Monday 17 July 2017

کشمیر: رواں سال کے چھ ماہ

غموں کے سایے، مصایب کی آندھی 

ابراہیم جمال بٹ
نہایت افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ سال رواں کے پہلے نصف حصہ میں کشمیر جابجا مقتل بنا رہا ،مقتل بھی ایسا کہ جس میں نہ صرف نہتے مقامی جوان جان بحق ہوئے بلکہ عسکریت سے وابستہ جنگجو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس کی بھینٹ چڑھتی رہی اور اس کے علاوہ علاقائی پولیس سے وابستہ کئی اہلکار بھی ہلاک ہو گئے ہیں اور بھارتی فوج سے وابستہ نوجوان بھی کام آئے۔ گزشتہ چھ ماہ میںکہیں عسکریت پسندوں کے ساتھ مسلح جھڑپیں ہوئیں، کہیں احتجاجی مظاہرین پر گولیاں چلیں، جب کہ کہیں کہیں پر پولیس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان سارے خو نخوارانہ واقعات میں من جملہ انسانیت لہو لہاں ہوتی رہی ہے۔ انکائونٹر کے مقامات پر ایک طرف گولیاں اور مارٹر شیلنگ ہو ، دوسری جانب فورسز کے خلاف عین مسلح تصادموں کے دوران عوامی مظاہرے پھوٹتے ہیں، اس بیچ ایک جانب کشمیری جنگجو نوجوان مارے جاتے ہیں اور دوسری جانب عوام گولہ باری کی زد میں آتے ہیں ، مظاہرین پر گولیاں اورپیلٹ چھروں کا استعمال بالعموم ہو تا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف جنگجو نوجوانوں کا لہو سرزمین وطن کو ترکر تا ہے بلکہ عام انسان بھی کی جانیں بھی تلف ہوجاتی ہیں۔ کہیں ایک زخمی ہوکر عمر بھر کے لئے معذور بھی ہوجاتے ہیں ۔ بھارتی فوج اور پولیس کے لوگ اس مقتل کی نذر ہو تے ہیں۔ رواں سال کے چھ ماہ اسی مقتل کی آدم خوری میں گزر گئے۔ غرض یہ کہ وادیٔ کشمیر میں انسانیت کا خون اس قدر سستا ہوتا جارہا ہے مگر ارباب ِ اقتدار میں سے کسی کو بھی فکر ہے نہ غم کہ ایسا کیوںہو رہا ہے۔ ان چھ ماہ کے دوران کشمیر وادی کی زمین اس خون انسانی سے اتنی تر بتر ہوگئی کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہان کے ندی نالے اب پانی کے بجائے خون اُگل دیںگے۔ عسکریت پسند، عام شہری اور پولیس وفوجی اہلکاروں کے مارے جانے کی خبریں آئے روز کا معمول بن چکا ہے۔ ڈر اور خوف کی اس کیفیت میں کرسی والوں کی طرف سے دعوے ہورہے ہیں کہ کشمیر کے حالات جلد ہی سدھر جائیں گے مگر زمینی سطح پر حقائق انہیں جھٹلا رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ انسانیت کے اس بہتے لہو کو روکنے کی تدابیریں اختیار کی جاتیں ، اس میں مزید اضافہ لانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کشمیر وادی میں فوج کو عسکریت سے وابستہ نوجوانوں کو ختم کرنے کے لیے تین ماہ کا وقفہ دیا جاتا ہے۔ اسی مہلت کا نتیجہ ہے کہ جموں وکشمیر میں قتل وغارت کا بازار گرم ہو چکا ہے۔ ماہ جنوری سے عموماً اور ماہ جون سے لے کر آج تک خصوصاًہر روز کسی نہ کسی طرح انسانیت کا قلع قمع کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ 
یکم جنوری کو جب صبح لوگوں نے اخبار اٹھایا تو سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ ’’چوگل ہندوارہ میں پولیس پار ٹی پر ایک حملے کے دوران پولیس اہلکار بنام عبد الکریم مارا گیا۔اسی طرح ۶؍ جنوری کو ماچھو بڈگام میں ایک جھڑپ کے دوران مقامی جنگجو کمانڈر مظفر اقبال نائیکو عرف مظہ مولوی مارا گیا۔ ۱۰؍ جنوری کو حاجن میں ایک جھڑپ کے دوران ایک غیر شناخت شدہ جنگجو مارا گیا۔ ۱۶؍جنوری کو آوورہ پہلگام میں ایک خون ریز جھڑپ کے دوران تین مقامی جنگجو عادل احمد ریشی ساکن بجبہاڈہ، عابد احمد شیخ ساکن تکی پورہ اور مسعود احمد شاہ ساکن بیورہ بجبہاڈہ جان بحق ہو گئے۔۱۹؍جنوری کو حاجن میں فوج کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران ایک جنگجو ابو موسیٰ عرف مصعیب مارا گیا۔ ۲۴؍ جنوری کو ایک خون ریز جھڑپ کے دوران شہامہ آلسٹینگ میں دو جنگجو جان بحق ہو گئے۔ 
جنوری کے بعد ماہ فروری کی ۴؍ تاریخ کو سوپور میں ایک جھڑپ کے دوران مقامی جنگجو اظہر خان عرف غازی عمر ساکن نتہ نوسہ کپوارہ اور سجاد احمد لون عرف بابر ساکن عادی پورہ بومئی سوپور حیات جاوداں  پاگئے۔ ۱۲؍ فروری کے دن ایک خون ریز جھڑپ میں چار جنگجوجن میں مدثر احمد عرف عاصم ساکن ریڈونی بالا، وکیل احمد ٹھاکر ساکن ہری گام، فاروق احمد بٹ ساکن چک داسند اور محمد یونس لون ساکن ہاورا کولگام کے علاوہ دو عام شہری اشفاق مجید ریشی ساکن بجبہاڈہ اور مشتاق احمد یتو ساکن سری گفوارہ بجبہاڈہ جان بحق ہوگئے۔ اس کے علاوہ دو بھارتی فوجی بھی اس جھڑپ میں کام آگئے۔ اسی طرح کے دواور واقعات میں۱۴؍ فروری کوحاجن اور ہندواڑہ میں جھڑپوں کے دوران تین فوجی اور چار جنگجو از جان ہو گئے۔ ۲۳؍ فروری کو شوپیان میں ایک جھڑپ کے دوران ایک عام خاتون جانہ بیگم ساکن چتراگام شوپیان کے علاوہ چار فوجی از جان ہو گئے۔
ماہ مارچ کی ۴؍تاریخ کو جب لوگوں نے صبح اخبار پڑھا تو ایک بڑی خبر یہ پائی کہ ’’مرن چوک پلوامہ میں گرنیڈ حملہ، جس کے نتیجے میں ایک راہ گیر محمد ایوب وانی ساکن گوسو پلوامہ شہید ہو گیا۔ ۵؍مارچ کو ترال میں ایک معرکہ کے دوران دو جنگجو عاقب احمد بٹ عرف عاقب مولوی ساکن ہائن ترال اور ایک غیر ملکی جنگجو جان بحق ہو گئے جب کہ اس دوران ایک پولیس اہلکار منظور احمد ساکن سلام آباد اوڈی بھی مارا گیا۔ ۹؍مارچ کو پدگام پورہ پلوامہ میں ایک جھڑپ کے دوران ۲؍عام شہری جن میںنویں جماعت کا طالب علم عامر نذیر وانی ساکن کاکہ پورہ پلوامہ اور ۲۳ سالہ نوجوان جلال الدین ساکن ٹہب پلوامہ کے علاوہ دو جنگجو جہانگیر احمد گنائی عرف سیف اللہ ساکن قوئل پلوامہ اور محمد شفیع وگے عرف احسان ساکن بانڈی پورہ پلوامہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ۱۵؍ مارچ کے دن کپواڑہ میں ایک جھڑپ کے دوران ایک معصوم بچی کنیزہ دختر خوشی محمد ساکن بٹہ پورہ ہایہامہ کپواڑہ کے علاوہ تین جنگجو جان بحق ہو گئے۔ ۲۶؍ مارچ کو پدگام پورہ پلوامہ میں ایک خون ریز جھڑپ کے دوران ۲؍جنگجو فاروق احمد حرا ساکن نازنین پورہ شوپیان اور رئیس احمد کاچرو ساکن بلوراجپورہ پلوامہ جان بحق ہو گئے۔ ۲۸؍ مارچ کو ایک جھڑپ کے دوران ایک جنگجو توصیف احمد ماگرے ساکن کولگام کے علاوہ تین عام نوجوان زاہد رشید گنائی ساکن باربگ چاڈورہ، عامر فیاض وازہ ساکن وازہ محلہ واتھورہ چاڈورہ اور اشفاق احمد ساکن رنگریٹ جان بحق ہوگئے۔
ماہ اپریل کی تیسری تاریخ کے دن اخبار کی سرخیوں میں ایک اہم سرخی یوں تھی ’’نوہٹہ میں پولیس پارٹی پر حملے کے دوران ایک پولیس اہلکار شمیم احمد ساکن گریز بانڈی پورہ ہلاک‘‘   ضمنی انتخابات کے سلسلے میں ۹؍ اپریل کے روز الیکشن بائیکاٹ کے دورا ن فورسز کی فائرنگ سے ۸؍ عام شہری جانیں گنوا بیٹھے۔ ۱۵؍اپریل کو بتہ مالو سرینگر میں ایک راہ گیر سجاد حسین شیخ ساکن چندوسہ دودھ بگ بارہمولہ پر اندھا دھند فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا۔ مذکورہ نوجوان فٹ پاتھ پر وازہ وان بیچتا تھا۔ ۲۲؍ اپریل کو چاڈورہ معرکہ آرائی میں ۲؍جنگجو یونس مقبول گنائی ساکن باتری گام چرار شریف اور غیر ملکی ابو علی جان بحق ہو گئے۔ اسی طرح ۳۰؍ اپریل کو خانیار سرینگر میں پولیس پارٹی پر ایک حملے کے دوران ایک عام شہری غلام محمد خان ساکن الٰہی باغ سرینگر جو کہ ۶۵ سال کا تھا جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ 
اپریل کے بعد ماہ مئی کی ۲؍ تاریخ کو جنوبی کشمیر کے پم بائی کولگام میں جموں وکشمیر بنک کی کیش گاڑی کے ساتھ پولیس گاڑیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ۵؍پولیس اہلکار اور ۲؍بنک ملازمین جان گنوا بیٹھے ۔ مارے گئے پولیس اہلکار میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر بشیر احمد ، کانسٹیبل فاروق احمد، کانسٹیبل محمد قاسم، کانسٹیبل مظفر احمد اور کانسٹیبل اشفاق احمدشامل تھے جب کہ ۲؍بنک ملازمین مظفر احمد لاوے اور جاوید احمد ڈار تھے جو جان بحق ہوئے۔ ۵؍مئی کو کپواڑہ میں فورسز کیمپ پر فدائن حملہ کے بعد جب مقامی آبادی جنگجوؤں کی لاشوں کا مطالبہ کرنے کے لیے احتجاج کر رہے تھے تو فوج نے لوگوں پر اپنی طاقت کا استعمال کر کے ۶۰؍سالہ بزرگ محمد یوسف بٹ ساکن پنزگام کپواڑہ کو جاں بحق کردیا۔ اسی دوران ۵؍ مئی کو باس کجن شوپیان میں فوجی جو کہ ایک سول سومو گاڑی میں سوار ہو چکے تھے پر گولیوں کی بوچھاڑ کے نتیجے میں سومو ڈرائیور نظیر احمد شیخ ولد احد شیخ ساکن کچہ ڈورہ شوپیان جان سے گیا۔ ۶؍مئی کو میر بازار اسلام آباد میں ایک خونریز جھڑپ کے دوران لشکر کمانڈر فیاض احمد جان کے علاوہ ایک عام شہری محمد حسین ڈار ساکن ملہ پورہ اسلام آباد جان بحق ہو گئے۔ ۱۴؍مئی کو واری پورہ ہندوارہ میں ایک مختصر سی جھڑپ کے دوران ۲؍جنگجو جان بحق ہو گئے۔ ۱۹؍مئی کو گڈورا پلوامہ میں ایک نوجوان محمد یوسف لون کی پراسرار طور پر ہلاکت ہوئی جس کے بارے میں لوگوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ فورسز کی طرف سے زیر حراست قتل ہے۔ ۲۷؍ مئی کو سیمو ترال میں ایک خون ریز جھڑپ کے دوران دو جنگجو جاں بحق ہو گئے جن میں ایک معروف نوجوان حزب کمانڈر سبزار احمد بٹ اور اس کا ساتھی فیضان احمد ساکنان ترال شامل تھے۔ جب کہ اسی لمحے احتجاج کے دوران ایک نوجوان عاقب احمد ساکن ترال اور ایک اور نوجوان حافظ قرآن عاقب مولوی پر  راست گولیاں چلا کر انہیںابدی نیند سلا دیا گیا۔ ماہ مئی کی آخری تاریخ کو آرونی میں مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں ۲؍شہری جان بحق ہو گئے۔ 

یکم جون سوپور میں ایک خون ریز معرکہ آرائی میں دو جنگجو اعجاز احمد میر ساکن براٹھ کلاں سوپور اس کے اس کا ساتھی بشارت احمد شیخ ساکن بومئی سوپور ابدی نیند سلا دئے گئے۔ ۳؍جون کو جموں شاہراہ پر قاضی گنڈ کے قریب فوجی کانوائے پر اچانک حملے کے دوران دو فوجی مارے گئے ۔ ۵؍جون کو سمبل بانڈی پورہ میں ایک فدائن حملے کے دوران چار جنگجو مارے گئے ۔۶؍جون کو غنہ پورہ شوپیان میں مظاہرین اور فورسز کے درمیان ایک جھڑپ میں ایک مقامی ۱۶؍ سالہ نوجوان عادل فاروق ماگرے جان بحق ہو گیا۔

Tuesday 13 June 2017


ابراہیم جمال بٹ
 جنگل کا راجا ،شیر ایک دن گہری سوچ میں تھا کہ ایک نیا حربہ کون سا استعمال کروں جس سے شکار بھی آسان ہو جائے اور کوئی مزاحمت بھی نہ کرنی پڑے۔ کچھ دیر سوچ بچار کے بعد راجا جنگل کی سیر پر نکل پڑا کہ اس نے چند گائیں دیکھیں …کیا دیکھتا کہ اُن میں آپسی تال میل اور یکجہتی ہے… شیر ان کی یہ خصوصیت دیکھ کر سوچ میں پڑا، دور ایک دوسری جگہ بیٹھ کر کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک اس کے خوفناک چہرے پر امسکراہٹ نمودار ہوئی… شیر کھڑا ہوا اور ایک آواز نکالی جس سے پورا جنگلی علاقہ لرز اٹھا…! 
چند روز بعد شیر کا پھر اسی جانب سفر ہوا، لیکن اس بار شیر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے دھاڑتا ہوا چل رہا تھا…جس سے پورا جنگل کانپنے لگا… جب شیر اس جگہ پہنچا جہاں اس نے یہ رنگ برنگی گائیں دیکھی تھیں تو کیا دیکھتا ہے کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ایک دیوار کی مانند بیٹھی ہیں … شیر کو دیکھ کر اگرچہ کسی حد تک انہیں خوف ہوا لیکن شیر اپنا دوسرا چہرہ ان کے سامنے اختیار کر کے اُن سے بولا… کیا ہو رہا ہے…؟ جب کہ اس دوران ایک ایک کر کے سبھی گائیں کھسکتی جا رہی تھیں …!
 شیر نے جب یہ دیکھا تو آخری اکیلی گائے سے بولا گھبرائو مت میں تمہارے ساتھ کچھ نہیں کروں گا… مجھے تم سے بے حد ہمدردی ہے، تمہاری نسل ہی مجھے اچھی لگتی ہے… البتہ یہ جو کالے رنگ کی گائے ہے مجھے اس نسل سے ہی نفرت ہے، اور جس سے مجھے نفرت ہو اُسے میں زندہ نہیں رہنے دیتا…تم مزے کرو، تمہارے ساتھ کوئی نہیں چھیڑ سکتا… مگر خبردار !یہ میری باتیں جو میں نے تم سے کہیں کسی کو کہنا نہیں بصورت دیگر میں دوست اور دشمن میں فرق نہیں کرتا… گائے نے اپنی خیریت سمجھ کر ہاں میں ہاں بھر لی اور وہاں سے کھسک گئی… شیر یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا…! 
شیر آگے بڑھ کر جب خوف کی ماری دوسرے رنگ کی گائے کے درمیان آدھمکا تو وہ ڈر کے مارے ہانپنے لگی… شیر نے اسے بھی اسی طرح تسلی دی اور اسے اس بات کا اطمینان دلایا کہ اس کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہو گی۔ ایک ایک کر کے سبھی گائیوں سے یہی باتیں اور طریقہ اختیار کر کے جب شیر تھک گیا تو، ہنستے ہنستے شیر اپنی کھچار میں پہنچ گیا… تھکاوٹ کی وجہ سے جلد سو گیا…صبح جب نیند سے بیدار ہوا تو اس کے چہرے پر ایک بار مسکراہٹ پھر نمودار ہوئی… اپنے آپ سے مخاطب ہو کر بولا کہ اگر ان گائیوں کے درمیان کا یہ رشتۂ محبت و یکجہتی نہ ٹوٹتا تو ان پر کنٹرول حاصل کرنا ناممکن تھا… اب ایک ایک کر کے سب شکار ہو جائیں گی اور زیادہ مزاحمت بھی نہیں کرنی پڑے گی… واہ  واہ  واہ…

نہیں لگایا…! پہلے ایک گائے کو پھر دوسری، تیسری اور اس طرح سبھی گائیں شکار ہو گئیں اس کی شکار ہو گئیں …یہ منظر دیکھ کر پہلی والی گائے کو اپنی یکجہتی یاد آگئی۔ اسے اب یہ محسوس ہو گیا کہ شیر نے کیسی چال چلی… اب نہ ہی ہماری یکجہتی رہی اور نہ ہی ہمارا نام ونشان… شیر اس کی آنکھوں سے آنسو دیکھ رہا تھا اور بولا… میں شیر ہوں … جنگل کا راجا ہوں …اور راجا دوراندیشی اور چاپلوسی اختیار نہ کرے تو کیسا راجا… ہا  ہا  ہا…!
پھر آخر میں پڑی اس غمگین اور بے سہارا گائے پر بھی جھپٹا اور مزے سے کھا گیا…! برابر یہی صورت حال آج مسلم ممالک کی ہے… عالمی پولیس مین کا کردار ادا کرنے والے امریکہ نے ایک ایک کر کے سب ملکوں کے سربراہان کو ایک ایسا چاکلیٹ تھما دیا، جو اصل میں چاکلیٹ نہیں زہر ہے… بجائے اس کے کہ مسلم ممالک ان کے اس بظاہر ’’مدھر سندیش‘‘ کو سمجھ جاتے …وہ پے درپے اسی کی طرف لپک رہے ہیں … ایران، عراق، افغانستان، شام، سوڈان، یمن، پاکستان، اور اب سعودیہ وقطر کا تنازعہ کھڑا کراکے خود دور تماشائی بنا بیٹھا ہے… گویا اس کی وہ ساری خواہشیں جو اس نے اپنی خواب گاہ میں دیکھیں تھیں ، وہ پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہیں ۔ مسلم ممالک اپنی اپنی سوچ کر تباہی کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں لیکن خیال کر رہے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں …کیوں ہم ان کے اپنے ہیں جو کبھی اپنے ہو ہی نہیں سکتے۔ ہمارے مسلم حکمرانوں کی اس سوچ پر وائے افسوس صد افسوس …!

Sunday 22 January 2017

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں!


ابراہیم جمال بٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے اپنے آخری نبی وپیغمبر حضرت محمد مصطفیﷺ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جسے آج اگر دور سے دیکھیں  تو بظاہر ایک کتاب معلوم ہوتی ہے لیکن  بغور اس کے کارناموں  کی فہرست تلاش کریں  تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب الٰہی کے کارنامے اس قدر ہیں  کہ ان کا شمار کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔ تاہم سرسری طور پر اگر دیکھیں  تو عام انسانوں  کو یہ کہے بغیر چارہ ہی نہیں  رہتا کہ ’’یہ کتاب اور اس میں  موجود ’’دین‘‘ یعنی نظام حیات دراصل ایک ایسی تحریک ہے جس کا مسلمانوں  نے سہارا لے کر اس دین اور کتاب کی تعلیمات کی تبلیغ کی، اسے تبلیغ کی بنیادوں  پر قائم کیا، اسی کی قوت سے ترقی کی، اور اسی پر اس کی زندگی کا انحصار ہے، اس کتاب کی دکھائی ہوئی راہ راست سے مسلمانوں  عروج پا گئے اور عروج اس قدر کہ دنیا پر چھا گئے، دنیا کے کونے کونے میں  آج مسلمان اور اسلام کا نام ہے،اس کی بنیادی وجہ اس کتاب کو صحیح معنوں  میں  اخذ کرنا ہے۔ ہر دور میں  اس قرآن کی کیا اہمیت رہی ہے اس کا اندازہ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے صحیح طور سے ہوتی ہے کہ کس طرح انسان جاہلانہ طرز عمل سے اُٹھ کر امامت کے منصب پر فائز ہو گیا۔ کس طرح ایک انگڑ وجاہل قوم حاملِ قرآن ہو کر دنیا کے لیے رہبری کے مرتبے تک پہنچ گیا۔ چنانچہ قرآن انسان کی ابدی ضرورت ہے اور اس ضرورت کے بغیر انسانی فلاح وکامیابی ناممکن ہے۔ انسان ہمیشہ سے اپنی نجات کی فکر میں  کوشاں  رہا ہے اور وہ ہمیشہ رہے گا، البتہ نجات کی راہ کون سی ہے اور کون سے راہِ ضلالت وگمراہی کی ہے۔ اس جانب انسانیت کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ اسی جانب ایک جگہ دور حاضر کے مفکر و مصنف سید مودودیؒ رقمطر از ہیں  :
’’قرآن ایک ایسا چراغ ہے جس کا برحق ہونا بجائے خود روشن ہے، اور اس کی روشنی میں  انسان ہر اس مسئلے کو سمجھ سکتا ہے جسے سمجھنے کے لیے اس کے اپنے ذرائع علم وعقل کافی نہیں  ہیں ۔ یہ چراغ جس شخص کے پاس ہو وہ فکر وعمل کی بے شمار پر پیچ راہوں  کے درمیان حق کی سیدھی راہ صاف صاف دیکھ سکتا ہے اور عمر بھر صراطِ مستقیم پر اس طرح چل سکتا ہے کہ ہر قدم پر اسے یہ معلوم ہوتا رہے کہ گمراہیوں  کی طرف لے جانے والی پگڈنڈیاں  کدھر جا رہی ہیں  اور ہلاکت کے گڑھے کہاں  کہاں  آرہے ہیں  اور سلامتی کی راہ ان کے درمیان کون سی ہے‘‘۔
قرآن کس طرح انسان کے لیے روشنی ہے اور انسان کو اس روشنی کی کس قدر ضرورت ہے ، اس کے بغیر انسان کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے اور اس سے دور ہو کر ایک انسان عموماً اور مسلمان خصوصاً کس طرح بھٹک کر اندھیرے کی نذر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ آج دنیا کی یہی حالت دکھائی دیتی ہے۔ دنیا کا وہ کون سا حصہ ہے جس میں  انسان نہ بستے ہوں ، جس میں  مسلمان نہ رہتے ہوں ۔ زمین کے چپے چپے پر مسلمان نے اپنا مسکن قائم کیا ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود آج مسلمان ہر جگہ ظلم وبربریت کا شکار ہیں ، مظلومانہ زندگی گزار کر اپنے ایام گزار رہے ہیں ۔ گویا روشنی ان کے پاس ہونے کے باوجود وہ آج اندھیرے میں  بھٹک رہے ہیں ۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ کیوں  مسلمان آج کے اس نام نہاد’’ جدید اور ماڈرن‘‘ دور میں  سب سے آگے ہونے کے بجائے پیچھے ہی کی طرف رہ کر رہ گیا ہے؟ جب سرسری طور پر اس معاملے پر غور کیا جاتا ہے تو یہی نظر آتا ہے کہ آج کا مسلمان قرآن خوان تو بن چکا ہے لیکن حاملِ قرآن نظر نہیں  آرہا ہے۔ حالاں  کہ اگر دیکھا جائے تو آج دنیا میں  سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ’’قرآن کریم‘‘ ہی ہے اور کیوں  نہ ہوتی یہ تو اس ہستی ٔ لافانی کا کلام ہے جس نے ساری دنیا کی تخلیق کی ، اس نے اپنے سب سے بہترین بندے اور خاتم النبیین حضرت محمدﷺ پر اس کو نازل کیا۔ اس کے ذریعہ سے رہتی دنیا تک کے انسانوں  کو ہدایت و رہنمائی پہنچی ہے ، اس کے آتے ہی دنیا مکمل طور سے بدل گئی۔ بکریوں  کو چرانے والے اس کے ذریعے انسانیت کے محافظ بن گئے۔ پتھروں  اور ذلیل و حقیر ترین چیزوں  کے آگے جھکنے والے بادشاہوں  کی آنکھوں  سے آنکھیں  ملانے لگے۔ لوگوں  کا حق مارنے والے یتیموں  کے والی و غمخوار بن گئے، بیٹیوں  کو زندہ درگور کرنے والے عورت کے عظیم ترین محافظ بن گئے۔ اسی قرآنی تعلیم نے عورت کے قدموں  تلے جنت بنائی، زیور تعلیم سے اسے آراستہ کیا، باپ بھائی اور شوہر پر معاشی کفالت کی ذمہ داری ڈال کر معاشرے کے بھیڑیا نما انسانوں  سے اسے محفوظ کیا ، مردوں  کے شانہ بہ شانہ حقوق و ذمہ داریاں  دے کراسے اس مقام پر کھڑا کیا جس کو آج کی عورت لباسِ عصمت تار تار کراکر بھی نہ پاسکی۔ غرض اس کتاب نے، اللہ رب العالمین کے کلام نے ،پتھروں  کو پانی کیا ، صحرائوں  کو سبزہ زار کیا اور ساتھ ہی ساتھ دریائوں  میں  ایک ایسی حیات بخش روانی پیدا کی کہ صدیاں  گزرنے کے بعد بھی انسان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ حقیقت میں  یہ ایک انقلاب تھا جس نے دنیا کا رخ ہی موڑ دیا ، اس کے آنے سے علم و ہنر کے وہ چشمے پھوٹے کہ کسی دوسری قوم نے اس قدر علمی و فنی خدمات اتنے زیادہ میدانوں  میں  کبھی نہیں  کیں ۔ خود مغرب و مشرق، شمال و جنوب اس کا قائل ہے ، چنانچہ بقول کارلائل :
’’ میرے نزدیک قرآن میں  سچائی کا وصف ہر اعتبار سے موجود ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی خوبی کسی کے اندر پیدا ہو سکتی ہے تو اسی کے ذریعہ سے پیدا ہو سکتی ہے۔‘‘
برطانوی دانشور روڈ ولف لکھتا ہے کہ :
’’ یورپ کو یہ حقیقت فراموش نہیں  کرنی چاہئے کہ قرآن کااس پر عظیم احسان ہے کیونکہ وہ قرآن ہی ہے جس سے پورے یورپ میں  علم و دانش کی روشنی پھیلی‘‘۔
جارج سیل لکھتا ہے کہ :
’’ قرآن بالیقین سب سے بہتر اور مستند کتاب ہے ، انسان کا قلم ایسی معجزانہ شان کی کتاب لکھنے سے قاصر ہے اور یہ وہ معجزہ ہے جسکا درجہ مُردوں  کو زندہ کرنے سے بھی بڑھ کر ہے‘‘۔
مگر آج یہ قصہ ٔتاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ آج اس قرآن سے وابستہ لوگوں  (مسلمانوں ) کی زندگیاں  برف سے زیادہ ٹھنڈی ہیں  ، علم وعمل سے بے بہرہ مخصوص رسومات کے پیروکار ہیں ، جو مختلف مواقع پر بغرضِ ’’برکت‘‘ بے سوچے سمجھے کچھ آیتیں  پڑھ لیتے ہیں  ، اوہام و خرافات بنیادِ عمل ہے، معاشی طور پر یا تو دست نگر ہیں  یا اپنی معیشت کی باگیں  باطل خدائوں  کے ہاتھوں  میں  دے رکھی ہیں ۔ ایک طوفان ِ بد تمیزی برپا ہے جو صرف اور صرف اس کے خلاف ہے۔ جموں  وکشمیر، فلسطین، برما،عراق، شام، اور بے شمار مسلم ممالک اور نہ جانے کتنے رستے ہوئے زخم ہیں  جس نے پوری ملت کو لہو لہو کر رکھا ہے۔ایسے میں  کوئی تعلیم و ترقی کی طرف متوجہ ہے تو کوئی معاشی استحکام کی طرف ،کوئی آزادیٔ نسواں  کا علمبردار بن کر نصف امت کی فلاح میں  فکر مند ہے ،تو کوئی باطل کی خدمت میں  فلاحِ قوم و حفاظت ِ وطن ڈھونڈ رہا ہے۔ غرض دنیا کا کوئی لادین نظریہ ،کوئی اِزم ،کوئی طریقہ ، سیکولرزم ہو یا لادین جمہوریت ، قوم پرستی ہو یا مفاد پرستی، کیپٹلزم ہو یا سوشلزم کوئی طریقہ ایسا نہیں  چھوٹا جس کے ذریعہ فلاح ِقوم اور بگڑتے ہوئے معاشروں  کی سدھار کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ ہاں  اگر چھوٹا تو صرف ایک ہی طریقہ چھوٹا ہے اور وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کا عمل بہ کتاب۔ اس کتاب کو لے کر دنیا پر چھا جانے والی قوم اسی کتاب کو پس پشت ڈال کر ذلیل و خوار ہے۔
وہ معزز تھے مہمان مسلمان ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
بنیاد ہی جب غائب ہو تو عمارت کہاں  سے وجود میں آئے گی؟بے جا تاویلات کے ذریعہ اس قرآن پر عمل بھی چھوٹا ہے مگر ایمان بھی باقی۔ خوبصورت ترین جُزدانوں  میں  رکھی جانے والی اس کتاب کی انقلابی تعلیمات سے یہ اُمت غافل ہے۔ کہتے ہیں  کہ نعوذ باللہ اس قرآن کو سمجھنا آسان کام نہیں  ، یہ علماء کا کام ہے، بھلا عوام کہاں  اللہ کے کلام کو سمجھیں  گے۔ کتنا بڑا بہتان ہے جو یہ خدا پر باندھتے ہیں ۔سورج ،چاند ، درخت، پہاڑ وغیرہ جیسی عظیم خدائی مخلوقات سے یہ براہ راست فائدہ اٹھا سکتے ہیں  مگر اس سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ بتانے والی چیز (قرآن)ان علماء کے لئے ہے۔ حالانکہ قرآن کریم خود کہتا ہے ’’ھدی للناس‘‘ یہ سارے انسانوں  کی ہدایت کے لئے ہے۔ جو ڈرے اس کے لئے رہنمائی ہے۔بار بار اعلان کرتا ہے کہ :
’’ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو ہے کوئی جو نصیحت پکڑے‘‘۔
پھر یہ جو سارے ترجمے اور تفاسیر لکھی گئی ہیں  وہ کس کے لئے ہیں ؟ علماء تو عربی جانتے ہیں  پھر دنیا بھر کی زبانوں  میں  تراجم کس کی خاطر ہوئے ہیں ۔ صرف اردو زبان میں  شاہ عبدالقادر ؒ ،شاہ رفیع الدین ؒ، مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا محمود الحسن ؒ، مولانا امین احسن اصلاحی ؒ، مولانا سید ابولاعلیٰ مودودیؒ، مولانا سید حامد علیؒ ،مولانا عبدالرحمٰن کیلانیؒ ، مولانا جوناگڑیؒ،  مولانا صدر الدین اصلاحیؒ ، مفتی محمد شفیعؒ ، مولانا ابولکلام آزادؒ ، مولاناعبدالماجد دریاآبادی ؒ، اور کشمیری میں  ترجمۂ قرآن کرنے والے میرواعظ محمد یوسف شاہؒ  وغیرہ نے کس کے لئے تراجم وتفسیریں  لکھیں  ہیں ۔یہ ایک سازش ہے جو امت کو قرآن سے دور کرنے کے لئے چلائی گئی ہے۔ نہ امت قرآن پڑھے گی، نہ رہبرانِ قوم و ملت کا احتساب ہو سکے گا۔ وہ جس وقت جس چیز کو چاہیں  گے من جانب اللہ کر دیں  گے اور جس شخص کو چاہیں  گے ’’ولی اللہ‘‘ بنا دیں  گے۔
اس بارے میں  علامہ سر محمد اقبالؒ ارمغان حجاز فارسی میں  کہتے ہیں :
بہ بند صو فی و ملا اسیر ی
حیات از حکمت قرآں  نگیر ی
بآ یا تش تراکار ی جزایں  نیست
کہ از یسینِ اُو آساں  بمیر ی
’’ اے مسلمان! تو صوفی و ملا کے فریب کم نگہی اور کج ادائی کا اسیر ہے اور حکمت قرآں  سے پیغام حیات اور اسلو ب زندگی حاصل نہیں  کر رہا۔ قرآن کی آیات سے تیرا تعلق بس اتنارہ گیا ہے کہ تیرے ہاں  کسی کے وقتِ نزع سور ہ یسٓین کی تلاوت بس اس لیے کی جاتی ہے کہ مرنے والے کا دم آسانی سے نکل جائے۔‘‘
حالاں  کہ اگر دیکھا جائے تو قرآن صرف اس لئے آیا ہے کہ تمام انسانوں  کو فطرت پر قائم کرے تاکہ دنیا میں  امن و سکون ہو، دنیا صلح و آشتی کا گہوارہ بن جائے ، اخلاقی گراوٹ ہو یا سماجی پسماندگی سارے مسائل کا تدارک و حل ہو۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں  نہ پڑھو‘‘مگر قرآن کو صحیح طور سے پڑھے اور سمجھے بغیر کیسے پتہ چلے گا کہ اللہ کی رسی کون سی ہے۔ چنانچہ آج ہم نے مختلف شیطانوں  کی چھوٹی بڑی دُموں  کو رسی سمجھ کر تھام لے رکھا ہے اور وہ ہمیں  دنیا میں  تو ذلیل کر ہی رہے ہیں  جب کہ آخرت کا حساب ابھی باقی ہے۔ہم نے اس کتابِ زندگی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اس کے نتیجے میں  ہم ضلالت کے ہی سزا وار تھے، کبھی تو مومن سیرت و کردار میں  منہ بولتا قرآن ہوا کرتا تھا اور آج حال یہ ہے کہ   ع
یہ مسلمان ہیں  جنہیں  دیکھ کے شرمائے یہود
آج مسلمان شیطان کی چکا چوند سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ وہ اپنے زوال کی وجہ ’’مال کی کمی اور ٹیکنالوجی سے دوری ‘‘سمجھتے ہیں  ، جبکہ اصل وجہ کمی ٔ مال و زر نہیں  بلکہ کمی ٔ فہم قرآن و عمل بالقرآن اور کمیٔ ایمان ہے۔
محبت کا جنون باقی نہیں  ہے
مسلمانوں  میں  خوں  باقی نہیں  ہے
اگر ہم پھر زمانے میں  معزز و مکرم ہونا چاہتے ہیں  ، اگر ہم پھر دنیا کی قیادت و سیادت چاہتے ہیں  ،اگر ہم دنیا و آخرت میں  سرخروئی چاہتے ہیں  تو ہمیں  اس کتاب اللہ کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ ارشاد نبویﷺ ہے:
’’ قرآن کو بس تکیہ ہی نہ بنائو بلکہ دن اور رات کے اوقات میں  اسکی تلاوت کرو ،اس کو چہار جانب پھیلائو، اس میں  تدبر اور غور و فکر کر و‘‘۔
ارشاد نبویﷺ ہے:
’’قرآن کو بس تکیہ ہی نہ بنائو بلکہ دن اور رات کے اوقات میں  اسکی تلاوت کرو ، اس کو چہار جانب پھیلائو، اس میں  تدبر اور غور و فکر کرو‘‘۔
غور و فکر تو درکنار ہم تو اس قرآن مجید ،فرقانِ حمید ، نورِ ہدایت، کتاب ِمبین کو فراموش کر بیٹھے۔ اللہ کی رسی کو چھوڑ دیا ، نورِ حکمت کے خزانے سے مکمل طور سے بے نیاز ہو گئے اور زوال ، فساد ،انحطاط ، بگاڑ ہمارا مقدر بنا ، مغلوب و مقہور ہو گئے ، حقیر و ذلیل ہو گئے، عقائد خراب ، اعمال بگڑ گئے، معاشرہ تباہ و برباد، غرض ہم لٹ گئے ، برباد ہو گئے ،قیمتی ترین متاع کھو بیٹھے، سرمایۂ حیات سے ہاتھ دھو بیٹھے، ہم ہمیشہ کے لئے برباد ہو گئے ،ہم ٹوٹ گئے، بکھر گئے، ہمارے معاشرے فساد و بگاڑ سے بھر گئے، ہماری دعائیں  غیر مقبول ، ہماری نمازیں  بے اثر ، ہماری صفیں  ٹیڑھی، یہاں  تک کہ اقبال کہہ اٹھا  ع
صفیں  کج ،دل پریشان ، سجدہ بے ذوق
کی جذب اندروں  باقی نہیں  ہے
ان حالات سے نکلنے کے لئے کوئی راہ ہے؟ اگر ہے تو ہمیں  جلد از جلد اس کی طرف رجو ع کرنا چاہئے۔مندرجہ بالا سید مودودیؒ کی تحریر سے اسی چیز کی طرف رغبت دی جا رہی ہے کہ مسلمان اس چیز پر کھڑا ہو جائے جو اس کے لیے روشنی ہے اور اگر مسلمان روشنی کے بجائے اندھیری راہوں  میں  رہنا پسند کرتا ہے تو اس کے نتائج عیاں  دکھائی دے رہے ہیں ۔ وہ نہ اس دنیا میں  خیر وفلاح حاصل کر سکتا ہے اور نہ یہاں  سے رخصت ہونے کے بعد آخرت کے دربار میں  اس کے لیے کوئی فلاح و کامیابی ہے۔ اسی چیز کی طرف مولانا فاروق خان صاحب ایک جگہ رقمطراز ہیں :
’’سارے ہی مصائب و مسائل اور شدائد کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسانوں  نے اپنی عظمت کو فراموش کر دیا ، وہ بھول گئے کہ ان کی قدروقیمت کا اصل راز کیا ہے۔ وہ بھول گئے زندگی کی علامت عطا و بخش ہے، خدمت و رہنمائی ہے، غمگساری اور سوز ہے ، نہ کہ ظلم و ستم ، خود غرضی ، کبر اور سخت گیری۔ ضرورت ہے کہ انسان اپنی عظمت کو پہچانے اوراسے اپنے مقامِ بلند کا علم ہو اور وہ ہر قسم کے تعصبات اور تنگ نظری سے پاک ہو کر سارے عالم کی فلاح و بہبود کے لئے سرگرم عمل ہو، اس کا ذہن آفاقی ہو ، اس کی فکر آفاقی ہو، اس کا دل کشادہ ہو، کہیں  سے بھی کسی قسم کی تنگ نظری ، جہل اور پستی اس کے یہاں  نہ پائی جائے اور یہ آرزو ، نیک آرزو اسی وقت پوری ہو سکتی ہے جب کہ ہم قرآن حکیم کو سمجھیں  اور اس کتاب پر ہمیں  سچا ایمان حاصل ہو اور ہم یہ طے کر لیں  کہ اس کتاب سے دنیا کو، برادران وطن کو واقف کرانا ہے ،دنیا تک اس کا پیغام پہنچانا ہے، اس لئے کہ دنیا کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے سچی رہنمائی اور ہدایت، اور وہ رہنمائی و ہدایت قرآن ہی سے حاصل ہو سکتی ہے‘‘۔… ’’قرآن سے ہمیں  فکری قوت بھی حاصل ہو گی اور اس کے ذریعے سے عملی راہیں  بھی واضح ہوتی چلی جائیں  گی اور اسی کے ذریعہ سے انسانی قلوب (دلوں )کی تطہیر اور انکا تزکیہ بھی ممکن ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ قرآن کی صحیح طریقے سے اشاعت کی جائے اور مسلمان قرآن کی چلتی پھرتی تصویر بن کر رہیں ۔ قرآن ہی ان کا اخلاق ہو ،قرآن ہی ان کا کردار ہو، قرآن ہی سے وہ قوت حاصل کرتے ہوں  ، قرآن ہی ان کا اصل ہتھیار ہو، قرآن ہی ان کے لئے امید کی کرن ہو اور قرآن ہی ان کے لئے کامیابی کا ضامن ہو۔ قرآن پر انہیں  پورا یقین حاصل ہو اور صحیح معنیٰ میں  پوری مسلم قوم کی یہی ایک رہنما کتاب ہو۔ قرآن ہی وہ روشنی ہے جس سے ساری ظلمتیں  کافور ہو جاتی ہیں  اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل حل ہو جاتے ہیں ۔‘‘
کسی شاعر نے کیا خوب فرمایاہے  ع
عمل جن کا ہو اس کلامِ متیں  پر
وہ سر سبز ہوئے روئے زمین پر
گویا مسلمانوں  کی کامیابی اس کلام متیں  پر عمل پیرا ہونے میں  ہے، اگر انسان آج بھی ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر کلام الٰہی کو تھام لے تو زمین پر آج انسانی کی بدبختی کو نیک بختی میں  تبدیل ہونے میں  دیر نہیں  لگے گی۔ کیوں  کہ یہ کتاب ’’کتابِ انسان‘‘ ہے، اور اس میں  ایک ایک انسان سے انفرادی اور اجتماعی طور خطاب کیا گیا ہے۔
لَقَدْ اَنزَلْنَا اِلَیْکُمْک کِتَابًا فیْہِ ذکْرُکُمْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (سورۃ انبیاء)
’’ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی جس میں  تمہارا ہی تذکرہ ہے، کیا تم نہیں  سمجھتے ہو۔‘‘
ایک جلیل القدر تابعی اور عرب سردار احنف بن قیس ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے یہ مذکورہ بالا آیت پڑھی۔
وہ چونک پڑے اور کہا کہ ذرا قرآن مجید تو لاؤ۔ اس میں ، میں  اپنا تذکرہ تلاش کروں ، اور دیکھوں  کہ میں  کن لوگوں  کے ساتھ ہوں ، اور کن سے مجھے مشابہت ہے؟
انھوں  نے قرآن مجید کھولا، کچھ لوگوں  کے پاس سے ان کا گزر ہوا، جن کی تعریف یہ کی گئی تھی:
’’رات کے تھوڑے حصے میں  سوتے تھے، اور اوقات سحر میں  بخشش مانگا کرتے تھے، اور ان کے مال میں  مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں ) کا حق ہوتا تھا‘‘۔(الذاریات)
کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا:
’’ان کے پہلو بچھونوں  سے الگ رہتے ہیں  (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور اُمید سے پکارتے ہیں ۔ اور جو (مال) ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں  سے خرچ کرتے ہیں ‘‘۔(السجدہ)
کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا:
’’اور جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کرکے اور (عجز و ادب سے) کھڑے رہ کر راتیں  بسر کرتے ہیں ‘‘۔ (الفرقان )
اور کچھ لوگ نظر آئے جن کا تذکرہ اِن الفاظ میں  ملا:
’’جو آسودگی اور تنگی میں  (اپنا مال خدا کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں ، اور غصہ کو روکتے اور لوگوں  کے قصور معاف کرتے ہیں ، اور خدا نیکوکاروں  کو دوست رکھتا ہے‘‘۔ (آل عمران)
اور کچھ لوگوں  کے بارے میں  یہ معلوم ہوا کہ:
’’(اور) دوسروں  کو اپنی جانوں  سے مقدم رکھتے ہیں ، خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو، اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہوتے ہیں ‘‘۔(الحشر)
اور کچھ لوگوں  کی زیارت ہوئی جن کے اخلاق یہ تھے:
’’اور جو بڑے بڑے گناہوں  اور بے حیائی کی باتوں  سے پرہیز کرتے ہیں ، اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں ‘‘۔(الشوریٰ)
’’اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں  اور نماز پڑھتے ہیں ، اور اپنے کام آپس کے مشورہ سے کرتے ہیں  اور جو مال ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں  سے خرچ کرتے ہیں ‘‘۔(الشوریٰ)
اتنے مناظر کو پڑھ کر وہ ٹھٹک کر رہ گئے، اور کہا : ’’اے اللہ میں  اپنے حال سے واقف ہوں ، میں  تو ان لوگوں  میں  کہیں  نظر نہیں  آتا۔‘‘
پھر انہوں  نے ایک دوسرا راستہ لیا، اب ان کو کچھ لوگ نظر آئے، جن کا حال یہ تھا:
’’ان کا یہ حال تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں  تو غرور کرتے تھے، اور کہتے تھے، کہ بھلا ہم ایک دیوانہ شاعر کے کہنے سے کہیں  اپنے معبودوں  کو چھوڑ دینے والے ہیں ؟‘‘(سورہ صافات)
پھر اُن لوگوں  کا سامنا ہوا جن کی حالت یہ تھی:
’’اور جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں  رکھتے، ان کے دل منقبض ہو جاتے ہیں ، اور جب اس کے سوا اوروں  کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں ‘‘۔ (الزمر)
کچھ اور لوگوں  کے پاس سے گزر ہوا جن سے جب پوچھا گیا:
’’کہ تم دوزخ میں  کیوں  پڑے؟ وہ جواب دیں  گے کہ ہم نماز نہیں  پڑھتے تھے اور نہ فقیروں  کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم جھوٹ سچ باتیں  بنانے والوں  کے ساتھ باتیں  بنایا کرتے اور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے، یہاں  تک کہ ہمیں  اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا‘‘۔ (المدثر)
یہاں  بھی پہنچ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے دم بخود کھڑے رہے۔ پھر کانوں  پر ہاتھ رکھ کر کہا: ’’اے اللہ! ان لوگوں  سے تیری پناہ! میں  ان لوگوں  سے بری ہوں ۔‘‘
اب وہ قرآن مجید کے اوراق کو ا لٹ رہے تھے، اور اپنا تذکرہ تلاش کر رہے تھے، یہاں  تک کہ اس آیت پر جا کر ٹھرے:
’’اور کچھ اور لوگ ہیں  جن کو اپنے گناہوں  کا (صاف) اقرار ہے، انہوں  نے اچھے اور برے عملوں  کو ملا جلا دیا تھا، قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے، بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔(التوبہ: 102)
اس موقع پر ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا، ہاں  ہاں ! یہ بیشک میرا حال ہے۔
علامہ اقبالؒ جس کی رگ رگ میں  قرآن کریم رچا بسا تھا ایک جگہ اپنے اشعار میں  فرماتے ہیں    ع
قرآن میں  ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
امت مسلمہ کی موجودہ ابتر حالت کو دیکھ کر اگر دیکھا جائے تو یہی محسوس وہوتا ہے کہ ہم نے صرف اس قرآن  کی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے بلکہ اس کے پیغام امن و سلامتی کو  ہم نے بھلا دیا ہے ، جس کی وجہ سے ہم آج ہر جگہ ذلیل وخوار ہو کر رہ گئے ہیں ۔ جب تک نہ آج انسان اس قرآن میں  غوطہ زن ہو جائے گا تب تک کسی انقلاب اور کسی تبدیلی کا خواب دیکھنا بھی ایک لاحاصل مشق ہو گی۔ دنیا میں  موجود انسان بحیثیت انسان اُس پیغام کے منتظر ہیں  جس میں  امن وسلامتی کا پیغام ہے لیکن ان تک یہ پیغام پہنچانے والے ہی اس پیغام الٰہی سے کوسوں  دور جا بیٹھے ہوئے ہیں ۔ مسلمان غوطہ زنی کرے اور امن وسلامتی کا ماحول قائم نہ ہو جائے یہ ناممکن ہے۔
علامہ اقبال کے ہم عصر ایم اسلم اپنی کتاب میں  لکھتے ہیں :
’’ میں  نے متعدد بار قرآن مجید کو اقبال ؒ کے مطالعے کے میز پر دیگر کتابوں  کے ساتھ پڑا دیکھا۔ ایک مرتبہ میں  نے ادب کے ساتھ انھیں  اس طر ف متوجہ کیا تو فرمانے لگے : یہ کسی قیمتی اور خوبصورت غلاف میں  لپیٹ کر اور عطر میں  بسا کر اونچی جگہ پر رکھنے والی کتاب نہیں  بلکہ یہ تو انسان کے ہر وقت کام آنے والی کتاب ہے۔ چونکہ مجھے اکثر اس کی ضرورت پیش آتی ہے اس لیے یہاں  پاس ہی رکھی ہے۔‘‘
یعنی قرآن تو ایسی کتاب ہے جو ہر وقت کام آنے والی کتاب ہے، غلافوں  میں  لپیٹ کر صرف برکت کے لئے رکھنے کی کتاب نہیں ۔لیکن آج صورتحال اس کے برعکس ہے، ہم نے قرآن کو طاق نسیاں  کی زینت بنا دیا ہے، جب اپنا دنیاوی مفاد ہوتا ہے تو ہم اسے اٹھاتے ہیں ، گرد صاف کرتے ہیں  اور چومتے ہیں ، باقی ہمارے کاروبار زندگی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں  ہے۔
آخر پر حضور اکرمﷺ کا وہ فرمان جس میں  آپﷺ نے حاملینِ قرآن کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
اے اہل قرآن اس قرآن کو پس پشت نہ ڈالو، اور اس کی تلاوت کرو جیسا اس کا حق ہے صبح اور شام، اور اس کو پھیلاو، اور اسے خوبصورت آوازوں  سے پڑھو، اور اس میں  تدبر کرو تاکہ تم فلاح پاو۔(بیہقی)
٭قرآن کو پس پشت نہ ڈالو
٭قرآن کی صبح وشام تلاوت کرو
٭قرآن کی تعلیمات کو عام کرو یعنی داعی بن کر اس کو پھیلائو
٭قرآن کی خوب صورت آوازوں  سے تلاوت کرو
٭قرآن کو نہ صرف تلاوت بلکہ اس پر غور وفکر اور تدبر کرو۔‘‘
یہ وہ پیغام ہے جو ایک مومن ومسلم کے لیے سمجھنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین

Thursday 22 December 2016

انسانیت کی پکار اندھیرا چھاگیا روشنی کہاں سے لاؤں

ابراہیم جمال بٹ’’جو خدا رات کی تاریکی میں سے دن کی روشنی نکال لاتا ہے اور چمکتے ہوئے دن پر رات کی ظلمت طاری کر دیتا ہے، وہی خدا اس پر بھی قادر ہے کہ آج جن کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر ہے ان کے زوال و غروب کا منظر بھی دنیا کو جلدی ہی دکھاوے، اور کفر وجہالت کی جو تاریکی اس وقت حق وصداقت کی فجر کا راستہ روک رہی ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے حکم سے چَھٹ جائے اور وہ دن نکل آئے جس میں راستی اور علم ومعرفت کے نور (فضا)سے دنیا روشن ہوجائے۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباس جس سے خدا ذو الجلال والاکرام کی بڑائی اور عظمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خدا کی ذات ایسی طاقتور ذات ہے کہ جسے چاہے حکومت وطاقت دے ۔۔۔جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذِلت کا شکار کر دے۔۔۔ کیوں کہ اسی کی قدرت میں خیر کی کنجی ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے ۔
اقتباسِ مذکورہ میں تاریخِ انسانیت کا ایک ایسا کھلا باب ہے جسے پڑھ پر ہر ایک شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ جب بھی کبھی کوئی قوم یا گروہ اس عارضی وفانی دنیا میں طاقت بن کر نمودار و غالب ہوا تو اس غلبے کے بعد وہی قوم وگروہ کیسے زوال وغروب کے شکار ہو گیا۔ جو طبقے و اقوام اس دنیائے فانی میں ’’سپر پاور‘‘ جیسے ناموں سے پکارے جاتے تھے انہی قوموں پر زوال وغروب نے ایسے راہ بنائی کہ وہ اقوام ہی نہیں بلکہ عام لوگ بھی دیکھتے ہی رہ گئے۔
اس اقتباس سے اُمید کی ایک کرن بھی دکھائی دے رہی ہے۔ اُمید اس بات کی کہ کفروجہالت کی تاریکی سے جو آج اندھیرا چھایا ہوا ہے، جس کی وجہ سے دنیائے انسانیت اندھیرے کا شکار ہو چکی ہے۔ ہر طرف بدامنی اور بداخلاقی کا دور دورہ دکھائی دیتا ہے،انسانیت اگر سنبھل جائے، انسان بحیثیت انسان اگر سمجھ جائے کہ اس کی اس عارضی وفانی زندگی جو جہالت وتاریکی کی نظر کر دی گئی ہے، آئندہ آنے والے دور میں اس کی اس موجودہ غلامی سے نجات حاصل ہو جائے گی۔ اسے علم ومعرفت کے نور سے اس قدر جلا ملے گی کہ وہ بدامنی سے نکل کر امن کی شاہراہ کو پا لے گا، اسے حیوان نما ہوس پرست حکمرانوں کی حکمرانی سے نجات مل جائے گا۔
چنانچہ حال ہی میں عالمی تناظر کے حوالے سے ایک ایسی خبر سامنے آئی کہ دنیا اور اس میں رہنے والے لوگ دیکھتے ہی رہ گئے۔ ’’ناپسندیدہ ذات پسندیدہ ذات کے طور پر تسلیم کی گئی‘‘ عالمی ’’پولیس مین‘‘ کا کردار ادا کرنے والے متحدہ امریکہ کا نیا صدر ’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ جس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ امریکی صدارتی انتخابات میں اس کی جیت ناممکن ہے، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ’’ٹرمپ‘‘ قصر ابیض کا مکین ہو گیا۔ دنیا کے مالدار ترین شخص ڈونلڈ ٹرمپ ’’رہاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے‘‘۔ برابر اسی طرح جس طرح بھارت میں 2014ء میں ہوئے انتخابات میں ایک ایسے شخص وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہو گئے جنہیں اس سے قبل ’’دنیا کے دس ظالموں اور قاتلوں‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ جنہوں نے گجرات فسادات میں خون خرابہ کاماحول پیدا کر دیا تھا، جس میں سینکڑوں مسلمانوں کی جانیں تلف ہو گئیں۔ ’’ہندو راشٹر‘‘ کا دم بھرنے والے اس ’’صاحبِ براجمان‘‘ نے آر ایس ایس کے رنگ میں پورے بھارت دیس کو رنگنے کا ایک ایسا پروگرام مرتب کیا ہوا ہے کہ پورا بھارت جو جمہوریت اور سیکولرازم کا دم بھرتا ہے ، کا جنازہ ہی نکلا جا رہا ہے۔ آج اسی صورت حال کا اکثر وبیشتر ممالک پرسامنا ہے۔ یہ بات کسی نے بہت ہی اچھی کہی ہے کہ ’’آج جو دنیا میں طاقتور قومیں کمزوروں کو نگل لیتی ہیں اور جو بڑے اور وسیع و عریض رقبہ رکھنے والے ملک چھوٹے اور محدود وسائل والے ملکوں کو اپنا غلام اور باجگذار بنالیتے ہیں۔ یہ سب وطنیت ۔۔۔قومیت ۔۔۔جمہوریت اور سیکولرازم کے زہریلے ثمرات ہیں اور اسی کے نتیجے میں دنیا کے گوشے گوشے میں خون خرابہ بھی ہے اور جنگیں بھی ہورہی ہیں۔‘‘ چنانچہ جس ذہنیت کے لوگ آج کل لوگوں پر بحیثیت حکمران وغیرہ چنے جا رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ آنے والے ایام کے لیے ایک ایسے ماحول تیار ہو رہا ہے جس میں انسانیت کی بھلائی سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ اس کا عالمی تناظر میں آج مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ ہر جانب انسانیت کا خون بہہ رہا ہے، ہر ملک اور ہر قوم اپنے ہی ہاتھوں یا اپنے ہی لوگوں سے پٹ رہے ہیں۔ ’’جب ہماری ذہنیت اس انداز کی ہو جائے کہ خوب سے خوب تر کے بجائے ہم ناخوب کو ہی پسند کرنے لگیں تو یاد رکھنا چاہیے کہ ’’ناخوب‘‘ سے تباہی آتی ہے نہ کہ بھلائی۔‘‘ اس لحاظ سے اس مجموعی صورت حال کا مشاہدہ کر کے انسانوں کی ان بستیوں میں ذی حس وذی شعور لوگوں کا غور کرنا چاہیے کہ ہم کس جانب جا رہے ہیں۔
بہر حال اس مجموعی صورت حال کے بیچ میں ایک ایسا ’’معطرفضا‘‘ بھی تیار ہو رہی ہے جس کے متعلق منفی اظہارِ خیال کر کے عالمی طا قتیں مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں۔ تاریخ کا غائر مطالعہ کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ ایسی فضا ہے جسے غیروں نے نہ کبھی برداشت کیا ہے اور نہ ہی برداشت کیا جائے گا۔ یہ فضا اور اس سے ظاہر ہونے والے ثمرات کا تعلق اس ذاتِ یکتا سے ہے جس کے مقابلے میں عام انسان ہی نہیں بلکہ خاص الخاص بھی کچھ نہیں۔ یہ ماحول اور فضا روئے زمین کے چپے چپے پر عام ہو رہا ہے۔ اگرچہ رفتار ابھی اس قدر نہیں کہ بگاڑ کی اس موجودہ صورت حال کو بناؤ میں تبدیل کیا جائے، تاہم ایسے آثار نمایاں ہو رہے ہیں کہ شاید وہ وقت قریب ہے، جب اس آسمانِ دنیا کے نیچے اس زمین پر وہ فضا کا ماحول چھا جائے جس کے عموماً لوگ متمنی ہیں۔
یہ بات ذہین نشین رہے کہ آج عام انسانیت بدامنی کے اس بھنور سے نکلنا چاہتی ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہے کہ دنیا جہنم میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ایک عام انسان کو اپنے ضمیر کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اسے ایک ایسا نظام ملنا چاہے جس میں ہر ایک انسان کے لیے امن ہو۔ ’’دنیا کا ہر انسان آزادی اور امن کا متمنی ہوتا ہے۔ اس لئے کہ یہ انسان کی فطرت کی آواز ہے اور فطرت کی آواز کو زور زبردستی سے دبایا اور مٹایا نہیں جاسکتا ہے۔‘‘
جب بار بار عام انسانیت کو پست اخلاقیت سے سابقہ پیش آتا ہے اور پست اخلاق سے متصف لوگ محض اپنی جہالت اور خود غرضی وتنگ نظری کی بنا پر انسانیت کی خیر خواہانہ مساعی کو روکنے کے لیے گھٹیا درجہ کی چال بازیوں سے کام لیتے ہیں تو فطرتاً اس کا دل ہی دُکھتا ہے۔ اس لحاظ سے آج دنیا میں بسنے والے عام انسان جب انسانیت کی دھجیاں اڑتے دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ ہر طرف خون خرابہ اور ظلم وستم کا بازار کا نظارہ کر رہے ہیں۔۔۔ عادل وانصاف پسند حکمرانوں کے بجائے ’’ناپسندیدہ اور ظالم وقاتل حکمران‘‘ اپنی چودھراہٹ قائم کئے جا رہے ہیں تو انسانیت بحیثیت انسان جس میں ضمیر نام کی ایک چیز بھی ہوتی ہے کراہ کراہ کر آواز دے رہی ہے کہ کاش وہ فضا اور ماحول قائم ہو جائے جس میں عام انسانیت کے لیے امن وانصاف ہو۔ آج بظاہر پوری دنیا میں بسنے والے مخالف اور ظالم نظر آرہے ہیں لیکن حقیقت اس سے بعید ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک عام انسان انسانیت اور عدل وانصاف کا متمنی ہے۔ اسے اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ ہمارے ہاتھوں جو فی الوقت ہو رہا ہے وہ صحیح نہیں ہو رہاہے، اسے ظالم اور ظلم کے مقابلے میں عادل وعدل کا انتظار ہے۔ اسے انصاف کے علم برداروں کی تلاش ہے۔ اسے ایسی فضا اور ماحول کی تلاش ہے جس میں اس کے لیے امن اور آشتی ہو۔
یہی وہ فضا ہے جس کی کرنیں آہستہ آہستہ نمودار ہو رہی ہیں، مختلف ممالک میں کام کرنے والے ایسے پاکباز لوگ جو اس فضا کے نہ صرف متمنی ہیں بلکہ اس کے قیام کے لیے قربانیاں بھی دے رہے ہیں، ان کے مکمل کام کا اندازہ کرنا آج پوری طرح سے اگرچہ ناممکن ہے لیکن ایک سرسری جائزے کے طور پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ کام میں وسعت ،گہرائی اور اثرات ہے لیکن ابھی پوری طرح سے ظاہر نہیں ہو پا رہے ہیں، اور جہاں کہیں اس فضا کے نمودار ہونے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں تو مخالف جانب سے اس کی روکتھام کے لیے انتھک کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن کامیابی بہرحال اسی کی نصیب ہوتی ہے جس کے پاس ’’بناؤ‘‘ ہو نہ کہ’’ بگاڑ‘‘۔
یہ ’’فضا جس کی کرنیں نمودار ہو رہی ہیں‘‘ اسلام کا نظامِ عدل کے سوا کچھ اور نہیں۔ آج اگر کوئی قوم اور مذہب اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ ہمارے پاس انسانیت کے لیے فلاح وکامرانی، امن اور انصاف پر مبنی ہے تو انہیں اپنے اُن نظاموں کو اپنے اپنے ملک میں قائم کر کے عام انسانیت کے سامنے رکھنے کا موقع دیا جانا چاہیے ، تاکہ دنیا دیکھے کہ حقیقی انسانیت کسے کہتے ہیں۔۔۔ حقیقی امن کیا ہے۔۔۔ انصاف اور عدل کس عظیم شئی کو کہتے ہیں۔ مگر بہرحال ان تمام مذاہب سے وابستہ لوگوں کو موقع دینے کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی یہ موقعہ فراہم کیا جانا چاہیے ۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام ایک ایسا نظام عدل وانصاف ہے جس میں ہر ایک کے لیے عدل ہے، ہر ایک کے لیے انصاف ہے، ہر ایک کے اپنے اپنے حقوق ہیں،بلکہ یہ ایسا دعویٰ ہے جس کا ثبوت تاریخ کے سنہرے اوراق میں موجود ہے، کس طرح سے پورے عالم کے لیے یہ دین امن وآشتی ہے ،اس کا نظارہ دنیا دیکھ چکی ہے۔
تاریخ کے اوراق سنہرے الفاظ سے بھرے پڑے ہیں کہ کس طرح اسلام عالم انسانیت کا دین ہے۔۔۔ عالم انسانیت کی بھلائی کا خواہاں ہے۔۔۔ کس طرح اسلام نے امن اور انسانیت کو فروغ دیا۔ یہ نظام نہ صرف اس کے ماننے والوں کے لیے نظامِ عدل قرار پایا بلکہ پوری بنی نوع انسانیت کے لیے اس میں عدل وانصاف ہے۔
بہرحال انسانیت انتظار میں ہے لیکن ان کے اِس انتظار کا جواب اگر اسلام کے پاس ہے تو پورے عالم میں بسنے اور رہنے والے مسلمانوں کو اپنا وہ بنیادی فریضہ ادا کرنا چاہیے تاکہ امن اور انسانیت سے مذین نظام کا لوگ خود مشاہدہ کریں ۔ لیکن وائے افسوس۔۔۔ بقول ایک عالم دین کے کہ:
’’عصر حاضر میں پورے انسانی معاشرے میں جو ہمہ جہتی بگاڑ اور فساد پیدا ہو گیا ہے، اس کی بنیادی وجہ اُمت مسلمہ کا اپنے فرائض منصبی سے شعوری اور غیر شعوری غفلت اور لاپرواہی ہے۔ اس امت کے بگاڑ اور فساد نے پوری انسانی برادری کو فساد اور بگاڑ کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔‘‘


انسانی حقوق کا عالمی دن انسانیت کے نام پرخون ناحق کا بہاؤ

images-1

انسانی حقوق کا عالمی دن انسانیت کے نام پرخون ناحق کا بہاؤ


ابراہیم جمال بٹ

ہر سال کی طرح امسال بھی 10 دسمبر کو ’’حقوق انسانی کے تحفظ کا عالمی دن‘‘ منایا جاتاہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے اس عالمی دن کے موقع پر دنیا بھرمیں مختلف قسم کی تقاریب اور کانفرنسوں وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے، جن میں انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے اپنے خیالات پیش کئے جاتے ہیں۔ اس بات پر تبصرہ کیا جاتا ہے کہ فی الوقت پوری دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے کیا کچھ ہو رہا ہے، کیا ہو چکا ہے اور آئندہ اس حوالے سے کہاں پر کیا کچھ ہونے کا احتمال ہے۔ اس ساری صورت حال پر اس عالمی دن کے موقع پر محاسبہ کیا جاتا ہے۔
جہاں تک حقوق انسانی کے تحفظ کا سوال ہے تو بحیثیت ایک انسان کے یہ حق بنتا ہے کہ دنیا میں اسے تحفظ فراہم ہو سکے۔ انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اسے ہر حیثیت اور ہر مقام پر تحفظ فراہم ہو سکے۔ انسان اس دنیا میں آزاد پیدا ہوا ہے اس لئے انسان کو جب تک ہر حیثیت سے آزادی نصیب نہیں ہوتی تب تک اس کی زندگی کا کوئی صحیح مطلب نہیں ہے۔ انسان اپنی مرضی کا آپ مالک ہے لہٰذا وہ کیا چاہتا ہے، اس لحاظ سے انسان کو کہنے، سننے کا پورا پورا حق ملنا چاہیے، جب تک یہ سب کچھ انسان کو میسر نہ ہوں تب تک انسان فطری طور پر ایک چوپایہ سے کم نہیں۔ جانور چاہے جس قدر بھی فائدہ مند ہو لیکن بہر حال جانو ر ہی رہتا ہے۔ اس کا منافع بخش ہونا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ اسے جانوروں کی فہرست سے نکال کر کسی اور مخلوق میں شمار کیا جائے۔ برابر اسی طرح ایک عام انسان کو اگر اپنے فطری حقوق سے محروم کر کے رکھ دیا جائے تو اگرچہ وہ بحیثیت انسان، انسان ہی رہے گا لیکن اس کے ذریعے سے وہ کچھ بھی حاصل نہیں ہو پائے گا جو اس کی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ اس اصل مقصد کے لئے انسان کی آزادی ضروری ہے تاکہ وہ انسانی فطرت کے لحاظ سے فیصلہ کرے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ انسان بلا روک ٹوک اور خوف کے یہ فیصلہ کر سکے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ انسان فطرتاً آزاد پیدا کیا گیا ہے اور فطرت کے ساتھ جنگ چھیڑ کر اس کی آزادی کو سلب کرنا انسانیت پر حملہ کرنے کے برابر ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو انسانی حقوق کا تحفظ تب تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک اس دنیا میں انسان شخصی ، فکری اور قومی غلامی سے آزاد نہ ہو۔ ہر انسان غلامی سے پاک ہو کرانسانیت کے تحفظ کا مقام حاصل کر سکتا ہے، کیوں کہ انسان کو پیدا کرنے والے خدائے ذوالجلال نے بھی اس پر زور زبردستی سے کوئی بات منوانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اسے آزاد رکھ کر اوراس پر واضح کر کے اس کے سامنے دو راستے رکھے، اب اس کی مرضی کہ کس کو پسند کرے اور کس کو ناپسند؟ صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنا اب ا س کے ہاتھ میں رکھا گیا ہے۔ اس لحاظ سے ہر حیثیت سے انسان آزاد ہونا چاہیے تاکہ وہ آزادی کے ماحول میں اپنی زندگی کا فیصلہ کر سکے۔ انسانیت کا تحفظ انسان کی ہی آزادی میں مخفی ہے۔ جب تک انسان کو انسان بن کر رہنے نہ دیا جائے تب تک نہ تو کسی کو تحفظ فراہم ہو سکے گا اور نہ ہی یہ دنیا صحیح معنوں میں ترقی کر سکتا ہے۔
پوری دنیا میں 10 دسمبر کے دن اگرچہ انسانی حقوق کے تحفظ کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کا انسان کئی حیثیتوں سے غلام ہو کر انسانیت کے نام سے دور جا چکا ہے، جس کا خمیازہ پوری دنیا اٹھا رہی ہے۔ دنیا کا وہ کون سا حصہ ہے جہاں امن ہے۔۔۔؟ چہار جانب بدامنی، ظلم و فساد، جنگ و جدل، قتل و غارت گری، لوٹ مار، اغوا کاری، بے راہ روی اور ایک دوسرے کا حق مارنا جیسے قبیح حرکات میں انسان محو ہے۔ گویا انسان انسان نہیں ،مثل چوپایہ بن چکا ہے کہ اسے یہ خیال نہیں رہتا کہ وہ کب کیا کر رہا ہے۔ آج انسان کسی دوسری مخلوق کا نہیں بلکہ انسان کا ہی دشمن بن چکا ہے۔ ایک دوسرے کو مارنا ، ایک دوسرے کی آزادی چھین کر اسے غلام بنانا، ایک دوسرے کے حقوق پر حملہ کر کے خود خوش رہنے کی کوشش کرنا، یہ سب کچھ آج یہی انسان کر رہا ہے۔ شخصی غلامی سے لے کر قومی اور فکری غلامی میں انسان کو مبتلا کیا جا چکا ہے، جس کا نتیجہ پوری دنیا میں واضح ہے۔ کسی انسان یا قوم پر کوئی چیزجبراً ٹھونسنا ا انسانیت کا تحفظ نہیں بلکہ صریح طور پر انسانیت کی تذلیل ہے۔ انسانیت کا تحفظ انسان کی خوش حالی میں مضمر ہے اور انسانیت کا تحفظ اس کے حقوق سلب کرنے میں نہیں بلکہ حقوق دینے میں ہے۔ انسان کے بے شمار حقوق میں سے اس کی شخصی، فکری اور قومی آزادی ہے۔ جب تک یہ میسر ہے تب تک انسانیت موجود ہے اور جب اس آزادی پر حملہ کیا جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں انسان سے یہ سب کچھ چھین کر انسانیت کی تذلیل کر کے جینا لاحاصل عمل ہے۔ اس حوالے سے اگر آج کی دنیا پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو صاف واضح ہوتا ہے کہ آج انسان سے اس کے فطری حقوق چھین کر پوری دنیا میں اندھیرا چھا چکا ہے۔ آج انسان کو بے شمار غلامیوں میں مبتلا کیا جا چکا ہے۔ شخصی غلامی، فکری غلامی، قومی غلامی ، اونچ نیچ کی غلامی، زبان، رنگ و نسل کے تفاخر کی غلامی ، ان ساری قبیح غلامیوں میں انسان کو مبتلا کر کے رکھ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ بارود کا ڈھیر کب پھٹ جائے کچھ خبر نہیں، اپنی اپنی فکر میں سب مشغول ہیں۔ وادی کشمیر میں جاریہ ایجی ٹیشن کے دوران وادی میں سینکڑوں افراد جسمانی طور معذور ہوچکے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ انسانی حقوق کے دن کے موقعے پر پر ان کی کوئی داد رسی کا کوئی امکان نہیں۔پہلے یہاں سمیناروں اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا تھا اور ایسی روایت ہر ملک میں ہے لیکن یہاں وادی میں اب ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا حالانکہ آج کل یہاں اس کی اہمیت کچھ زیادہ ہی تھی۔وادی میں جاریہ ایجی ٹیشن کے دوران فورسز کی کارروائی میں قریباً 100افراد کی جانیں چلی گئیں، 120کے قریب افراد جسمانی طور پر معذور ہوگئے ہیں جس میں سے آنکھوں پر پیلٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے تاہم ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔معالجین کا کہنا ہے کہ جسمانی طور پر ناخیز افراد کو مختلف زمروں میں شامل کیا جاتا ہے اور اس کیلئے مختلف پیمانے مرتب کئے گئے ہیں۔8جولائی کو حزب کمانڈرر برہان وانی کے جان بحق ہونے کے ساتھ ہی وادی میں شروع ہوئی احتجاجی لہر اور سیکورٹی کی مختلف ایجنسیوں کی کارروائیوں میں16ہزار کے قریب لوگ زخمی ہوئے جن میں مجموعی طور پر1600کے قریب لوگوں کی آنکھوں میں پیلٹ لگے۔اعدادو شمار کے مطابقپانچماہ تک کے عرصے میں زخمی ہونے والوں میں سے120کے قریب لوگ جسمانی طور پر نا خیز ہوئے جن میں پیلٹ لگنے کی وجہ سے آنکھوں کے نور سے محروم ہونے والوں اور آنکھوں کے نقائص سے جھوجھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔صحت کی عالمی سطح پر نگہداشت کرنے والے بین الاقوامی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنایشن کی جسمانی طور پر ناخیزی کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے ’’ معذوری، جسمانی نقائص کے بنیادوں پرسرگرمیوں کی شرکت میں پابندی و حد بندی کی مشترکہ اصطلاح ہے‘‘۔محکمہ صحت اور طبی تعلیم کے علاوہ میڈیکل کالج سرینگر کے زیر اثر چلنے والے اسپتالوں کے پاس اگر چہ اس بارے میں مکمل تفصیلات معلوم نہیں ہیں کہ کتنے لوگ جسمانی طو ر پر ناخیز ہوئے تاہم جو اعداوشمار ان کے پاس موجود ہیں اس سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ قریب120لوگ جسمانی طور پر نا خیز ہوئے ہیں اور اس میں ممکنہ طور پر اضافہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ قبل از وقت نہ ہی کسی کو جسمانی طور پر ناخیز قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو مستثنیٰ رکھا جاسکتا ہے۔ میڈیکل کالج سرینگر کے پرنسپل ڈاکٹر نے کہا کہ ابھی تک اگر چہ جسمانی طور پر ناخیز افراد کے بارے میں صحیح معلومات جمع نہیں ہوئی اور نہ ہی دستیاب ہے،تاہم کچھ عرصے کے بعد ہی کچھ کہا جاسکتا ہے۔ڈاکٹرصاحب نے کہا’’ زخمیوں اور مریضوں کے مرض کی نوعیت کی تشخیص کرنے سے ہی اصل صورتحال سامنے آتی ہے اور کچھ کہا جا سکتا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ بیشتر زخمیوں کی مرض کی نوعیت کی تشخیص ابھی جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جسمانی طور پر ناخیز افراد کو قرار دینے کیلئے پہلے ہی قواعد طے کئے گئے ہیں اور اس سلسلے میں میڈیکل بورڑ بھی تشکیل دئے جاچکے ہیں جو طے کرتے ہیں کہ کون شخص جسمانی طور پر ناخیز ہے۔انہوں نے کہا کہ جسم کے الگ الگ حصوں کیلئے علیحدہ علیحدہ طریقہ کار طے کیا گیا ہے۔معروف معالج ڈاکٹر نٹراجن نے اس سلسلے میں پہلے ہی کہا تھا کہ پیلٹ سے زخمی ہونے والے افراد کی زخموں کی اصل نوعیت اور اس میں پیش رفت کا6ماہ کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے۔اس دوران آنکھوں پر پیلٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ بیشتر معالجین کا کہنا ہے کہ چونکہ ابھی بیشتر زخمیوں کا علاج و معالجہ جاری ہے اور ڈاکٹروں نے بھی اپنی کاوشیں جاری رکھی ہیں اس لئے قبل از وقت جسمانی طور پر ناخیز افراد کی صحیح تعداد بتانا مشکل ہے۔ یہ سب کچھ وادی کشمیرمیں نہیں بلکہ دنیا کے چپے چپے پر ہو رہا ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ فلسطین کا خون ناحق اسرائیل بہا رہا ہے، پاکستان میں ایک دوسرے سے لڑا کر خون بہایا جا رہا ہے، عراق اور افغانستان میں عالمی دہشت گرد ’’امریکہ بہادر‘‘ خون مسلم بہا رہا ہے، مصر میں وہاں کی کٹھہ پتلی فوجی آمریت وہاں کے جمہوری طور سے برسراقتدار آنے والی حکومت کا تختہ پلٹ کر انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔ اسی طرح شام کی صورت حال ہے۔ اس سب کے ہوتے ہوئے تحفظ حقوق انسانی کی باتیں کرنا سب فضول نظر آتا ہے۔ اس ایک دن پر کانفرنسیں، جلسے جلوس، ریلیاں، مظاہرے، قرار دادیں اور اس طرح کے بے شمار طریقے اختیار کیے جاتے ہیں لیکن سب کچھ خانہ پوری محسوس ہوتی ہے۔ بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن عملاً ٹائیں ٹائیں فش ، حقوق انسانی کے تحفظ پر خطابات ہوتے ہیں لیکن مقررین خود اصل معنی میں حقوق انسانی کے معنی سے نابلد نظر آتے ہیں۔ جس کی مثال پوری دنیا میں دیکھی جا سکتی ہے۔ فلسطین میں لاکھوں لوگوں کو قبروں میں پہنچا دیا گیا مگر آج تک یہ نہیں دیکھا گیا کہ اتنی بڑی تعداد میں فلسطینی کیوں مارے گئے؟ حقوق انسانی کا تحفظ کا جذبہ کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ اسی طرح مصر، فلسطین ،پاکستان، کشمیر، افغانستان، عراق، شام ، لبنان، چیچنیا، داغستان وغیرہ ممالک میں جو خون مسلم بہایا جا رہا ہے کسی حقوق انسانی کے نام نہاد علم بردار کے کان میں اصل معنی میں آج تک جوں تک نہیں رینگی، اپنی اپنی جگہ سب خاموش تماشائی بن کر صرف بیان بازی تک محدود نظر آتے ہیں۔ تحفظات کا راگ الاپ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دوسروں کو دھوکہ دینا نہیں بلکہ اپنی دنیا آپ برباد کرنے کے برابر ہے، جیسی کرنی ویسی برنی والا معاملہ ہے۔ آج ہم دوسروں کو غلامی میں جکڑنے کے خواب میں خود ہی مشکلات و مصائب کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں پوری دنیا میں امن قائم ہو جائے تو کیسے۔۔۔؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر کوئی بآسانی جان سکتا ہے لیکن معلوم نہیں کیوں جان بوجھ کر انسان انسانیت سے دور بھٹکتا جا رہا ہے؟ کیوں اس کا ذہن روز بروز تعمیر کے بدلے تخریب کاری پر ہی اترتا جا رہا ہے؟دراصل اس سب کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔ برسر اقتدار حکمرانوں نے وقت وقت پر قوموں کے قوم تباہی کے دہانے پر پہنچا دئے، صرف اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لیے، اپنی چودھراہٹ کے نشے میں چور، ان حکمرانوں کی وجہ سے دنیا جہنم میں تبدیل ہو چکی ہے اور جہنم خوشبو کا نام نہیں بلکہ اس کے برعکس بدبو اور درد ناک بارود کا نام ہے،جس کا کام جلانا اور تباہ و برباد کرنا ہے۔ لوگوں کے حقوق سلب کر کے وہ کچھ پانے کا خواب دیکھنا جس کی انسانی فطرت منکر ہے، سب لاحاصل عمل ہے اور اس لا حاصل سعی و کوشش میں اپنا قیمتی وقت صرف کرنا اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی سے وار کرنے کے برابر ہے۔ آج کے حکمران جو بار بار اپنی تقریروں اور بیانات میں حقوق انسانی کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کرتے نظر آتے ہیں، اپنے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے لیے دنیا کو جہنم میں تبدیل کر رہے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چور یہ طاقتیں صرف آج دیکھتے ہیں لیکن کل کیا کچھ ہو سکتا ہے اس پر انہیں نظر ڈالنے کی صحیح معنوں میں فرصت ہی نہیں ملتی۔ اس طبقے کی وجہ سے جو پوری دنیا تباہی وبربادی کی طرف دھکیل دی گئی ہے اس کی روک تھام کرناضروری ہے۔ اس کی لگام کو پکڑنا پوری دنیا کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ عنقریب یہ دنیا نہ تو عوام الناس کے لیے رہے گی اور نہ ہی اس حکمران طبقے کے لیے۔رہنے کے لئے یہ عمدہ جگہ (دنیا) کوبارود کے ڈھیر پر کھڑا کر دیا گیا ہے ، اب یہ ہماری سوچ ہے کہ ہم دیکھتے رہیں کہ کس طرح بارود کے ڈھیر پر رکھا ہوا یہ دنیا راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو کر پوری دنیا کا خاتمہ کرے۔ بہرحال جو کرنا ہے عوام کو کرنا ہے۔ ’’مَن جَدَّ فَوَجَدَ‘‘ (جس نے سعی وکوشش کی اس نے پایا) انسان کی سعی و کوشش اور خدائے ذوالجلال کی مدر ونصرت، یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کی ضرورت اور اہمیت سے واقف ہونا لازمی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ ان دونوں چیزوں کا انسان کی زندگی میں ایک اہم رول ہے، انسان کی کوشش اورخدا کی نصرت ومدد انسان کے لیے کافی ہے۔

Friday 13 May 2016

مضطرب فرد منتشرسماج خودفراموشی کی اندھی دوڑ ہے



مکان جل رہا تھا اور نہ صرف عام لوگ بلکہ وہ افرادِ خانہ بھی جنہوں نے اس گھر کی تعمیر کی تھی، اس کو ہر حیثیت سے مزین کیا تھا ، اس کے مالکانہ حقوق ان کے نام تھے،بھی اس آگ کا دور سے تماشا دیکھ رہے تھے…! کیا کبھی آپ نے ایسی حالت دیکھی یا سنی ہے…؟ اگر دیکھی ہے تو آپ کو ضرور عجیب سا لگ گیا ہو گا لیکن ایسی حالت سے آپ کو سامنا نہیں کرنا پڑا تو میری یہ بات ذرا غور سے سنئے کہ ایسا ہونا آج کی دنیا میں کوئی عجیب واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے واقعات اب آئے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ یہ نہ صرف وادیٔ کشمیر میں بسنے والے لوگوں کی حالت ِزار کی تصویر ہے بلکہ یہ اور اس جیسے واقعات عمومی طور پر ہرزوال آمادہ ملک اور ہرروبہ تنزل قوم میں عیان وبیاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہاں ،ا س کو دیکھنے  اور تاڑنے کے لئے چشم بصیرت اور دیدہ ٔ بینا چاہیے ۔ اس غلط روش کی وجوہات کیا ہیں؟ بالفاظ دیگر ایسا کیوں ہو رہا ہے…؟ ان سوالات کا جواب ذی حس اور باہوش لوگ تلاش کریں تو کیا کچھ معلوم نہیں ہو سکتا۔ پوری دنیا کی بات کریں تو ایک لمبی بحث چھڑے گی اور ہمیںبہت ساری مثالوں میں غرق ہو نا پڑے گا ۔ اب طوالت کو اختصار کی قنچی سے کا ٹ کاٹ کے اگر برصغیر کی ہی بات پر محدودرہیں تو اس کے لیے بھی ورق ہا ورق کم پڑیں گے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ اول خویش بعد درویش کے مصداق ہم اپنی سرزمین یعنی وطن ِ عزیز کشمیر کی بات کریں تو کسی حد تک ان سوالات کا جواب معلوم کر نے کے لئے سوچ بچار کے سمندر میں فکر کا سفینہ ڈال کر حالات کی لہروںسے اخذ کر سکتے ہیں کہ ایسا کیوں اور کس لیے ہو رہا ہے…؟ ممکنہ طورایسے سوالات کا تشفی بخش جواب مل سکتا ہے، باایں ہمہ تڑپ یہ ہونی چاہیے کہ انسانیت کی بابت دردِ دل ہمارے وجود کے بحر میں موجزن رہے  تب ہی ہم ان جوابات یہ سب مستفید ہو نے کی امید کرسکتے ہیں۔ 
ا نفراد ی حالت: 
اپنے گھر کا معاملہ ہی دیکھیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے ہر فرد میں بس ایک چیز رچی بسی ہے کہ کس طرح مال وجائیداد میں اضافہ ہو، کس طرح نوکری ، گاڑی اور دیگر سامان تعیش میسر ہوں… تاہم اس کے لیے ہر سطح کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن گھر کا نظام بگڑ رہا ہے… گھر جل رہا ہے… گھر کے ہر فرد میں خدا فراموشی کے جرثومے جنم لے ر ہے ہیں، ماں باپ ہی نہیں، بھائی بہن بھی گھر سے بے گھر ہو رہے ہیں۔ بیٹا بیٹی کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کی ملکہ ’’بیوی‘‘ بھی گھر سے بغاوت کر کے گھر میں فساد کی موجب بن رہی ہے، ہر طرف مادی دوڑ دھوپ ، جذبۂ مسابقت اوراخلاق باختگی کی آگ ہی آگ ہے جو ہمارے گھروں میں لگ چکی ہے… یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق گھر کا ذمہ دار یا خانہ دا ریہ سب کچھ دیکھ کر بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے بلکہ دور کا تماشائی بنا اس سب کا نظارہ کھلی آنکھ سے کر رہا ہے۔ گویا گھر کا ذمہ دار اپنی بربادی پہ  بے فکری کی نیند سو رہا ہے اور لا اُبالی پن سے بغیر کسی ند امت وپشیمانی کے اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ رہی ہماری انفرادی حالت کی ایک خفیف جھلک ۔
اجتماعی حالت: 
گھر کے بعد اپنے علاقے، اپنے محلے، اپنے گائوں، اپنی ریاست اور اپنے آس پاس کے انبوہ ِ انسانی پر نظر دوڑاتے ہیںتو اسی فساد و بے نیازی کی بو ہر مقام پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ گھر میں فساد، علاقہ میں فساد، دفتروں میں لوٹ مار، قریہ قریہ خون خرابہ، دکانوں، کارخانوں، سرکاری وغیر سرکاری اداروں حتیٰ کہ ایسے اداروں جہاں انسان کے اخلاق کی تعمیر ہوا کرتی تھی، جہاں آدمیت کی نشوونما ہوا کرتی تھی، جہاں انسان بطور انسان بن کر جینے اور رہنے کے قواعد سیکھتا ، وہاں بھی صدارتوں ،امارتوں اور مال پر ہاتھ مارنے کے فتنے فساد پنپ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اورانسانیت کی معماری کے دعوے دار بس تماشا بین بنے ہوئے ہیںاور کہیں بحالت مجبوری کہیں بر ضا و رغبت سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر رہے ہیں، حال یہ ہے کہ ان کے چہرے مہرے کے تاثرات سے ایسے لگ رہا ہے جیسے کچھ غلط ہوہی نہیں رہا ہے۔ 
آخر ایسا کیوں…؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کیا جا سکتا ہے اور کیا بھی جانا چاہیے، مگر تب ہی ممکن ہے جب ہم اس ہمہ گیرآگ کو بجھا سکتے ہوں یا اس کی تڑپ رکھتے ہوں۔ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ آگ کی فطرت جلانا ہے تب تک اس سے کوئی خوف اور غم لاحق نہیں سکتا، بچہ ِاس آگ سے ناواقف ہوتا ہے، اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ آگ ہر چیز کو جلا دیتی ہے، اس کا کام ہی ہر شئے کو خاک میں ملا دینا ہے۔جب یہی حالت ایک ذمہ دارشخص اور قوم کی بھی ہو جائے، تو برابر اسی صورت حال کا سامنا ہونا لگ بھگ طے ہے۔اس شخص کے اندرون میں ہی نہیں بلکہ بیرون میں بھی اسی آگ کے شعلے بھڑک اٹھیں گے۔ ہاں اگر پہلے سے معلوم ہو جائے کہ آگ کا کام جلانا ہے، آگ کا کام خاک میں ملانا ہے، آگ کا کام بادشاہی سے فقیری میں تبدیل کرنا ہے، آگ کا کام ہر بنائی ہوئی چیز کو نیست ونابود کرنا ہے، تو ہم انتھک کوشش کریں گے کہ اس آگ سے کہیں سابقہ ہی نہ پڑے۔ اس آگ کے نمودار ہونے کے بعد پھر ہم کاہے کو تماشا بین بنیں گے ؟۔ اس لئے بہتر بلکہ ا فضل ترین یہی ہے کہ اس سوال کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے کہ آگ کیوں لگی، بحث ومباحثے کے لئے نہیں ، تقریر بازی کے لئے نہیں ، چندہ پیٹیاں بھر نے کے لئے نہیں ، انجمن سازی کے لئے نہیں،  اکیڈمک ڈسکورس کی کتابیں اور رپورٹوں سے لا ئبرئریون میں سجانے کے لئے نہیں بلکہ ایک جذبہ ٔ دل اور ایثار کے چھڑکاؤ سے اس آگ کو صرف بجھانے کے لئے تاکہ انسانیت فساد کی آگ سے بچائی جا سکے۔ ایک انسان جب صبح گھر سے کام دھندے، ملازمت، یا کسی اور غرض کے نکلتا ہے تو اس گھر سے نکلتے وقت اسے معلوم ہونا چاہیے کہ گھر کے تئیں میری ذمہ داریاں کیا کیا ہیں؟ وہ ساری ذمہ داریاں ادا کر کے اگر گھر سے نکل پڑے تو اس گھر میں فساد برپانہیں بلکہ اس گھر کے اندرون کے ساتھ ساتھ بیرون بھی باقی علاقہ میں رہنے والے لوگوں کے لیے خوشبو پھیلانے کا باعث بن سکے گااور اگر اپنی ذمہ داریاں گھر کے مالک ہی بھول گیا تو اس گھر میں آگ نہیں تو اور کیا ہوگا؟ اسی طرح جو گھر آٹھوں پہر گھر کی ملکہ کا دارلسلطنت ہے اسے بھی اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ خاوند کے گھر سے نکلتے ہی میری ذمہ داریاں کیا کیا ہیں؟ میں اپنے گھر کی ہی نہیں بلکہ اس میں پل رہے بچوں کی بھی نگہداروذمہ دار ہوں ۔ اپنی عزت وعصمت کی حفاظت کرنا، اپنے خاوند کے مال وجائیداد کا خیال رکھنا، یہ سب میری اپنی کلیدی ذمہ داریاں ہیں۔ جب بیوی ایسے انداز سے گھر کی ملکہ بنتی ہے تو وہ گھر آگ کی شکار نہیں ہو سکتا۔ برابر اسی طرح جب گھر سے بیٹا یا بیٹی سکول کالج کے لیے نکلے تو اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں، وہاں جانے کا مدعا ومقصد کیا ہے، وہاں کس وقت تک رہنا ہے اور وہاں سے کب واپس گھر کی جانب لوٹ کر آنا ہے۔ انہیں جواب دہی اور احساس ِ ذمہ داری ہونی چاہیے۔ انہیں اپنی ذمہ داری کا خیال رہنا چاہیے، انہیں اس بات کا شوق وجذبہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو ہی علم کے نور سے منور کرنے کے لیے نہیں بلکہ گھر ،اپنے آس پاس کے ماحول کو اخلاقیات کی خوشبوؤں سے معطر کرنے کے لیے بھی اپنے گھر سے نکلے ہیں۔ ہماری زندگی ایسی گزرنی چاہیے کہ ہمیں دیکھ کر باقی پڑوسی و دیگر ہماری طرف دیکھ کر محسوس کریں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اپنی اپنی صحیح طور ذمہ داریاں ادا کرنے سے ہی بدامنی مٹ سکتی ہے، امن برپا ہو سکتا ہے۔خالی نعرے اور خیالی باتیں، خشک وعظ ونصیحت، خالی پریس بیانات وغیرہ سے نہ تو معاشرہ فساد سے بچ سکتا ہے اور نہ ہی بدامنی کو امن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔  
email: ibrjamal38@gmail.com