Friday 17 April 2015

خبردار :سوائن فلو کی ہے یلغار !

٭ابراہیم جمال بٹ

.....................

’’سوائن فلو‘‘ نے گزشتہ کئی ماہ سے ایک ایسی خوفناک صورت حال اختیار کی ہے کہ ہر کوئی پریشان و بے حال ہے۔ ہر جانب لوگ اس سے بچائو کی تدابیر کے بارے میں اظہار خیال کرتے نظر آرہے ہیں ، لیکن کیا کیا جائے ابھی تک اس کا رکائو نہیں ہو رہا ہے ،البتہ میڈیا نے کسی حد تک اس شہ سرخی کو چھوڑ دیاہے۔ حالانکہ اکثر لوگ ابھی تک چہرے پر ’’ماسک‘‘ لیے پھرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا ہے کہ’’ ماسک‘‘ پہننا فضول عمل ہے بلکہ کہنے کا مقصد بس یہ ہے کہ لوگ پریشان ہیں اور جان کی حفاظت کرنے کے لیے ہی ایسا کرتے ہیں۔ 
اب ذرا اس سوائن فلو جس نے اتنا تہلکہ مچا دیا ہے… کو غور وفکر کا نقطہ بنا کر اپنی اپنی جگہ سوچیں کہ کیا ہم ہر اس جان لیوا شئی سے برابر اسی طرح پرہیز کر کے، ان سے بچنے کی سوچتے ہیں…؟ اگر ہمارا حال ہر ایسی چیز کے بارے میں جس سے ہمارا نقصان ہو رہا ہو یہی ہے تو الحمد للہ… اور اگر اس سے مختلف ہے تو ذرا سوچئے…! یہ تضاد کیوں؟ 
سوائن فلو سے متاثرہ انسان سے بچنے کے لیے بے شمار اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں کیوں کہ یہ جان لیوا وائرس ہے۔ حالاں کہ ہمارے موجودہ معاشرے میں اِس سے زیادہ مہلک ترین بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن ان سے بچنے کی تدابیر نہیں کی جاتی، بلکہ ان کے پھیلائو کو ’’ماڈریٹ‘‘ کے لقب سے مذین کیا جاتا ہے۔ معاشرے میں ہر طرف بے حیائی کا بازار گرم ہے… ہر طرف لوٹ مار، قتل وغارت گری، ظلم وفساد، بے راہ روی، بددیانتی، رشوت خوری، اور دھوکہ دہی جیسی بیماریاں روز بروز پھیلتی ہی جا رہی ہیں اور ان کے پھیلائو سے کوئی انسان پریشان وبے حال نہیں ہوتا… ایک طبقہ تو انہیں وقت کی ضرورت کہتا ہے اور ایک دوسرا طبقہ مجبوری کا بہانہ بنا کر اپنی آنکھیں بند کر یہ سب کچھ دیکھ کرمطمئن نظر آتا ہے۔ آخر اتنا تضاد کیوں…؟ کیا معاشرے میں پھیل رہی بے راہ روی اور فحاشی ہمارے لیے سمِ قاتل نہیں؟ کیا دھوکہ دہی،لوٹ مار، قتل وغارت گری، ظلم وفساد، بے راہ روی، بددیانتی اور رشوت خوری ہمارے معاشرے کے لیے جان لیوا اور مہلک ترین بیماریوں میں سے نہیں …؟ 
اصل حقیقت یہ ہے کہ بنی نوع انسان اچھی طرح سے سمجھ رہا ہے کہ یہ سب مہلک ترین بیماریاں ہیں، ان سے نہ صرف انسانی جان کو خطرہ لاحق ہے بلکہ منجملہ پوری قوم و انسانیت کو نقصان پہنچ رہا ہے، لیکن پھر بھی انسان آنکھیں موندھ کر اندھوں اور بہروں کی طرح زندگی کے یہ گنے چنے ایام گزار رہے ہیں۔ کسی چیز کی بھی فکر نہیں۔ اپنا آج کا دن اچھی طرح سے گزرے، یہی ہماری سوچ بن چکی ہے۔ اسی لیے جب ’’سوائن فلو‘‘ جیسی بیماری کا اعلان ہو جاتا ہے تو دل تھر تھر کانپنے لگتا ہے اور جلد ہی بچائو کی تدابیر کی جاتی ہیں۔ یعنی موت کا کومحسوس کر کے، ’’آج‘‘ کا نقصان نظر آتا ہے، اسی لیے تدابیر کے طور پر ’’ماسک‘‘ وغیرہ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ’’آج‘‘ کا بچائو اور اس کا خطرہ دیکھ کرکیا جاتا ہے ۔ لیکن وائے افسوس! ’’آج ‘‘ کا خطرہ محسوس کیا جاتا ہے لیکن کل اور آنے والے ایام کے ساتھ ساتھ پوری زندگی، اور عالم انسانیت کو ہونے والے نقصان کا اندازہ ہونے کے باوجود بھی کوئی تدبیر نہیں کی جاتی۔ افسوس… صد افسوس!
زندگی انمول شئی ہے اور جہاں یہ گزر رہی ہو وہاں کا ماحول اس سے بھی انمول ہے۔ اس لحاظ سے ترجیحات کی بنیاد پر اولیت اور ثانویت کی بنیاد پر ہمارا قدم اُٹھنا چاہیے۔ سوائن فلو جیسی مہلک بیماری سے بچائو کی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُن ساری بیماریوں کا تدارک اور بچائو کی صورتیں نکالنا بھی ضروری اور لازم ہیں جن سے پوری قوم وملت متاثر ہو کر   نیست نابود ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔ زندگی قیمتی ہے لیکن جس معاشرے میں ہم جی رہے ہوں وہ کس قدر قیمتی ہے اس کا اندازہ لگانا چاہیے اور پھر اس میں پھیل رہی بیماریوں کا تدارک بھی کرنا چاہیے۔   ٭٭٭٭٭