Monday 17 July 2017

کشمیر: رواں سال کے چھ ماہ

غموں کے سایے، مصایب کی آندھی 

ابراہیم جمال بٹ
نہایت افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ سال رواں کے پہلے نصف حصہ میں کشمیر جابجا مقتل بنا رہا ،مقتل بھی ایسا کہ جس میں نہ صرف نہتے مقامی جوان جان بحق ہوئے بلکہ عسکریت سے وابستہ جنگجو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس کی بھینٹ چڑھتی رہی اور اس کے علاوہ علاقائی پولیس سے وابستہ کئی اہلکار بھی ہلاک ہو گئے ہیں اور بھارتی فوج سے وابستہ نوجوان بھی کام آئے۔ گزشتہ چھ ماہ میںکہیں عسکریت پسندوں کے ساتھ مسلح جھڑپیں ہوئیں، کہیں احتجاجی مظاہرین پر گولیاں چلیں، جب کہ کہیں کہیں پر پولیس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان سارے خو نخوارانہ واقعات میں من جملہ انسانیت لہو لہاں ہوتی رہی ہے۔ انکائونٹر کے مقامات پر ایک طرف گولیاں اور مارٹر شیلنگ ہو ، دوسری جانب فورسز کے خلاف عین مسلح تصادموں کے دوران عوامی مظاہرے پھوٹتے ہیں، اس بیچ ایک جانب کشمیری جنگجو نوجوان مارے جاتے ہیں اور دوسری جانب عوام گولہ باری کی زد میں آتے ہیں ، مظاہرین پر گولیاں اورپیلٹ چھروں کا استعمال بالعموم ہو تا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف جنگجو نوجوانوں کا لہو سرزمین وطن کو ترکر تا ہے بلکہ عام انسان بھی کی جانیں بھی تلف ہوجاتی ہیں۔ کہیں ایک زخمی ہوکر عمر بھر کے لئے معذور بھی ہوجاتے ہیں ۔ بھارتی فوج اور پولیس کے لوگ اس مقتل کی نذر ہو تے ہیں۔ رواں سال کے چھ ماہ اسی مقتل کی آدم خوری میں گزر گئے۔ غرض یہ کہ وادیٔ کشمیر میں انسانیت کا خون اس قدر سستا ہوتا جارہا ہے مگر ارباب ِ اقتدار میں سے کسی کو بھی فکر ہے نہ غم کہ ایسا کیوںہو رہا ہے۔ ان چھ ماہ کے دوران کشمیر وادی کی زمین اس خون انسانی سے اتنی تر بتر ہوگئی کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہان کے ندی نالے اب پانی کے بجائے خون اُگل دیںگے۔ عسکریت پسند، عام شہری اور پولیس وفوجی اہلکاروں کے مارے جانے کی خبریں آئے روز کا معمول بن چکا ہے۔ ڈر اور خوف کی اس کیفیت میں کرسی والوں کی طرف سے دعوے ہورہے ہیں کہ کشمیر کے حالات جلد ہی سدھر جائیں گے مگر زمینی سطح پر حقائق انہیں جھٹلا رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ انسانیت کے اس بہتے لہو کو روکنے کی تدابیریں اختیار کی جاتیں ، اس میں مزید اضافہ لانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کشمیر وادی میں فوج کو عسکریت سے وابستہ نوجوانوں کو ختم کرنے کے لیے تین ماہ کا وقفہ دیا جاتا ہے۔ اسی مہلت کا نتیجہ ہے کہ جموں وکشمیر میں قتل وغارت کا بازار گرم ہو چکا ہے۔ ماہ جنوری سے عموماً اور ماہ جون سے لے کر آج تک خصوصاًہر روز کسی نہ کسی طرح انسانیت کا قلع قمع کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ 
یکم جنوری کو جب صبح لوگوں نے اخبار اٹھایا تو سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ ’’چوگل ہندوارہ میں پولیس پار ٹی پر ایک حملے کے دوران پولیس اہلکار بنام عبد الکریم مارا گیا۔اسی طرح ۶؍ جنوری کو ماچھو بڈگام میں ایک جھڑپ کے دوران مقامی جنگجو کمانڈر مظفر اقبال نائیکو عرف مظہ مولوی مارا گیا۔ ۱۰؍ جنوری کو حاجن میں ایک جھڑپ کے دوران ایک غیر شناخت شدہ جنگجو مارا گیا۔ ۱۶؍جنوری کو آوورہ پہلگام میں ایک خون ریز جھڑپ کے دوران تین مقامی جنگجو عادل احمد ریشی ساکن بجبہاڈہ، عابد احمد شیخ ساکن تکی پورہ اور مسعود احمد شاہ ساکن بیورہ بجبہاڈہ جان بحق ہو گئے۔۱۹؍جنوری کو حاجن میں فوج کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران ایک جنگجو ابو موسیٰ عرف مصعیب مارا گیا۔ ۲۴؍ جنوری کو ایک خون ریز جھڑپ کے دوران شہامہ آلسٹینگ میں دو جنگجو جان بحق ہو گئے۔ 
جنوری کے بعد ماہ فروری کی ۴؍ تاریخ کو سوپور میں ایک جھڑپ کے دوران مقامی جنگجو اظہر خان عرف غازی عمر ساکن نتہ نوسہ کپوارہ اور سجاد احمد لون عرف بابر ساکن عادی پورہ بومئی سوپور حیات جاوداں  پاگئے۔ ۱۲؍ فروری کے دن ایک خون ریز جھڑپ میں چار جنگجوجن میں مدثر احمد عرف عاصم ساکن ریڈونی بالا، وکیل احمد ٹھاکر ساکن ہری گام، فاروق احمد بٹ ساکن چک داسند اور محمد یونس لون ساکن ہاورا کولگام کے علاوہ دو عام شہری اشفاق مجید ریشی ساکن بجبہاڈہ اور مشتاق احمد یتو ساکن سری گفوارہ بجبہاڈہ جان بحق ہوگئے۔ اس کے علاوہ دو بھارتی فوجی بھی اس جھڑپ میں کام آگئے۔ اسی طرح کے دواور واقعات میں۱۴؍ فروری کوحاجن اور ہندواڑہ میں جھڑپوں کے دوران تین فوجی اور چار جنگجو از جان ہو گئے۔ ۲۳؍ فروری کو شوپیان میں ایک جھڑپ کے دوران ایک عام خاتون جانہ بیگم ساکن چتراگام شوپیان کے علاوہ چار فوجی از جان ہو گئے۔
ماہ مارچ کی ۴؍تاریخ کو جب لوگوں نے صبح اخبار پڑھا تو ایک بڑی خبر یہ پائی کہ ’’مرن چوک پلوامہ میں گرنیڈ حملہ، جس کے نتیجے میں ایک راہ گیر محمد ایوب وانی ساکن گوسو پلوامہ شہید ہو گیا۔ ۵؍مارچ کو ترال میں ایک معرکہ کے دوران دو جنگجو عاقب احمد بٹ عرف عاقب مولوی ساکن ہائن ترال اور ایک غیر ملکی جنگجو جان بحق ہو گئے جب کہ اس دوران ایک پولیس اہلکار منظور احمد ساکن سلام آباد اوڈی بھی مارا گیا۔ ۹؍مارچ کو پدگام پورہ پلوامہ میں ایک جھڑپ کے دوران ۲؍عام شہری جن میںنویں جماعت کا طالب علم عامر نذیر وانی ساکن کاکہ پورہ پلوامہ اور ۲۳ سالہ نوجوان جلال الدین ساکن ٹہب پلوامہ کے علاوہ دو جنگجو جہانگیر احمد گنائی عرف سیف اللہ ساکن قوئل پلوامہ اور محمد شفیع وگے عرف احسان ساکن بانڈی پورہ پلوامہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ۱۵؍ مارچ کے دن کپواڑہ میں ایک جھڑپ کے دوران ایک معصوم بچی کنیزہ دختر خوشی محمد ساکن بٹہ پورہ ہایہامہ کپواڑہ کے علاوہ تین جنگجو جان بحق ہو گئے۔ ۲۶؍ مارچ کو پدگام پورہ پلوامہ میں ایک خون ریز جھڑپ کے دوران ۲؍جنگجو فاروق احمد حرا ساکن نازنین پورہ شوپیان اور رئیس احمد کاچرو ساکن بلوراجپورہ پلوامہ جان بحق ہو گئے۔ ۲۸؍ مارچ کو ایک جھڑپ کے دوران ایک جنگجو توصیف احمد ماگرے ساکن کولگام کے علاوہ تین عام نوجوان زاہد رشید گنائی ساکن باربگ چاڈورہ، عامر فیاض وازہ ساکن وازہ محلہ واتھورہ چاڈورہ اور اشفاق احمد ساکن رنگریٹ جان بحق ہوگئے۔
ماہ اپریل کی تیسری تاریخ کے دن اخبار کی سرخیوں میں ایک اہم سرخی یوں تھی ’’نوہٹہ میں پولیس پارٹی پر حملے کے دوران ایک پولیس اہلکار شمیم احمد ساکن گریز بانڈی پورہ ہلاک‘‘   ضمنی انتخابات کے سلسلے میں ۹؍ اپریل کے روز الیکشن بائیکاٹ کے دورا ن فورسز کی فائرنگ سے ۸؍ عام شہری جانیں گنوا بیٹھے۔ ۱۵؍اپریل کو بتہ مالو سرینگر میں ایک راہ گیر سجاد حسین شیخ ساکن چندوسہ دودھ بگ بارہمولہ پر اندھا دھند فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا۔ مذکورہ نوجوان فٹ پاتھ پر وازہ وان بیچتا تھا۔ ۲۲؍ اپریل کو چاڈورہ معرکہ آرائی میں ۲؍جنگجو یونس مقبول گنائی ساکن باتری گام چرار شریف اور غیر ملکی ابو علی جان بحق ہو گئے۔ اسی طرح ۳۰؍ اپریل کو خانیار سرینگر میں پولیس پارٹی پر ایک حملے کے دوران ایک عام شہری غلام محمد خان ساکن الٰہی باغ سرینگر جو کہ ۶۵ سال کا تھا جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ 
اپریل کے بعد ماہ مئی کی ۲؍ تاریخ کو جنوبی کشمیر کے پم بائی کولگام میں جموں وکشمیر بنک کی کیش گاڑی کے ساتھ پولیس گاڑیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ۵؍پولیس اہلکار اور ۲؍بنک ملازمین جان گنوا بیٹھے ۔ مارے گئے پولیس اہلکار میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر بشیر احمد ، کانسٹیبل فاروق احمد، کانسٹیبل محمد قاسم، کانسٹیبل مظفر احمد اور کانسٹیبل اشفاق احمدشامل تھے جب کہ ۲؍بنک ملازمین مظفر احمد لاوے اور جاوید احمد ڈار تھے جو جان بحق ہوئے۔ ۵؍مئی کو کپواڑہ میں فورسز کیمپ پر فدائن حملہ کے بعد جب مقامی آبادی جنگجوؤں کی لاشوں کا مطالبہ کرنے کے لیے احتجاج کر رہے تھے تو فوج نے لوگوں پر اپنی طاقت کا استعمال کر کے ۶۰؍سالہ بزرگ محمد یوسف بٹ ساکن پنزگام کپواڑہ کو جاں بحق کردیا۔ اسی دوران ۵؍ مئی کو باس کجن شوپیان میں فوجی جو کہ ایک سول سومو گاڑی میں سوار ہو چکے تھے پر گولیوں کی بوچھاڑ کے نتیجے میں سومو ڈرائیور نظیر احمد شیخ ولد احد شیخ ساکن کچہ ڈورہ شوپیان جان سے گیا۔ ۶؍مئی کو میر بازار اسلام آباد میں ایک خونریز جھڑپ کے دوران لشکر کمانڈر فیاض احمد جان کے علاوہ ایک عام شہری محمد حسین ڈار ساکن ملہ پورہ اسلام آباد جان بحق ہو گئے۔ ۱۴؍مئی کو واری پورہ ہندوارہ میں ایک مختصر سی جھڑپ کے دوران ۲؍جنگجو جان بحق ہو گئے۔ ۱۹؍مئی کو گڈورا پلوامہ میں ایک نوجوان محمد یوسف لون کی پراسرار طور پر ہلاکت ہوئی جس کے بارے میں لوگوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ فورسز کی طرف سے زیر حراست قتل ہے۔ ۲۷؍ مئی کو سیمو ترال میں ایک خون ریز جھڑپ کے دوران دو جنگجو جاں بحق ہو گئے جن میں ایک معروف نوجوان حزب کمانڈر سبزار احمد بٹ اور اس کا ساتھی فیضان احمد ساکنان ترال شامل تھے۔ جب کہ اسی لمحے احتجاج کے دوران ایک نوجوان عاقب احمد ساکن ترال اور ایک اور نوجوان حافظ قرآن عاقب مولوی پر  راست گولیاں چلا کر انہیںابدی نیند سلا دیا گیا۔ ماہ مئی کی آخری تاریخ کو آرونی میں مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں ۲؍شہری جان بحق ہو گئے۔ 

یکم جون سوپور میں ایک خون ریز معرکہ آرائی میں دو جنگجو اعجاز احمد میر ساکن براٹھ کلاں سوپور اس کے اس کا ساتھی بشارت احمد شیخ ساکن بومئی سوپور ابدی نیند سلا دئے گئے۔ ۳؍جون کو جموں شاہراہ پر قاضی گنڈ کے قریب فوجی کانوائے پر اچانک حملے کے دوران دو فوجی مارے گئے ۔ ۵؍جون کو سمبل بانڈی پورہ میں ایک فدائن حملے کے دوران چار جنگجو مارے گئے ۔۶؍جون کو غنہ پورہ شوپیان میں مظاہرین اور فورسز کے درمیان ایک جھڑپ میں ایک مقامی ۱۶؍ سالہ نوجوان عادل فاروق ماگرے جان بحق ہو گیا۔