Sunday 30 November 2014

آفاتِ سماوی بنام عوام الناس

٭ابراہیم جمال بٹ......................
ماہ ستمبر ۲۰۱۴؁ء کو جب میں نے اپنا جلوہ دکھایا تو لوگ یا تو مجھے مذاق تصور کرتے تھے یا اپنے گھمنڈ اور غرور کے شکار ہو کر اپنی ہی من مانیوں میں مست تھے، ایسے میں جب میں نے اپنا سخت اور تاریخ ساز جلوہ دکھایا تو ڈر کے مارے لوگ یا تو بھاگ گئے یا اپنے مال و جائداد کی محبت میں اپنے ہی گھروں میں ٹکے رہے، اور پھر جب میں چڑھتا ہی گیا تولوگ بھاگنے کا راستہ بھی نہ پائے۔ دراصل میرا ایک اصول ہے وہ یہ کہ میں آنے سے قبل ’’باخبر‘‘ نہیں کرتا ، میری آمد ایک اشارے کی محتاج ہوتی ہے اور جوں ہی مجھے اشارہ مل جاتا ہے اُسی دم میری آمد آمد ہو جاتی ہے۔ لیکن یاد رہے میری آمد یوں ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے ایک راز چھپا ہوتا ہے جس کو جاننے کے لیے انسان کے پاس چابی مہیا رکھی گئی ہے۔ وہ جب چاہے یہ راز کھول کر اپنی جگہ معلوم کر سکتا ہے کہ ’’میری آمد کی آخر وجہ کیا تھی۔‘‘ گزشتہ ماہ کی پہلی دہائی میں جب میں نے اپنی آمد کا اشارہ دیا تو وادی کے لوگ معمول کے مطابق اپنی زندگی جی رہے تھے، کوئی کاروبار میں مست تھا تو کوئی ملازمت کی ذمہ داری میں محو، سکولی بچے امتحانات کی تیاری کر رہے تھے اور کئی لوگ شادیوں کی تیاریوں میں بھی مست تھے، ایک طرف لوگ فصلوں کی تیاری دیکھ کر کٹائی وغیرہ کی سوچ رہے تھے تو دوسری جانب لوگ سردی کے موسم کے لیے انتظامات میں لگے ہوئے تھے… اچانک میرا اشارہ محسوس کیا گیا… لوگ آپس میں چہ میگوئیاں ہی کر رہے تھے کہ میں نے نہ آئو دیکھا اور نہ ہی تائو ،بس چڑھ گیا، جہاں اشارہ مل چکا تھا وہاں کی راہ لی،اور چڑھتا ہی گیا، لوگ دوسری سے تیسری اور تیسری سے چوتھی منزل کی جانب سفر کرتے رہے، لوگ بھاگتے گئے اور میں برابر پیچھا کرنے میں مست تھا۔ یہ میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں ، بلکہ حکم کی تعمیل تھی، جس حکم کی تعمیل کے آگے کسی اور کا حکم مجھ پر نہیں چلتا… مجھے حکم ملا اور میں نے ’’آمنا واطعنا ‘‘کہہ کر سرتسلیم خم کر دیا۔ جب میں آیا تو وادی کشمیر میں اس سے قبل کی حالت اور تھی اور اب میرے لوٹ جانے کے بعد حالت کچھ اور ہی ہے۔ میرے آنے سے قبل وادیٔ کشمیر کے بازار کس طرح چمک دمک رہے تھے یہ سب کو معلوم ہے اور آج بازاروں اور اس میں تجارت پیشہ دکانداروں وغیرہ کی حالت کیا ہے اس سے بھی آپ بخوبی واقف ہیں۔ جہاں دکانوں سے خوشبو آرہی تھی آج ایک عام انسان وہاں سے گزر کر اپنی ناک پر رومال رکھ کر چل رہا ہے، گویا خوشبو بدبو میں تبدیل ہو گئی۔ شاید اسی کا نام دنیا ہے، شاید دنیا کی اصل حقیقت یہی ہے۔ بہر حال میری آمد تو ہوئی اور آخر کار میرا ہاتھ اور میرے پیر رُک گئے، مجھے بھی آخر کار رُکنا پڑا… اپنی مرضی سے نہیں بلکہ پہلے ایک حکم نامہ ملا اور میں چڑھ دوڑا اور اب پھر حکم ملا تو میں مکمل طور سے رُک گیا۔ لیکن اس بیچ کیا سے کیا ہو گیا… اس کا اندازہ بھی لوگوںکو نہیں تھا۔ اب جو ہوا سو ہوا، ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، لیکن کیا اسی پر بس کیا جائے یا اس پر سوچ کر کچھ کیا جانا چاہیے۔ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ جب بھی اسے کسی مشکل حالت کا سامنا پڑتا ہے تو وہ پہلے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے، جب مشکلات کے بھنور میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے تو کئی لوگ اپنی ہار تسلیم کر کے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ اس وقت یہ ہتھیار ڈال دینا انسان کے لیے فائدہ مند مانا جاتا ہے۔ کیوں کہ جس قدر جو طاقت ہو اسی کے لحاظ سے انسانی ردعمل کا اظہار ہوتا ہے۔ وادی کے لوگوں پر جب مجھے بھیجا گیا تو پہلے پہل لوگوں نے یہی طریقہ اختیار کیا، انہوں نے اپنے گھروں میں رہ کر ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ٹھان لی لیکن جب پانی سر سے اُوپر ہو گیا تو لوگوں کی عقلمندی اسی میں تھی کہ وہ ہتھیار ڈال دیتے، لیکن کیا کیا جائے کہ اکثر لوگ اب بھی ہتھیار ڈالنے کی نہیں سوچ رہے ہیں۔ اپنی من مانیاں کرنے میں ہی مست ہیں۔ یہ صرف اس وجہ سے کہ شاید وہ سوچ رہے ہیں کہ یہ ایک عارضی معاملہ تھا سو معاملہ اب ٹل گیا، جان بچ گئی، اب پھر شروع کریں گے۔ لیکن ان کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ جس حکم کی تعمیل میں میں نے یہ سخت ترین جلوہ دکھایا وہ پھر واپس بھی لوٹے گا، اسی کا حکم ایک بار پھر آسکتاہے، ایک بار پھر میری آمد دوسرے طریقوں سے ہو سکتی ہے، اس وقت میرا مزاج کیا ہو گا اس کا اندازہ کرنا ہی مشکل ہے، اس وقت یہ ہتھیار نہ ڈالنے والے وادی کشمیر کے لوگ مشکلات کے بھنور میں پھنس جائیں گے، آج اگرچہ ایک موقعہ مل چکا ہے ،یہ ضروری نہیں اس وقت پھر سے موقعہ مل جائے۔ تو یہ ایک مہلت تھی جو تم لوگوں کو دی گئی، اب اگر اس مہلت میں بھی من مانیاں جاری رکھ کر حاکم کے آگے ہتھیار نہ ڈالے تو نہ جانے آنے والا کل ہمارا کیسا ہو گا۔ وہ کل جس کے متعلق اب افواہوں کی صورت میں آئے روز اخباروں میں شائع ہورہاہے کہ ’’عنقریب ایک زلزلہ آئے گا جس میں جانی ومالی نقصان کا بھاری خدشہ ہے۔‘‘ غرض یہ ہے کہ ہتھیار ڈال دیا جائے، اپنی من مانیاں ترک کی جائیں اور جس نے مجھے آپ پر چڑھنے کا حکم دے کر پھر ایک موقعہ عنایت فرمایا اس کے آگے سرتسلیم خم کر دیا جائے۔ یہی ایک راستہ ہے جس راستے پر چل کر ہماری آنے والی مشکلات کا ازالہ ممکن ہے۔ ورنہ یوں ہی اگر زندگی من مانیوں کی پٹری پر چلتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب میرا جلوہ اس قدر سخت ترین ہو گا کہ نہ تم رہو گے اور نہ ہی تمہاری یہ من مانیاں۔ لوٹ آئو، لوٹ آئو !ورنہ ایک ایسا طوفان آنے والا ہے جس کی زد میں آکر کوئی نہیں بچ سکتا۔ مصیبت ٹال کر یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم پست ہو گئے بلکہ عقلمندی یہی ہے اور عقل مند لوگوں کی   اصل بہادری یہی ہے کہ وہ اپنی خطا تسلیم کر کے ہتھیار ڈال دیں۔ اس لحاظ سے وادی کشمیر کے لوگوں سے میری دردمندانہ اپیل اور گزارش ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی ’’اَنا‘‘ کو چھوڑ کر، اپنی من مانی زندگی کو ترک کر کے، ایک مالک کے حکم کی تعمیل کریں تاکہ پھر سے ہمارے لیے آفات کا دروازہ نہ کھل پائے۔ میری گزارش بس ایک امید پر ہے کہ شاید آپ سمجھ جائیں۔ باقی والسلام          ٭٭٭٭٭