Friday 13 May 2016

مضطرب فرد منتشرسماج خودفراموشی کی اندھی دوڑ ہے



مکان جل رہا تھا اور نہ صرف عام لوگ بلکہ وہ افرادِ خانہ بھی جنہوں نے اس گھر کی تعمیر کی تھی، اس کو ہر حیثیت سے مزین کیا تھا ، اس کے مالکانہ حقوق ان کے نام تھے،بھی اس آگ کا دور سے تماشا دیکھ رہے تھے…! کیا کبھی آپ نے ایسی حالت دیکھی یا سنی ہے…؟ اگر دیکھی ہے تو آپ کو ضرور عجیب سا لگ گیا ہو گا لیکن ایسی حالت سے آپ کو سامنا نہیں کرنا پڑا تو میری یہ بات ذرا غور سے سنئے کہ ایسا ہونا آج کی دنیا میں کوئی عجیب واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے واقعات اب آئے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ یہ نہ صرف وادیٔ کشمیر میں بسنے والے لوگوں کی حالت ِزار کی تصویر ہے بلکہ یہ اور اس جیسے واقعات عمومی طور پر ہرزوال آمادہ ملک اور ہرروبہ تنزل قوم میں عیان وبیاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہاں ،ا س کو دیکھنے  اور تاڑنے کے لئے چشم بصیرت اور دیدہ ٔ بینا چاہیے ۔ اس غلط روش کی وجوہات کیا ہیں؟ بالفاظ دیگر ایسا کیوں ہو رہا ہے…؟ ان سوالات کا جواب ذی حس اور باہوش لوگ تلاش کریں تو کیا کچھ معلوم نہیں ہو سکتا۔ پوری دنیا کی بات کریں تو ایک لمبی بحث چھڑے گی اور ہمیںبہت ساری مثالوں میں غرق ہو نا پڑے گا ۔ اب طوالت کو اختصار کی قنچی سے کا ٹ کاٹ کے اگر برصغیر کی ہی بات پر محدودرہیں تو اس کے لیے بھی ورق ہا ورق کم پڑیں گے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ اول خویش بعد درویش کے مصداق ہم اپنی سرزمین یعنی وطن ِ عزیز کشمیر کی بات کریں تو کسی حد تک ان سوالات کا جواب معلوم کر نے کے لئے سوچ بچار کے سمندر میں فکر کا سفینہ ڈال کر حالات کی لہروںسے اخذ کر سکتے ہیں کہ ایسا کیوں اور کس لیے ہو رہا ہے…؟ ممکنہ طورایسے سوالات کا تشفی بخش جواب مل سکتا ہے، باایں ہمہ تڑپ یہ ہونی چاہیے کہ انسانیت کی بابت دردِ دل ہمارے وجود کے بحر میں موجزن رہے  تب ہی ہم ان جوابات یہ سب مستفید ہو نے کی امید کرسکتے ہیں۔ 
ا نفراد ی حالت: 
اپنے گھر کا معاملہ ہی دیکھیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے ہر فرد میں بس ایک چیز رچی بسی ہے کہ کس طرح مال وجائیداد میں اضافہ ہو، کس طرح نوکری ، گاڑی اور دیگر سامان تعیش میسر ہوں… تاہم اس کے لیے ہر سطح کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن گھر کا نظام بگڑ رہا ہے… گھر جل رہا ہے… گھر کے ہر فرد میں خدا فراموشی کے جرثومے جنم لے ر ہے ہیں، ماں باپ ہی نہیں، بھائی بہن بھی گھر سے بے گھر ہو رہے ہیں۔ بیٹا بیٹی کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کی ملکہ ’’بیوی‘‘ بھی گھر سے بغاوت کر کے گھر میں فساد کی موجب بن رہی ہے، ہر طرف مادی دوڑ دھوپ ، جذبۂ مسابقت اوراخلاق باختگی کی آگ ہی آگ ہے جو ہمارے گھروں میں لگ چکی ہے… یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق گھر کا ذمہ دار یا خانہ دا ریہ سب کچھ دیکھ کر بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے بلکہ دور کا تماشائی بنا اس سب کا نظارہ کھلی آنکھ سے کر رہا ہے۔ گویا گھر کا ذمہ دار اپنی بربادی پہ  بے فکری کی نیند سو رہا ہے اور لا اُبالی پن سے بغیر کسی ند امت وپشیمانی کے اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ رہی ہماری انفرادی حالت کی ایک خفیف جھلک ۔
اجتماعی حالت: 
گھر کے بعد اپنے علاقے، اپنے محلے، اپنے گائوں، اپنی ریاست اور اپنے آس پاس کے انبوہ ِ انسانی پر نظر دوڑاتے ہیںتو اسی فساد و بے نیازی کی بو ہر مقام پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ گھر میں فساد، علاقہ میں فساد، دفتروں میں لوٹ مار، قریہ قریہ خون خرابہ، دکانوں، کارخانوں، سرکاری وغیر سرکاری اداروں حتیٰ کہ ایسے اداروں جہاں انسان کے اخلاق کی تعمیر ہوا کرتی تھی، جہاں آدمیت کی نشوونما ہوا کرتی تھی، جہاں انسان بطور انسان بن کر جینے اور رہنے کے قواعد سیکھتا ، وہاں بھی صدارتوں ،امارتوں اور مال پر ہاتھ مارنے کے فتنے فساد پنپ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اورانسانیت کی معماری کے دعوے دار بس تماشا بین بنے ہوئے ہیںاور کہیں بحالت مجبوری کہیں بر ضا و رغبت سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر رہے ہیں، حال یہ ہے کہ ان کے چہرے مہرے کے تاثرات سے ایسے لگ رہا ہے جیسے کچھ غلط ہوہی نہیں رہا ہے۔ 
آخر ایسا کیوں…؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کیا جا سکتا ہے اور کیا بھی جانا چاہیے، مگر تب ہی ممکن ہے جب ہم اس ہمہ گیرآگ کو بجھا سکتے ہوں یا اس کی تڑپ رکھتے ہوں۔ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ آگ کی فطرت جلانا ہے تب تک اس سے کوئی خوف اور غم لاحق نہیں سکتا، بچہ ِاس آگ سے ناواقف ہوتا ہے، اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ آگ ہر چیز کو جلا دیتی ہے، اس کا کام ہی ہر شئے کو خاک میں ملا دینا ہے۔جب یہی حالت ایک ذمہ دارشخص اور قوم کی بھی ہو جائے، تو برابر اسی صورت حال کا سامنا ہونا لگ بھگ طے ہے۔اس شخص کے اندرون میں ہی نہیں بلکہ بیرون میں بھی اسی آگ کے شعلے بھڑک اٹھیں گے۔ ہاں اگر پہلے سے معلوم ہو جائے کہ آگ کا کام جلانا ہے، آگ کا کام خاک میں ملانا ہے، آگ کا کام بادشاہی سے فقیری میں تبدیل کرنا ہے، آگ کا کام ہر بنائی ہوئی چیز کو نیست ونابود کرنا ہے، تو ہم انتھک کوشش کریں گے کہ اس آگ سے کہیں سابقہ ہی نہ پڑے۔ اس آگ کے نمودار ہونے کے بعد پھر ہم کاہے کو تماشا بین بنیں گے ؟۔ اس لئے بہتر بلکہ ا فضل ترین یہی ہے کہ اس سوال کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے کہ آگ کیوں لگی، بحث ومباحثے کے لئے نہیں ، تقریر بازی کے لئے نہیں ، چندہ پیٹیاں بھر نے کے لئے نہیں ، انجمن سازی کے لئے نہیں،  اکیڈمک ڈسکورس کی کتابیں اور رپورٹوں سے لا ئبرئریون میں سجانے کے لئے نہیں بلکہ ایک جذبہ ٔ دل اور ایثار کے چھڑکاؤ سے اس آگ کو صرف بجھانے کے لئے تاکہ انسانیت فساد کی آگ سے بچائی جا سکے۔ ایک انسان جب صبح گھر سے کام دھندے، ملازمت، یا کسی اور غرض کے نکلتا ہے تو اس گھر سے نکلتے وقت اسے معلوم ہونا چاہیے کہ گھر کے تئیں میری ذمہ داریاں کیا کیا ہیں؟ وہ ساری ذمہ داریاں ادا کر کے اگر گھر سے نکل پڑے تو اس گھر میں فساد برپانہیں بلکہ اس گھر کے اندرون کے ساتھ ساتھ بیرون بھی باقی علاقہ میں رہنے والے لوگوں کے لیے خوشبو پھیلانے کا باعث بن سکے گااور اگر اپنی ذمہ داریاں گھر کے مالک ہی بھول گیا تو اس گھر میں آگ نہیں تو اور کیا ہوگا؟ اسی طرح جو گھر آٹھوں پہر گھر کی ملکہ کا دارلسلطنت ہے اسے بھی اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ خاوند کے گھر سے نکلتے ہی میری ذمہ داریاں کیا کیا ہیں؟ میں اپنے گھر کی ہی نہیں بلکہ اس میں پل رہے بچوں کی بھی نگہداروذمہ دار ہوں ۔ اپنی عزت وعصمت کی حفاظت کرنا، اپنے خاوند کے مال وجائیداد کا خیال رکھنا، یہ سب میری اپنی کلیدی ذمہ داریاں ہیں۔ جب بیوی ایسے انداز سے گھر کی ملکہ بنتی ہے تو وہ گھر آگ کی شکار نہیں ہو سکتا۔ برابر اسی طرح جب گھر سے بیٹا یا بیٹی سکول کالج کے لیے نکلے تو اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں، وہاں جانے کا مدعا ومقصد کیا ہے، وہاں کس وقت تک رہنا ہے اور وہاں سے کب واپس گھر کی جانب لوٹ کر آنا ہے۔ انہیں جواب دہی اور احساس ِ ذمہ داری ہونی چاہیے۔ انہیں اپنی ذمہ داری کا خیال رہنا چاہیے، انہیں اس بات کا شوق وجذبہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو ہی علم کے نور سے منور کرنے کے لیے نہیں بلکہ گھر ،اپنے آس پاس کے ماحول کو اخلاقیات کی خوشبوؤں سے معطر کرنے کے لیے بھی اپنے گھر سے نکلے ہیں۔ ہماری زندگی ایسی گزرنی چاہیے کہ ہمیں دیکھ کر باقی پڑوسی و دیگر ہماری طرف دیکھ کر محسوس کریں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اپنی اپنی صحیح طور ذمہ داریاں ادا کرنے سے ہی بدامنی مٹ سکتی ہے، امن برپا ہو سکتا ہے۔خالی نعرے اور خیالی باتیں، خشک وعظ ونصیحت، خالی پریس بیانات وغیرہ سے نہ تو معاشرہ فساد سے بچ سکتا ہے اور نہ ہی بدامنی کو امن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔  
email: ibrjamal38@gmail.com