Sunday 22 January 2017

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں!


ابراہیم جمال بٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے اپنے آخری نبی وپیغمبر حضرت محمد مصطفیﷺ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جسے آج اگر دور سے دیکھیں  تو بظاہر ایک کتاب معلوم ہوتی ہے لیکن  بغور اس کے کارناموں  کی فہرست تلاش کریں  تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب الٰہی کے کارنامے اس قدر ہیں  کہ ان کا شمار کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔ تاہم سرسری طور پر اگر دیکھیں  تو عام انسانوں  کو یہ کہے بغیر چارہ ہی نہیں  رہتا کہ ’’یہ کتاب اور اس میں  موجود ’’دین‘‘ یعنی نظام حیات دراصل ایک ایسی تحریک ہے جس کا مسلمانوں  نے سہارا لے کر اس دین اور کتاب کی تعلیمات کی تبلیغ کی، اسے تبلیغ کی بنیادوں  پر قائم کیا، اسی کی قوت سے ترقی کی، اور اسی پر اس کی زندگی کا انحصار ہے، اس کتاب کی دکھائی ہوئی راہ راست سے مسلمانوں  عروج پا گئے اور عروج اس قدر کہ دنیا پر چھا گئے، دنیا کے کونے کونے میں  آج مسلمان اور اسلام کا نام ہے،اس کی بنیادی وجہ اس کتاب کو صحیح معنوں  میں  اخذ کرنا ہے۔ ہر دور میں  اس قرآن کی کیا اہمیت رہی ہے اس کا اندازہ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے صحیح طور سے ہوتی ہے کہ کس طرح انسان جاہلانہ طرز عمل سے اُٹھ کر امامت کے منصب پر فائز ہو گیا۔ کس طرح ایک انگڑ وجاہل قوم حاملِ قرآن ہو کر دنیا کے لیے رہبری کے مرتبے تک پہنچ گیا۔ چنانچہ قرآن انسان کی ابدی ضرورت ہے اور اس ضرورت کے بغیر انسانی فلاح وکامیابی ناممکن ہے۔ انسان ہمیشہ سے اپنی نجات کی فکر میں  کوشاں  رہا ہے اور وہ ہمیشہ رہے گا، البتہ نجات کی راہ کون سی ہے اور کون سے راہِ ضلالت وگمراہی کی ہے۔ اس جانب انسانیت کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ اسی جانب ایک جگہ دور حاضر کے مفکر و مصنف سید مودودیؒ رقمطر از ہیں  :
’’قرآن ایک ایسا چراغ ہے جس کا برحق ہونا بجائے خود روشن ہے، اور اس کی روشنی میں  انسان ہر اس مسئلے کو سمجھ سکتا ہے جسے سمجھنے کے لیے اس کے اپنے ذرائع علم وعقل کافی نہیں  ہیں ۔ یہ چراغ جس شخص کے پاس ہو وہ فکر وعمل کی بے شمار پر پیچ راہوں  کے درمیان حق کی سیدھی راہ صاف صاف دیکھ سکتا ہے اور عمر بھر صراطِ مستقیم پر اس طرح چل سکتا ہے کہ ہر قدم پر اسے یہ معلوم ہوتا رہے کہ گمراہیوں  کی طرف لے جانے والی پگڈنڈیاں  کدھر جا رہی ہیں  اور ہلاکت کے گڑھے کہاں  کہاں  آرہے ہیں  اور سلامتی کی راہ ان کے درمیان کون سی ہے‘‘۔
قرآن کس طرح انسان کے لیے روشنی ہے اور انسان کو اس روشنی کی کس قدر ضرورت ہے ، اس کے بغیر انسان کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے اور اس سے دور ہو کر ایک انسان عموماً اور مسلمان خصوصاً کس طرح بھٹک کر اندھیرے کی نذر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ آج دنیا کی یہی حالت دکھائی دیتی ہے۔ دنیا کا وہ کون سا حصہ ہے جس میں  انسان نہ بستے ہوں ، جس میں  مسلمان نہ رہتے ہوں ۔ زمین کے چپے چپے پر مسلمان نے اپنا مسکن قائم کیا ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود آج مسلمان ہر جگہ ظلم وبربریت کا شکار ہیں ، مظلومانہ زندگی گزار کر اپنے ایام گزار رہے ہیں ۔ گویا روشنی ان کے پاس ہونے کے باوجود وہ آج اندھیرے میں  بھٹک رہے ہیں ۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ کیوں  مسلمان آج کے اس نام نہاد’’ جدید اور ماڈرن‘‘ دور میں  سب سے آگے ہونے کے بجائے پیچھے ہی کی طرف رہ کر رہ گیا ہے؟ جب سرسری طور پر اس معاملے پر غور کیا جاتا ہے تو یہی نظر آتا ہے کہ آج کا مسلمان قرآن خوان تو بن چکا ہے لیکن حاملِ قرآن نظر نہیں  آرہا ہے۔ حالاں  کہ اگر دیکھا جائے تو آج دنیا میں  سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ’’قرآن کریم‘‘ ہی ہے اور کیوں  نہ ہوتی یہ تو اس ہستی ٔ لافانی کا کلام ہے جس نے ساری دنیا کی تخلیق کی ، اس نے اپنے سب سے بہترین بندے اور خاتم النبیین حضرت محمدﷺ پر اس کو نازل کیا۔ اس کے ذریعہ سے رہتی دنیا تک کے انسانوں  کو ہدایت و رہنمائی پہنچی ہے ، اس کے آتے ہی دنیا مکمل طور سے بدل گئی۔ بکریوں  کو چرانے والے اس کے ذریعے انسانیت کے محافظ بن گئے۔ پتھروں  اور ذلیل و حقیر ترین چیزوں  کے آگے جھکنے والے بادشاہوں  کی آنکھوں  سے آنکھیں  ملانے لگے۔ لوگوں  کا حق مارنے والے یتیموں  کے والی و غمخوار بن گئے، بیٹیوں  کو زندہ درگور کرنے والے عورت کے عظیم ترین محافظ بن گئے۔ اسی قرآنی تعلیم نے عورت کے قدموں  تلے جنت بنائی، زیور تعلیم سے اسے آراستہ کیا، باپ بھائی اور شوہر پر معاشی کفالت کی ذمہ داری ڈال کر معاشرے کے بھیڑیا نما انسانوں  سے اسے محفوظ کیا ، مردوں  کے شانہ بہ شانہ حقوق و ذمہ داریاں  دے کراسے اس مقام پر کھڑا کیا جس کو آج کی عورت لباسِ عصمت تار تار کراکر بھی نہ پاسکی۔ غرض اس کتاب نے، اللہ رب العالمین کے کلام نے ،پتھروں  کو پانی کیا ، صحرائوں  کو سبزہ زار کیا اور ساتھ ہی ساتھ دریائوں  میں  ایک ایسی حیات بخش روانی پیدا کی کہ صدیاں  گزرنے کے بعد بھی انسان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ حقیقت میں  یہ ایک انقلاب تھا جس نے دنیا کا رخ ہی موڑ دیا ، اس کے آنے سے علم و ہنر کے وہ چشمے پھوٹے کہ کسی دوسری قوم نے اس قدر علمی و فنی خدمات اتنے زیادہ میدانوں  میں  کبھی نہیں  کیں ۔ خود مغرب و مشرق، شمال و جنوب اس کا قائل ہے ، چنانچہ بقول کارلائل :
’’ میرے نزدیک قرآن میں  سچائی کا وصف ہر اعتبار سے موجود ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی خوبی کسی کے اندر پیدا ہو سکتی ہے تو اسی کے ذریعہ سے پیدا ہو سکتی ہے۔‘‘
برطانوی دانشور روڈ ولف لکھتا ہے کہ :
’’ یورپ کو یہ حقیقت فراموش نہیں  کرنی چاہئے کہ قرآن کااس پر عظیم احسان ہے کیونکہ وہ قرآن ہی ہے جس سے پورے یورپ میں  علم و دانش کی روشنی پھیلی‘‘۔
جارج سیل لکھتا ہے کہ :
’’ قرآن بالیقین سب سے بہتر اور مستند کتاب ہے ، انسان کا قلم ایسی معجزانہ شان کی کتاب لکھنے سے قاصر ہے اور یہ وہ معجزہ ہے جسکا درجہ مُردوں  کو زندہ کرنے سے بھی بڑھ کر ہے‘‘۔
مگر آج یہ قصہ ٔتاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ آج اس قرآن سے وابستہ لوگوں  (مسلمانوں ) کی زندگیاں  برف سے زیادہ ٹھنڈی ہیں  ، علم وعمل سے بے بہرہ مخصوص رسومات کے پیروکار ہیں ، جو مختلف مواقع پر بغرضِ ’’برکت‘‘ بے سوچے سمجھے کچھ آیتیں  پڑھ لیتے ہیں  ، اوہام و خرافات بنیادِ عمل ہے، معاشی طور پر یا تو دست نگر ہیں  یا اپنی معیشت کی باگیں  باطل خدائوں  کے ہاتھوں  میں  دے رکھی ہیں ۔ ایک طوفان ِ بد تمیزی برپا ہے جو صرف اور صرف اس کے خلاف ہے۔ جموں  وکشمیر، فلسطین، برما،عراق، شام، اور بے شمار مسلم ممالک اور نہ جانے کتنے رستے ہوئے زخم ہیں  جس نے پوری ملت کو لہو لہو کر رکھا ہے۔ایسے میں  کوئی تعلیم و ترقی کی طرف متوجہ ہے تو کوئی معاشی استحکام کی طرف ،کوئی آزادیٔ نسواں  کا علمبردار بن کر نصف امت کی فلاح میں  فکر مند ہے ،تو کوئی باطل کی خدمت میں  فلاحِ قوم و حفاظت ِ وطن ڈھونڈ رہا ہے۔ غرض دنیا کا کوئی لادین نظریہ ،کوئی اِزم ،کوئی طریقہ ، سیکولرزم ہو یا لادین جمہوریت ، قوم پرستی ہو یا مفاد پرستی، کیپٹلزم ہو یا سوشلزم کوئی طریقہ ایسا نہیں  چھوٹا جس کے ذریعہ فلاح ِقوم اور بگڑتے ہوئے معاشروں  کی سدھار کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ ہاں  اگر چھوٹا تو صرف ایک ہی طریقہ چھوٹا ہے اور وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کا عمل بہ کتاب۔ اس کتاب کو لے کر دنیا پر چھا جانے والی قوم اسی کتاب کو پس پشت ڈال کر ذلیل و خوار ہے۔
وہ معزز تھے مہمان مسلمان ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
بنیاد ہی جب غائب ہو تو عمارت کہاں  سے وجود میں آئے گی؟بے جا تاویلات کے ذریعہ اس قرآن پر عمل بھی چھوٹا ہے مگر ایمان بھی باقی۔ خوبصورت ترین جُزدانوں  میں  رکھی جانے والی اس کتاب کی انقلابی تعلیمات سے یہ اُمت غافل ہے۔ کہتے ہیں  کہ نعوذ باللہ اس قرآن کو سمجھنا آسان کام نہیں  ، یہ علماء کا کام ہے، بھلا عوام کہاں  اللہ کے کلام کو سمجھیں  گے۔ کتنا بڑا بہتان ہے جو یہ خدا پر باندھتے ہیں ۔سورج ،چاند ، درخت، پہاڑ وغیرہ جیسی عظیم خدائی مخلوقات سے یہ براہ راست فائدہ اٹھا سکتے ہیں  مگر اس سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ بتانے والی چیز (قرآن)ان علماء کے لئے ہے۔ حالانکہ قرآن کریم خود کہتا ہے ’’ھدی للناس‘‘ یہ سارے انسانوں  کی ہدایت کے لئے ہے۔ جو ڈرے اس کے لئے رہنمائی ہے۔بار بار اعلان کرتا ہے کہ :
’’ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو ہے کوئی جو نصیحت پکڑے‘‘۔
پھر یہ جو سارے ترجمے اور تفاسیر لکھی گئی ہیں  وہ کس کے لئے ہیں ؟ علماء تو عربی جانتے ہیں  پھر دنیا بھر کی زبانوں  میں  تراجم کس کی خاطر ہوئے ہیں ۔ صرف اردو زبان میں  شاہ عبدالقادر ؒ ،شاہ رفیع الدین ؒ، مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا محمود الحسن ؒ، مولانا امین احسن اصلاحی ؒ، مولانا سید ابولاعلیٰ مودودیؒ، مولانا سید حامد علیؒ ،مولانا عبدالرحمٰن کیلانیؒ ، مولانا جوناگڑیؒ،  مولانا صدر الدین اصلاحیؒ ، مفتی محمد شفیعؒ ، مولانا ابولکلام آزادؒ ، مولاناعبدالماجد دریاآبادی ؒ، اور کشمیری میں  ترجمۂ قرآن کرنے والے میرواعظ محمد یوسف شاہؒ  وغیرہ نے کس کے لئے تراجم وتفسیریں  لکھیں  ہیں ۔یہ ایک سازش ہے جو امت کو قرآن سے دور کرنے کے لئے چلائی گئی ہے۔ نہ امت قرآن پڑھے گی، نہ رہبرانِ قوم و ملت کا احتساب ہو سکے گا۔ وہ جس وقت جس چیز کو چاہیں  گے من جانب اللہ کر دیں  گے اور جس شخص کو چاہیں  گے ’’ولی اللہ‘‘ بنا دیں  گے۔
اس بارے میں  علامہ سر محمد اقبالؒ ارمغان حجاز فارسی میں  کہتے ہیں :
بہ بند صو فی و ملا اسیر ی
حیات از حکمت قرآں  نگیر ی
بآ یا تش تراکار ی جزایں  نیست
کہ از یسینِ اُو آساں  بمیر ی
’’ اے مسلمان! تو صوفی و ملا کے فریب کم نگہی اور کج ادائی کا اسیر ہے اور حکمت قرآں  سے پیغام حیات اور اسلو ب زندگی حاصل نہیں  کر رہا۔ قرآن کی آیات سے تیرا تعلق بس اتنارہ گیا ہے کہ تیرے ہاں  کسی کے وقتِ نزع سور ہ یسٓین کی تلاوت بس اس لیے کی جاتی ہے کہ مرنے والے کا دم آسانی سے نکل جائے۔‘‘
حالاں  کہ اگر دیکھا جائے تو قرآن صرف اس لئے آیا ہے کہ تمام انسانوں  کو فطرت پر قائم کرے تاکہ دنیا میں  امن و سکون ہو، دنیا صلح و آشتی کا گہوارہ بن جائے ، اخلاقی گراوٹ ہو یا سماجی پسماندگی سارے مسائل کا تدارک و حل ہو۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں  نہ پڑھو‘‘مگر قرآن کو صحیح طور سے پڑھے اور سمجھے بغیر کیسے پتہ چلے گا کہ اللہ کی رسی کون سی ہے۔ چنانچہ آج ہم نے مختلف شیطانوں  کی چھوٹی بڑی دُموں  کو رسی سمجھ کر تھام لے رکھا ہے اور وہ ہمیں  دنیا میں  تو ذلیل کر ہی رہے ہیں  جب کہ آخرت کا حساب ابھی باقی ہے۔ہم نے اس کتابِ زندگی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اس کے نتیجے میں  ہم ضلالت کے ہی سزا وار تھے، کبھی تو مومن سیرت و کردار میں  منہ بولتا قرآن ہوا کرتا تھا اور آج حال یہ ہے کہ   ع
یہ مسلمان ہیں  جنہیں  دیکھ کے شرمائے یہود
آج مسلمان شیطان کی چکا چوند سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ وہ اپنے زوال کی وجہ ’’مال کی کمی اور ٹیکنالوجی سے دوری ‘‘سمجھتے ہیں  ، جبکہ اصل وجہ کمی ٔ مال و زر نہیں  بلکہ کمی ٔ فہم قرآن و عمل بالقرآن اور کمیٔ ایمان ہے۔
محبت کا جنون باقی نہیں  ہے
مسلمانوں  میں  خوں  باقی نہیں  ہے
اگر ہم پھر زمانے میں  معزز و مکرم ہونا چاہتے ہیں  ، اگر ہم پھر دنیا کی قیادت و سیادت چاہتے ہیں  ،اگر ہم دنیا و آخرت میں  سرخروئی چاہتے ہیں  تو ہمیں  اس کتاب اللہ کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ ارشاد نبویﷺ ہے:
’’ قرآن کو بس تکیہ ہی نہ بنائو بلکہ دن اور رات کے اوقات میں  اسکی تلاوت کرو ،اس کو چہار جانب پھیلائو، اس میں  تدبر اور غور و فکر کر و‘‘۔
ارشاد نبویﷺ ہے:
’’قرآن کو بس تکیہ ہی نہ بنائو بلکہ دن اور رات کے اوقات میں  اسکی تلاوت کرو ، اس کو چہار جانب پھیلائو، اس میں  تدبر اور غور و فکر کرو‘‘۔
غور و فکر تو درکنار ہم تو اس قرآن مجید ،فرقانِ حمید ، نورِ ہدایت، کتاب ِمبین کو فراموش کر بیٹھے۔ اللہ کی رسی کو چھوڑ دیا ، نورِ حکمت کے خزانے سے مکمل طور سے بے نیاز ہو گئے اور زوال ، فساد ،انحطاط ، بگاڑ ہمارا مقدر بنا ، مغلوب و مقہور ہو گئے ، حقیر و ذلیل ہو گئے، عقائد خراب ، اعمال بگڑ گئے، معاشرہ تباہ و برباد، غرض ہم لٹ گئے ، برباد ہو گئے ،قیمتی ترین متاع کھو بیٹھے، سرمایۂ حیات سے ہاتھ دھو بیٹھے، ہم ہمیشہ کے لئے برباد ہو گئے ،ہم ٹوٹ گئے، بکھر گئے، ہمارے معاشرے فساد و بگاڑ سے بھر گئے، ہماری دعائیں  غیر مقبول ، ہماری نمازیں  بے اثر ، ہماری صفیں  ٹیڑھی، یہاں  تک کہ اقبال کہہ اٹھا  ع
صفیں  کج ،دل پریشان ، سجدہ بے ذوق
کی جذب اندروں  باقی نہیں  ہے
ان حالات سے نکلنے کے لئے کوئی راہ ہے؟ اگر ہے تو ہمیں  جلد از جلد اس کی طرف رجو ع کرنا چاہئے۔مندرجہ بالا سید مودودیؒ کی تحریر سے اسی چیز کی طرف رغبت دی جا رہی ہے کہ مسلمان اس چیز پر کھڑا ہو جائے جو اس کے لیے روشنی ہے اور اگر مسلمان روشنی کے بجائے اندھیری راہوں  میں  رہنا پسند کرتا ہے تو اس کے نتائج عیاں  دکھائی دے رہے ہیں ۔ وہ نہ اس دنیا میں  خیر وفلاح حاصل کر سکتا ہے اور نہ یہاں  سے رخصت ہونے کے بعد آخرت کے دربار میں  اس کے لیے کوئی فلاح و کامیابی ہے۔ اسی چیز کی طرف مولانا فاروق خان صاحب ایک جگہ رقمطراز ہیں :
’’سارے ہی مصائب و مسائل اور شدائد کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسانوں  نے اپنی عظمت کو فراموش کر دیا ، وہ بھول گئے کہ ان کی قدروقیمت کا اصل راز کیا ہے۔ وہ بھول گئے زندگی کی علامت عطا و بخش ہے، خدمت و رہنمائی ہے، غمگساری اور سوز ہے ، نہ کہ ظلم و ستم ، خود غرضی ، کبر اور سخت گیری۔ ضرورت ہے کہ انسان اپنی عظمت کو پہچانے اوراسے اپنے مقامِ بلند کا علم ہو اور وہ ہر قسم کے تعصبات اور تنگ نظری سے پاک ہو کر سارے عالم کی فلاح و بہبود کے لئے سرگرم عمل ہو، اس کا ذہن آفاقی ہو ، اس کی فکر آفاقی ہو، اس کا دل کشادہ ہو، کہیں  سے بھی کسی قسم کی تنگ نظری ، جہل اور پستی اس کے یہاں  نہ پائی جائے اور یہ آرزو ، نیک آرزو اسی وقت پوری ہو سکتی ہے جب کہ ہم قرآن حکیم کو سمجھیں  اور اس کتاب پر ہمیں  سچا ایمان حاصل ہو اور ہم یہ طے کر لیں  کہ اس کتاب سے دنیا کو، برادران وطن کو واقف کرانا ہے ،دنیا تک اس کا پیغام پہنچانا ہے، اس لئے کہ دنیا کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے سچی رہنمائی اور ہدایت، اور وہ رہنمائی و ہدایت قرآن ہی سے حاصل ہو سکتی ہے‘‘۔… ’’قرآن سے ہمیں  فکری قوت بھی حاصل ہو گی اور اس کے ذریعے سے عملی راہیں  بھی واضح ہوتی چلی جائیں  گی اور اسی کے ذریعہ سے انسانی قلوب (دلوں )کی تطہیر اور انکا تزکیہ بھی ممکن ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ قرآن کی صحیح طریقے سے اشاعت کی جائے اور مسلمان قرآن کی چلتی پھرتی تصویر بن کر رہیں ۔ قرآن ہی ان کا اخلاق ہو ،قرآن ہی ان کا کردار ہو، قرآن ہی سے وہ قوت حاصل کرتے ہوں  ، قرآن ہی ان کا اصل ہتھیار ہو، قرآن ہی ان کے لئے امید کی کرن ہو اور قرآن ہی ان کے لئے کامیابی کا ضامن ہو۔ قرآن پر انہیں  پورا یقین حاصل ہو اور صحیح معنیٰ میں  پوری مسلم قوم کی یہی ایک رہنما کتاب ہو۔ قرآن ہی وہ روشنی ہے جس سے ساری ظلمتیں  کافور ہو جاتی ہیں  اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل حل ہو جاتے ہیں ۔‘‘
کسی شاعر نے کیا خوب فرمایاہے  ع
عمل جن کا ہو اس کلامِ متیں  پر
وہ سر سبز ہوئے روئے زمین پر
گویا مسلمانوں  کی کامیابی اس کلام متیں  پر عمل پیرا ہونے میں  ہے، اگر انسان آج بھی ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر کلام الٰہی کو تھام لے تو زمین پر آج انسانی کی بدبختی کو نیک بختی میں  تبدیل ہونے میں  دیر نہیں  لگے گی۔ کیوں  کہ یہ کتاب ’’کتابِ انسان‘‘ ہے، اور اس میں  ایک ایک انسان سے انفرادی اور اجتماعی طور خطاب کیا گیا ہے۔
لَقَدْ اَنزَلْنَا اِلَیْکُمْک کِتَابًا فیْہِ ذکْرُکُمْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (سورۃ انبیاء)
’’ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی جس میں  تمہارا ہی تذکرہ ہے، کیا تم نہیں  سمجھتے ہو۔‘‘
ایک جلیل القدر تابعی اور عرب سردار احنف بن قیس ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے یہ مذکورہ بالا آیت پڑھی۔
وہ چونک پڑے اور کہا کہ ذرا قرآن مجید تو لاؤ۔ اس میں ، میں  اپنا تذکرہ تلاش کروں ، اور دیکھوں  کہ میں  کن لوگوں  کے ساتھ ہوں ، اور کن سے مجھے مشابہت ہے؟
انھوں  نے قرآن مجید کھولا، کچھ لوگوں  کے پاس سے ان کا گزر ہوا، جن کی تعریف یہ کی گئی تھی:
’’رات کے تھوڑے حصے میں  سوتے تھے، اور اوقات سحر میں  بخشش مانگا کرتے تھے، اور ان کے مال میں  مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں ) کا حق ہوتا تھا‘‘۔(الذاریات)
کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا:
’’ان کے پہلو بچھونوں  سے الگ رہتے ہیں  (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور اُمید سے پکارتے ہیں ۔ اور جو (مال) ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں  سے خرچ کرتے ہیں ‘‘۔(السجدہ)
کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا:
’’اور جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کرکے اور (عجز و ادب سے) کھڑے رہ کر راتیں  بسر کرتے ہیں ‘‘۔ (الفرقان )
اور کچھ لوگ نظر آئے جن کا تذکرہ اِن الفاظ میں  ملا:
’’جو آسودگی اور تنگی میں  (اپنا مال خدا کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں ، اور غصہ کو روکتے اور لوگوں  کے قصور معاف کرتے ہیں ، اور خدا نیکوکاروں  کو دوست رکھتا ہے‘‘۔ (آل عمران)
اور کچھ لوگوں  کے بارے میں  یہ معلوم ہوا کہ:
’’(اور) دوسروں  کو اپنی جانوں  سے مقدم رکھتے ہیں ، خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو، اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہوتے ہیں ‘‘۔(الحشر)
اور کچھ لوگوں  کی زیارت ہوئی جن کے اخلاق یہ تھے:
’’اور جو بڑے بڑے گناہوں  اور بے حیائی کی باتوں  سے پرہیز کرتے ہیں ، اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں ‘‘۔(الشوریٰ)
’’اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں  اور نماز پڑھتے ہیں ، اور اپنے کام آپس کے مشورہ سے کرتے ہیں  اور جو مال ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں  سے خرچ کرتے ہیں ‘‘۔(الشوریٰ)
اتنے مناظر کو پڑھ کر وہ ٹھٹک کر رہ گئے، اور کہا : ’’اے اللہ میں  اپنے حال سے واقف ہوں ، میں  تو ان لوگوں  میں  کہیں  نظر نہیں  آتا۔‘‘
پھر انہوں  نے ایک دوسرا راستہ لیا، اب ان کو کچھ لوگ نظر آئے، جن کا حال یہ تھا:
’’ان کا یہ حال تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں  تو غرور کرتے تھے، اور کہتے تھے، کہ بھلا ہم ایک دیوانہ شاعر کے کہنے سے کہیں  اپنے معبودوں  کو چھوڑ دینے والے ہیں ؟‘‘(سورہ صافات)
پھر اُن لوگوں  کا سامنا ہوا جن کی حالت یہ تھی:
’’اور جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں  رکھتے، ان کے دل منقبض ہو جاتے ہیں ، اور جب اس کے سوا اوروں  کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں ‘‘۔ (الزمر)
کچھ اور لوگوں  کے پاس سے گزر ہوا جن سے جب پوچھا گیا:
’’کہ تم دوزخ میں  کیوں  پڑے؟ وہ جواب دیں  گے کہ ہم نماز نہیں  پڑھتے تھے اور نہ فقیروں  کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم جھوٹ سچ باتیں  بنانے والوں  کے ساتھ باتیں  بنایا کرتے اور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے، یہاں  تک کہ ہمیں  اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا‘‘۔ (المدثر)
یہاں  بھی پہنچ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے دم بخود کھڑے رہے۔ پھر کانوں  پر ہاتھ رکھ کر کہا: ’’اے اللہ! ان لوگوں  سے تیری پناہ! میں  ان لوگوں  سے بری ہوں ۔‘‘
اب وہ قرآن مجید کے اوراق کو ا لٹ رہے تھے، اور اپنا تذکرہ تلاش کر رہے تھے، یہاں  تک کہ اس آیت پر جا کر ٹھرے:
’’اور کچھ اور لوگ ہیں  جن کو اپنے گناہوں  کا (صاف) اقرار ہے، انہوں  نے اچھے اور برے عملوں  کو ملا جلا دیا تھا، قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے، بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔(التوبہ: 102)
اس موقع پر ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا، ہاں  ہاں ! یہ بیشک میرا حال ہے۔
علامہ اقبالؒ جس کی رگ رگ میں  قرآن کریم رچا بسا تھا ایک جگہ اپنے اشعار میں  فرماتے ہیں    ع
قرآن میں  ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
امت مسلمہ کی موجودہ ابتر حالت کو دیکھ کر اگر دیکھا جائے تو یہی محسوس وہوتا ہے کہ ہم نے صرف اس قرآن  کی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے بلکہ اس کے پیغام امن و سلامتی کو  ہم نے بھلا دیا ہے ، جس کی وجہ سے ہم آج ہر جگہ ذلیل وخوار ہو کر رہ گئے ہیں ۔ جب تک نہ آج انسان اس قرآن میں  غوطہ زن ہو جائے گا تب تک کسی انقلاب اور کسی تبدیلی کا خواب دیکھنا بھی ایک لاحاصل مشق ہو گی۔ دنیا میں  موجود انسان بحیثیت انسان اُس پیغام کے منتظر ہیں  جس میں  امن وسلامتی کا پیغام ہے لیکن ان تک یہ پیغام پہنچانے والے ہی اس پیغام الٰہی سے کوسوں  دور جا بیٹھے ہوئے ہیں ۔ مسلمان غوطہ زنی کرے اور امن وسلامتی کا ماحول قائم نہ ہو جائے یہ ناممکن ہے۔
علامہ اقبال کے ہم عصر ایم اسلم اپنی کتاب میں  لکھتے ہیں :
’’ میں  نے متعدد بار قرآن مجید کو اقبال ؒ کے مطالعے کے میز پر دیگر کتابوں  کے ساتھ پڑا دیکھا۔ ایک مرتبہ میں  نے ادب کے ساتھ انھیں  اس طر ف متوجہ کیا تو فرمانے لگے : یہ کسی قیمتی اور خوبصورت غلاف میں  لپیٹ کر اور عطر میں  بسا کر اونچی جگہ پر رکھنے والی کتاب نہیں  بلکہ یہ تو انسان کے ہر وقت کام آنے والی کتاب ہے۔ چونکہ مجھے اکثر اس کی ضرورت پیش آتی ہے اس لیے یہاں  پاس ہی رکھی ہے۔‘‘
یعنی قرآن تو ایسی کتاب ہے جو ہر وقت کام آنے والی کتاب ہے، غلافوں  میں  لپیٹ کر صرف برکت کے لئے رکھنے کی کتاب نہیں ۔لیکن آج صورتحال اس کے برعکس ہے، ہم نے قرآن کو طاق نسیاں  کی زینت بنا دیا ہے، جب اپنا دنیاوی مفاد ہوتا ہے تو ہم اسے اٹھاتے ہیں ، گرد صاف کرتے ہیں  اور چومتے ہیں ، باقی ہمارے کاروبار زندگی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں  ہے۔
آخر پر حضور اکرمﷺ کا وہ فرمان جس میں  آپﷺ نے حاملینِ قرآن کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
اے اہل قرآن اس قرآن کو پس پشت نہ ڈالو، اور اس کی تلاوت کرو جیسا اس کا حق ہے صبح اور شام، اور اس کو پھیلاو، اور اسے خوبصورت آوازوں  سے پڑھو، اور اس میں  تدبر کرو تاکہ تم فلاح پاو۔(بیہقی)
٭قرآن کو پس پشت نہ ڈالو
٭قرآن کی صبح وشام تلاوت کرو
٭قرآن کی تعلیمات کو عام کرو یعنی داعی بن کر اس کو پھیلائو
٭قرآن کی خوب صورت آوازوں  سے تلاوت کرو
٭قرآن کو نہ صرف تلاوت بلکہ اس پر غور وفکر اور تدبر کرو۔‘‘
یہ وہ پیغام ہے جو ایک مومن ومسلم کے لیے سمجھنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین