Thursday 22 December 2016

انسانیت کی پکار اندھیرا چھاگیا روشنی کہاں سے لاؤں

ابراہیم جمال بٹ’’جو خدا رات کی تاریکی میں سے دن کی روشنی نکال لاتا ہے اور چمکتے ہوئے دن پر رات کی ظلمت طاری کر دیتا ہے، وہی خدا اس پر بھی قادر ہے کہ آج جن کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر ہے ان کے زوال و غروب کا منظر بھی دنیا کو جلدی ہی دکھاوے، اور کفر وجہالت کی جو تاریکی اس وقت حق وصداقت کی فجر کا راستہ روک رہی ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے حکم سے چَھٹ جائے اور وہ دن نکل آئے جس میں راستی اور علم ومعرفت کے نور (فضا)سے دنیا روشن ہوجائے۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباس جس سے خدا ذو الجلال والاکرام کی بڑائی اور عظمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خدا کی ذات ایسی طاقتور ذات ہے کہ جسے چاہے حکومت وطاقت دے ۔۔۔جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذِلت کا شکار کر دے۔۔۔ کیوں کہ اسی کی قدرت میں خیر کی کنجی ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے ۔
اقتباسِ مذکورہ میں تاریخِ انسانیت کا ایک ایسا کھلا باب ہے جسے پڑھ پر ہر ایک شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ جب بھی کبھی کوئی قوم یا گروہ اس عارضی وفانی دنیا میں طاقت بن کر نمودار و غالب ہوا تو اس غلبے کے بعد وہی قوم وگروہ کیسے زوال وغروب کے شکار ہو گیا۔ جو طبقے و اقوام اس دنیائے فانی میں ’’سپر پاور‘‘ جیسے ناموں سے پکارے جاتے تھے انہی قوموں پر زوال وغروب نے ایسے راہ بنائی کہ وہ اقوام ہی نہیں بلکہ عام لوگ بھی دیکھتے ہی رہ گئے۔
اس اقتباس سے اُمید کی ایک کرن بھی دکھائی دے رہی ہے۔ اُمید اس بات کی کہ کفروجہالت کی تاریکی سے جو آج اندھیرا چھایا ہوا ہے، جس کی وجہ سے دنیائے انسانیت اندھیرے کا شکار ہو چکی ہے۔ ہر طرف بدامنی اور بداخلاقی کا دور دورہ دکھائی دیتا ہے،انسانیت اگر سنبھل جائے، انسان بحیثیت انسان اگر سمجھ جائے کہ اس کی اس عارضی وفانی زندگی جو جہالت وتاریکی کی نظر کر دی گئی ہے، آئندہ آنے والے دور میں اس کی اس موجودہ غلامی سے نجات حاصل ہو جائے گی۔ اسے علم ومعرفت کے نور سے اس قدر جلا ملے گی کہ وہ بدامنی سے نکل کر امن کی شاہراہ کو پا لے گا، اسے حیوان نما ہوس پرست حکمرانوں کی حکمرانی سے نجات مل جائے گا۔
چنانچہ حال ہی میں عالمی تناظر کے حوالے سے ایک ایسی خبر سامنے آئی کہ دنیا اور اس میں رہنے والے لوگ دیکھتے ہی رہ گئے۔ ’’ناپسندیدہ ذات پسندیدہ ذات کے طور پر تسلیم کی گئی‘‘ عالمی ’’پولیس مین‘‘ کا کردار ادا کرنے والے متحدہ امریکہ کا نیا صدر ’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ جس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ امریکی صدارتی انتخابات میں اس کی جیت ناممکن ہے، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ’’ٹرمپ‘‘ قصر ابیض کا مکین ہو گیا۔ دنیا کے مالدار ترین شخص ڈونلڈ ٹرمپ ’’رہاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے‘‘۔ برابر اسی طرح جس طرح بھارت میں 2014ء میں ہوئے انتخابات میں ایک ایسے شخص وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہو گئے جنہیں اس سے قبل ’’دنیا کے دس ظالموں اور قاتلوں‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ جنہوں نے گجرات فسادات میں خون خرابہ کاماحول پیدا کر دیا تھا، جس میں سینکڑوں مسلمانوں کی جانیں تلف ہو گئیں۔ ’’ہندو راشٹر‘‘ کا دم بھرنے والے اس ’’صاحبِ براجمان‘‘ نے آر ایس ایس کے رنگ میں پورے بھارت دیس کو رنگنے کا ایک ایسا پروگرام مرتب کیا ہوا ہے کہ پورا بھارت جو جمہوریت اور سیکولرازم کا دم بھرتا ہے ، کا جنازہ ہی نکلا جا رہا ہے۔ آج اسی صورت حال کا اکثر وبیشتر ممالک پرسامنا ہے۔ یہ بات کسی نے بہت ہی اچھی کہی ہے کہ ’’آج جو دنیا میں طاقتور قومیں کمزوروں کو نگل لیتی ہیں اور جو بڑے اور وسیع و عریض رقبہ رکھنے والے ملک چھوٹے اور محدود وسائل والے ملکوں کو اپنا غلام اور باجگذار بنالیتے ہیں۔ یہ سب وطنیت ۔۔۔قومیت ۔۔۔جمہوریت اور سیکولرازم کے زہریلے ثمرات ہیں اور اسی کے نتیجے میں دنیا کے گوشے گوشے میں خون خرابہ بھی ہے اور جنگیں بھی ہورہی ہیں۔‘‘ چنانچہ جس ذہنیت کے لوگ آج کل لوگوں پر بحیثیت حکمران وغیرہ چنے جا رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ آنے والے ایام کے لیے ایک ایسے ماحول تیار ہو رہا ہے جس میں انسانیت کی بھلائی سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ اس کا عالمی تناظر میں آج مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ ہر جانب انسانیت کا خون بہہ رہا ہے، ہر ملک اور ہر قوم اپنے ہی ہاتھوں یا اپنے ہی لوگوں سے پٹ رہے ہیں۔ ’’جب ہماری ذہنیت اس انداز کی ہو جائے کہ خوب سے خوب تر کے بجائے ہم ناخوب کو ہی پسند کرنے لگیں تو یاد رکھنا چاہیے کہ ’’ناخوب‘‘ سے تباہی آتی ہے نہ کہ بھلائی۔‘‘ اس لحاظ سے اس مجموعی صورت حال کا مشاہدہ کر کے انسانوں کی ان بستیوں میں ذی حس وذی شعور لوگوں کا غور کرنا چاہیے کہ ہم کس جانب جا رہے ہیں۔
بہر حال اس مجموعی صورت حال کے بیچ میں ایک ایسا ’’معطرفضا‘‘ بھی تیار ہو رہی ہے جس کے متعلق منفی اظہارِ خیال کر کے عالمی طا قتیں مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں۔ تاریخ کا غائر مطالعہ کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ ایسی فضا ہے جسے غیروں نے نہ کبھی برداشت کیا ہے اور نہ ہی برداشت کیا جائے گا۔ یہ فضا اور اس سے ظاہر ہونے والے ثمرات کا تعلق اس ذاتِ یکتا سے ہے جس کے مقابلے میں عام انسان ہی نہیں بلکہ خاص الخاص بھی کچھ نہیں۔ یہ ماحول اور فضا روئے زمین کے چپے چپے پر عام ہو رہا ہے۔ اگرچہ رفتار ابھی اس قدر نہیں کہ بگاڑ کی اس موجودہ صورت حال کو بناؤ میں تبدیل کیا جائے، تاہم ایسے آثار نمایاں ہو رہے ہیں کہ شاید وہ وقت قریب ہے، جب اس آسمانِ دنیا کے نیچے اس زمین پر وہ فضا کا ماحول چھا جائے جس کے عموماً لوگ متمنی ہیں۔
یہ بات ذہین نشین رہے کہ آج عام انسانیت بدامنی کے اس بھنور سے نکلنا چاہتی ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہے کہ دنیا جہنم میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ایک عام انسان کو اپنے ضمیر کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اسے ایک ایسا نظام ملنا چاہے جس میں ہر ایک انسان کے لیے امن ہو۔ ’’دنیا کا ہر انسان آزادی اور امن کا متمنی ہوتا ہے۔ اس لئے کہ یہ انسان کی فطرت کی آواز ہے اور فطرت کی آواز کو زور زبردستی سے دبایا اور مٹایا نہیں جاسکتا ہے۔‘‘
جب بار بار عام انسانیت کو پست اخلاقیت سے سابقہ پیش آتا ہے اور پست اخلاق سے متصف لوگ محض اپنی جہالت اور خود غرضی وتنگ نظری کی بنا پر انسانیت کی خیر خواہانہ مساعی کو روکنے کے لیے گھٹیا درجہ کی چال بازیوں سے کام لیتے ہیں تو فطرتاً اس کا دل ہی دُکھتا ہے۔ اس لحاظ سے آج دنیا میں بسنے والے عام انسان جب انسانیت کی دھجیاں اڑتے دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ ہر طرف خون خرابہ اور ظلم وستم کا بازار کا نظارہ کر رہے ہیں۔۔۔ عادل وانصاف پسند حکمرانوں کے بجائے ’’ناپسندیدہ اور ظالم وقاتل حکمران‘‘ اپنی چودھراہٹ قائم کئے جا رہے ہیں تو انسانیت بحیثیت انسان جس میں ضمیر نام کی ایک چیز بھی ہوتی ہے کراہ کراہ کر آواز دے رہی ہے کہ کاش وہ فضا اور ماحول قائم ہو جائے جس میں عام انسانیت کے لیے امن وانصاف ہو۔ آج بظاہر پوری دنیا میں بسنے والے مخالف اور ظالم نظر آرہے ہیں لیکن حقیقت اس سے بعید ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک عام انسان انسانیت اور عدل وانصاف کا متمنی ہے۔ اسے اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ ہمارے ہاتھوں جو فی الوقت ہو رہا ہے وہ صحیح نہیں ہو رہاہے، اسے ظالم اور ظلم کے مقابلے میں عادل وعدل کا انتظار ہے۔ اسے انصاف کے علم برداروں کی تلاش ہے۔ اسے ایسی فضا اور ماحول کی تلاش ہے جس میں اس کے لیے امن اور آشتی ہو۔
یہی وہ فضا ہے جس کی کرنیں آہستہ آہستہ نمودار ہو رہی ہیں، مختلف ممالک میں کام کرنے والے ایسے پاکباز لوگ جو اس فضا کے نہ صرف متمنی ہیں بلکہ اس کے قیام کے لیے قربانیاں بھی دے رہے ہیں، ان کے مکمل کام کا اندازہ کرنا آج پوری طرح سے اگرچہ ناممکن ہے لیکن ایک سرسری جائزے کے طور پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ کام میں وسعت ،گہرائی اور اثرات ہے لیکن ابھی پوری طرح سے ظاہر نہیں ہو پا رہے ہیں، اور جہاں کہیں اس فضا کے نمودار ہونے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں تو مخالف جانب سے اس کی روکتھام کے لیے انتھک کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن کامیابی بہرحال اسی کی نصیب ہوتی ہے جس کے پاس ’’بناؤ‘‘ ہو نہ کہ’’ بگاڑ‘‘۔
یہ ’’فضا جس کی کرنیں نمودار ہو رہی ہیں‘‘ اسلام کا نظامِ عدل کے سوا کچھ اور نہیں۔ آج اگر کوئی قوم اور مذہب اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ ہمارے پاس انسانیت کے لیے فلاح وکامرانی، امن اور انصاف پر مبنی ہے تو انہیں اپنے اُن نظاموں کو اپنے اپنے ملک میں قائم کر کے عام انسانیت کے سامنے رکھنے کا موقع دیا جانا چاہیے ، تاکہ دنیا دیکھے کہ حقیقی انسانیت کسے کہتے ہیں۔۔۔ حقیقی امن کیا ہے۔۔۔ انصاف اور عدل کس عظیم شئی کو کہتے ہیں۔ مگر بہرحال ان تمام مذاہب سے وابستہ لوگوں کو موقع دینے کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی یہ موقعہ فراہم کیا جانا چاہیے ۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام ایک ایسا نظام عدل وانصاف ہے جس میں ہر ایک کے لیے عدل ہے، ہر ایک کے لیے انصاف ہے، ہر ایک کے اپنے اپنے حقوق ہیں،بلکہ یہ ایسا دعویٰ ہے جس کا ثبوت تاریخ کے سنہرے اوراق میں موجود ہے، کس طرح سے پورے عالم کے لیے یہ دین امن وآشتی ہے ،اس کا نظارہ دنیا دیکھ چکی ہے۔
تاریخ کے اوراق سنہرے الفاظ سے بھرے پڑے ہیں کہ کس طرح اسلام عالم انسانیت کا دین ہے۔۔۔ عالم انسانیت کی بھلائی کا خواہاں ہے۔۔۔ کس طرح اسلام نے امن اور انسانیت کو فروغ دیا۔ یہ نظام نہ صرف اس کے ماننے والوں کے لیے نظامِ عدل قرار پایا بلکہ پوری بنی نوع انسانیت کے لیے اس میں عدل وانصاف ہے۔
بہرحال انسانیت انتظار میں ہے لیکن ان کے اِس انتظار کا جواب اگر اسلام کے پاس ہے تو پورے عالم میں بسنے اور رہنے والے مسلمانوں کو اپنا وہ بنیادی فریضہ ادا کرنا چاہیے تاکہ امن اور انسانیت سے مذین نظام کا لوگ خود مشاہدہ کریں ۔ لیکن وائے افسوس۔۔۔ بقول ایک عالم دین کے کہ:
’’عصر حاضر میں پورے انسانی معاشرے میں جو ہمہ جہتی بگاڑ اور فساد پیدا ہو گیا ہے، اس کی بنیادی وجہ اُمت مسلمہ کا اپنے فرائض منصبی سے شعوری اور غیر شعوری غفلت اور لاپرواہی ہے۔ اس امت کے بگاڑ اور فساد نے پوری انسانی برادری کو فساد اور بگاڑ کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔‘‘


انسانی حقوق کا عالمی دن انسانیت کے نام پرخون ناحق کا بہاؤ

images-1

انسانی حقوق کا عالمی دن انسانیت کے نام پرخون ناحق کا بہاؤ


ابراہیم جمال بٹ

ہر سال کی طرح امسال بھی 10 دسمبر کو ’’حقوق انسانی کے تحفظ کا عالمی دن‘‘ منایا جاتاہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے اس عالمی دن کے موقع پر دنیا بھرمیں مختلف قسم کی تقاریب اور کانفرنسوں وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے، جن میں انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے اپنے خیالات پیش کئے جاتے ہیں۔ اس بات پر تبصرہ کیا جاتا ہے کہ فی الوقت پوری دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے کیا کچھ ہو رہا ہے، کیا ہو چکا ہے اور آئندہ اس حوالے سے کہاں پر کیا کچھ ہونے کا احتمال ہے۔ اس ساری صورت حال پر اس عالمی دن کے موقع پر محاسبہ کیا جاتا ہے۔
جہاں تک حقوق انسانی کے تحفظ کا سوال ہے تو بحیثیت ایک انسان کے یہ حق بنتا ہے کہ دنیا میں اسے تحفظ فراہم ہو سکے۔ انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اسے ہر حیثیت اور ہر مقام پر تحفظ فراہم ہو سکے۔ انسان اس دنیا میں آزاد پیدا ہوا ہے اس لئے انسان کو جب تک ہر حیثیت سے آزادی نصیب نہیں ہوتی تب تک اس کی زندگی کا کوئی صحیح مطلب نہیں ہے۔ انسان اپنی مرضی کا آپ مالک ہے لہٰذا وہ کیا چاہتا ہے، اس لحاظ سے انسان کو کہنے، سننے کا پورا پورا حق ملنا چاہیے، جب تک یہ سب کچھ انسان کو میسر نہ ہوں تب تک انسان فطری طور پر ایک چوپایہ سے کم نہیں۔ جانور چاہے جس قدر بھی فائدہ مند ہو لیکن بہر حال جانو ر ہی رہتا ہے۔ اس کا منافع بخش ہونا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ اسے جانوروں کی فہرست سے نکال کر کسی اور مخلوق میں شمار کیا جائے۔ برابر اسی طرح ایک عام انسان کو اگر اپنے فطری حقوق سے محروم کر کے رکھ دیا جائے تو اگرچہ وہ بحیثیت انسان، انسان ہی رہے گا لیکن اس کے ذریعے سے وہ کچھ بھی حاصل نہیں ہو پائے گا جو اس کی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ اس اصل مقصد کے لئے انسان کی آزادی ضروری ہے تاکہ وہ انسانی فطرت کے لحاظ سے فیصلہ کرے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ انسان بلا روک ٹوک اور خوف کے یہ فیصلہ کر سکے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ انسان فطرتاً آزاد پیدا کیا گیا ہے اور فطرت کے ساتھ جنگ چھیڑ کر اس کی آزادی کو سلب کرنا انسانیت پر حملہ کرنے کے برابر ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو انسانی حقوق کا تحفظ تب تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک اس دنیا میں انسان شخصی ، فکری اور قومی غلامی سے آزاد نہ ہو۔ ہر انسان غلامی سے پاک ہو کرانسانیت کے تحفظ کا مقام حاصل کر سکتا ہے، کیوں کہ انسان کو پیدا کرنے والے خدائے ذوالجلال نے بھی اس پر زور زبردستی سے کوئی بات منوانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اسے آزاد رکھ کر اوراس پر واضح کر کے اس کے سامنے دو راستے رکھے، اب اس کی مرضی کہ کس کو پسند کرے اور کس کو ناپسند؟ صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنا اب ا س کے ہاتھ میں رکھا گیا ہے۔ اس لحاظ سے ہر حیثیت سے انسان آزاد ہونا چاہیے تاکہ وہ آزادی کے ماحول میں اپنی زندگی کا فیصلہ کر سکے۔ انسانیت کا تحفظ انسان کی ہی آزادی میں مخفی ہے۔ جب تک انسان کو انسان بن کر رہنے نہ دیا جائے تب تک نہ تو کسی کو تحفظ فراہم ہو سکے گا اور نہ ہی یہ دنیا صحیح معنوں میں ترقی کر سکتا ہے۔
پوری دنیا میں 10 دسمبر کے دن اگرچہ انسانی حقوق کے تحفظ کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کا انسان کئی حیثیتوں سے غلام ہو کر انسانیت کے نام سے دور جا چکا ہے، جس کا خمیازہ پوری دنیا اٹھا رہی ہے۔ دنیا کا وہ کون سا حصہ ہے جہاں امن ہے۔۔۔؟ چہار جانب بدامنی، ظلم و فساد، جنگ و جدل، قتل و غارت گری، لوٹ مار، اغوا کاری، بے راہ روی اور ایک دوسرے کا حق مارنا جیسے قبیح حرکات میں انسان محو ہے۔ گویا انسان انسان نہیں ،مثل چوپایہ بن چکا ہے کہ اسے یہ خیال نہیں رہتا کہ وہ کب کیا کر رہا ہے۔ آج انسان کسی دوسری مخلوق کا نہیں بلکہ انسان کا ہی دشمن بن چکا ہے۔ ایک دوسرے کو مارنا ، ایک دوسرے کی آزادی چھین کر اسے غلام بنانا، ایک دوسرے کے حقوق پر حملہ کر کے خود خوش رہنے کی کوشش کرنا، یہ سب کچھ آج یہی انسان کر رہا ہے۔ شخصی غلامی سے لے کر قومی اور فکری غلامی میں انسان کو مبتلا کیا جا چکا ہے، جس کا نتیجہ پوری دنیا میں واضح ہے۔ کسی انسان یا قوم پر کوئی چیزجبراً ٹھونسنا ا انسانیت کا تحفظ نہیں بلکہ صریح طور پر انسانیت کی تذلیل ہے۔ انسانیت کا تحفظ انسان کی خوش حالی میں مضمر ہے اور انسانیت کا تحفظ اس کے حقوق سلب کرنے میں نہیں بلکہ حقوق دینے میں ہے۔ انسان کے بے شمار حقوق میں سے اس کی شخصی، فکری اور قومی آزادی ہے۔ جب تک یہ میسر ہے تب تک انسانیت موجود ہے اور جب اس آزادی پر حملہ کیا جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں انسان سے یہ سب کچھ چھین کر انسانیت کی تذلیل کر کے جینا لاحاصل عمل ہے۔ اس حوالے سے اگر آج کی دنیا پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو صاف واضح ہوتا ہے کہ آج انسان سے اس کے فطری حقوق چھین کر پوری دنیا میں اندھیرا چھا چکا ہے۔ آج انسان کو بے شمار غلامیوں میں مبتلا کیا جا چکا ہے۔ شخصی غلامی، فکری غلامی، قومی غلامی ، اونچ نیچ کی غلامی، زبان، رنگ و نسل کے تفاخر کی غلامی ، ان ساری قبیح غلامیوں میں انسان کو مبتلا کر کے رکھ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ بارود کا ڈھیر کب پھٹ جائے کچھ خبر نہیں، اپنی اپنی فکر میں سب مشغول ہیں۔ وادی کشمیر میں جاریہ ایجی ٹیشن کے دوران وادی میں سینکڑوں افراد جسمانی طور معذور ہوچکے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ انسانی حقوق کے دن کے موقعے پر پر ان کی کوئی داد رسی کا کوئی امکان نہیں۔پہلے یہاں سمیناروں اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا تھا اور ایسی روایت ہر ملک میں ہے لیکن یہاں وادی میں اب ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا حالانکہ آج کل یہاں اس کی اہمیت کچھ زیادہ ہی تھی۔وادی میں جاریہ ایجی ٹیشن کے دوران فورسز کی کارروائی میں قریباً 100افراد کی جانیں چلی گئیں، 120کے قریب افراد جسمانی طور پر معذور ہوگئے ہیں جس میں سے آنکھوں پر پیلٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے تاہم ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔معالجین کا کہنا ہے کہ جسمانی طور پر ناخیز افراد کو مختلف زمروں میں شامل کیا جاتا ہے اور اس کیلئے مختلف پیمانے مرتب کئے گئے ہیں۔8جولائی کو حزب کمانڈرر برہان وانی کے جان بحق ہونے کے ساتھ ہی وادی میں شروع ہوئی احتجاجی لہر اور سیکورٹی کی مختلف ایجنسیوں کی کارروائیوں میں16ہزار کے قریب لوگ زخمی ہوئے جن میں مجموعی طور پر1600کے قریب لوگوں کی آنکھوں میں پیلٹ لگے۔اعدادو شمار کے مطابقپانچماہ تک کے عرصے میں زخمی ہونے والوں میں سے120کے قریب لوگ جسمانی طور پر نا خیز ہوئے جن میں پیلٹ لگنے کی وجہ سے آنکھوں کے نور سے محروم ہونے والوں اور آنکھوں کے نقائص سے جھوجھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔صحت کی عالمی سطح پر نگہداشت کرنے والے بین الاقوامی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنایشن کی جسمانی طور پر ناخیزی کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے ’’ معذوری، جسمانی نقائص کے بنیادوں پرسرگرمیوں کی شرکت میں پابندی و حد بندی کی مشترکہ اصطلاح ہے‘‘۔محکمہ صحت اور طبی تعلیم کے علاوہ میڈیکل کالج سرینگر کے زیر اثر چلنے والے اسپتالوں کے پاس اگر چہ اس بارے میں مکمل تفصیلات معلوم نہیں ہیں کہ کتنے لوگ جسمانی طو ر پر ناخیز ہوئے تاہم جو اعداوشمار ان کے پاس موجود ہیں اس سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ قریب120لوگ جسمانی طور پر نا خیز ہوئے ہیں اور اس میں ممکنہ طور پر اضافہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ قبل از وقت نہ ہی کسی کو جسمانی طور پر ناخیز قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو مستثنیٰ رکھا جاسکتا ہے۔ میڈیکل کالج سرینگر کے پرنسپل ڈاکٹر نے کہا کہ ابھی تک اگر چہ جسمانی طور پر ناخیز افراد کے بارے میں صحیح معلومات جمع نہیں ہوئی اور نہ ہی دستیاب ہے،تاہم کچھ عرصے کے بعد ہی کچھ کہا جاسکتا ہے۔ڈاکٹرصاحب نے کہا’’ زخمیوں اور مریضوں کے مرض کی نوعیت کی تشخیص کرنے سے ہی اصل صورتحال سامنے آتی ہے اور کچھ کہا جا سکتا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ بیشتر زخمیوں کی مرض کی نوعیت کی تشخیص ابھی جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جسمانی طور پر ناخیز افراد کو قرار دینے کیلئے پہلے ہی قواعد طے کئے گئے ہیں اور اس سلسلے میں میڈیکل بورڑ بھی تشکیل دئے جاچکے ہیں جو طے کرتے ہیں کہ کون شخص جسمانی طور پر ناخیز ہے۔انہوں نے کہا کہ جسم کے الگ الگ حصوں کیلئے علیحدہ علیحدہ طریقہ کار طے کیا گیا ہے۔معروف معالج ڈاکٹر نٹراجن نے اس سلسلے میں پہلے ہی کہا تھا کہ پیلٹ سے زخمی ہونے والے افراد کی زخموں کی اصل نوعیت اور اس میں پیش رفت کا6ماہ کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے۔اس دوران آنکھوں پر پیلٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ بیشتر معالجین کا کہنا ہے کہ چونکہ ابھی بیشتر زخمیوں کا علاج و معالجہ جاری ہے اور ڈاکٹروں نے بھی اپنی کاوشیں جاری رکھی ہیں اس لئے قبل از وقت جسمانی طور پر ناخیز افراد کی صحیح تعداد بتانا مشکل ہے۔ یہ سب کچھ وادی کشمیرمیں نہیں بلکہ دنیا کے چپے چپے پر ہو رہا ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ فلسطین کا خون ناحق اسرائیل بہا رہا ہے، پاکستان میں ایک دوسرے سے لڑا کر خون بہایا جا رہا ہے، عراق اور افغانستان میں عالمی دہشت گرد ’’امریکہ بہادر‘‘ خون مسلم بہا رہا ہے، مصر میں وہاں کی کٹھہ پتلی فوجی آمریت وہاں کے جمہوری طور سے برسراقتدار آنے والی حکومت کا تختہ پلٹ کر انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔ اسی طرح شام کی صورت حال ہے۔ اس سب کے ہوتے ہوئے تحفظ حقوق انسانی کی باتیں کرنا سب فضول نظر آتا ہے۔ اس ایک دن پر کانفرنسیں، جلسے جلوس، ریلیاں، مظاہرے، قرار دادیں اور اس طرح کے بے شمار طریقے اختیار کیے جاتے ہیں لیکن سب کچھ خانہ پوری محسوس ہوتی ہے۔ بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن عملاً ٹائیں ٹائیں فش ، حقوق انسانی کے تحفظ پر خطابات ہوتے ہیں لیکن مقررین خود اصل معنی میں حقوق انسانی کے معنی سے نابلد نظر آتے ہیں۔ جس کی مثال پوری دنیا میں دیکھی جا سکتی ہے۔ فلسطین میں لاکھوں لوگوں کو قبروں میں پہنچا دیا گیا مگر آج تک یہ نہیں دیکھا گیا کہ اتنی بڑی تعداد میں فلسطینی کیوں مارے گئے؟ حقوق انسانی کا تحفظ کا جذبہ کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ اسی طرح مصر، فلسطین ،پاکستان، کشمیر، افغانستان، عراق، شام ، لبنان، چیچنیا، داغستان وغیرہ ممالک میں جو خون مسلم بہایا جا رہا ہے کسی حقوق انسانی کے نام نہاد علم بردار کے کان میں اصل معنی میں آج تک جوں تک نہیں رینگی، اپنی اپنی جگہ سب خاموش تماشائی بن کر صرف بیان بازی تک محدود نظر آتے ہیں۔ تحفظات کا راگ الاپ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دوسروں کو دھوکہ دینا نہیں بلکہ اپنی دنیا آپ برباد کرنے کے برابر ہے، جیسی کرنی ویسی برنی والا معاملہ ہے۔ آج ہم دوسروں کو غلامی میں جکڑنے کے خواب میں خود ہی مشکلات و مصائب کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں پوری دنیا میں امن قائم ہو جائے تو کیسے۔۔۔؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر کوئی بآسانی جان سکتا ہے لیکن معلوم نہیں کیوں جان بوجھ کر انسان انسانیت سے دور بھٹکتا جا رہا ہے؟ کیوں اس کا ذہن روز بروز تعمیر کے بدلے تخریب کاری پر ہی اترتا جا رہا ہے؟دراصل اس سب کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔ برسر اقتدار حکمرانوں نے وقت وقت پر قوموں کے قوم تباہی کے دہانے پر پہنچا دئے، صرف اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لیے، اپنی چودھراہٹ کے نشے میں چور، ان حکمرانوں کی وجہ سے دنیا جہنم میں تبدیل ہو چکی ہے اور جہنم خوشبو کا نام نہیں بلکہ اس کے برعکس بدبو اور درد ناک بارود کا نام ہے،جس کا کام جلانا اور تباہ و برباد کرنا ہے۔ لوگوں کے حقوق سلب کر کے وہ کچھ پانے کا خواب دیکھنا جس کی انسانی فطرت منکر ہے، سب لاحاصل عمل ہے اور اس لا حاصل سعی و کوشش میں اپنا قیمتی وقت صرف کرنا اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی سے وار کرنے کے برابر ہے۔ آج کے حکمران جو بار بار اپنی تقریروں اور بیانات میں حقوق انسانی کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کرتے نظر آتے ہیں، اپنے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے لیے دنیا کو جہنم میں تبدیل کر رہے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چور یہ طاقتیں صرف آج دیکھتے ہیں لیکن کل کیا کچھ ہو سکتا ہے اس پر انہیں نظر ڈالنے کی صحیح معنوں میں فرصت ہی نہیں ملتی۔ اس طبقے کی وجہ سے جو پوری دنیا تباہی وبربادی کی طرف دھکیل دی گئی ہے اس کی روک تھام کرناضروری ہے۔ اس کی لگام کو پکڑنا پوری دنیا کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ عنقریب یہ دنیا نہ تو عوام الناس کے لیے رہے گی اور نہ ہی اس حکمران طبقے کے لیے۔رہنے کے لئے یہ عمدہ جگہ (دنیا) کوبارود کے ڈھیر پر کھڑا کر دیا گیا ہے ، اب یہ ہماری سوچ ہے کہ ہم دیکھتے رہیں کہ کس طرح بارود کے ڈھیر پر رکھا ہوا یہ دنیا راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو کر پوری دنیا کا خاتمہ کرے۔ بہرحال جو کرنا ہے عوام کو کرنا ہے۔ ’’مَن جَدَّ فَوَجَدَ‘‘ (جس نے سعی وکوشش کی اس نے پایا) انسان کی سعی و کوشش اور خدائے ذوالجلال کی مدر ونصرت، یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کی ضرورت اور اہمیت سے واقف ہونا لازمی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ ان دونوں چیزوں کا انسان کی زندگی میں ایک اہم رول ہے، انسان کی کوشش اورخدا کی نصرت ومدد انسان کے لیے کافی ہے۔