Monday 23 June 2014

قلت وکثرت ایک لاحاصل بحث

٭ابراہیم جمال بٹ
....................


تاریخ اس بات پرگواہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی انقلاب آیا اس کااکثریت کے بجائے اقلیت نے ہی ساتھ دیاہے۔ ہر دور میں کسی نہ کسی سطح کے انقلابات آئے ، جن میں کئی عوامی انقلابات تھے اور کئی سیاسی سطح کے انقلابات، کہیں اصلاحی تحریکوں نے اصلاحی انقلاب لائے تو کہیں سماجی، سیاسی، معاشی اور اسی طرح دیگر انقلابات لائے گئے، غرض جس قسم کا بھی انقلاب آیا، اس کے لانے والے اکثریت میں نہیں اقلیت میں رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اکثر مذہبی انقلابات بھی اقلیت میں شمار لوگوں نے لائے بلکہ وہ بھی ایک قلیل تعداد کی وجہ سے ہے لائے جا چکے ہیں۔ چنانچہ اس تناظر میں آج کے حالات پر غور کیا جائے تو دنیا میں فی الوقت کئی ایسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ آئندہ اس دنیا میں ایک ایسے انقلاب کی خاموش آواز سنائی دے رہی ہے جس سے پوری دنیا میں ایک تبدیلی رونما ہو گی۔ اس قدر تبدیلی کہ دنیا میں بسنے والے لوگ اس انقلاب کے بیچوں بیچ اپنے آپ کو پُر سکون محسوس کریں گے۔ اس کی صدائیں آج پوری دنیا سے آرہی ہیں، یہ انقلاب آئے گا لیکن اس انقلاب کو لانے والا نہ تو کوئی خاص قوم ہو گی اور نہ ہی کوئی خاص ذات، بلکہ اس انقلاب کولانے والا دنیا کی ایک قلیل تعداد ہو گی، جس سے تاریخ کے اوراق پر ایک بار پھر سنت الٰہی کا وہ قاعدہ سامنے آئے گا کہ ایک چھوٹی سے جماعت پوری قوم، انسانیت، اور دنیا میں بسنے والے لوگوں کے لیے باعث ِفخر ،امن وسکون کا موجب قرار پائے گا۔ یہ چھوٹی موٹی جماعت جس کی افرادی قوت اگرچہ مخصوص اور قلیل تعداد ہو گی، تاہم ان میں ایسا ولولہ اور جزبہ ہو گا جو قلت کے باوجود اکثریت پر غالب ہو کر انقلاب کا باعث بن جائیں گے۔ سابقہ تواریخ کی ورق گردانی بھی کریں تو یہی کچھ سمجھ آتا ہے کہ انقلاب کثرت (Quantity) نہیں بلکہ (Quality)چاہتی ہے اور جب بھی کوئی انقلاب آیا تو اسی اصول پر آیا۔ غرض آج جس انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں وہ تو دیر سویر آکر ہی رہے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس میں ہمارا کس قدر حصہ ہو گا۔ لہٰذا اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے انقلابی صفات پیدا کر کے، اپنے اندر ولولہ وجذبہ ٔانقلاب پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ ولولہ اور جذبۂ انقلاب کوئی ایسی چیز نہیں کہ انسان چاہے تو حاصل کر سکتا ہے،بلکہ اس جذبہ اور ولولہ کے لیے ایک سہارے کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ سہارا ہے خدائے ذوالجلال۔ خدا کا فضل ۔ انسان کی کوشش اور مسلسل استقامت کے ساتھ اللہ کی تائید و نصرت کا خیال کرتے ہوئے انقلاب کی خواہش رکھنا ہی انقلاب برپا ہونے کی دلیل ہے۔ آج جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں وہاں بہت سارے لوگ جو اپنے آپ کو ’’داعیٔ انقلاب‘‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ انقلاب ایک ایسی شئے ہے کہ ایک بڑی تعداد کو  جمع کر کے انقلاب لایا جا سکتا ہے، لیکن ان کی یہ سوچ تب تک ’’خیالی سوچ ‘‘ہی کہلائے گی جب تک نہ ان کے اندر اس بات پر ایمان مستحکم ہو جائے کہ’’ انقلاب میں قلیل و کثیر کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ قلیل ہی اکثر و بیشتر کثرت پر غالب ہو کر اس کے باعث بن چکے ہیں‘‘ حق اور ناحق کا فیصلہ کرنا ہو تو یہ ضروری نہیں کہ اکثریت جس طرف ہو، وہی حق اور قلت جس جانب ہو گی وہی ناحق کہلائیں گے بلکہ تاریخ ِاسلامیہ میں یہ رقم طراز ہے کہ میدان اُحدمیں جب جیت مسلمانوں کی ہو رہی تھی تو صحیح اور غلط میں تمیز کرنا خدائے ذوالجلال کا اصل منشا ء تھا، قلت وکثرت کی عمومی سوچ پر ضرب لگانی مقصود تھی، کہ جس مختصر سی جماعت کو جو غالباً چالیس صحابیوں سے زیادہ نہ تھے کو ایک درّے پر رکھ دیا گیا، جنہیں حکم دیا گیا تھا کہ جو کچھ بھی جنگ کا فیصلہ ہو ، اس درّے سے نہ ہٹنا، اورجب مسلمانوں نے کفار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور وہ پیٹھ پیچھے بھاگتے نظر آئے ، تو اس درّے پر یہ جانثار صحابی جنہیں اللہ کے آخری ومکمل پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺنے اس درے سے کسی بھی حالت میں نہ ہٹنے کا حکم دیا تھا جب انہی میں سے ایک بڑی تعداد (غالباً 40میں سے30) نے اس درّے سے ہٹتے ہوئے مالِ غنیمت وغیرہ جمع کرنا شروع کیا تو جنگ کی دوسری ہی حالت سامنے آئی۔ جس درّے پر چالیس مسلمانوں کا پہرا تھا اس پر اب چند گنے چنے مسلمانوں ہی رہے… جیت کے اس لمحہ میں جنگ کے دوران ایسا پلٹ وار ہوا کہ بے شمار مسلمان شہید ہو گئے… لیکن اس قلیل اور کثیر کے فیصلے پر ایک ضرب لگانی تھی سو اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیغمبرِ اسلامﷺ کے ذریعے سے مسلمانوں تک یہ پیغام پہنچا دیا کہ جو قلیل تعداد ہونے کے باوجود، جیت کا سماں دیکھتے ہوئے بھی درّے پر ہی برابر کھڑے رہے، اگرچہ ان کی تعداد میں اب تین حصے کم ہو گئے تھے، وہی اس وقت صحیح تھے بجائے کثیر تعداد کے۔ غرض اس دنیا میں جب بھی کوئی انقلاب آیا تو اس انقلاب میں قلیل وکثیر بحث ایک لاحاصل عمل رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی ہوئی ہے کہ انقلاب کثرت تعداد نہیں بلکہ خصوصیات کے حامل لوگوں کو دیکھتی ہے۔ آج بھی اگر ہم دیکھیں تو کئی لوگ اسی زعم میں مبتلا ہیں کہ ایک بڑی تعداد جمع کی جائے تاکہ ایک انقلاب لایا جائے لیکن ان کے سامنے اسلامی تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں کہ انقلاب ہمیشہ انقلابی لوگوں نے لائے ہیں اور وہ لوگ اکثر وبیشتر قلیل ہی ہوتے آرہے ہیں۔ چنانچہ ان حالات میں عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو یہی کچھ سامنے آرہا ہے کہ جہاں بھی کوئی اصل تبدیلی آئی اس کے پیچھے مخصوص اور محدود صالح عنصر کارفرما تھا ۔ آج دنیا کے جس کونے میں بھی دیکھیں تو بظاہر بے شمار تبدیلیوں کے اشارے مل رہے ہیں لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ جن سے تبدیلیوں کا اشارہ مل رہا ہے ان کا بھی یہی ذہن بن چکا ہے کہ جب تک نہ افرادی قوت میں اضافہ ہو جائے کوئی مضبوط اور مستحکم انقلاب نہیں لایا جا سکتا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اسلامی تاریخ کا ہی مطالعہ غور سے کریں تو وہاں بھی یہی کچھ نظر آتا ہے کہ ایک طرف پوری عرب دنیا اور دوسری جانب مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد ہے، لیکن اس کے باوجود بھی اسلامی انقلاب آیا … ایسا انقلاب کہ جس نے اپنے پیچھے آج تک اپنے وہی اثرات چھوڑے ہیں کہ آج بھی اسی انقلاب کی باتیں ہی نہیں بلکہ انتظار ہو رہا ہے۔ اس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی انقلاب کی آمد آمد کی جو آج کل باتیں ہو رہی ہیں، انشاء اللہ وہ اصل صورت میں آئے گا، لیکن اس کے لیے کسی ایسے خیال میں رہنا کہ جب لوگوں کی ایک جم غفیر جمع ہو گئی تو یہ انقلاب آئے گاایک لاحاصل سوچ ہے جس کا حاصل کچھ نہیں ہے۔ 
٭٭٭٭٭

روزہ کی غا یت اولیٰ .............انقلاب کے بد ن میں اصلا ح کی روح

٭ابراہیم جمال بٹ

....................


ہر سال کی طرح امسال بھی ایک بار پھر ماہ رمضان کی مبا رک دستک سنا ئی دے رہی ہے۔ اہل ایمان اس ماہ مقدس کے انتظار میں ہمیشہ بیتاب وبے قرار رہتے ہیں۔ یہ اسی مہینے کا ثمرہ ہے کہ گناہ گار انسان نہ صرف پچھلے تمام گناہوں کو سامنے لا کر ان کو خدا کے حضور معاف کرانے کے لئے اس کی چوکھٹ پر گویا دھرنا دے کر بیٹھتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ با بر کت مہینہ ایک آئینہ ہے جو مومن اور مسلمان کے ظاہر وبا طن کی پہچان کراتا ہے کہ وہ اصلاً کیا ہے، کس حال میں ہے اور اس کی اصل کامیابی و ناکامی کن امور اور اعمال میں پنہا ں ہے۔ یہ اسے دیکھنے اور سنبھالنے کا سنہری موقع فراہم کرتا ہے کہ اس کو کہا ں کہا ں صفائی اور پاکی حا صل کر نے میں لگ جا نا ہے۔ چناں چہ حقیقتِ صیام کو سمجھنے کے لیے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی وہ مثال کافی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ:
’’سکتہ کے مریض کا آخری امتحان اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں۔ اگر آئینہ پر کچھ دُھندلاہٹ پیدا ہو تو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے، ورنہ اس کی زندگی کی آخری امید بھی منقطع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی کسی بستی کا تمہیں امتحان لینا ہو تو اسے رمضان کے مہینے میں دیکھو۔ اگر اس مہینے میں اس کے اندر کچھ تقویٰ، خوفِ خدا، کچھ نیکی کے اُبھار کا جذبہ نظر آئے تو سمجھو ابھی زندہ ہے، اور اگر اس مہینے میں نیکی کا بازار سرد ہو، فسق وفجور نمایاں ہوں، اور اسلامی حس مردہ نظر آئے تو ’’انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لو‘‘ اس کے بعد زندگی کا کوئی سانس مسلمان کے لیے مقدر نہیں ہے‘‘۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒنے فرمایا ہے    ؎
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
ماہ رمضان المبارک انسان میں تبدیلی لانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ گمراہی، بد عملی یا گناہ سرزد ہو نے کے بعد اگرایک ایما ن والے میں صحیح اسلا می ہدایا ت و تعلیمات کی طرف رحجان نہ بڑھے تو اس کا خسارے میں پڑ جانا یقینی ہے۔ ماہ مبارک کا یہی پیغام اور یہی کام ہے کہ ایسے شخص کو پھر سے تائب ہوکر ایمان اور نیک عملی کی طر ف بڑ ھنے کا حو صلہ ملے۔ چناں چہ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ:
’’جب عالم انسانیت میں اخلاق و کردار کے چشمۂ سافی سوکھنے لگتے ہیں، روحانیت دم توڑنے لگتی ہے، چمنستان قلوب میں ویرانی چھا جاتی ہے، گلستانِ خیر و خوبی کی رعنائیاں شروفساد کی ظلمتوں میں بدل جاتی ہیں اور انسانیت سسکنے لگتی ہے تو رحمتِ خدا وندی جوش میں آجاتی ہے۔ گردش لیل و نہار نیکی وتقویٰ کی بہار کا مژدہ سناتی ہے اور عالم روحانیت میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا سماں برپا ہونے لگتا ہے۔ہمہ گیر ایسا کہ اس کی آمد کا اعلان کسی خطۂ زمین پر نہیں بلکہ پورے عالم پر ہلالِ رمضان المبارک کی نمود سے ہوتا ہے۔ وسعت تغیرات کی یہ شان کہ ابتدا ہی جنت کے تمام دروازوں کے کھلنے اور دوزخ کے سارے دروازے بند کئے جانے سے ہوتی ہے۔چنانچہ احادیث میں آتا ہے: ’’جب رمضان المبارک آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔‘‘ایک اور روایت میں ہے’’اور جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور شیاطین باندھ دیئے جاتے ہیں‘‘۔ (متفق علیہ) وقت ، مقدار، کمیت اور کیفیت کے سارے پیمانے بدل دئے جاتے ہیں۔ اجر وثواب کی مقدار بڑھا کر معمول سے 70گنا بلکہ لامحدود کر دی جاتی ہے۔ اس ماہ مبارک کی ایک رات ( شب قدر)ہزار راتوں سے زیادہ افضل قرار دی جاتی ہے۔ عرشِ بریں کے حامل فرشتوں کو حکم خدا وندی ملتا ہے کہ اپنی عبادت بند کر دو اور اہل زمین کی دعائوں میں شامل ہو کر آمین کہو۔ آسمانوں کا یہ سارا انقلاب اس لئے برپا کیا جاتا ہے کہ زمین پر آباد مرکز ِعالم اور مسجود ِملائک انسان کی دنیا کو ایک اندرونی انقلاب سے دوچار کرنا مقصود ہے۔ اس طرح عالم انسانیت میں ایک ایسا انقلاب رونما ہونے لگتا ہے جس کی وسعت بے پناہ اور جس کا نفوذ بے انتہا ہو جاتی ہے‘‘۔
غرض رمضان المبارک انسان کی تبدیلی، احتساب اور جائزے کا مہینہ ہے، اور اس مہینے میں انسان اگر صحیح معنوں میں اپنا احتساب کرے تو اس کی کامیابی و کامرانی اس کے نصیب میں درج کی جاتی ہے اور اگر اس ماہ میں بھی انسان نے اپنا جائزہ و احتساب نہ لیا تو انسان کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لیے اس کا رہنا ایک طرح کا فساد بن جاتا ہے۔ احتساب و جائزہ لینے کے لیے ہمارے پاس دو مضبوط قلعے رکھے گئے ہیں جن میں رہنا اور سہنا ہماری کامیابی اور جن سے باہر نکل کر دوسرے نام نہاد ’’ جا ئے پناہ‘ ‘کی تلاش کرنا گمراہی و ضلا لت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ کی اطا عت کرو اور رسو ل کی اطاعت کرو۔‘‘
اسلام کا نظام ِحیات جس میں انسانیت کی فلاح و کامرانی مضمر ہے، وہ صرف اور صرف قرآن اور رسول خداﷺکی تعلیمات پر عمل پیرا ہو نے سے مشروط ہے۔ ماہ ِمبارک میں انسان اگر خود اپناجائزہ لے تو پیمانہ صرف یہی قرآن اور اس کی تشریح محمدﷺکی سنت قرار پائے گی۔ اس سے الگ ہو کر کسی اور جگہ فلاح و کامرانی تلاش کرنا فضول اور لاحاصل عمل ہے۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس ماہ مبارک میں قرآن کا نزول کیا۔اللہ تعالیٰ کا ار شاد گرامی ہے:
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت (فلاح و کامرانی) ہے اور ایسی واضح تعلیمات جو راہ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘۔(البقرہ)
گویا اگر اس ماہ مبارک کو ماہ قرآن کہیں تو صد فیصد درست ہو گا۔ یہ رب العالمین کا بے انتہا کرم و احسان ہے کہ وہ ہر سال ماہ ِرمضان کے بہا نے انسانیت پر اتمامِ نعمت، یعنی نزول قرآن سے شعور و آگاہی کا موقع بہم پہنچاتا ہے۔ ماہ رمضان دراصل علامتی یاد ہا نی ہے نزول قرآن کے انقلا ب واصلا ح کی ندائے خدا وندی کی۔ یہ صرف یادہا نی ہی نہیں بلکہ انقلاب کا پیام بھی ہے اور ساتھ ہی اس مہینے کو ان تمام صفات و خصوصیات سے نوازا گیا جو انقلاب اور صلح کل کے لئے معاون وسازگار ہوتی ہیں۔ اس ماہ مبارک کو اعمال خیر و صلاح کی فصل و بہار والی تاثیر عطا ہوتی ہے۔
اس زاویۂ نگاہ سے ماہ رمضان المبارک کو ماہ انقلاب کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، کیوں کہ انسانی بستوں میں یہی ’’ماہِ انقلاب‘‘ نیک اعمال کا باعث بن جاتا ہے۔ زمین کا چپہ چپہ قانون خدا وندی کے حکم کے سامنے سر نگو ں ہو نے کا اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہر طرف تکبیرات، تسبیحات خدا وندی اور اس کے دربار میں عاجزانہ مناجات وردِ زبا ن ہو جا تے ہیں۔ اس ماہ مبارک میں منزل مقصود کی نشان دہی بھی ہے اور راہ ِہدایت سے آگاہی بھی، راہ روی کی تربیت بھی ہے اور رہبری کا ساماں بھی، سفر کی سہولتیں بھی اور ہر منزل آ شنا ئی پر انعام بھی۔ اس ماہ مبارک میں رحمتوں کی بارش بھی ہوتی ہے ، مغفرت کی بخشش بھی اور نارِ جہنم سے نجات بھی۔ سابقہ اعمال وافعال کا جائزہ لینے پر جنت الفردوس کی نعمتوں اور رفعتوں کی لذت آشنائی بھی ہوتی ہے۔ راہِ حق کی منزل کے حصول کے لئے اسے صراط مستقیم، یعنی دین اسلام کی مکمل رہنمائی میسر ہوتی ہے۔ تقویٰ اور احساسِ ذمہ داری کا زادِ راہ اس کے ہا تھ میں تھما دیا جاتا ہے۔ پاک و مطہراجتماعی ماحول کے ذریعے راہ کی مشکلات کو آسان کر دیا جاتا ہے اور اس راہ پر چلنے کے لیے بے حساب اجر وثواب کی امید بھی دلا ئی جاتی ہے۔
یہ سارا کچھ اس ماہ مبارک میں انسان کو اس لئے عطا کیا جاتا ہے تاکہ ایک صاحب ایمان کا مقدر سنور جائے، اسے فلاح وکامیابی نصیب ہوجائے اور وہ ابدی زندگی کی خو ش کن فضا ؤ ںسے ہم کنار ہو جائے۔ اسی ماہ قرآن کا نزول ہوا جس کا صاف اور واضح مطلب یہی ہے کہ یہ مہینہ انسان کی واحدراہ ہدایت کا مہینہ ہے کیوں کہ قرآن تمام عالم انسانیت کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے۔
قرآن پاک کے نزول کا یہ مہینہ ہمیشہ سے انسان کو پکارتا رہا ہے کہ:
’’ آئو اس قرآن کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑو ‘‘۔ ’’بے شک ہم نے تمہاری طرف کتاب (قرآن) نازل فرمائی، جس میں (اے انسان) تمہارا ہی ذکر موجود ہے‘‘۔ اس کتاب کے ذریعے اللہ تعالیٰ کچھ گروہوں کو بلند و سرفراز کرے گا اور کچھ دوسرے گروہوں کو پستی میں جھونک دے گا‘‘۔
غرض یہ ماہ ِمبارک جس میں قرآن کا نزول ہوا، جو انسان کی فلاح وکامرانی کے لیے بھیجا گیا، جس میں بحیثیت انسان ، انسان کا ہی ذکر ہے اور جس پر چل کر لوگ بلند و بالا مقام کے حقدار قرار دئے جاتے ہیں اور جسے ٹھکرا کر انسان تباہی و بربادی کا حقدار قرار پاتا ہے۔ انسان اگر خود کا جائزہ لے تو اسے معلوم ہو گا کہ قرآن کریم اس کے دل کی آواز ہے ، یہ اسے اس کا آئینہ دکھاتا ہے، اسے واضح طور بتاتا ہے کہ تو کیا ہے، کیا تھا اور مو جودہ عالم آ ب وگل اورآ نے والی دنیا میںکیا ہو گا؟ انسانی دنیا کی کا میابی کے لئے مخصوص یہ صاف وشفاف دستور العمل دنیا میں اگر کہیں موجود ہے تو وہ صرف اور صرف قرآن کی شکل میں موجود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس نے بھی اس قرآن کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا اس کی دنیا اس قدر سنور گئی کہ صدیاں گزرنے کے باوجود ادب واکرام کے ساتھ ساتھ ان کی تقلید کی جا تی ہے۔ نہ صرف ان کی یہ عارضی دنیا سنور گئی بلکہ آخرت کی دائمی خوشخبری بھی ان کی مقدر بن گئی۔ قرآ ن مجید کی معجزہ نما ئی سے یہ ہوا کہ کل تک جو گمراہ تھے وہ تمام عالم انسانیت کے لئے روشن چراغ کے مانند قرار د ئے گئے اور ان چراغوں کی روشنی کے سہارے جس نے اپنی زندگی سنوارنی کی کوشش کی تو اسے ہدایت یافتہ مانا گیا۔
ماہ مبارک کی شان یہ ہے کہ اس میں عالم انسانیت کے لیے درسِ ہدایت کا پیغام مخفی ہے۔ یہ ماہ کسی خاص رنگ و نسل، لسانی گروپ ، جغرا فیہ یا کسی مخصوص زما نے کے لئے نہیں ،بلکہ عام انسان کے لئے ، ہر طبقے کے لئے ، ہر زما نے کے لئے ، ہر مقام کے لئے ایک پر درد آواز ہے، ایک پیام انقلاب ہے، ایک صالح نظام کی طرف دعوت ہے۔
چناں چہ اس پر امن اور عالم انسانیت کے پیغام کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت عالم انسانیت بکھری پڑی ہے۔ اس میں بہت سارے کنفیوڑن پیدا کئے جاچکے ہیں۔ کہیں انسانیت کو خدا بیزاری اور الحاد کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے تو کہیں اسے سوشلزم کا ساحرانہ درس دیا جاتاہے، کہیں اس کے سامنے قوم پرستی کا سبز باغ رکھا جاتا ہے تو کہیں لادین جمہوریت کا میٹھا زہر پلا کر اسے مدہوش کیا جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی انسانیت روز بہ روز پستی کی طرف ہی اترتی جارہی ہے۔ سب کچھ آزمایا گیا ، اِزمو ں اور فلسفو ں کو ناپا گیا ، تجربات اور حسین دعوؤ ں کے سہا نے سپنے دکھا ئے گئے ، امن ، ترقی ، احترام آدمیت کے ترانے بجا ئے گئے ، خو شحالی اور مساوات کے وعدو ں کی خوب سوداگر یا ں کی گئیں مگر نتیجہ صفر۔ اس ساری فضو ل مشق میں اگر ایک بار بھی نہ آزمایا گیا تو وہ صرف اور صرف اسلام کا نظام حیات ،قرآن اور محمدﷺکی سنت، خلفائے راشدین اور تبع وتابعین اور اولیا ئے کرامؒ کے بے عیب مشن اور ان کی روشن سیر تو ں اور نقوش ِپا کو نہ آزمایا گیا۔ اس لحاظ سے ایک بار پھر قرآن کا، نظام حیات کے پیغام کا، عالم انسانیت تک اصل نظام اور صحیح راہ پہنچانے کا مہینہ رمضان المبارک کل پرسو ں سے شروع  ہو نے والاہے، جس میں مسلمان خصوصاً نوجوان اپنے آپ کو قرآن کے رنگ میں رنگ کر ’’صبغۃاللہ ‘‘دوسرو ں کے واسطے پیغام ِ امن وسلامتی لے کر اٹھیں، کیوں کہ پیغام رمضان یعنی قرآن کی تعلیمات اور احکا ما ت کو عام انسانیت تک پہنچانے کا اگر کو ئی ظا ہر ی ذریعہ ہے تو وہ یہی مسلم نوجوان ہے۔ اس لحاظ سے ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اٹھیں اور خو د کو صیام کے اسپرٹ میں ڈھا ل کراپنی ذمہ داریوں اور فر یضے کے عین مطابق دنیا کے سامنے صاف وشفاف پیغامِ الٰہی کو پیش کریں۔ یہ پیغام نہ صرف خود ان جوانو ں کے لئے بے انتہا فائدہ مند ہے بلکہ تمام عالم ِانسانیت کے لیے فضائے امن وسلا متی کا ضامن بھی ہے۔
دنیا فساد کی لپیٹ میں اس قدرآچکی ہے کہ کہیں نکلنے کا کوئی اشارہ تک دکھائی نہیں دیتا۔ اس پُر طہا رت ماحول میں رمضان المبارک کا یہ پا ک ومقدس مہینہ جس کاایک بار پھر بس ظہور ہونے ہی والا ہے، پکار پکار کر ہم سب مسلمانوں کو اپنی پہچان بہ حیثیت امت وسط اور نیکی کا حکم کر نے والا اور بدی سے رو کنے والی امت کے طور کرا نے کی تلقین کر تے ہو ئے ضبط ِ نفس اور بلا چو ن وچرا صرف اللہ کے سامنے ہر اعتبار سے سر نڈر کر نے کی ہدایت دیتا ہے۔ ہما ری کو شش ہو نی چا ہیے کہ اس ہد ایت کو اپنی عملی زندگیو ں کا گہنہ بنا نے کا عز م با مصمم کر یں۔ اللہ ہمارا حافظ و نگہبا ں ہو۔
٭٭٭٭٭