Tuesday 11 March 2014

خلافت علی منہاج النبوہ ، شبھات اور حقائق

سید علی گیلانی

.................


سورہ فتح کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، عالمِ انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے اور جو دین حق ، جو ہدایت کا پیغام انکو عطا کیا گیا ہے وہ دنیا پر غالب ہو جائے۔ یہ ہدایت اور دین حق ماتحت رہنے اور باطل کے سائے تلے زندہ رہنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لئے بھیجا گیا ہے کہ وہ تمام ادیان پر غالب ہو جائے اور اس کے لئے اللہ کی گواہی کافی ہے اسکے کسی اور کی گواہی طلب نہیں کرنا ، اسکے لئے کسی سامراج اور کسی استعمار اور کسی فرماں روائے اقتدار اور لشکر جرار سے اجازت طلب اور تصدیق حاصل نہیں کرنا ہے۔ اللہ کی گواہی کافی ہے، دین کے غلبے کو قرآن پاک میں مختلف مقامات پر مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا ہے، اسی کو اقامت دین سے تابیر کیا گیا ہے اور کئی مقامات پر اسے خلافت سے موسوم کیا گیا ہے۔
خلافت علی منہاج النبوہ کا قیام اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز فرض ہے، جس طرح روزہ، حج، اور زکوٰۃ فرض ہے، اور جس طرحشہادت دینا فرض ہے اللہ کے واحد ہونے کی، اور رسول ؐ کے رسول اور خاتم النبین ہونے کی، ٹھیک اسی طرح خلافت علی منہاج النبوہ قائم کرنے کی جدوجہد کرنا فرض بنتا ہے ان لوگوں پر ، اس امت پر جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ آج بیسویں صدی کے آخری عشرے (موجود اکیسویں صدی) میں جب یہ بات کہی جاتی ہے کہ خلافت کا نظام قائم کرنا ہے تو مسلم ملت میں بھی انتشار پیدا ہو جاتا ہے، وہ بھی سوال کرنے لگتے ہیں، کیا یہ دور ہے خلافت کے قیام کا؟ اور بعض لوگ تو کھل کر کہتے ہیں کہ یہ بے وقت کی راگنی ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ انہونی بات ہے، اور بعض لوگ کہتے ہیں یہ حالات کا صحیح تجزیہ نہیں ہے۔ جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں (یعنی ہندوستان) جہاں مسلمان منتشر ہوں، (یعنی پوری دنیا) جہاں مسلمان تسبیح کے بکھرے دانوں کی طرح ہوں، جہاں مسلمانوں کی کوئی مرکزیت نہ ہو، اور پھر ایسے ماحول میں خلافت کا نام لینا خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنا یہ مسلمانوں کے لئے اور مسلمانوں کے حق میں کوئی بہتر اور قابل عمل پروگرام نہیں ہو سکتا۔ یہ باتیں مسلمان کہتے ہیں۔ اور جہاں تک غیر مسلم بھائیوں کا تعلق ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان اپنا قومی غلبہ چاہتا ہے وہ اسی حیثیت سے اسے تابیر کرتے ہیں کہ مسلمان ہمارے اوپر غالب ہونا چارہے ہیں۔ دونوں طرف غلط فہمیاں ہیں اور جو لوگ خلافت علی منہاج النبوہ کا فریضہ انجام دینے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ان کیلئے پہلا مرحلہ یہی ہے کہ وہ غلط فہمیاں دور کریں۔ مسلمانوں سے صرف اتنا کہنا ہے کہ آپ یہ بتائیں کہ کیا یہ فرض ہے؟ اگر یہ فرض ہے، قرآن میں بھی اسے واضح الفاظ میں کہہ دیا گیا ہے کہ یہ فرض ہے۔ خلافت کا نظام قائم کیا جائے، دین حق کو غالب کیا جائے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی ایک پسندیدہ دین ہے۔ :’’ومن یبتغ غیر الاسلام دین فلن یقبل منہ وھو فی الآخرت من الخاسرین‘‘ (جو لوگ اسلام کے بغیر زندگی کا کوئی اور طریقہ اختیار کریں وہ اللہ کے نزدیک قبول نہیں ہو گا اور وہ لوگ آخرت میں خسارے اور گھاٹے سے دوچار ہوں گے)۔ 
تو یہ مسلمان سے کہنا ہے جوخلافت کے، نظام کی جدوجہد کو بے وقت کی راگنی کہتے ہیں ، ان سے یہ کہنا ہے ، کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں بتائو یہ فرض نہیں ہے؟ اور وہ نہیں بتا سکے گا کہ نہیں۔ وہ قرآن کو تحریف نہیں کر سکیں گے، قرآن تحریف سے محفوظ رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک محفوظ رہے گا۔ پھر ان سے یہ کہیں کہ جب یہ فرض ہے تو پھراس کے قیام کے لئے اٹھنا پڑے گا۔ یہ کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وقت کا اقتدار انکا ساتھ دیگا اور یہ شرط تو کوئی بھی فریضہ انجام دینے کیلئے نہیں لگائی جا سکتی۔ فرض انجام دینے کے لئے اٹھنا ہے، اٹھنے کے بعد وہ فرض انجام دیا جا سکے یا نہیں یہ اٹھنے والی کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ایک شخص کو حج کرنے کی استچاعت ہے اس پر حج فرض ہے وہ تیاری کرتا ہے حج کو جانے کے لئے، اس کو کوئی گارنٹی نہیں دی سکتا کہ وہ حج پر پہنچ جائے گا، لیکن ان کو جانا ہے۔ یہ فرائض جو ہونے ہیں تو انکو ادا کرنے کیلئے شرطیں عائد نہیں کی جا تیں، اور مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ خلافت کا نظام قائم کریں، دین کو قائم کریں، جب تک دین قائم نہیں ہو گا مسلمان کی زندگی اسلام کے سانچے میں نہیں ڈھلے گی۔ آپ کے یہاں ہندوستان میں بڑ کا پیڑ ہوتا ہے اور ہمارے ہاں (کشمیر ) میں بڑ کی قدوقامت کا چنار ہوتا ہے، آپ بڑ کے پیڑ کے نیچے اس کے سائے میں کوئی آم کا پیڑ لگائیں وہ پنپے گا نہیں، چنار کے پیڑ کے سائے تلے اگر ہم سیب کا پیڑ لگائیں وہ پنپے کا نہیں۔ ٹھیک اسی طرح باطل کے سائے میں اسلام کا پیڑ نہیں پنپے گا، باطل کا سایہ جہاں ہوتا ہے، باطل اپنا سایہ پھیلاتا ہے۔ باطل کے سائے میںسورج کی روشنی بند ہو جاتی ہے، باطل کے سائے میں اسلام کی روح مردہ ہو جاتی ہے، باطل کے سائے میں مسجد کی چار دیواریاں بھی محفوظ بھی نہیں رہتی(جیسے بابری مسجد) اس لئے باطل کے سائے میں اسلام کے مطابق زندگی گزارنا ایسا ہی ہے جیسے کہ بڑ کے سائے میں آپ کوئی سبزی کا چمن لگائیں۔ اس لئے ضروری ہے جس دین کو ہم اپنا دین مانتے ہیں اس کے قیام کی ہم کوشش کریں اور خلافت کا نظام یہی کوشش ہے۔
جہاں تک غیر مسلموں کا سوال ہے ان سے یہ کہنا ہے کہ ہم قومی غلبہ نہیں چاہتے ۔ہم ایک اصول کی بالادستی چاہتے ہیں، اور اصول کسی قوم کی میراث نہیں ہوتے۔ سورج پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے، سورج چمکتا ہے کوئی خدا کو نہ بھی مانتا ہو لیکن سورج کی روشنی اسے بھی مل جاتی ہے۔ پانی پر کسی قوم کی اجارہ داری نہیں ہے، ہر ایک کے لئے ہے، سور جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے وہ بھی دریا پر جاکر پانی پی سکتا ہے۔ ہوا پر کوئی اجارہ داری قائم نہیں کر سکتا، جس طرح یہ نعمتیں ہیں ہیں اللہ کی ٹھیک اسی طرح اسلام بھی اللہ کی نعمت ہے، اور اس نعمت سے ہر انسان کو استفادہ کرنے کا موقع ہے۔ جب خلاف تک نظام قائم ہو گا تو یہ ضروری نہیں ہیں کہ آج کا کوئی مسلمان خلیفہ بنے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آج جو لوگ اسلام کے دائرے سے باہر ہیں وہ اسلام میں آجائیں اور وہی خلیفہ بنیں۔ حضرت عمر فاروقؓ رسالت کے ابتدائی دور میں مسلمان نہیں تھے وہ رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنے کے ارادرے سے نکلے اللہ نے ان کو اسلام کی نعمت سے نوازا اور وہ خلیفہ دوم بنے۔ تو یہ خلافت کا نظام ہمارے غیر مسلم بھائیوں کو گھبرانا نہیں چاہئے، انہیں خوف و ہراس میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ 
پھر تیسری بات ، کیا خلافت کی ضرورت ہے اس دور میں؟ : ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ دنیا کا انسان کیا چاہتا ہے؟ ہم دیکھیں گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ دنیا کا ہر انسان امن چاہتا ہے، خوشحالی اور فراغت چاہتا ہے، عدل و انصاف چاہتا ہے۔ یہ انصاف کی فطرت ہے ہے ، تو دیکھنا یہ ہے کہ یہ چیزیں ملتی ہیں آج کے زمانے میں؟ آج کے زمانے میں نظریات پیدا کئے گئے، یہی دعوہ لیکر نظریات سامنے لائے گئے کہ انسان کی امیدیں اور تمنائیں پوری کی جائیں گی۔ اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا میں کو مختلف نظریات لائے گئے کیا انہوں نے دنیا میں امن قائم کیا؟ آپ دیکھ لیجئے دو عظیم جنگیں دنیا میں لڑی گئیں، جنگ عظیم اول میں اور جنگ عظیم ثانی میں کتنی جانیں ضائع ہوئی ہیں، کتنا مالی نقصان ہوا اس کا کوئی اندازہ لگایا نہیں جا سکتا۔ لیگ آف نیشن وجود میں لائی گئی، مقصد تھا کہ یہ ادارہ دنیا میں امن قائم کرے گا اور اس کے سائے تلے دو عالمی جنگیں لڑی گئیں۔ اس کے بعد اقوام متحدہ (اصلاً جو اقوام متفرقہ ہے) کا ادارہ وجود میں لایا گیا، اس میں اس وقت ایک سو چوراسی (۱۸۴) ملک ہیں، آپ نے سنا ہو گا امریکہ کا صدر بھی اسے قبول کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کے وجود میں آنے کے بعد بیس ملین (بلکہ اس سے زیادہ) لوگ اب تک ہلاک ہو چکے ہیں، جو اقوام متحدہ امن قائم کرنے کی امیدوں کے ساتھ وجود میں لائی گئی تھی اس کے سائے تلے اس کی ناک کے نیچے بیس ملین لوگ اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ آج اقوام متحدہ پر اجارہ داری ہے، چند اجارادار ہین۔ پانچ ملک جن کے پاس ویٹو کا اختیار ہے۔ روس، چین، برطانیہ، فرانس اور امریکہ اسے ایک لونڈی کی حیثیت سے استعمال کر رہا ہے، اقوام متحدہ نے قراردادیں پاس کی فلسطین کے بارے میں، لیکن اسرائیل نہیں مانتا ، اور اسے کوئی نہیں چھوڑتا، اس کے ساتھ کوئی اقتصادی بائیکاٹ نہیں کرتا، اس لئے کہ وہ امریکہ کا پروردہ ہے، وہ امریکہ کا پالتو ہے۔ اور اسی طرح بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روند ڈالا، جو جموں و کشمیر کے ایک کروڑ  تیس لاکھ لوگوں کے بارے میں اقوام متحدہ نے پاس کی تھیں کہ انہیں (Right to Self Determination ) دیا جانا چاہئے، تاکہ وہ اپنے مستقبل کا تعین کر سکیں، لیکن بھارت نے اقتدار کے نشے میں طاقت کے بلبوتے پر ان قراردادوں کو روند ڈالا اور آج بھی ۶ لاکھ فوجیں کشمیر کی زمین پر انسانی کھوپڑیوں کے ساتھ فٹبال کی طرح کھیل رہی ہیں۔ اقوام متحدہ انصاف نہیں دے سکا، آج اقوام متحدہ ایک معچل ادارہ بن چکی ہے۔ 
دوسری امن کی کوشش یہ کی جارہی ہے کہ جمہوریت کو فروغ دیا جائے، اسے پروان چڑھایا جائے، تاکہ زندگی کے مسائل حل ہوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جمہوریت کے راستے سے جب الجزائر میں اسلام آگے آتا ہے تو جمہوریت کا راستہ روک دیا جاتا ہے کہ نہیں یہ جمہوریت ہمیں منظور نہیں، جس کے راستے سے اسلام سامنے آجائے۔ ترکی میں جن جمہوریت کے ذریعے اسلام آتا ہے تو اس کا راستہ روک دیا جاتا ہے۔ یہ جمہوریت بھی ایک فریب ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ    ؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے جوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری 
یہ تو ظلم کا دیو ہے، جس نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، اسی جمہوریت کے سائے تلے ہندوستان میں بقول مولانا اسعد مدنی  ؒ تیس ہزار مسلم کش فسادات ہوئے، اسی جمہوریت کے سائے تلے بابری مسجد کو شہید کیا گیا، جو لوگ شہید کرنے والے تھے انکی ساری کارکردگی اس وقت کے وزیر اعظم دیکھ رہا تھا، اس نے ایک گولی بھی نہیں چلوائی، جب مسجد کو شہید کردیا گیا اور مسلمان مجروح جذبات کے ساتھ سڑکوں پر نکل آیا تو بارش کی طرح گولیاں برسائی گئیں اور دو ہزار مسلمان شہید ہوئے، یہ جمہوریت ہے۔ ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۴ ؁ء کو اندرا گاندھی کو اپنے محافظوں نے قتل کیا وہ سکھ تھے، یہ کونسی جمہوریت ہے کہ ایک طرف سے پورے چار دن تک دہلی میں سکھ قوم کا صفایا کیا گیا، اور پانچ ہزار سکھ مارے گئے۔ اسی جمہوریت کے سہارے ہم سے کہا جارہا ہے کہ جمہوریت امن قائم کرے گی۔ جس جمہوریت نے انسان کے جان و مال کا، عزت و آبرو کا تحفظ نہ کیا ہو جس میں اعتقاد و ایمان کا تحفظ نہ ہو، جس میں لوگوں کی عبادت گاہ کا تحفظ نہ ہو وہ جمہوریت بے کار ہے، اس کے سہارے جیا نہیں جاسکتا، اس کا علاج سوچنا ہے۔ اور علاج اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ دین قائم ہو، خلافت علی منہاج النبوہ قائم ہواور یہ تو ایسا فریضہ ہے کہ اگر اس کے لئے ہماری جانیں قربان ہو جائیں تو اس سے بڑھ کر کوئی قیمت نہیں ہو گی کہ وہ دنیا کو امن دینے کیلئے ، ایک ایسا نظام لانے کے لئے قربانیاں دی گئی جو نظام عدل و انصاف کا واحد ضامن ہے۔ 
  نوٹ:یہ محترم مولانا سید علی گیلانی صاحب کی ایک تقریر  ہے۔ آیڈیو اور ویڈیو ٹیپ کی مدد سے اسے تحریری شکل میں قارئین کے پیش خدمت کیا جا رہا ہے ۔
(ابراہیم جمال بٹ)


Monday 10 March 2014

تکریمِ اساتذہ ............ یہ شئے نایاب ہے انمول عالم تاب ہے

٭ابراہیم جمال بٹ

.....................


آج کے اس دور میں جہاںمادّی منفعت اور خود غرضی کی بنا پر ہر رشتہ اور تعلق کی اہمیت مفقود ہوتی جارہی ہے، وہیں اُستاد اور شاگرد کے مبارک روحانی رشتہ کی اہمیت کم اور اس کاتقدس بھی پامال ہوتا جارہا ہے۔اس سلسلے میں اساتذہ سے اپنا مقام ومرتبہ سمجھنے میں کوتاہی ہورہی ہے ا ورطلبہ بھی ان کی قدر ومنزلت سے ناواقف ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے آئے دن طلبہ اپنے اساتذہ کے تئیں بدتمیزی اور گستاخی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اگرچہ اس بارے میں آج پوری دنیا کے ذی حس لوگ فکر مندتو ہیںمگر یہ روگ ہے کہ اس میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہاہے۔نتیجہ یہ کہ پورا تعلیمی ڈھانچہ اس قدر متاثر ہوا ہے کہ تعلیمی ادارے اور ان سے فارغ ہونے والے طلبہ بہت ساری خرابیوں کے موجب بن رہے ہیں۔ اگرچہ تعلیمی اداروں سے طلبہ عملاً مشین تو بن جاتے ہیں لیکن جس مقصد کے لیے تعلیم دی جاتی تھی وہ مقصد ان طلبہ میں نہیں پایا جاتا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :’’ تعلیم ایک ہنر ہے جس سے ماہرانِ خصوصی نہیں بلکہ انسان بنائے جاتے ہیں‘‘۔چنانچہ آج اسی صورت حال کا سامنا ہے، ماہرینِ خصوصی یعنی ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر اور سیاستدان تو بنائے جا رہے ہیں لیکن ان تعلیمی اداروںمیں انسان کی اصل تعمیر نہیں ہو پارہی ہے۔ روح کے سکون کا ایک ذریعہ تعلیم بھی ہے ، اور اگر صحیح معنوں میں یہ تعلیم ایک طالب علم کو نہ ملے تو انسان جانوروں سے بدتر صورت اختیار کر سکتا ہے، جس کا عملی نمونہ آج ہم خود بنے بیٹھے ہیں۔ ایک جگہ ایڈیسن لکھتا ہے : ’’سنگ مر مر کے ٹکڑے کے لیے جس طرح سنگ تراشی ہے ویسے ہی انسانی روح کے لیے تعلیم ہے‘‘۔ایک اور جگہ پر فروبل لکھتا ہے کہ: ’’تعلیم کا مقصد کھری، پُر خلوص، بے عیب اور پاک وصاف زندگی بسر کرنے کے قابل بنانا ہے‘‘۔علامہ اقبالؒ ایک جگہ فرماتے ہیں    ؎شیخ مکتب ہے اِک عمارت گراس کی صنعت ہے روحِ انسانیغرض تعلیم اگر صحیح معنوں میں ایک طالب علم کو دی جائے تو یہ واضح ہے کہ طلبہ کے ذریعے سے وہ عملی انقلاب آئے گا جس کا آج ذی حس انسان متمنی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آج کیا کچھ پڑھایا جا رہا ہے اور اس پڑھائی کے نتیجے میں کیا کچھ حاصل ہو رہا ہے…؟پڑھائی کا مقصد کیا بن چکا ہے…؟ اور مقصد کے حصول کے لیے کیا کیا عملی طور کیا جا رہا ہے…؟ ان جیسے سوالات کا اگر آج کے تعلیمی نظام کی روشنی میں جواب طلب کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ تعلیم بس ماہرانِ خصوصی بنانے کے لیے دی جارہی ہے اور وہ بھی ایسے ماہران بنائے جا رہے ہیں جن سے انسان نام کی چیز اس دنیا میں رہنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں استاد اگرچہ موجود ہیں لیکن استاد کے معنی کیا ہیں، استاد کا مقام کیا ہے، اور اس کے حقوق طلبہ اور طلبہ کے حقوق اساتذہ پر کیا ہیں ،اس سے آج کا طالب علم اور استاد دونوں کا دور دور کا کوئی واسطہ نہیں رہا۔ اس کی لا پروائی یا آزاد خیالی نے اس قدر تعلیمی نظام اور اس سے جڑے لوگوں کا کام ختم کر دیا کہ آٓج حقیقی معنوں میں نہ ہی کوئی اُستاد ہے اور نہ ہی کوئی شاگرد، یہ رشتہ کب کا اس دنیا سے نابود ہوچکا ہے۔ چنانچہ یہ رشتہ مثلِ باپ بیٹے کا جیسارشتہ تھالیکن آج اس رشتہ کو ختم کر کے اس عظیم اور پاک رشتہ کی جگہ آزاد خیالی کے نام پر ایک دوسرا رشتہ قائم کیا جا چکا ہے جس کے موجدبھی ہم خود ہی ہیں۔ آج زندگی کے دوسرے تمام شعبوں کی طرح تعلیم کے بارے میں بھی مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ کوئی آزاد خیالی کے علمبرداروں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر صرف اور صرف اپنے ذہن و گمان کو ہی جگہ دیتے ہو ئے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے اور کوئی آج کے اس نام نہاد دور ِجدید کا سہارا لے کر اپنے آپ کو ایک عملی مشین بنانے کی دوڑ میںلگ کر اسی مشین کی طرح اپنی زندگی کی گاڑی کو چلانا چاہتا ہے۔ تیسری جانب کوئی اس قدر تعلیم میں مست ومگن ہو چکا ہے کہ اسے صرف اور صرف اپنی فکر اور اپنے سوچ کی بالادستی کا خیال رہتا ہے۔ دین ومذہب کا انسانی زندگی میں کیا مقام ہے اس جانب یہ سارے طبقہ ہائے طلبہ کم ہی دیکھتے ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ انسان اس قدر مذاہب اور دین کو بالائے طاق رکھ کر اس تعلیمی نظام کی رنگینیوں میں مست ہوچکے ہیں کہ وہ ڈاکٹر اور انجینئر تو بن رہے ہیں، وہ سائنس دان اور سیاست دان بھی بن رہے ہیں، پروفیسر اور فلاسفر بن رہے ہیں، لیکن ایک انسان جو تعلیم کا اصل مقصد تصور کیا جاتا تھا نہیں بن پا رہے ہیں۔ آج تعلیمی اداروں میں دھنگے فساد ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ قتل وغارت گری بھی ہو رہی ہے ،یہ نتیجہ ہے کہ تعلیم کے اصل مقصد کو پس پشت ڈال کر اپنی ’’آزاد خیالی‘‘ کابھرم قائم کر نے کا۔ شاگرد اگرچہ آج بھی طالب علم اور شاگرد (Student)ہی کہلاتا ہے لیکن ان دونوں کے درمیان جو رشتہ قائم ہونا چاہیے تھا وہ مقدس رشتہ آج کی دنیا میں لگ بھگ کہیں نہیںپایا جاتا۔ اُستاد جو روحانی باپ کے مرتبہ پر فائز تھا، اسے چند روپیوں کے عوض ایک ملازم تصور کر کے اس سے ملازمت کروائی جاتی ہے۔ دوسری جانب اساتذہ بھی اپنے مقصد اور مرتبہ سے اس قدر دور نکل چکے ہیں کہ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ’’کس طرح کہاں سے پیسہ آتا ہے ، وہ اپنے آپ کو ملازم ،اور شاگرد کو پیسے دینے والا مالک بنا دینے میں ہی اپنی  بھلا سمجھتے ہیں۔جس کے نتیجے میں آزاد خیال طالب علم نہ تو گھر کا ہو پاتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ کے۔گھروں میں اپنے ماں باپ کا سہارا بننے کے بجائے یہ طالب علم ان کو ایک مقام پر بوجھ تصور کرتے ہیں اور انہیں اپنے ہی گھروں سے دھکے مار مار کر یا تو نکال باہر کر دیتے ہیں یا انہیں اس طرح جینے پر مجبور کر دیتے ہیں ،وہ نہ تو اپنے گھر کے رہتے ہیں اور نہ ہی گھر کے لوگوں کے۔ اسی طرح ایک استاد بھی اس معاشرے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہا ہے ، وہ بھی نہ تو اس تباہی سے خود بچ پاتا ہے اور نہ ہی اپنے زیر تربیت طلبہ کو بچا پاتا ہے۔ یہی سوچ ہے جو آج کی اس دنیا میںپنپ رہی ہے اور اسی سوچ کے نتیجے میں آج ہم اپنے گھر اور معاشرے کی تباہی کا نظارہ کر رہے ہیں۔ بایں ہمہ اس میںایک گہری تبدیلی آسکتی ہے لیکن پہلے اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا۔ طریقہ تعلیم اور نظام تعلیم کو بدلنا ہو گا، ہر ایک شخص کو وہ مقام دینا ہو گا جو اس کا ازل سے ابد تک متعین ہے، اور ہر اس محدودو لایعنی خیال سے اپنے آپ کو آزاد ہو کر اس لامحدودہستی کو بسر وچشم تسلیم کرنا ہو گا جس کی لامحدودیت میںہی انسان اور انسانیت کی بقا اور کامیابی کا راز مضمر ہے۔ اور یہ سب کچھ آج بھی مذہبی اور دینی تعلیمات میں موجودہے۔ اصلاح احوال کی مخلصانہ نیت ہو تو اس جانب توجہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دین و دنیا کی تفریق ختم کر کے ایک ایسا تعلیمی نظام کا قیام ضروری ہے جس سے انسان کی تعمیر سیرت ہو سکے، ہنر مندی کے ساتھ ساتھ دیانت داری اور امانت پسندی کا ایک نمونہ قائم کیا جاسکے، جس سے ایک دھوکہ باز سیاست دان کے بجائے ایک باکردار اور باادب سیاست دان پیدا ہو جائے، ایک ایسا ڈاکٹر اور انجینئر پیدا ہوسکے جو لوگوں کا علاج اور ان کی تعمیر وترقی نہ صرف اپنا ذریعہ معاش بنائے بلکہ اس کے لئے اس کا ہر کام عبادت کا مرتبہ پا جائے۔ استاد اپنے شاگردوں کا روحانی باپ جیسا بن کر ان کی روحانی تربیت کا ذریعہ بن جائے اور اس طرح اپنی تعلیم سے شاگرد کو آراستہ کر دے کہ وہ شاگرد ماہر بھی بن جائے اور انسان بھی باقی رہے۔چنانچہ اس ضرورت کے پیش نظر سب سے پہلا کام معلّم کی ہے، معلم صحیح تعلیمات سے آراستہ ہو گا تو طالب علم بھی صحیح تعلیم کے نور سے منور ہو پائیں گے اور اگر استاد ہی اصل اور حقیقی روحانی تعلیم سے نابلد ہو تو اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہماری تربیت کے بجائے ہماری تباہی کے ہتھیار ہی بن جائیں گے۔ حق یہ ہے کہ اسلام ایک ایسادین ہے جس کا اپنا ایک نظام تعلیم ہے۔ اس سسٹم اور طریقہ کار کے نتیجے میں کس قدر لوگوںکا جنم ہو چکا ہے اس سے تاریخ کے اوراق سنہرے الفاظ سے بھرے پڑے ہیں۔ اسلام کے اس تعلیمی نظام میں معلم کا اپنا ایک درجہ ہے۔ وہ طلبہ کا روحانی باپ ہے اور ملت کا معمار بھی۔ آئندہ نسلوں کی سیرت سازی اسی کے ذمہ ہے اور مستقبل کے شہریوں کا بننا اور بگڑنا بہت حد تک اسی کی کوششوں اور فکر پر منحصر ہے۔ چنانچہ اس اہم منصب کے لحاظ سے ایک معلّم کے اعلیٰ اوصاف ہونے چاہییں۔ معلم کے اوصاف اعلیٰ ہوں گے تو طلبہ کے اوصاف پر ان کی چھاپ پڑے گی اور اگر معلم اوصاف ِحمیدہ سے خالی ہو تو طالب علموں کی کھیپ سے اعلیٰ اوصاف کا حامل انسان نکل آنا مشکل ہے۔ معلم اعلیٰ سیرت وکردار کا حامل ہونا چاہیے، اس میں علمی لیاقت اور تدریسی صلاحیت کے ساتھ ساتھ بچوں کی نفسیات اور طریقِ تعلیم سے واقفیت بھی ہونی چاہیے۔ ایک معلم میں صبر وتحمل، معاملہ فہمی ، قوتِ فیصلہ، طلبہ سے فکری لگائو، خوش کلامی اور مؤثر اندازِ بیان ہونا چاہیے۔ اس کے کام میں اخلاص اور لگن، ہمدردی اور دل سوزی اور اصلاح کے جذبہ کے ساتھ ساتھ نظم وضبط قائم کرنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔ یہ صفات اور لوازمات لازم وملزوم ہیں اور یہ وہ ضروری اوصاف ہیں جنہیں ہر معلّم کو اپنے اندر پروان چڑھانے کی ضرورت ہے کیوں کہ ان کے بغیر اصل اور حقیقی تعلیم وتربیت جیسا کام نتیجہ خیز ہو ہی نہیں سکتا     ؎سبق پھر پڑھ صداقت کا، شجاعت کا، عدالت کالیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کاان حالات میں سماج میں بیداری مہمات چلانے کی اگرچہ ضرورت ہے لیکن ساتھ ساتھ اس میدان میں عملی طور اُتر کر وہ کچھ کرنے کی کوشش بھی ضروری ہے جس کا ایک عام انسان آج متمنی ہے۔ ایسے میں وادی کشمیر میں طویل مدت سے طلبہ تنظیم ’’اسلامی جمعیت طلبہ جموں وکشمیر‘‘ نے جو24تا30مارچ2014 تک ایک ریاست گیر’’ احترام اساتذہ ‘‘مہم چلائی جا رہی ہے،وہ قابل صد تحسین ہے۔ اس کے ذریعے حتی الوسع ریاست بھر کے تعلیمی اداروںاورکوچنگ سینٹرز میں خطابات، مکالمات، پوسٹرز،بینرزاورفولڈرزکے ذریعہ طلبہ میں یہ احساس زندہ کر نے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ اساتذہ ہمارے انبیاء علیہم السلام  کے  وثاء ہیں،وہ دنیائے انسانیت کے درخشاں ستارے ہیں۔ ان کے اندر یہ جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اساتذہ کی عزت ہماری دینی روایت ہے اور یہ ہماری تہذیب کا ایک اہم حصہ ہے،تاکہ پھر سے اساتذہ اور شاگرد کا باہمی رشتہ مربوط ہوجائے،باہمی محبت واحترام زندہ ہوجائے، ان کی اصل ساکھ کو از سرنو بحال کر کے انہیں اپنا مقدس مقام مل سکے۔اگرچہ اس مہم کا اپنا ایک الگ انداز اور وقت ہے  تاہم اس میں فی الحال مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مہم سے اس مسلسل کام کے لیے ایک تحریک ملنا ممکن ہے، یہاں وادی کشمیر میں جو طلبہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں انہیں اس کام میں آگے آنا ہو گا، بلکہ اسلامی جمعیت طلبہ جموں وکشمیر کو اس کام کے لیے اُنہیں ’’تعانوا علی البر والتقویٰ‘‘ کے اصول پر اپنے کام میں شامل کر کے یا اس میں مدد ومعاونت کی ضرورت کے پیش نظر انہیں اس کام میں لانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی اس کارخیر میں شمولیت کی دعوت دینی چاہیے جو اگرچہ اس میدان سے وابستہ نہیں ہیں لیکن عملاً اگردیکھا جائے تو وہ بھی اس معاشرہ سے وابستہ ہیں جس میں آج ہمہ گیر تباہی مچی ہوئی ہے۔ ان سے سخنے،قدمے، درہمے اورقلمے آکر اس ریاست گیر مہم میں معاونت کی اپیل کر کے ان کو اس اصلاحی تحریک میں شامل کرنا چاہیے۔ اس تحریک کو عام لوگوں تک پہنچانے کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ کام صرف طلبہ اور اساتذہ کا نہیں ہے بلکہ یہ کام یہاں بس  رہے لوگوں کو کام ہے، بچوں سے لے کر نوجوانوں تک سارے اس معاشرے کے پُرزے ہیں اور ایک ایک پرزہ اپنے اپنے کام پر لگ جائے تو مشین اور گاڑی کا کسی ویران مقام پر چلتے چلتے بیٹھ  جانا ناممکن ہے    ؎شیخ مکتب ہے اِک عمارت گراس کی صنعت ہے روحِ انسانی
٭٭٭٭٭