہ ہے جہاں فی الوقت ایسی مثالیں نہ دیکھی جا سکتی ہوں۔ ہر مقام پر ایک طرف شیطان اور دوسری طرف رحمانی صفات سے مذّین مرد ِمجاہد… ایک طرف طاغوت کے پرستار اور دوسری طرف اللہ کے دین کے مددگار… ایک طرف اسلام کا پرچم لیے ہوئے کمزور اور ناتوان جسم رکھنے والے مجاہدین اور دوسری جانب توپوں اور بندوقوں سے لیس حکمرانِ وقت جو کہ بدقسمتی سے مسلمانوں کا لبادہ بھی اوڑھے ہوئے ہیں موجود پائے جاتے ہیں… یہ کشمکش نہ تو کبھی ختم ہوئی ہے اور نہ ہی کبھی ختم ہو سکتی ہے۔ اسلام نام ہی ہے کشمکش کا… جس زندگی میں حق وباطل کی کشمکش نہ ہو ،وہ زندگی اصل میں موت ہے۔ زندگی کا دوسرا نام ہی کشمکش ہے اور کشمکش سے ہی مسلمان کو نکھار ملتا ہے… عیاں ہو جاتا ہے کہ آیا یہ اصل مسلمان ہے یا کچھ اور؟</b><b>بنگلہ دیش کی یہ تازہ قربانی کوئی نئی چیز نہیں… قربانیوں سے بھری پڑی ہے بنگلہ دیش کی تحریک… بنگلہ دیش کا وجود ہی قربانی ہے… بنگلہ دیش اسلامی دنیا کا ایک پرزہ ہے اور اس پرزے کو کبھی دشمن نے علیحدہ کر کے اپنی جیت کا جشن منایا لیکن برسہا برس گزرنے کے بعد آج پھر قربانی پیش کی گئی… دور سے دیکھا جائے تو شاطرانہ اور دشمنانہ ذہنیت سے بھرے لوگوں کی بدبو آرہی ہے۔ یہ واقعہ بنگلہ دیش کا واقعہ نہیں… بلکہ یہ واقعہ مسلمانوں کے لیے ایک اور دردناک قربانیوں والا واقعہ ہے… یہ تمام امت مسلمہ کو یاد دلانے کے لیے کافی ہے… کہ اے دنیا میں بسنے والے مسلمان! تاریخ پھر دہرائی جا رہی ہے اور یہ دہراتی جائے گی… لیکن تو صرف ذکر وفکر اور صبح گاہی میں ہی مست نہ ہو جا… تجھے دین کو سربند کرنا ہے… اور اس کو بلند کرنے کے دوران تجھے قربان بھی ہونا ہے۔</b><b>اے امت مسلمہ! اپنے اسلاف کی تاریخ پڑھ… دیکھ وہاں کیا درج ہے… وہاں ایک طرف دعوت ہے تو ایک طرف قربانیاں… ایک طرف ہاتھوں میں قلم ہے تو دوسری طرف تلوار… ایک طرف حکمت ہے تو دوسری جانب اللہ کی راہ میں جہاد… ایک طرف فتح کی خوشیاں ہیں تو دوسری طرف اپنے جانبازوں کی قربانیاں۔ یہ سب کچھ کس لیے؟ کوئی غرض نہیں… کوئی ذاتی مفاد نہیں… کوئی دنیاوی فائدہ نہیں… بس ایک اللہ کی رضا مطلوب ہے۔</b><b>تو اے مسلمان… تو نہ گھبرا… تجھے تو اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ کبھی تیری باری بھی آسکتی ہے… اُس وقت تجھے ملامت کرنے والے کتنا ہی ملامت کریں… تمہاری نظریں بس خدا کی خوشنودی ہی پر ہونی چاہیے۔</b><b>اسلام کی تحریک… کشمکش کی تحریک ہے۔ اندھیرا چھٹ جائے گا انشاء اللہ… ظلم مٹ جائے گا… ظالم کے ہاتھوں کتنا بھی ظلم ہوجائے… آخر کار ظلم کا ہاتھ کٹ جاتا ہے… کتنے ظالم آج تک پیدا ہوئے لیکن کوئی بھی اس دنیا میں نہ ٹک سکا… کوئی بھی مرد مجاہد کو نہ جھکا سکا… ایک وقت مقرر ہے ظلم کا۔ وقت گزر گیا تو ظلم اور ظالم دونوں مٹ گئے ۔</b><b>مصر کا جنرل سیسی ہویا بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ… افغانستان کا کرزائی ہویا شام کا اسد… یہ سب مٹ جائیں گے… ہاں اگر باقی رہ پائے گا تو وہ صرف اور صرف اللہ کی راہ میں دی ہوئی قربانیاں … اللہ کا دین۔</b><b>اے امت مسلمہ کے پاسبانو! یہ موقعہ واویلا کرنے کا نہیں… یہ دن دکھ ودرد میں گزارنے کا نہیں… بلکہ یہ دن یاد دلاتا ہے حق وباطل کی کشمکش کا… یہ یاد دلاتا ہے سچ اور جھوٹ کی لڑائی کا… یہ فرق کرتا ہے کہ کون ہے مسلمان اور کون منافق ؟ کون ہے دشمن اور کون دوست؟</b><b>اُٹھو اور اپنی تاریخ کو پھر یاد کرو! اٹھو اور نیند کی سستی چھوڑ کر اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو… اٹھو اور اللہ کا کلمہ سربلند کرنے کے لیے ہاتھ پائوں پھیلائو۔ اسی میں تمہاری زندگی ہے، کیونکہ یہی کشمکش تمہاری اصل زندگی ہے۔ اٹھو گے تو تمہاری زندگی کا حاصل مل جائے گا اور اگر یوں ہی مست پڑے رہے تو یہاں بھی خسارہ اور وہاں بھی نقصان۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین ۔</b></h3>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1120782193116670939.post-3488584752558341632013-12-23T19:58:00.003-08:002013-12-23T19:58:26.907-08:00اُف خدایا !یہ شدت پسندی ................ نیم حکیم خطرۂ جان……!<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<b>٭ابراہیم جمال بٹ</b><br />
<b>..................</b><br />
<b><br /></b>
<b>دعوت کے طریقہ کار میں ہمارے ہاں بالخصوص اور امت مسلمہ میں بالعموم خواہ مخواہ شدت پسندی پائی جارہی ہے ۔شاید یہ جملہ آپ کو عجیب لگے کیوں کہ ہمارے ہاں عموماً صرف مذہبی انتہا پسندی کو ہی شدت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے حالانکہ یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج اسلام کے نام لیواؤں کی اکثریت دو متضاد سوچ رکھنے والے گروہوں پر مشتمل ہے اور دونوں ہی انتہا پسندی کا شکار ہیں۔ چونکہ یہ دونوں طبقے دین اسلام کو خود پڑھ اور سمجھ کر اپنانے کی پالیسی نہیں اپناتے لہٰذا دونوں ہی شدت پسندسوچ کا شکار نظر آتے ہیں۔</b><br />
<b>ایک طرف وہ طبقہ ہے جس کی اکثریت جدید دنیاوی تعلیم سے آراستہ نہیں اور وہ اسے مغربیت سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ طبقہ اسلام کے راگ تو الاپتا ہے لیکن اسلامی تعلیمات کے بارے میں کچھ خاص علم نہیں رکھتا بلکہ اپنے اپنے گروہ یا مکتب فکر کی انگلی پکڑے بھیڑوں کے ریوڑ کی سی زندگی گزارتا ہے۔ ان میں سے کچھ اپنی ہر بات منوانے کے لئے شدت کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔ بد قسمتی سے ایسے مذہبی انتہا پرستوں کے لیے ہر مسئلے کا جواب بلا کسی حکمت شدت پسندی کی راہ اختیار کرتے ہوئے بات کو سامنے رکھنا بن گیا ہے، موقع ومحل نہ تو دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ جس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ جس شخص سے بات کی جاتی ہے وہ ایک ہی وقت میں ہماری بے حکمت و بے ترتیب زبانی گولی کا شکار ہو کر ڈھیر ہو جاتا ہے۔چنانچہ اسی طرز عمل کو اختیار کرنے والوں کے بارے میں کئی علما فرماتے ہیں :’’ جو دعوت بے حکمت اور شدت پسندی سے دی جائے اس کے نتائج الٹے ظاہر ہو جاتے ہیں اور جہاں دعوت کے میٹھے پھل نکلنے چاہیے وہاں ان کی اپنی سوچ کی وجہ سے میٹھے پھلوں کے بجائے کانٹے ہی کانٹے نظر آتے ہیں، اگرچہ دعوت کی راہ کانٹوں سے بھری پڑی ہوتی ہے لیکن کوئی کانٹوں کو خود ہی دعوت دے اور پھر کانٹوں کو آزمائش کہے اس سے بڑھ کر نیم حکیم کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘</b><br />
<b>چنانچہ آج اگر سوشل میڈیا پر بھی جہاں ہمیں اپنی فرینڈ لسٹ(دوستوں کی فہرست) میں موجود لوگوں کی ذاتی زندگی کی خبروں اور تصاویر سے محظوظ ہونے کا موقع ملتا ہے وہیں پر بہت سے لوگ ہمیں مختلف مذہبی ایشوز پر آپس میں لڑتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ اگر ایک شخص اپنے عالم کی تعریف میں کوئی بات شیئر کرے تو ایک دوسرے طبقہ سے وابستہ شخص فوراً اس کے خلاف فتووں کے انبار لگا دے گا اور کچھ ایسا ہی حال دوسری جانب بھی ہے۔ ہمیں اس فرقہ پرستی سے بلاتر ہو کر سوچنے اور دین کو خود سمجھنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ حقیقت یہی ہے کہ یہاں اکثر فرقے اور جو جماعتیںہیں وہ صرف اپنے اپنے علما ء کی تقلید میں نہ صرف ایک دوسرے کو دن رات نوچتے ہیں بلکہ اس اندھی تقلید میں یہ تمام فرقے بہت سے خلاف قرآن و حدیث عقائد کو بھی اسلام کا حصہ مانتے اور دین میں ایجاد کردہ نئی نئی رسوم پر چلتے ہیں۔ ایک دوسرے کو تو کافر تک بھی مانتے ہیں لیکن بہت سے معاملات میں ان کی ایک دوسرے سے نفرت کی انتہا کا یہ عالم ہے کہ ایک دوسرے کو حق کی دعوت دینے کے بجائے واجب القتل بھی قرار دیتے ہیں جس کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم دن ورات ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں مصروف ہیں۔</b><br />
<b>ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اگر ہم اپنے کلمہ گو بھائی کے حقیقی ہمدرد ہیں تو ہمیں اسے پیار محبت اور اخلاص سے حق کی دعوت دینی چاہئے اور اسکے جواب میں اگر وہ غصہ بھی دکھائے تو برا نہیں ماننا چاہیئے اور سورۃ العصر کے پیغام پر عمل کرتے ہوئے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے ۔ لیکن یہ سب تو تب ہو جب مسلمانوںکے یہ شدت پسند گروہ اور جماعتیں اس بات کو سمجھ پاتے، چونکہ سارا معاشرہ ہی فرقہ فرقہ بنا پڑا ہے لہٰذا کوئی بھی محبت اور رواداری کا ثبوت نہیں دیتا۔الا ماشاء اللہ۔</b><br />
<b>اس مذہبی کم علمی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شدت پسند رویے نے ایک عام انسان کو دین اسلام سے مکمل طور پر متنفر کر دیا ہے۔ اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ اسلام کا نام تو لیتے ہیں لیکن یہ اسے محض ایک مذہب سمجھتے ہیں ، اسے ایک دین یعنی ایک مکمل نظام حیات کے طور پر نہیں دیکھتے۔ یہ لوگ دین کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے لہٰذا یہ شدت پسندانہ رویے کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ شاید یہی اسلام ہے اور نتیجتاً یہ اسلام یا اسلامی نظام کے حوالے سے شرمساری کا شکار بھی نظر آتے ہیں۔یہ اپنے بچوں کو اچھے اور مہنگے سکولوں اور کالجوں میں پڑھاتے ہیں لیکن دین کی ’’الف ب ‘‘بھی انہیں سکھائی نہیں جاتی۔ بس مولوی سے قرآن پڑھوا دیا اور بس، رمضان آیا تو روزے رکھ لیے بس، یہی مذہب ہے۔ لیکن اگر بچہ دین کی طرف ’’ضرورت‘‘ سے زیادہ توجہ دینے لگے، مذہبی باتیں کرے یا پھر داڑھی و حجاب کی طرف مائل ہو جائے تو ان کی راتوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں کہ یہ کیا ہوگیا اور کیوں ہو گیا…؟ کیونکہ ان کے نزدیک مذہبی رحجان ہونے کا مطلب ہے شدت پسندی۔ اگر وہ اسلامی شعائر اختیار کریں تو انہیں ’’کٹر پنتھی ‘‘ کی لیبل چسپاں کی جاتی ہے اور بدقسمتی سے یہی طبقہ پھر ہمارے ہاں بڑے بڑے اہم عہدوں پر فائز ہوتاہے۔جس کی وجہ سے وہاں نہ ہی امانت داری ملتی ہے اور نہ ہی کسی کو کسی انصاف کا موقعہ ملتا ہے۔ اس سب کو نامنہاد دین میں شدت پسندی اختیار کرنے کو مورد الزام ٹھہرایا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔اگر دیکھا جائے تو یہ صورتحال پہلے بھیانک ہے۔ کیونکہ جس نے دین کو ذاتی عبادات کے علاوہ دوسری ہر چیز سے باہر نکال کر مکمل لادینیت کو اپنا لیا ہے کہ ان کے نزدیک دین صرف اتنا ہی ہے جتنا انہوں نے سمجھا اور جس طرح انہوں نے سمجھا لہٰذا ان میں سے ہر کسی کا اپنا اپنا اسلام ہوتا ہے جس پر یہ اپنی مرضی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ یعنی چاہا تو سود پر گھر بنا لیا اور اسے مجبوری سے تعبیر کرلیا کیونکہ یہ دین کو اس کی اصل کے مطابق نہیں بلکہ اپنی مرضی پر چلاتے ہیں یعنی ہم دین کے لیے اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے بلکہ دین کو اپنے لیے جیسے چاہیں گے بدل لیں گے۔ اسی لیے ان کی اکثریت کا زور اپنی ذاتی عبادت اور جنت کمانے پر ہوتا ہے۔اسی طرح جب بات نظام کی تبدیلی کی ہو تو یہ لوگ ہمیشہ دین اسلام کو نظر انداز کرکے لادین اصولوں اور ضابطوں کے تحت اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ یعنی جو جیسا چاہے اسلام اپنائے لیکن اسے اپنے گھر کی چاردیواری تک ہی رکھے کسی اور پر اس سب کو مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے کہ اس سے لڑائی ہوتی ہے۔</b><br />
<b>ظاہر ہے کہ دو قطعی مخالف سوچوں کی اس لڑائی نے ملت میں ہر طرف آگ لگائی ہوئی ہے جس کا نتیجہ ہر کوئی بھگت رہا ہے۔ ہمیں ایک بات سمجھ لینی ہوگی کہ مسائل کا حل ہمیشہ مسائل کی درست نشاندہی سے شروع ہوتا ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے تو ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ دعوت چاہے کسی بھی چیز کی جانب ہو، جب تک اس میں حکمت وموعظت کا خیال نہ رکھا جائے گا تب تک یہ بے جا شدت پسندی اختیار کرنا الٹا دعوت کی راہ کو تنگ کرنے کے برابر ہے۔ اگر ہم اپنے کلام میں شیرینی نہیں پاتے تو ہمیں اس دعوت کے کارخیر میں نہیں اترنا چاہیے بلکہ یا تو خاموشی اختیار کرنی چاہیے یا ان لوگوں کے ساتھ رہنا چاہیے جو ان صفات سے مذین ہوں۔ چنانچہ ایک عالم دین فرماتے ہیں: </b><br />
<b>’’مخالفین خواہ کیسی ہی ناگوار باتیں کر یں داعی کو بہرحال نہ تو کوئی بات خلافِ حق زبان سے نکالنی چاہیے، اور نہ غصے میں آپے سے باہر ہو کر بیہودگی کا جواب بیہودگی سے دینا چاہیے۔ انہیں ٹھنڈے دل سے بنا کسی شدت پسندی کے وہی بات کہنی چاہیے جو جچی تلی ہو، برحق ہو، اور ان کی دعوت کے وقار کے مطابق ہو۔‘‘</b><br />
<b>دعوت ایک فطری عمل ہے اور اس میں غیر فطری طریقہ اختیار کرنے کا مطلب ہے کہ ’’فساد‘‘۔ خدا بزرگ وبرتر نے جو چیز جس کام کے لیے بنائی اس کا طریقہ بھی سکھایا، اگر انسان خدا کے طریقے کو چھوڑ کر اپنا من پسند طریقہ چاہے وہ شدت کا طریقہ ہی کیوں نہ ہو اختیار کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے نتائج بھی اُلٹے ظاہر ہوں گے۔ کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے تو ایک وسیع تر مفہوم کے مطابق اسے ہی ’’فساد‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ اگر دیکھا جائے تو ’’انسانی زندگی کا آغاز صلاح سے ہوا ہے اور بعد میں اس درست نظام کو غلط کار انسان اپنی حماقتوں اور شرارتوں سے خراب کرتے رہے ہیں۔ اسی فساد کو مٹانے اور نظامِ حیات کو از سرِ نو درست کر دینے کے لیے اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبر بھیجتا رہا ہے اور انہوں نے ہر زمانے میں انسان کو یہ دعوت دی ہے کہ زمین کا انتظام جس صلاح پر قائم کیا گیا تھا اس میں فساد برپا کرنے سے باز آئو۔‘‘</b><br />
<b>اس لحاظ سے دیکھا جائے تو داعیان دین سے وابستہ اشخاص میں ایک اہم چیز حکمت وموعظت حسنہ کا اخلاقی ہنر ہونا چاہیے۔ یہ صفات اگر نہ ہوں تو جس صحیح کام کے ارادے سے وہ کام کرنا چاہتا ہے اس سے وہ نتائج نہیں نکلیں گے جو موثر ثابت ہوں۔داعیان حق کی کامیابی کا گُر یہ بھی ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی ان سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے جنہیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام کافی ہوتی ہے جوہر انسان کو حاصل ہے۔ چنانچہ دعوت کے کام میں جہاں یہ بات ضروری ہے کہ طالبین خیر کو معروف کی تلقین کی جائے وہاں یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جاہلوں سے نہ الجھا جائے خواہ وہ الجھنے اور الجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں۔ داعی کو اس معاملہ میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں۔بلا کسی شدت اور جہالت کے داعی کو معقول انداز میں یا تو ددعوت پیش کرنی چاہیے یا اگر سامنے جاہلیت پائے تو ان سے الجھے بغیر فی الخال پرہیز ہی کیا جائے۔ اسی دعوت کے بارے میں سید مودودیؒ ایک جگہ رقمطراز ہیں: </b><br />
<b>’’دعوت معقول دلائل کے ساتھ، مہذب وشائستہ زبان میں، اور افہام وتفہیم کی اسپرٹ میں ہونا چاہیے تاکہ جس شخص کو دعوت دی جا رہی ہو اس کے خیالات کی اصلاح ہو سکے۔ دعوت دینے والے کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اتار دے اور اسے راہ راست پر لائے۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مد مقابل کو نیچا دکھانا ہوتاہے۔ بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھتا ہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفا یاب ہو جائے۔‘‘</b><br />
<b>یہی جذبہ لیکر اگر داعی دعوت کے میدان میں اتر جائے تو اس کے کام کا پھل انشاء اللہ ضرور حاصل ہو گا اور اگر جہالت، شدت پسندی اور غیر حکیمانہ طور طریقے سے لوگوں کو اپنی بات تھوپنے کی کوشش کی تو اس کے نتائج الٹے نکلیں گے، جس کہ ساری تر ذمہ داری اصل معنوں میں اسی نیم حکیم داعی پر آئے گی۔ چنانچہ آج جس صورت حال سے ہم گزر رہے ہیں وہاں اس نیم حکیمی اور شدت پسندی کا رحجان زیادہ پایا جا رہا ہے ، جس کی وجہ سے سرگرمیاں اگرچہ بہت زیادہ ہو رہی ہیں لیکن ان سرگرمیوں کا حاصل نہ ہونے کے برابر ہو رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دعوت کے میدان میں اترنے والے جانبازوں کوحکمت اور موعظت حسنہ کا ہتھیار لیے ہوئے پیش ہونا چاہیے یہی فطری دعوت کا تقاضا ہے اور اسی فطری اور مسنون طریقہ دعوت سے قوموںکے اذہان تبدیل ہو گئے ہیں۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔ </b><br />
<b><br /></b>
<b>٭٭٭٭٭</b><br />
<div>
<br /></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/01730221235638439572noreply@blogger.com0