Tuesday 24 December 2013

Monday 23 December 2013

اسلام …قربانیوں کی تحریک ۔۔۔۔۔۔ ملا عبد القادر شہید

ابراہیم جمال بٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک کے بعد ایک قربانی… جہاں بھی دیکھو بس ایک ہی چیز …قربانی… اللہ کی راہ میں، خدا کی خوشنودی کے لیے، اور رسول اللہﷺ کی محبت کے خاطر، دین اسلام کا جھنڈا لئے ہوئے، ہاتھوں میں قرآن وسنت کا پرچم لئے ایک اور قربانی کا منظر 13دسمبرکی رات کو سامنے آیا۔ بنگلہ دیش کے عبد القادر ملا کی شہادت نہ تو کسی انسان کو خوش کرنے کے لیے تھی اور نہ ہی کسی لالچ میں آکر انہوں نے اپنی جان قربان کر دی۔ بس ایک تمنا تھی کہ شہادت کی موت ملے… اللہ کی راہ میں زندگی گزارنے والے اس مرد مجاہد کا آخر بھی اسی کی راہ میں ختم ہو جائے۔ اللہ اکبر… ایسی موت کا کیا کہنا… جس میں اللہ کی رضا مطلوب ہو… جس سے اللہ خوش ہو… جس کے بدلے گناہوں کی تلافی ہو… جس سے جنت کی خوشبو نصیب ہو… اللہ اکبر۔بنگلہ دیش ہو یامصر، پاکستان ہو یا شام، دنیا کا وہ کون سا حصہ ہے جہاں فی الوقت ایسی مثالیں نہ دیکھی جا سکتی ہوں۔ ہر مقام پر ایک طرف شیطان اور دوسری طرف رحمانی صفات سے مذّین مرد ِمجاہد… ایک طرف طاغوت کے پرستار اور دوسری طرف اللہ کے دین کے مددگار… ایک طرف اسلام کا پرچم لیے ہوئے کمزور اور ناتوان جسم رکھنے والے مجاہدین اور دوسری جانب توپوں اور بندوقوں سے لیس حکمرانِ وقت جو کہ بدقسمتی سے مسلمانوں کا لبادہ بھی اوڑھے ہوئے ہیں موجود پائے جاتے ہیں… یہ کشمکش نہ تو کبھی ختم ہوئی ہے اور نہ ہی کبھی ختم ہو سکتی ہے۔ اسلام نام ہی ہے کشمکش کا… جس زندگی میں حق وباطل کی کشمکش نہ ہو ،وہ زندگی اصل میں موت ہے۔ زندگی کا دوسرا نام ہی کشمکش ہے اور کشمکش سے ہی مسلمان کو نکھار ملتا ہے… عیاں ہو جاتا ہے کہ آیا یہ اصل مسلمان ہے یا کچھ اور؟بنگلہ دیش کی یہ تازہ قربانی کوئی نئی چیز نہیں… قربانیوں سے بھری پڑی ہے بنگلہ دیش کی تحریک… بنگلہ دیش کا وجود ہی قربانی ہے… بنگلہ دیش اسلامی دنیا کا ایک پرزہ ہے اور اس پرزے کو کبھی دشمن نے علیحدہ کر کے اپنی جیت کا جشن منایا لیکن برسہا برس گزرنے کے بعد آج پھر قربانی پیش کی گئی… دور سے دیکھا جائے تو شاطرانہ اور دشمنانہ ذہنیت سے بھرے لوگوں کی بدبو آرہی ہے۔ یہ واقعہ بنگلہ دیش کا واقعہ نہیں… بلکہ یہ واقعہ مسلمانوں کے لیے ایک اور دردناک قربانیوں والا واقعہ ہے… یہ تمام امت مسلمہ کو یاد دلانے کے لیے کافی ہے… کہ اے دنیا میں بسنے والے مسلمان! تاریخ پھر دہرائی جا رہی ہے اور یہ دہراتی جائے گی… لیکن تو صرف ذکر وفکر اور صبح گاہی میں ہی مست نہ ہو جا… تجھے دین کو سربند کرنا ہے… اور اس کو بلند کرنے کے دوران تجھے قربان بھی ہونا ہے۔اے امت مسلمہ! اپنے اسلاف کی تاریخ پڑھ… دیکھ وہاں کیا درج ہے… وہاں ایک طرف دعوت ہے تو ایک طرف قربانیاں… ایک طرف ہاتھوں میں قلم ہے تو دوسری طرف تلوار… ایک طرف حکمت ہے تو دوسری جانب اللہ کی راہ میں جہاد… ایک طرف فتح کی خوشیاں ہیں تو دوسری طرف اپنے جانبازوں کی قربانیاں۔ یہ سب کچھ کس لیے؟ کوئی غرض نہیں… کوئی ذاتی مفاد نہیں… کوئی دنیاوی فائدہ نہیں… بس ایک اللہ کی رضا مطلوب ہے۔تو اے مسلمان… تو نہ گھبرا… تجھے تو اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ کبھی تیری باری بھی آسکتی ہے… اُس وقت تجھے ملامت کرنے والے کتنا ہی ملامت کریں… تمہاری نظریں بس خدا کی خوشنودی ہی پر ہونی چاہیے۔اسلام کی تحریک… کشمکش کی تحریک ہے۔ اندھیرا چھٹ جائے گا انشاء اللہ… ظلم مٹ جائے گا… ظالم کے ہاتھوں کتنا بھی ظلم ہوجائے… آخر کار ظلم کا ہاتھ کٹ جاتا ہے… کتنے ظالم آج تک پیدا ہوئے لیکن کوئی بھی اس دنیا میں نہ ٹک سکا… کوئی بھی مرد مجاہد کو نہ جھکا سکا… ایک وقت مقرر ہے ظلم کا۔ وقت گزر گیا تو ظلم اور ظالم دونوں مٹ گئے ۔مصر کا جنرل سیسی ہویا بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ… افغانستان کا کرزائی ہویا شام کا اسد… یہ سب مٹ جائیں گے… ہاں اگر باقی رہ پائے گا تو وہ صرف اور صرف اللہ کی راہ میں دی ہوئی قربانیاں … اللہ کا دین۔اے امت مسلمہ کے پاسبانو! یہ موقعہ واویلا کرنے کا نہیں… یہ دن دکھ ودرد میں گزارنے کا نہیں… بلکہ یہ دن یاد دلاتا ہے حق وباطل کی کشمکش کا… یہ یاد دلاتا ہے سچ اور جھوٹ کی لڑائی کا… یہ فرق کرتا ہے کہ کون ہے مسلمان اور کون منافق ؟ کون ہے دشمن اور کون دوست؟اُٹھو اور اپنی تاریخ کو پھر یاد کرو! اٹھو اور نیند کی سستی چھوڑ کر اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو… اٹھو اور اللہ کا کلمہ سربلند کرنے کے لیے ہاتھ پائوں پھیلائو۔ اسی میں تمہاری زندگی ہے، کیونکہ یہی کشمکش تمہاری اصل زندگی ہے۔ اٹھو گے تو تمہاری زندگی کا حاصل مل جائے گا اور اگر یوں ہی مست پڑے رہے تو یہاں بھی خسارہ اور وہاں بھی نقصان۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین ۔

اُف خدایا !یہ شدت پسندی ................ نیم حکیم خطرۂ جان……!

٭ابراہیم جمال بٹ
..................

دعوت کے طریقہ کار میں ہمارے ہاں بالخصوص اور امت مسلمہ میں بالعموم خواہ مخواہ شدت پسندی پائی جارہی ہے ۔شاید یہ جملہ آپ کو عجیب لگے کیوں کہ ہمارے ہاں عموماً صرف مذہبی انتہا پسندی کو ہی شدت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے حالانکہ یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج اسلام کے نام لیواؤں کی اکثریت دو متضاد سوچ رکھنے والے گروہوں پر مشتمل ہے اور دونوں ہی انتہا پسندی کا شکار ہیں۔ چونکہ یہ دونوں طبقے دین اسلام کو خود پڑھ اور سمجھ کر اپنانے کی پالیسی نہیں اپناتے لہٰذا دونوں ہی شدت پسندسوچ کا شکار نظر آتے ہیں۔
ایک طرف وہ طبقہ ہے جس کی اکثریت جدید دنیاوی تعلیم سے آراستہ نہیں اور وہ اسے مغربیت سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ طبقہ اسلام کے راگ تو الاپتا ہے لیکن اسلامی تعلیمات کے بارے میں کچھ خاص علم نہیں رکھتا بلکہ اپنے اپنے گروہ یا مکتب فکر کی انگلی پکڑے بھیڑوں کے ریوڑ کی سی زندگی گزارتا ہے۔ ان میں سے کچھ اپنی ہر بات منوانے کے لئے شدت کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔ بد قسمتی سے ایسے مذہبی انتہا پرستوں کے لیے ہر مسئلے کا جواب بلا کسی حکمت شدت پسندی کی راہ اختیار کرتے ہوئے بات کو سامنے رکھنا بن گیا ہے، موقع ومحل نہ تو دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ جس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ جس شخص سے بات کی جاتی ہے وہ ایک ہی وقت میں ہماری بے حکمت و بے ترتیب زبانی گولی کا شکار ہو کر ڈھیر ہو جاتا ہے۔چنانچہ اسی طرز عمل کو اختیار کرنے والوں کے بارے میں کئی علما فرماتے ہیں :’’ جو دعوت بے حکمت اور شدت پسندی سے دی جائے اس کے نتائج الٹے ظاہر ہو جاتے ہیں اور جہاں دعوت کے میٹھے پھل نکلنے چاہیے وہاں ان کی اپنی سوچ کی وجہ سے میٹھے پھلوں کے بجائے کانٹے ہی کانٹے نظر آتے ہیں، اگرچہ دعوت کی راہ کانٹوں سے بھری پڑی ہوتی ہے لیکن کوئی کانٹوں کو خود ہی دعوت دے اور پھر کانٹوں کو آزمائش کہے اس سے بڑھ کر نیم حکیم کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘
چنانچہ آج اگر سوشل میڈیا پر بھی جہاں ہمیں اپنی فرینڈ لسٹ(دوستوں کی فہرست) میں موجود لوگوں کی ذاتی زندگی کی خبروں اور تصاویر سے محظوظ ہونے کا موقع ملتا ہے وہیں پر بہت سے لوگ ہمیں مختلف مذہبی ایشوز پر آپس میں لڑتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ اگر ایک شخص اپنے عالم کی تعریف میں کوئی بات شیئر کرے تو ایک دوسرے طبقہ سے وابستہ شخص فوراً اس کے خلاف فتووں کے انبار لگا دے گا اور کچھ ایسا ہی حال دوسری جانب بھی ہے۔ ہمیں اس فرقہ پرستی سے بلاتر ہو کر سوچنے اور دین کو خود سمجھنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ حقیقت یہی ہے کہ یہاں اکثر فرقے اور جو جماعتیںہیں وہ صرف اپنے اپنے علما ء کی تقلید میں نہ صرف ایک دوسرے کو دن رات نوچتے ہیں بلکہ اس اندھی تقلید میں یہ تمام فرقے بہت سے خلاف قرآن و حدیث عقائد کو بھی اسلام کا حصہ مانتے اور دین میں ایجاد کردہ نئی نئی رسوم پر چلتے ہیں۔ ایک دوسرے کو تو کافر تک بھی مانتے ہیں لیکن بہت سے معاملات میں ان کی ایک دوسرے سے نفرت کی انتہا کا یہ عالم ہے کہ ایک دوسرے کو حق کی دعوت دینے کے بجائے واجب القتل بھی قرار دیتے ہیں جس کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم دن ورات ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں مصروف ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اگر ہم اپنے کلمہ گو بھائی کے حقیقی ہمدرد ہیں تو ہمیں اسے پیار محبت اور اخلاص سے حق کی دعوت دینی چاہئے اور اسکے جواب میں اگر وہ غصہ بھی دکھائے تو برا نہیں ماننا چاہیئے اور سورۃ العصر کے پیغام پر عمل کرتے ہوئے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے ۔ لیکن یہ سب تو تب ہو جب مسلمانوںکے یہ شدت پسند گروہ اور جماعتیں اس بات کو سمجھ پاتے، چونکہ سارا معاشرہ ہی فرقہ فرقہ بنا پڑا ہے لہٰذا کوئی بھی محبت اور رواداری کا ثبوت نہیں دیتا۔الا ماشاء اللہ۔
اس مذہبی کم علمی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شدت پسند رویے نے ایک عام انسان کو دین اسلام سے مکمل طور پر متنفر کر دیا ہے۔ اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ اسلام کا نام تو لیتے ہیں لیکن یہ اسے محض ایک مذہب سمجھتے ہیں ، اسے ایک دین یعنی ایک مکمل نظام حیات کے طور پر نہیں دیکھتے۔ یہ لوگ دین کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے لہٰذا یہ شدت پسندانہ رویے کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ شاید یہی اسلام ہے اور نتیجتاً یہ اسلام یا اسلامی نظام کے حوالے سے شرمساری کا شکار بھی نظر آتے ہیں۔یہ اپنے بچوں کو اچھے اور مہنگے سکولوں اور کالجوں میں پڑھاتے ہیں لیکن دین کی ’’الف ب ‘‘بھی انہیں سکھائی نہیں جاتی۔ بس مولوی سے قرآن پڑھوا دیا اور بس، رمضان آیا تو روزے رکھ لیے بس، یہی مذہب ہے۔ لیکن اگر بچہ دین کی طرف ’’ضرورت‘‘ سے زیادہ توجہ دینے لگے، مذہبی باتیں کرے یا پھر داڑھی و حجاب کی طرف مائل ہو جائے تو ان کی راتوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں کہ یہ کیا ہوگیا اور کیوں ہو گیا…؟ کیونکہ ان کے نزدیک مذہبی رحجان ہونے کا مطلب ہے شدت پسندی۔ اگر وہ اسلامی شعائر اختیار کریں تو انہیں ’’کٹر پنتھی ‘‘ کی لیبل چسپاں کی جاتی ہے اور بدقسمتی سے یہی طبقہ پھر ہمارے ہاں بڑے بڑے اہم عہدوں پر فائز ہوتاہے۔جس کی وجہ سے وہاں نہ ہی امانت داری ملتی ہے اور نہ ہی کسی کو کسی انصاف کا موقعہ ملتا ہے۔ اس سب کو نامنہاد دین میں شدت پسندی اختیار کرنے کو مورد الزام ٹھہرایا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔اگر دیکھا جائے تو یہ صورتحال پہلے بھیانک ہے۔ کیونکہ جس نے دین کو ذاتی عبادات کے علاوہ دوسری ہر چیز سے باہر نکال کر مکمل لادینیت کو اپنا لیا ہے کہ ان کے نزدیک دین صرف اتنا ہی ہے جتنا انہوں نے سمجھا اور جس طرح انہوں نے سمجھا لہٰذا ان میں سے ہر کسی کا اپنا اپنا اسلام ہوتا ہے جس پر یہ اپنی مرضی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ یعنی چاہا تو سود پر گھر بنا لیا اور اسے مجبوری سے تعبیر کرلیا کیونکہ یہ دین کو اس کی اصل کے مطابق نہیں بلکہ اپنی مرضی پر چلاتے ہیں یعنی ہم دین کے لیے اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے بلکہ دین کو اپنے لیے جیسے چاہیں گے بدل لیں گے۔ اسی لیے ان کی اکثریت کا زور اپنی ذاتی عبادت اور جنت کمانے پر ہوتا ہے۔اسی طرح جب بات نظام کی تبدیلی کی ہو تو یہ لوگ ہمیشہ دین اسلام کو نظر انداز کرکے لادین اصولوں اور ضابطوں کے تحت اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ یعنی جو جیسا چاہے اسلام اپنائے لیکن اسے اپنے گھر کی چاردیواری تک ہی رکھے کسی اور پر اس سب کو مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے کہ اس سے لڑائی ہوتی ہے۔
ظاہر ہے کہ دو قطعی مخالف سوچوں کی اس لڑائی نے ملت میں ہر طرف آگ لگائی ہوئی ہے جس کا نتیجہ ہر کوئی بھگت رہا ہے۔ ہمیں ایک بات سمجھ لینی ہوگی کہ مسائل کا حل ہمیشہ مسائل کی درست نشاندہی سے شروع ہوتا ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے تو ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ دعوت چاہے کسی بھی چیز کی جانب ہو، جب تک اس میں حکمت وموعظت کا خیال نہ رکھا جائے گا تب تک یہ بے جا شدت پسندی اختیار کرنا الٹا دعوت کی راہ کو تنگ کرنے کے برابر ہے۔ اگر ہم اپنے کلام میں شیرینی نہیں پاتے تو ہمیں اس دعوت کے کارخیر میں نہیں اترنا چاہیے بلکہ یا تو خاموشی اختیار کرنی چاہیے یا ان لوگوں کے ساتھ رہنا چاہیے جو ان صفات سے مذین ہوں۔ چنانچہ ایک عالم دین فرماتے ہیں: 
’’مخالفین خواہ کیسی ہی ناگوار باتیں کر یں داعی کو بہرحال نہ تو کوئی بات خلافِ حق زبان سے نکالنی چاہیے، اور نہ غصے میں آپے سے باہر ہو کر بیہودگی کا جواب بیہودگی سے دینا چاہیے۔ انہیں ٹھنڈے دل سے بنا کسی شدت پسندی کے وہی بات کہنی چاہیے جو جچی تلی ہو، برحق ہو، اور ان کی دعوت کے وقار کے مطابق ہو۔‘‘
دعوت ایک فطری عمل ہے اور اس میں غیر فطری طریقہ اختیار کرنے کا مطلب ہے کہ ’’فساد‘‘۔ خدا بزرگ وبرتر نے جو چیز جس کام کے لیے بنائی اس کا طریقہ بھی سکھایا، اگر انسان خدا کے طریقے کو چھوڑ کر اپنا من پسند طریقہ چاہے وہ شدت کا طریقہ ہی کیوں نہ ہو اختیار کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے نتائج بھی اُلٹے ظاہر ہوں گے۔ کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے تو ایک وسیع تر مفہوم کے مطابق اسے ہی ’’فساد‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ اگر دیکھا جائے تو ’’انسانی زندگی کا آغاز صلاح سے ہوا ہے اور بعد میں اس درست نظام کو غلط کار انسان اپنی حماقتوں اور شرارتوں سے خراب کرتے رہے ہیں۔ اسی فساد کو مٹانے اور نظامِ حیات کو از سرِ نو درست کر دینے کے لیے اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبر بھیجتا رہا ہے اور انہوں نے ہر زمانے میں انسان کو یہ دعوت دی ہے کہ زمین کا انتظام جس صلاح پر قائم کیا گیا تھا اس میں فساد برپا کرنے سے باز آئو۔‘‘
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو داعیان دین سے وابستہ اشخاص میں ایک اہم چیز حکمت وموعظت حسنہ کا اخلاقی ہنر ہونا چاہیے۔ یہ صفات اگر نہ ہوں تو جس صحیح کام کے ارادے سے وہ کام کرنا چاہتا ہے اس سے وہ نتائج نہیں نکلیں گے جو موثر ثابت ہوں۔داعیان حق کی کامیابی کا گُر یہ بھی ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی ان سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے جنہیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام کافی ہوتی ہے جوہر انسان کو حاصل ہے۔ چنانچہ دعوت کے کام میں جہاں یہ بات ضروری ہے کہ طالبین خیر کو معروف کی تلقین کی جائے وہاں یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جاہلوں سے نہ الجھا جائے خواہ وہ الجھنے اور الجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں۔ داعی کو اس معاملہ میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں۔بلا کسی شدت اور جہالت کے داعی کو معقول انداز میں یا تو ددعوت پیش کرنی چاہیے یا اگر سامنے جاہلیت پائے تو ان سے الجھے بغیر فی الخال پرہیز ہی کیا جائے۔ اسی دعوت کے بارے میں سید مودودیؒ ایک جگہ رقمطراز ہیں: 
’’دعوت معقول دلائل کے ساتھ، مہذب وشائستہ زبان میں، اور افہام وتفہیم کی اسپرٹ میں ہونا چاہیے تاکہ جس شخص کو دعوت دی جا رہی ہو اس کے خیالات کی اصلاح ہو سکے۔ دعوت دینے والے کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اتار دے اور اسے راہ راست پر لائے۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مد مقابل کو نیچا دکھانا ہوتاہے۔ بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھتا ہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفا یاب ہو جائے۔‘‘
یہی جذبہ لیکر اگر داعی دعوت کے میدان میں اتر جائے تو اس کے کام کا پھل انشاء اللہ ضرور حاصل ہو گا اور اگر جہالت، شدت پسندی اور غیر حکیمانہ طور طریقے سے لوگوں کو اپنی بات تھوپنے کی کوشش کی تو اس کے نتائج الٹے نکلیں گے، جس کہ ساری تر ذمہ داری اصل معنوں میں اسی نیم حکیم داعی پر آئے گی۔ چنانچہ آج جس صورت حال سے ہم گزر رہے ہیں وہاں اس نیم حکیمی اور شدت پسندی کا رحجان زیادہ پایا جا رہا ہے ، جس کی وجہ سے سرگرمیاں اگرچہ بہت زیادہ ہو رہی ہیں لیکن ان سرگرمیوں کا حاصل نہ ہونے کے برابر ہو رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دعوت کے میدان میں اترنے والے جانبازوں کوحکمت اور موعظت حسنہ کا ہتھیار لیے ہوئے پیش ہونا چاہیے یہی فطری دعوت کا تقاضا ہے اور اسی فطری اور مسنون طریقہ دعوت سے قوموںکے اذہان تبدیل ہو گئے ہیں۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔ 

٭٭٭٭٭

Wednesday 18 December 2013

عبد القادر ملا شہید

کیا انسانیت کاتحفظ ہو رہا ہے؟

ابراہیم جمال بٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہر سال کی طرح امسال بھی 10 دسمبر کو ’’حقوق انسانی کے تحفظ کا عالمی دن‘‘ منایا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے اس عالمی دن کے موقع پر دنیا بھرمیں مختلف قسم کی تقاریب اور کانفرنسوں وغیرہ کا اہتمام کیا جا تا ہے، جن میں انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے اپنے خیالات پیش کئے جاتے ہیں۔ اس بات پر تبصرہ کیا جاتا ہے کہ فی الوقت پوری دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے کیا کچھ ہو رہا ہے، کیا ہو چکا ہے اور آئندہ اس حوالے سے کہاں پر کیا کچھ ہونے کا احتمال ہے۔ اس ساری صورت حال پر اس عالمی دن کے موقع پر محاسبہ کیا جاتا ہے۔

جہاں تک حقوق انسانی کے تحفظ کا سوال ہے تو بحیثیت ایک انسان کے یہ حق بنتا ہے کہ دنیا میں اسے تحفظ فراہم ہو سکے۔ انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اسے ہر حیثیت اور ہر مقام پر تحفظ فراہم ہو سکے۔ انسان اس دنیا میں آزاد پیدا ہوا ہے اس لئے انسان کو جب تک ہر حیثیت سے آزادی نصیب نہیں ہوتی تب تک اس کی زندگی کا کوئی صحیح مطلب نہیں ہے۔ انسان اپنی مرضی کا آپ مالک ہے لہٰذا وہ کیا چاہتا ہے، اس لحاظ سے انسان کو کہنے، سننے کا پورا پورا حق ملنا چاہیے، جب تک یہ سب کچھ انسان کو میسر نہ ہو تب تک انسان فطری طور پر ایک چوپایہ سے کم نہیں۔ جانور چاہے جس قدر بھی فائدہ مند ہو لیکن بہر حال جانو ر ہی رہتا ہے۔ اس کا منافع بخش ہونا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ اسے جانوروں کی فہرست سے نکال کر کسی اور مخلوق میں شمار کیا جائے۔ برابر اسی طرح ایک عام انسان کو اگر اپنے فطری حقوق سے محروم کر کے رکھ دیا جائے تو اگرچہ وہ بحیثیت انسان، انسان ہی رہے گا لیکن اس کے ذریعے سے وہ کچھ بھی حاصل نہیں ہو پائے گا جو اس کی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ اس اصل مقصد کے لئے انسان کی آزادی ضروری ہے تاکہ وہ انسانی فطرت کے لحاظ سے فیصلہ کرے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ اس کے لیے انسان کو ہر حیثیت سے آزادی درکار ہے،جس سے وہ بلا روک ٹوک اور خوف کے یہ فیصلہ کر سکے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ انسان فطرتاً آزاد پیدا کیا گیا ہے اور فطرت کے ساتھ جنگ چھیڑ کر اس کی آزادی کو سلب کرنا انسانیت پر وار کرنے کے برابر ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو انسانی حقوق کا تحفظ تب تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک اس دنیا میں انسان شخصی ، فکری اور قومی غلامی سے آزاد نہ ہو۔ ہر انسان غلامی سے پاک ہو کرانسانیت کے تحفظ کا مقام حاصل کر سکتا ہے، کیوں کہ انسان کو پیدا کرنے والے خدائے ذوالجلال نے بھی اس پر زور زبردستی سے کوئی بات منوانے کی آج تک کوشش نہیں کی بلکہ اسے آزاد رکھ کر اوراس پر واضح کر کے اس کے سامنے دو راستے رکھے، اب اس کی مرضی کہ کس کو پسند کرے اور کس کو ناپسند؟ صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنا اب ا س کے ہاتھ میں رکھا گیا ہے۔ اس لحاظ سے ہر حیثیت سے انسان آزاد ہونا چاہیے تاکہ وہ آزادی کے ماحول میں اپنی زندگی کا فیصلہ کر سکے۔ انسانیت کا تحفظ انسان کی ہی آزادی میں مخفی ہے۔ جب تک انسان کو انسان بن کر رہنے نہ دیا جائے تب تک نہ تو کسی کو تحفظ فراہم ہو سکے گا اور نہ ہی یہ دنیا صحیح معنوں میں ترقی کر سکتا ہے۔

پوری دنیا میں 10 دسمبر کے دن اگرچہ انسانی حقوق کے تحفظ کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کا انسان کئی حیثیتوں سے غلام ہو کر انسانیت کے نام سے دور جا چکا ہے، جس کا خمیازہ پوری دنیا اٹھا رہی ہے۔ دنیا کا وہ کون سا حصہ ہے جہاں امن ہے…؟ چہار جانب بدامنی، ظلم و فساد، جنگ و جدل، قتل و غارت گری، لوٹ مار، اغوا کاری، بے راہ روی اور ایک دوسرے کا حق مارنا جیسے قبیح حرکات میں انسان محو ہے۔ گویا انسان انسان نہیں ،مثل چوپایہ بن چکا ہے کہ اسے یہ خیال نہیں رہتا کہ وہ کب کیا کر رہا ہے۔ آج انسان کسی دوسری مخلوق کا نہیں بلکہ انسان کا ہی دشمن بن چکا ہے۔ ایک دوسرے کو مارنا ، ایک دوسرے کی آزادی چھین کر اسے غلام بنانا، ایک دوسرے کے حقوق پر حملہ کر کے خود خوش رہنے کی کوشش کرنا، یہ سب کچھ آج یہی انسان کر رہا ہے۔ شخصی غلامی سے لے کر قومی اور فکری غلامی میں انسان کو مبتلا کیا جا چکا ہے، جس کا نتیجہ پوری دنیا میں واضح ہے۔ کسی انسان یا قوم پر کوئی چیزجبراً ٹھونسنا ا انسانیت کا تحفظ نہیں بلکہ صریح طور پر انسانیت کی تذلیل ہے۔ انسانیت کا تحفظ انسان کی خوش حالی میں مضمر ہے اور انسانیت کا تحفظ اس کے حقوق سلب کرنے میں نہیں بلکہ حقوق دینے میں ہے۔ انسان کے بے شمار حقوق میں سے اس کی شخصی، فکری اور قومی آزادی ہے۔ جب تک یہ میسر ہے تب تک انسانیت موجود ہے اور جب اس آزادی پر حملہ کیا جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں انسان سے یہ سب کچھ چھین کر انسانیت کی توقع کر کے جینا لاحاصل عمل ہے۔ اس حوالے سے اگر آج کی دنیا پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو صاف واضح ہوتا ہے کہ آج انسان سے اس کے فطری حقوق چھین کر پوری دنیا میں اندھیرا چھا چکا ہے۔ آج انسان کو بے شمار غلامیوں میں مبتلا کیا جا چکا ہے۔ شخصی غلامی، فکری غلامی، قومی غلامی ، اونچ نیچ کی غلامی، زبان، رنگ و نسل کے تفاخر کی غلامی ، ان ساری قبیح غلامیوں میںانسان کو مبتلا کر کے رکھ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ بارود کا ڈھیر کب پھٹ جائے کچھ خبر نہیں، اپنی اپنی فکر میں سب مشغول ہیں۔ فلسطین کا خون ناحق اسرائیل بہا رہا ہے، پاکستان میں ایک دوسرے سے لڑا کر خون بہایا جا رہا ہے، عراق اور افغانستان میں عالمی دہشت گرد ’’امریکہ بہادر‘‘ خون مسلم بہا رہا ہے، مصر میں وہاں کی کٹھہ پتلی فوجی آمریت وہاں کے جمہوری طور سے برسراقتدار آنے والی حکومت کا تختہ پلٹ کر انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔ اسی طرح شام کی صورت حال ہے۔ کشمیر میں وردی پوشوں کے ہاتھوں معصوم اور نہتے نوجوان کشمیریوں کا خون بہا یا جاتا رہا ہے۔ اس سب کے ہوتے ہوئے تحفظ حقوق انسانی کی باتیں کرنا سب فضول نظر آتا ہے۔ اس ایک دن پر کانفرنسیں، جلسے جلوس، ریلیاں، مظاہرے، قرار دادیں اور اس طرح کے بے شمار طریقے اختیار کیے جاتے ہیں لیکن سب کچھ خانہ پوری محسوس ہوتی ہے۔ بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن عملاً ٹائیں ٹائیں فش ، حقوق انسانی کے تحفظ پر خطابات ہوتے ہیں لیکن مقررین خود اصل معنی میں حقوق انسانی کے معنی سے نابلد نظر آتے ہیں۔ جس کی مثال پوری دنیا میں دیکھی جا سکتی ہے۔ فلسطین میں لاکھوں لوگوں کو قبروں میں پہنچا دیا گیا مگر آج تک یہ نہیںدیکھا گیا کہ اتنی بڑی تعداد میں فلسطینی کیوں مارے گئے؟ حقوق انسانی کا تحفظ کا جذبہ کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ اسی طرح مصر، فلسطین ،پاکستان، کشمیر، افغانستان، عراق، شام ، لبنان، چیچنیا، داغستان وغیرہ ممالک میں جو خون مسلم بہایا جا رہا ہے کسی حقوق انسانی کے نام نہاد علم بردار کے کان میںاصل معنی میں آج تک جوں تک نہیں رینگی، اپنی اپنی جگہ سب خاموش تماشائی بن کر صرف بیان بازی تک محدود نظر آتے ہیں۔ تحفظات کا راگ الاپ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دوسروں کو دھوکہ دینا نہیں بلکہ اپنی دنیا آپ برباد کرنے کے برابر ہے، جیسی کرنی ویسی برنی والا معاملہ ہے۔ آج ہم دوسروں کو غلامی میں جکڑنے کے خواب میں خود ہی مشکلات و مصائب کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں پوری دنیا میں امن قائم ہو جائے تو کیسے…؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر کوئی بآسانی جان سکتا ہے لیکن معلوم نہیں کیوں جان بوجھ کر انسان انسانیت سے دور بھٹکتا جا رہا ہے؟ کیوں اس کا ذہن روز بروز تعمیر کے بدلے تخریب کاری پر ہی اترتا جا رہا ہے؟دراصل اس سب کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔ برسر اقتدار حکمرانوں نے وقت وقت پر قوموں کے قوم تباہی کے دہانے پر پہنچا دئے، صرف اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لیے، اپنی چودھراہٹ کے نشے میں چور، ان حکمرانوں کی وجہ سے دنیا جہنم میں تبدیل ہو چکی ہے اور جہنم خوشبو کا نام نہیں بلکہ اس کے برعکس بدبو اور درد ناک بارود کا نام ہے،جس کا کام جلانا اور تباہ و برباد کرنا ہے۔ لوگوں کے حقوق سلب کر کے وہ کچھ پانے کا خواب دیکھنا جس کی انسانی فطرت منکر ہے، سب لاحاصل عمل ہے اور اس لا حاصل سعی و کوشش میں اپنا قیمتی وقت صرف کرنا اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی سے وار کرنے کے برابر ہے۔ آج کے حکمران جو بار بار اپنی تقریروں اور بیانات میں حقوق انسانی کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کرتے نظر آتے ہیں، اپنے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے لیے دنیا کو جہنم میں تبدیل کر رہے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چور یہ طاقتیںصرف آج دیکھتے ہیں لیکن کل کیا کچھ ہو سکتا ہے اس پر انہیں نظر ڈالنے کی صحیح معنوں میں فرصت ہی نہیں ملتی۔ اس طبقے کی وجہ سے جو پوری دنیا تباہی وبربادی کی طرف دھکیل دی گئی ہے اس کی روک تھام کرناضروری ہے۔ اس کی لگام کو پکڑنا پوری دنیا کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ عنقریب یہ دنیا نہ تو عوام الناس کے لیے رہے گی اور نہ ہی اس حکمران طبقے کے لیے۔رہنے کے لئے یہ عمدہ جگہ (دنیا) کوبارود کے ڈھیر پر کھڑا کر دیا گیا ہے ، اب یہ ہماری سوچ ہے کہ ہم دیکھتے رہیں کہ کس طرح بارود کے ڈھیر پر رکھا ہوا یہ دنیا راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو کر پوری دنیا کا خاتمہ کرے۔ بہرحال جو کرنا ہے عوام کو کرنا ہے۔ ’’مَنْ جَدَّ فَوَجَدَ‘‘ (جس نے سعی وکوشش کی اس نے پایا) انسان کی سعی و کوشش اور خدائے ذوالجلال کی مدر ونصرت، یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کی ضرورت اور اہمیت سے واقف ہونا لازمی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ ان دونوں چیزوں کا انسان کی زندگی میں ایک اہم رول ہے، انسان کی کوشش اورخدا کی نصرت ومدد انسان کے لیے کافی ہے۔ ٭٭٭٭٭