Sunday 23 February 2014

آہ ! یہ زندگی … بندگی


٭ابراہیم جمال بٹ .......................
’’دن و رات ‘‘وقت کے لحاظ سے 24 گھنٹوں کا نام ہے۔ ان24گھنٹوں پر اگر گہرائی و گیرائی سے غور کیا جائے تو دارین کی خوش حالی کے لیے کافی ہے۔ ان24 گھنٹوں میں ایک ایک لمحہ بلکہ ایک ایک سیکنڈ میں انسان کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔ چناں چہ اگر انسان صحیح جذبہ سے لیس ہو کر، بلا کسی تعصب کے، اپنی زندگی کے ان 24 لمحات یا گھنٹوں کے لیے ایک مسلسل اور قابلِ عمل پروگرام ترتیب دے کر اس پر عمل کرے تو انسان کے ساتھ ساتھ پوری عالم ِانسانیت کا نام روشن ہو جائے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ انسان کو اپنے ان24گھنٹوں پر غور و فکر کرکے پروگرام ترتیب دینے کی چنداں بھی فرصت نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے آج حضرت انسان ، انسانیت سے ہی نہیں بلکہ ہر حیثیت سے دور نکل چکا ہے۔  یہ بات واضح ہے کہ جس فرد اور قوم کو اپنی فکر نہیں وہ دوسروں کا خیر خواہ ہو ہی نہیں سکتا۔ جو اپنی کامیابی اور خیروعافیت کا طلب گار نہ ہو، وہ دوسروں کے لیے خیر خواہ ثابت نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی کو اپنی قدر نہ ہو تو وہ دوسروں کی قدر حقیقی معنوں میں نہیں کرسکتا۔ اس لحاظ سے انسان کو اگر خود کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے خیر خواہ ، غم خوار اور قابل بننا ہے تو اسے دن و رات کے ان 24لمحات پر صحیح معنوں میں غوروفکر کر کے اپنی زندگی میں ایک ایسا انقلابی پروگرام تلاش کرنا چاہیے جس پر چلنے سے اس کی زندگی ہی کامیاب زندگی نہ کہلائے بلکہ وہ دوسروں کے لیے بھی نمونہ بن جائے۔ بحیثیت مسلم اگر ہم صحیح ڈھنگ اور ترتیب وار ان لمحات پر غور کریں تو ہمارے لیے سچ مچ یہ 24گھنٹے کافی ہیں۔  ان 24لمحات کی شروعات ہم صبح نیند کی بیداری سے کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ ایک مسلم کی حیثیت سے کیا کبھی ہم نے نیند سے بیدار ہو کر اس بات پر غور کیا کہ یہ نیند کیا ہے…؟ نیند ہماری آنکھوں پر کب سوار ہوکر دنیا سے بے خبر کر گئی…؟ ہم اس نیند میں کہاں کہاںتھے…؟ کس نے ہمیں اس نیند سے جگا کر دن کی شروعات کے لیے اُٹھنے کا جذبہ اور تحریک پیدا کی…؟ ان جیسے سوالات پر اگر ہم بحیثیت مسلم غور کریں تو ہماری صحیح راہ پانا طے ہے۔ یہ سوالات ہماری خود کی زندگی کے بارے میں ہیں اور ان کا جواب ہمیں خود تلاش کر کے اپنی کامیابی اور کامرانی کی راہ طے کرنی ہے۔ انسان چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین، بوڑھے ہوں یا جوان، جب نیند سے بیدار ہو جاتے ہیں تو اکثر ان کا کہنا ہے کہ ہم نے رات کے اس وقفۂ نیند میں بہت کچھ دیکھا جس میں کئی باتیں یاد رہتی ہیں اور کچھ باتیں یاد نہیں رہتی۔ کیا یاد رہنا چاہیے اور کیا نہیں…؟ یہ انسان پر منحصر نہیں ہے۔ انسان سویا کب…؟کچھ خبر نہیں اور اب نہ چاہتے ہوئے بھی کیوں اور کیسے اچانک بیدار ہوا …؟ اس سب پر انسان کی کچھ نہیںچلتی۔ آخر یہ سب کچھ انسان کے ساتھ کیسے ہو رہا ہے…؟ کیوں ہو رہا…؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ کون کرا رہا ہے…؟ کیا کبھی ہم نے ان باتوں پر غور کیا …؟  دن و رات کے ان24گھنٹوں میں یہ پہلی ساعت جب ہم نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو بحیثیت مسلمان ہم پر فرض کی ادائیگی کا وقت شروع ہو جا تا ہے یعنی ہاتھ منہ دھو کر (باوضو) سب سے پہلے مسجد میں جا کر صبح کی نماز (فجر) ادا کرنی پڑتی ہے۔ صبح کے اس پہلے کام ـــــــ’’نماز ‘‘کی شروعات پر ہی اگر غور کیا جائے تو انسان اپنے آپ سے باخبر ہو جائے، انسان کو اپنی حیثیت کا حقیقی علم ہو جائے۔ 24گھنٹوں میں سے اس ایک شروعاتی گھنٹے میں انسان غور وفکر سے وہ کچھ پا سکتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہیں ہو گا۔ صبح کی نماز سے شروعات کا مطلب اپنی صحیح حیثیت سے باخبر ہونا ہے۔ پہلے ہی لمحے میں انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ادنیٰ اور کمزور انسان ہے جسے اپنی زندگی پر کوئی کنٹرول نہیں۔وہ نہیں جانتا ہے کہ وہ کب تک اس دنیا میں ہے، اس پر خود کا نہیں بلکہ لا ثانی و لا فانی ذات کا کنٹرول ہے، جس کے آگے جھکنا اس کی فطرت کی رگ رگ میں ہے، اور فطرت کے آگے غیر فطری عمل کرنا اپنی ہی زندگی کے حقیقی خاتمے کا نام ہے۔ اسی لیے ایک مسلم ہونے کے ناطے صبح بیداری کے بعد پہلا کام حقیقی مالک ربِ ذوالجلال کے دربار میں سلامی (نماز) کے لیے حاضر ہونا انسان کے لیے پہلا اور اہم سبق ہے، کہ تو بندہ اور غلام ہے، تیرا کام مالک حقیقی کی بندگی اور عبادت ہے، اس شروعات سے انسانی زندگی کی ابتدا ہو تی ہے اور جس دن کی ابتدامالک ِحقیقی کے حضور سلامی (نماز)سے ہو اس دن کا کیا کہنا…؟  بحیثیت مسلم ہمارے لیے صبح کی نیند سے بیدار ہو کر خدا کے حضور سلامی (نماز) پیش کرنا اس بات کا اعلان ہے کہ ہم کسی کے بندے اور غلام ہیں۔ چناں چہ اس اعلان کی وجہ سے بندے کی شروعات بندگی سے ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی شروعات بندگی کے بجائے اپنے نفس کے بنائے ہوئے طریقوں سے کرے تو یہ قانون الٰہی کے خلاف ہے اور یہ واضح ہے کہ جو اپنے مالک کا وفادار نہ ہو، جو اپنے سب سے بڑے مالک کی فرماں برداری نہ کرے، اس کی دن بھرکی دوڑ دھوپ میں مالک کی رضا مندی و خوشی کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا ۔ 24 گھنٹوں کے ان لمحوں میں پہلا سبق خدا کے حضور اپنی اصلیت تسلیم کر کے اس کے آگے جھکنے کا درس دیتا ہے۔ اب یہ ہم پر انحصار ہے کہ ہم قانونِ الٰہی کو مان کر اس کے آگے زندگی کی شروعات اس کی بندگی سے کریں یا اپنی مان کر غیر الٰہی طریقے اختیار کر کے خدا کے غضب کا شکار ہو جائیں۔ ہماری صبح بیداری کا اعلان ہماری پہچان ہے۔ مسلم ہونے کی حیثیت سے ہم بندے ہیں اور ہماری شروعات بندگی سے ہی ہونی چاہیے۔ مسلم ہوتے ہوئے اب کوئی بندگی کا طریقہ چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اختیار کر لے ،تو اسے اپنے مسلمان ہونے پر غور کرنا چاہیے۔اس سلسلے میں قابل تحریک بات مفکر اسلام سید مودودیؒ نے فرمائی ہے کہ:  ’’اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ عبادت کا مطلب جانناآپ کے لیے کس قدر ضروری ہے۔اگر آپ اس کے صحیح معنی نہیں جانتے تو اس مقصد ہی کو پورا نہیں کرسکیں گے جس کے لیے آپ کو پیدا کیا گیا ہے، اور جو چیز اپنے مقصد کو پورا نہیں کرتی وہ نا کام ہوتی ہے۔ڈاکٹر اگر مریض کو اچھا نہ کرسکے توکہتے ہیں کہ وہ علاج میں ناکام ہوا، کسان اگر فصل نہ پیدا کرسکے توکہتے ہیں وہ زراعت میں نا کام ہوا، اسی طرح اگر آپ اپنی زندگی کے اصل مقصد یعنی’’عبادت‘‘ کو پورا نہیں کرسکتے تو کہنا چاہیے کہ آپ کی ساری زندگی ہی نا کامیاب ہوگئی۔ اس لیے آپ عبادت کا مطلب ضرور سمجھ لیں کیوں کہ اسی پر آپ کی زندگی کے کامیاب یا نا کامیاب ہونے کا انحصار ہے۔اس عبادت کے معنی ہیں بندگی اور غلامی۔ جو شخص کسی کا بندہ ہو، اگر وہ اس کی خدمت میں بندہ بن کر رہے اور اس کے ساتھ اس طرح پیش آئے جس طرح آقا کے ساتھ پیش آنا چاہیے تو یہ بندگی اور عبادت ہے۔اس کے برعکس جو شخص کسی کا بندہ ہو اور آقا سے تنخواہ پوری پوری وصول کرتا ہو،مگر آقا کے حضور میں بندوں کا سا کام نہ کرے تو اسے نافرمانی اور سرکشی کہا جاتا ہے۔بندے کا پہلا کام یہ ہے کہ آقا ہی کو اپنا آقا سمجھے اور یہ خیال کرے کہ جو میرا مالک ہے، جو مجھے رزق دیتا ہے، جو میری حفاظت اور نگرانی کرتا ہے، اسی کی وفاداری مجھ پر فرض ہے،اس کے سوا اور کوئی اس کا مستحق نہیں کہ میں اس کی وفاداری کروں۔بندے کا دوسرا کام یہ ہے کہ ہر وقت آقا کی اطاعت کرے،اس کے حکم کوبجالائے،کبھی اس کی خدمت سے منہ نہ موڑے اور آقا کی مرضی کے خلاف نہ خود اپنے دل سے کوئی بات کرے نہ کسی دوسرے شخص کی بات مانے۔غلام ہر وقت ہر حال میں غلام ہے۔ اسے یہ کہنے کا حق ہی نہیں کہ آقا کی فلاں بات مانوں گا اور فلاں بات نہیں مانوں گایا اتنی دیر کے لیے میں آقا کا غلام ہوں اور باقی وقت میں اس کی غلامی سے آزاد ہوں۔بندے کا تیسرا کام یہ ہے کہ آقا کا ادب اور اس کی تعظیم کرے،جو طریقۂ ادب اور تعظیم کرنے کا آقا نے مقرر کیا ہو اس کی پیروی کرے،جو وقت ’’سلامی‘‘ کے لیے حاضر ہونے کا آقا نے مقر ر کیا ہو، اس وقت ضرور حاضر ہوا ور اس بات کا ثبوت دے کہ میں اس کی وفاداری میں ثابت قدم ہوں‘‘۔  اسی تناظر میں اگر ہم اپنی زندگی کے ان24لمحات پر گہرائی و گیرائی سے غور کریں تو ہماری زندگی کا مقصد بھی واضح ہو جائے گا اور اس دنیا کی حقیقت کا بھی علم ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے ہمارے اسلاف راتوں میں شب بیداری کر کے ایک طرف خدا کی یاد میں مشغول رہتے تھے اور دوسری طرف اس وسیع کائنات پر، اپنی زندگی پر غور و فکر کرتے رہتے تھے۔ بلکہ ایک بزرگ کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ شام کے وقت نیند کا غلبہ محسوس کرتے تو نیند سے پہلے باوضو ہو کر اس طرح لیٹا کرتے تھے کہ دوسروں کو محسوس ہو کہ وہ انتقال کر گیا ہے۔ تھوڑی دیر اس حالت میں رہ کر وہ بزرگ اپنے آس پاس خاموشی کے ان لمحات میں اپنی موت کے بارے میں غور وفکر کرتا تھا کہ جب میری موت ہو گی تو برابر اسی طرح میری نعش کمرے میں پڑی ہو گی، لوگ آئیں گے، مجھے دیکھ دیکھ کر چلے جائیں گے، لیکن میں ان کی طرف نہ دیکھ سکوں گا اور نہ ہی ان کی کسی بات کا جواب دے پائوں گا۔ میرے غسل کا انتظام ہو گا، غسل دے کر میری میت کو جنازہ پڑھایا جائے گا، جنازے کے بعد میری نعش سپرد خاک کی جائے گی، قبرستان تک میرے قریبی رشتہ دار بھی آئیں گے، لیکن دفن کرنے کے بعد سب مجھے چھوڑ کر اپنے اپنے گھر چلے جائیں گے۔ پھر کیا ہو گا …اس بارے میں کسی کو فکر نہیں ہو گی، سب کچھ مجھے سہنا ہو گا۔ یہ سب کچھ کر کے اس بزرگ کے متعلق آتا ہے کہ وہ جب اس کے بعد اُٹھ کھڑا ہو جاتا تھے تو جیسے ان کی آنکھوں میں آنسوئوں کا سمندر بھرا ہوا ہوتا تھا اور اس طرح وہ اپنی زندگی میں ہی اپنا احتساب کر کے اس دوسری زندگی کے بارے میں خدا کی فرماں برادری کا عہد کرتا تھا۔دیکھا جائے تو قرآن ِمجیدبھی اس بات کی بار بار یاد دہانی کراتا رہتا ہے کہ ’’افلا تذکرون، افلا تدبرون، افلا تتفکرون۔  24گھنٹوں کے اس دن و رات میں ہمارے لیے کیا اور کیسے کیسے راز پوشیدہ ہیں ان کے بارے میں انسان تب ہی جان سکتا ہے جب وہ ان لمحات پر صحیح طور سے غور کرے۔ ٭٭٭٭٭٭


Monday 17 February 2014

آہ…! وہ خلافت کا نظام


٭ابراہیم جمال بٹ
....................

قائد تحریک ِاسلامی، مایہ ناز سپوت ،بزرگ رہنما ،جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد جس کی ولولہ انگیز تقاریر سے  شاید ہی کوئی سننے والا متاثر نہ ہوا ہو۔ ایک مرتبہ پاکستان کے ایک جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے جب سامعین حضرات نے کھڑے ہو کر ولولہ انگیز شخصیت کا اثر لئے ہوئے انقلابی نعرے بلند کئے۔ ان نعروں میں ایک طرف اللہ کی تکبیر (نعرۂ تکبیر) بلند ہو رہے تھے اور دوسری جانب ’’لاشرقیہ ولا غربیہ…اسلامیہ اسلامیہ‘‘ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ اسی دوران سامعین میں ایک نوجوان نے جب پاکستان کا مطلب کیا؟ کا نعرہ بلند کیا تو ہر جانب سے ایک ہی صدا سنائی دی : ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ پھر ایک اور نعرہ بلند کیا گیا : ’’یہاں کیا چلے گا؟… نظام مصطفیﷺ‘‘تو یکا یک قاضی حسین مرحوم جس کے ہونٹ اس سے قبل نعروں کا جواب میں ہل رہے تھے، نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھا کر سامعین کی طرف ایسے اشارہ کیا کہ محسوس ہوا کہ لوگوں سے چپ رہنے کی کہہ رہے ہیں۔ چند ہی لمحوں بعد جب انقلابی نعروں کے درمیان لوگوں نے یکایک خاموشی اختیار کر لی ،تو قاضی مرحوم نے ایک ایسی بات کہہ ڈالی کہ سب لوگ جن میں ڈائس کے آس پاس موجود تحریکی زعما ء اور سامعین سن کردھنگ رہ گئے۔ قاضی حسین مرحوم نے کہا: ’’میرے دوستو! میرے عزیز نوجوانو! مجھے ایک بات کا جواب دو… جب ہی میں سمجھوں گا کہ آپ دل ودماغ کی پوری یکسوئی سے نعرے دے رہے ہیں۔ مجھے یہ بتائو کہ اگر ہمارے ملک عزیز ’’پاکستان‘‘ میں آج ابھی اس وقت اعلان ہو جائے کہ اس سرزمین پر شریعت نافذ کرو ، تو آپ میں سے کون ہے جو اس شرعی نظام ’’خلافت‘‘ کے سسٹم کو کو نافذ کرنے کے لیے ایک ’’پولیس مین ‘‘کا کردار ادا کرے؟ چنانچہ یہ سنتے ہی سب لوگوں پر خاموشی طاری ہوگئی، کسی کے منہ سے کوئی جواب نہیں، کوئی زبان نہیں ہلی، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سب سامعین و ڈائس پر موجود زعماء گھونگے اور بہرے ہو گئے ہیں۔اس حالت کا مشاہدہ کر کے قاضی حسین مرحوم نے ایک بار پھر اپنی زبان کھولی اور کہا : ’’جب تم میں سے اس نظام کے لیے کوئی ’’پولیس والا‘‘ بننے کے لیے ابھی تیار نہیں ،تو کس زبان سے یہ نعرے ’’یہاں کیا چلے گا…نظامِ مصطفی‘‘ اور ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ‘‘ دے رہے ہو۔اس نظام کے لیے تم میں سے کوئی ’’پولیس والا‘‘ بننے کو تیار نہیں تو اسلامی نظام کا تمہارے ہاتھوں کیا حشر ہو گا۔ اس سرزمین پر اسلام کا نفاذ ہو گا لیکن اس کے لیے ہمیں تیاری کرنی چاہئے۔ اس کا ایک ادنی سپاہی بننے کے لیے اپنے اندر امانت داری کے ساتھ ساتھ بہادری کا وصف پیدا کرنا چاہئے۔ ‘‘چنانچہ اگر حقیقت کی آنکھوں سے دیکھا جائے، دل اور دماغ کو صحیح استعمال کر کے سوچا جائے تو اس بات میں صد فیصد دم ہے کہ ہم کس نظام کی بات کر رہے ہیں۔نعروں کی گونج سے نہ آج تک کوئی انقلاب آیا ہے اور نہ ہی آنے کی آئندہ توقع رکھنی چاہئے۔ بلکہ گرم گر م جذبات کے ساتھ جب تک صحیح تیاری نہ ہو تب تک اسلامی نظام کا نفاذ اصل صورت میں نہیں ہو سکتا ۔ اسلامی نظام کوئی ایسا نظریہ نہیں جو انسانوں کے اذہان کی اختراع ہے بلکہ یہ نظام خدا برتر واعلیٰ کا مکمل اور لاثانی نظام ہے۔ اس نظام کو دنیا میں نافذ کرنے کے پیغمبر آخر الزماں محمد مصطفی ﷺ نے ایک طرف لوگوں کے اذہان تیار کئے اور دوسری طرف اس کے نفاذ کی کوشش میں بیش بہا قربانیںپیش کیں۔ گویا افراد سازی کے ساتھ ساتھ اس کے قیام کے لیے ایک ایسی جماعت تیار کی جس میں ہر طرح کے انسان پائے جاتے تھے۔ خلیفۃ المسلمین کی ذمہ داری کے لیے ایک طرف ابوبکر وعمر تو دوسری جانب عثمان وعلی رضی اللہ عنہم اجمعین کو پروان چڑھایا۔سپہ سالاری کے لیے کس کس کا نام لیا جائے، ہر ایک صحابی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہر دم تیار رہتا تھا۔ نظام اسلامی کے جن شعبوں کے لیے بھی کوئی ضرورت پڑتی تو کوئی مشکل نہیں تھا، ایک سے بڑھ کر ایک فرد تیار تھا۔ غرض یہ کہ نظامِ اسلامی افراد سازی چاہتا ہے۔ یہ نظام قربانیاں چاہتا ہے۔ یہ نظام مستقل مزاجی کا طلب گار ہے، یہ نظام محبت، ایمان داری، بہادری، جذبہ جہاد، اور مالی، جانی اور وقتی قربانی چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ نہ ہو تو ہمارے نویہ نعرے جو اکثر وبیشتر سنائی دیتے ہیں کھوکھلے ثابت ہوں گے۔ کیوں کہ ان نعروں کی جو اصل حقیقت ہے اس سے ہم کوسوں دور ہیں۔ تو ضرورت ہے اس بات پر سوچنے کی، اس جذبہ جو کہ صحیح جذبہ ہے کہ پورا عالم اسلام کے سائے تلے آجائے کے لیے ہر حیثیت سے تیاری مطلوب ہے۔ جذبہ صحیح ہو مگر تیاری نہ ہو تووہ کچھ نہیں پایا جا سکتا جو خیال ہو، بلکہ جذبہ کے ساتھ ساتھ جب تک امت مسلمہ اٹھ کر اس کے لیے ذہنی، فکری اور نظریاتی طور سے کھڑی نہ ہو جائے تب تک یہ خیال است محال است کے مصداق ہے۔ 
٭٭٭٭٭