Sunday 12 July 2015

ماہ رمضان : ایک عہد وپیماں


٭ابراہیم جمال بٹ 

.......................

ماہ رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں ہم سے رُخصت ہو رہی ہیں… اس میں ہم نے محنت کر کے اللہ کی رضا جوئی حاصل کرنے کی انتھک کوشش کی… فرض نمازوں کی وقت پر پابندی، نوافل کا زیادہ سے زیادہ اہتمام، قرآن کی تلاوت میں مزید اضافہ… نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا… اور اسی طرح دیگر ایسے کام کئے جن سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشی حاصل ہو جاتی ہے… الحمد للہ علی ذالک… اس پر جتنا بھی اللہ کے دربار میں شکر ادا کیا جائے کم ہے… ہم نے مسلسل روزہ رکھ کر یہ اعلان کیا کہ ہم وقت آنے پر پیٹ پرپتھر باندھ سکتے ہیں…ہم بھوکے رہ سکتے ہیں… لیکن اللہ کی نافرمانی نہیں کر سکتے… اس کے حکم کی تعمیل میں بھوک کی حالت میں جان بھی نکل جائے تو مضائقہ نہیں… ہم نے مسلسل اور وقت کی پابندی کا خیال کر کے نماز کی پابندی کا مزاج اپنے اندر پیدا کیا… یہ اس بات کا اعلان ہی تو ہے کہ ہم اللہ کے دربار میں سلامی دینے کے لیے ہر وقت تیار ہیں… جب اللہ کے دربار سے منادی آئے گی، ہم حاضر ہونے کے لیے تیار ہوں گے… اُس کے آگے جھکنے اور دوسروں سے ’’لا‘‘ کرنا اسی نماز کا ایک اہم درس ہے… ہم نے فرائض نماز کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی بڑے ذوق وشوق سے اہتمام کیا… یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کے حکم (فرض) کے علاوہ بھی اس کے آگے جھکنے (نوافل) میں اپنی زندگی گزار کر اپنے باغ کو مزید پھولوں اور خوشبو سے منور کر سکتے ہیں… ہم نے صبح سے لے کر شام تک جب بھی فارغ وقت پایا بلکہ وقت نکال نکال کر تلاوت قرآن پاک میں گزارا… یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن ہماری رہبر ورہنما کتاب ہے… اسی کی روشنی سے ہمیں وہ راستہ مہیا ہو سکتا ہے جس کے ہم متلاشی ہیں… ہم دُعا کرتے ہیں… اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا… وہ راستہ جس پر آپ نے انعام رکھا ہے… اس راستے پر چلنے اور کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے، قرآن واحد کتاب ہے… گویا کہ دوسرے الفاظ میں ہم اعلان کرتے ہیں کہ اس دنیا میں اگر امن وآشتی کا پیغامبر ہے تو وہ یہی قرآن ہے… اس دنیا پر اگر کوئی نظام حق ہے تو وہ اسی قرآن کا نظام ہے… اس دنیا پر بسنے والے لوگوں پر اگر کوئی قانون صحیح اور کامیاب ہو سکتا ہے تو وہ اسی قرآن کا قانون ہے… اس ماہِ مبارک کے آخری ایام ہم اب شب خوانی میں گزارہے ہیں… جس میں نوافل نماز میں افضل ترین نماز ’’تہجد‘‘ کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے… یہ بھی اسی اعلان کی ایک کڑی ہے کہ ہم نہ صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے دن میں کام کر سکتے ہیں بلکہ کبھی کبھار رات کی نیند کو بھی قربان کر سکتے ہیں… ہم اللہ کی راہ میں دن کے شاہسوار اور رات میں پہرہ داری کی ذمہ داری بھی انجام دے سکتے ہیں…ہمارا دن اللہ کی راہ میں گزر سکتا ہے اور ہم رات بھی اسی کے لیے قربان کر سکتے ہیں… اس ماہ ہم نے اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا… زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ صدقات وخیرات بھی دل کھول کر دئے… یہ اس بات کا تو اظہار ہے کہ اللہ کی راہ میں وقت… دن ورات… پیسہ… اور صلاحیتیںقربان کر سکتے ہیں… یہ اس بات کا اعلان تھا کہ… مال دینے والی اللہ کی ذات ہے… اور اسے اسی کی راہ میں قربان کرنابھی عبادت ہے… ۔ غرض اس ماہ مبارک میں ہم نے اللہ کے ساتھ بے شمار عہدوپیمان کئے ہیں… اس کی ہر ادا پر قربان ہونا… اس کی سلامی کاوقت پر جواب دینا… اس کی راہ میں اپنا جیب خالی کرنے میں خوشی کا اظہار کرنا… یہ سب عہد وپیمان ہی تو ہیں جو ہم نے اس ماہ مبارک میں کئے… اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس ماہ کے اختتام کے بعد شوال کے مہینے میں اپنے عہدو پیمان پر برقرار رہ پائیں گے یا نہیں… اللہ کا جو اس ماہ کے روزوں کا مقصدانسان کے اندر ’’تقویٰ ‘‘پیدا کرنا ہے… جب ایک مومن اللہ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اور اللہ کی رضا کی خاطر روزہ رکھتا ہے تو اس کے دل میں تقویٰ کا شعور اجاگر ہوجاتا ہے…یہ تقویٰ ہی ہے جو دلوں کا نگہبان ہے اور جو انسان کو روزے کے احکام کی خلاف ورزی سے بچاتا ہے…اگرچہ وہ ایسی معصیت سے بھی انسان کو بچاتاہے ،جو کسی حد تک محض وسوسہ ہو۔قرآن کریم کے اول مخاطب صحابہ کرام ؓا س کے معنی سے اچھی طرح واقف تھے۔وہ جانتے تھے کہ اللہ کے ہاں تقویٰ کس قدر وزنی ہے۔اس لئے تقویٰ ہی ان کا نصب العین تھا۔وہ برابر اس کی طرف بڑھتے جاتے تھے اور روزہ ذرائع حصول ِتقویٰ میں سے چونکہ ایک ذریعہ ہے اس لئے یہ فرض کیا گیا۔دراصل روزہ وہ راہ ہے جس کی آخری منزل تقویٰ ہے۔یوں لگتا ہے کہ قرآن مجید ،ایک بلندمقام پر ،بالکل سامنے تقویٰ کا ایک روشن نشان رکھ دیتا ہے اور اہل ایمان کی آنکھیں اس نشانہ پر جم جاتی ہیں اور وہ روزہ کے واسطے اورروزے کی امداد سے تقویٰ تک پہنچنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ تقویٰ ہمیں حاصل ہوتا ہے یا نہیں…؟ ماہ رمضان المبارک کی ساعتیں گزرنے کے بعد ماہ شوال کے پہلے ہی دن معلوم ہو جائے گا کہ ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا… تقویٰ و پرہیز گاری حاصل ہوئی یا کچھ اور… ؟ماہ رمضان المبارک سے قبل جس قدر ہماری حالت تھی اگر وہی حالت برابر قائم رہی… تو ہمارا احتساب آخر کب ہو گا… اس ماہ بھی اگر ہم نے وقت ضائع کیا تووقت سے کب فائدہ اٹھا پائیں گے۔؟