Friday 23 January 2015

سیلاب بنام عوام

خود کلامی
..................

میرے پیارے کشمیری بھائیو بہنو!
ماہ ستمبر ۲۰۱۴ کو جب میں نے اپنا جلوہ دکھایا تو لوگ یا تو مجھے مذاق تصور کرتے تھے یا اپنے گھمنڈ اور غرور کے شکار ہو کر اپنی ہی من مانیوں میں مست تھے، ایسے میں جب میں نے اپنا جلال دکھایا تو ڈر کے مارے تم لوگ یا تو بھاگ گئے یا اپنے مال و جائداد کی محبت میں اپنے ہی گھروں میں ٹکے رہے، اور پھر جب میں سر سے گزر گیا توبھاگنے کا راستہ بھی نہ پاگئے۔ دراصل میرا ایک اصول ہے کہ میں آنے سے قبل ’’باخبر‘‘ نہیں کرتا ، میری آمد ایک اشارے کی محتاج ہوتی ہے اور جوں ہی یہ مجھے مل جائے اُسی دم میری آمد آمد ہو جاتی ہے لیکن یاد رہے میں بن بلایا مہمان نہیں ہوتا بلکہ میری آمد کے پیچھے راز ہائے دروں اور اسباب کا فسانۂ عجائب چھپا ہوتا ہے ان کو جاننے کے لیے انسان کے پاس ایک جام ِجم ہے،  جس سے وہ جب چاہے یہ معلوم کر لے کہ مجھے کس نے بُلایااور کیوں۔ ماہ ستمبر کو جب میں نے اپنی آمد کا بگل بجا دیا تو وادی معمول کے مطابق اپنی زندگی جی رہی تھی، کوئی کاروبار میں مست تھا تو کوئی ملازمت میں محو، سکولی بچے امتحانات کی تیاری کر رہے تھے اور کئی لوگ خر چیلی شادیوں کی تیاریوں میں بھی مصروف تھے، ایک طرف لوگ فصلوں کی تیاری دیکھ کر کٹائی کی سوچ رہے تھے تو دوسری جانب لوگ سردی کے لیے انتظامات میں لگے ہوئے تھے کہ اچانک میں نے بستیوں اور بازاروں کھیت کھلیان اور کا رگاہوں میں اپنا ڈیرا جمایا ، لوگ ششدر تھے کہ میں نے نہ آئو دیکھا اور نہ ہی تائو ،بس اوپر چڑھتا ہی گیا، جہاں حکم ملا وہاں کی راہ لی، تم لوگ دوسری سے تیسری اور تیسری سے چوتھی منزل کی جانب بھاگتے  رہے اور میں برابر پیچھا کرتا رہا۔ تم سے میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی بلکہ یہ حکم کی تعمیل تھی، جس حکم کی تعمیل کے آگے کسی اور کا حکم مجھ پر نہیں چلتا۔ میرے آنے سے قبل وادیٔ کشمیر کے بازار کس طرح چمک دمک رہے تھے ،یہ تم سب کو معلوم ہے اور آج بازاروں اور اس میں تجارت پیشہ دکانداروں وغیرہ کی حالت کیا ہے؟ اس سے بھی تم لوگ بخوبی واقف ہو۔ گویا خوشبوئیں بدبو میں تبدیل ہو گئیں۔ شاید دنیا کی اصل حقیقت یہی ہے کہ ہر چیز فانی ہے۔ بہر حال میری آمد تو ہوئی مگر ایک حد پار کر نے کے بعد مجھے بھی آخر کار حکماًرُکنا پڑا ، لیکن اس بیچ کیا سے کیا ہو گیا… اس کا اندازہ بھی تم لوگوںکو نہیں تھا۔
اب جو ہوا سو ہوا، ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، لیکن کیا اسی پر بس کیا جائے یا اس پر سوچ کر کچھ کیا جانا چاہیے۔ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ جب بھی اسے کسی مشکل حالت کا سامنا پڑتا ہے تو وہ پہلے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے، جب مشکلات کے بھنور میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے تو کئی لوگ اپنی ہار تسلیم کر کے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ اس وقت یہ ہتھیار ڈال دینا انسان کے لیے فائدہ مند مانا جاتا ہے۔ وادی کے لوگوں پر جب مجھے بھیجا گیا تو لوگوں کی عقلمندی اسی میں تھی کہ وہ ہتھیار ڈال دیں، لیکن کیا کیا جائے کہ اکثر لوگ اب بھی ہتھیار ڈالنے کی نہیں سوچ رہے ہیں۔ اپنی من مانیاں کرنے میں ہی مست ہیں۔ یہ صرف اس وجہ سے کہ شاید اس غلط فہمی میں ہیں کہ یہ سیلاب ایک عارضی معاملہ تھا جو اب ٹل گیا، جان بچ گئی، اب پھر شروع کریں گے لیکن ان کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ جس حکم کی تعمیل میں میں نے یہ سخت ترین جلوہ دکھایا وہ پھر واپس بھی لوٹے گا، اسی کا حکم ایک بار پھر آسکتاہے۔  پہلے میں سیلابی ریلا بن کر آیا ، کیا پتہ خشک سالی ا ور وبا بن کر نمودار ہونے کا حکم ملے ۔میری آمد کئی ایک دوسرے طریقوں سے بھی ہو سکتی ہے، اس وقت میرا مزاج کیا ہو گا اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ اس وقت یہ ہتھیار نہ ڈالنے والے وادی کشمیر کے حق فراموش لوگ مشکلات کے بھنور میں پھنس جائیں گے۔یہ ضروری نہیں اس وقت پھر سے مہلت مل جائے۔ تو یہ ایک مہلت تھی جو تم لوگوں کو دی گئی، اب اگر رواں مہلت میں بھی من مانیاں جاری رکھ کر حاکمِ کائنات اور مد برِ آفاق کے آگے ہتھیار نہ ڈالے تو نہ جانے آنے والا کل تمہارا کل کیسا ہو گا۔ وہ کل جس کے متعلق اب افواہوں کی صورت میں آئے روز اخباروں میں شائع ہورہاہے کہ ’’عنقریب ایک زلزلہ آئے گا جس میں جانی ومالی نقصان کا بھاری خدشہ ہے۔‘‘ غرض یہ ہے کہ گناہوں اورجرائم سے باز اآؤ، اپنی من مانیاں ترک کر لو ، خالق ومالک کے سامنے عاجزانہ انداز میں سرتسلیم خم کر دو ، کردار اور گفتار بدل دو،لوٹ آئو، لوٹ آئو !ورنہ ایک ایسا طوفان آنے والا ہے جس کی زد میں آکر کوئی نہیں بچ سکتا۔ عقل مند لوگوں کی اصل بہادری یہی ہے کہ وہ اپنی خطا ولغزش تسلیم کر کے واحدا لقہار کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیں۔ اس لحاظ سے وادی کشمیر کے لوگوں سے میری دردمندانہ اپیل ہے کہ جلد از جلد اپنی اَنا چھوڑ کر، اپنی من مانی ترک کر کے، ایک مالک کے حکم کی تعمیل کریں تاکہ پھر سے ان کے لیے آفات وبلیات کا دروازہ نہ کھل پائے ،یہ میری عاجزانہ گزارش ہے  ع
 شاید کہ ُاترجائے تیرے دل میں میری بات

No comments:

Post a Comment