Monday 26 May 2014

مودی ۔۔۔ آر پار کایار ؟...................ہر زماں ہے امتحاں کہ ہرنفس ہے احتساب

.............
 نریندر مودی نے آج انپے عہد ے کا حلف ایک شاندار تقریب میں اٹھایا اور اب وہ رسما بھارت کے نئے وزیراعظم ہیں ۔ انہوں نے دن کی شروعات راج گھاٹ میں گاندھی کی سمادھی پر  گل باری اور پرارتھنا سے کی ۔ اور بعد ازاں حلف لیا۔ حلف برداری کے فنکشن میں ان کے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کے علاوہ سارک ممالک کے سربراہوں کی شرکت نے محفل کا ایک الگ ہی سماں باندھا۔ راج گھاٹ پر مودی کی اولین فرصت میں حاضری دینا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ گاندھی واد کے شیدائی ہیں اور نتھو رام گوڈسے کی اس فلاسفی سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں جو اس نے آر ایس ایس کی کوکھ میں سیکھی۔ یہ اگرنمائشی معاملہ نہ ہو تو خود میں ایک بہت بڑی پیش رفت ہے ۔بھارت میں پارلیمانی انتخابات کے بعد جو چونکا دینے والے نتائج سامنے آئے انہیںدیکھ کر یہ واضح ہو گیا کہ ملک میں وہ لوگ جنہوں نے اس الیکشن میں عملی طور حصہ لے کر ووٹ ڈالا ، چاہتے ہیں کہ برسوں پراناخاندانی نظام کا خاتمہ ہو اور ایک نئی سیاسی تبدیلی آئے تاکہ ان کے مسائل حل ہوں اور مصائب ٹل جائیں۔ الیکشن کے نتائج سے ہی یہ واضح ہو گیا کہ جس مودی لہرکی باتیں چہارر سُوہو رہی تھیں اسی لہر نے آخر کار خاندانی راج کا خاتمہ کر کے ایک ایسی عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا کہ پوری دنیا دیکھتے ہی رہ گئی۔ کئی لوگوں کا عندیہ ہے کہ بھارت واسیوں نے ہندو توا کو ووٹ دے کرجتایا جب کہ کئی ایک طبقاتِ فکر الیکشن نتائج کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔۔۔ایک ایسی تبدیلی جس سے خزاں آلودہ فضا میں ایک بہار آجائے اور بھارت دیس ایک ایسا ملک بن جائے جہاں فتنہ وفسادکا خاتمہ اور مسائل کا نپٹارا ہو ۔ بہرحال مودی لہر نے اپنا پہلا جلوہ دکھایا اور دیس اور دنیا پر واضح کر دیا کہ بھارت واسی فکر وعمل کی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک تعمیر وترقی اور سکھ شانتی کی پٹری پر آجائے۔ بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تاج پوشی کے حوالے سے صدر ہند پرنب کمار مکھرجی کے نام پیغام قبل از وقت ببھجوا دیا کہ روایت سے ہٹ کر وہ وزیر اعظم کا حلف راشٹر پتی بھون کی چار دیواری کے اندر نہیں بلکہ کم وبیش تین ہزار مہمانوں سے بھرے دربار کو لے کر اس بھون کے آنگن میں لیں گے۔ ان کی اسی خواہش کے عین مطابق 26مئی کو یہ تقریب ہوئی جس میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی شرکت سے مودی کے ساتھ ساتھ ان پر عالمی میڈیاکی آنکھیں مرکو زرہیں۔ یاد رہے کہ انہیں خصوصی دعوت نامے بھیجاگیا تھا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے پہلے ہی جب انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا ، بھارت کے نومنتخب وزیر اعظم نریندر مودی کو مبارک باد دیتے ہوئے اس بات کا کھل کراظہار کیا کہ نئی سرکار کی آمد سے یہ امید اور توقع رکھی جا سکتی ہے کہ آئندہ ہند پاک مذاکرات کا دروازہ کھل جائے گا اور تمام مسائل کا حل نکالنے کی بھر پور کوشش کی جائے گی۔ دونوں ممالک کے درمیان جو تلخیاں اور سردمہریاںپائی جاتی ہیں، ممکن ہے بھارت میں اس کلیدی اہمیت کی حامل سیاسی تبدیلی سے واجپائی ودر کی یادیں تازہ ہوںجب آر پار اعتماد سازی کے بہت سارے اقدامات کئے گئے۔ بھارت پاک تعلقات کے حوالے سے جو آئے روز میڈیا رپورٹیں سامنے آرہی ہیں ان سے کچھ نیا ہونے کے اشارے ملتے ہیں بلکہ کئی مباحثوں اور میڈیا رپورٹوں سے ایسا تاثر جھلکتا ہے کہ شاید دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کچھ تبدیلیاں آئیں گی۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے سابق سفارت کار اور بھارت کے خلاف سخت رویہ رکھنے والے کئی پاکستانی لیڈروں نے بھی دوطرفہ تعلقات میں بہتری کی خوش امیدیاں ظاہر کی ہیں۔ حال ہی ایک مباحثے میں سخت رویہ اختیار کرنے والے پاکستان کے سابق سفارت کار ظفر ہلالی نے کہا کہ’’ نریندر مودی کی جیت کے فوراً بعد بغیر کسی تاخیر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے مودی کو نہ صرف مبارک باد دی بلکہ بھارت کے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا جس کے بعد نریندر مودی نے حلف برداری کی تقریب میں نواز شریف کو مدعو کیا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’بی جے پی کی سرکار سے پاکستان کے تعلقات دوسری حکومتوں کے بالمقابل بہتر رہنے کی توقع ہے۔‘‘ نئی دہلی میں پاکستان کے ایک اور سابق سفیر شہر یار خان نے بھی اسی طرح کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ شروعات بہتر ڈھنگ سے ہو چکی ہے اور اب امید کی جانی چاہیے کہ دونوں ملک مسائل کے حل کے لئے مثبت کوششیں کریں گے۔’’ ایک اور سابق سفیر اسلم رضوی نے کہا کہ ’’بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کے نمایاں آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ ‘‘سابق سفیر اور خارجہ سیکرٹری عبد العزیز خان نے یہاں تک بھی بتایا کہ ’’بھارت کی یو پی اے سرکار تعلقات کے حوالے سے محض وقت کاٹتی رہی جب کہ اب دونوں ملکوں کی سرکاریں مضبوط ہیں اس لئے مضبوط رشتوں کی پوری اُمید ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں اطراف سے شکوک وشبہات کا سلسلہ ترک ہو جانا چاہئے۔‘‘ برگیڈر راشد قریشی نے ہندو پاک تعلقات میں خوشگوار تبدیلی کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ’’ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ملک ٹھوس اور مثبت اقدامات کا آغاز کریں تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں کے حوالے سے جو غیر یقینیت بنی ہوئی ہے ،اس کا خاتمہ ہو جائے۔ ‘‘ چنانچہ اسی طرح کے بیانات بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے بھی آتے رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میںیہاں تک بھی کہہ دیا کہ ’’میری سرکار کو پاکستان کے ساتھ دشمنی نہیں دوستی ہو گی‘‘ ۔انہوں نے واضح طور کہا کہ’’ پاکستان کے ساتھ بھارت کے رشتے مزید مستحکم ہوں گے،اپنے پڑوسیوں کے بارے میں کبھی غلط سوچا نہیں ہے بلکہ چین کے ساتھ بھی مضبوط رشتوں کو اہمیت دی جائے گی۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ملک کے اندر اس قدر استحکام لائیں گے کہ پاکستان خود بھارت کے ساتھ دوستی کی آرزو کرے گا۔‘‘ یہ پوچھے جانے پر کہ’’اگر آپ اب وزیر اعظم بن گئے،تو کیا اب آپ پاکستان کو ڈرائیں گے؟ نریندرمودی نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ ایسا کیوں کروں گا؟ پاکستان ہمارا پڑوسی ملک ہے، ہم اس کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کریں گے بلکہ پڑوسیوں کے ساتھ آنکھ دکھا کر یا جھکا کر نہیں بلکہ آنکھیں ملا کر بات چیت کر کے راہ ِامن ہموار کریں گے۔‘‘ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ سینئر سیاسی و سماجی لیڈروں اور سفارت کاروں کی طرف سے اسی طرح کے بیانات آرہے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آگے کیا ہو گا ؟اس کا اندازہ کرنا ابھی اگرچہ مشکل ہے ، تاہم آج تک جو ہوتا آرہا ہے اس سے کئی لوگوں کے خدشے ابھی بھی یہی ہیں کہ ’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ بہر حال جو بھی ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا لیکن پاک بھارت کے درمیان جو تلخیاں کبھی کبھار جنگ کی دہلیز تک انہیں پہنچاتی ہیں، اسے دیکھ کر یہ خدشہ ہے کہ حکومت چاہے کسی کی بھہ ہو یہاں ایک دن کی خوشی کئی برسوں کا ماتم جیسا منظر سامنے نہ آتارہا ہے۔ چونکہ بھارت کے نئے وزیر اعظم کی گجرات تاریخ کا سیاہ باب ابھی مکمل طورسے بندنہیں ہوا ہے، وہ باب اس قدر خونچکاں ہے کہ انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ گجرات فسادات کے دوران نریندر مودی کی سرکار نے مسلمانوں کے ساتھ کیسا ناقابل بیان سلوک روا رکھا، اس کے متعلق پوری دنیا اچھی طرح سے واقف ہے۔ اور تو اور مسلمانوں کے علاوہ باقی اقلیتوں کے تئیں ان کے خیالات کیسے ہیں وہ بھی واضح ہیں۔ تاہم اس بار مرکزی حکومت کی باگ ڈور بی جے پی کے ہاتھوں میں اس طرح آگئی ہے کہ انہیں کسی سہارے کی کوئی ضرورت بھی نہیں رہی، اس نے ۴۸ء کے بعد اپنے بل بوتے پر حکومت قائم کر کے ایک ایسا چمتکار دکھایا کہ پوری دنیا دیکھتے ہی رہ گئی۔

پاک بھارت تعلقات میں مثبت تبدیلی کہ امید کرنا کوئی گناہ نہیں ہے لیکن دونوں ممالک کے مابین جو بھی معاملات ہوں گے ان میں جو حل طلب اہم مسئلہ ہے وہ جموں وکشمیر کا متنازعہ و دیرینہ مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ دلی اوراسلام آبادکے دویگر مسائل لٹکے چلے آرہے ہیں، جن کا حل نکلتے نکلتے بھی نہیں نکل پا رہا ہے۔ نئی  مرکزی حکومت نے اگر کانگریس سرکار کی وہی پالیسی اختیار کی جس میں وہ بار بار بات چیت کے میز پر بیٹھ بھی گئے لیکن صرف اپنا ووٹ بٹورنے کے لئے، ان کے دور میں کئی بار مذاکراتی میز سجائے گئے ، ایک دوسرے کا آمنا سامنا ہوا لیکن حل دور دور تک بھی نظر نہ آیا۔ اگر بالفرض بھارت کی یہ نئی سرکار برابر اسی نہج پر برقرار رہی تو شاید اس سرکار کا بھی آخر کار وہی حشر ہو نا ہے جو اس سے قبل کی حکومتوں کاہوا۔
یہ بات واضح ہے کہ پاک بھارت کا جڑنا ایشیا ء کے اس خطے کے لئے بے حد ضروری ہے۔ برصغیر میں ان دونوں کے درمیان چپقلش اور تلخیاں اگر ختم ہو جائیں تو یہ ایک ایشیائی طاقت کا ایک اور نمونہ ہو گا۔ یورپ، جس کا نام ایک ’’طاقتور بیلٹ ‘‘کے طور پر لیا جاتا ہے، اس کے آگے ایشیائی ممالک سرجکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں جن میں سے پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔ بدیہی حقیقت یہی ہے کہ پاک بھارت کے درمیان بغض وعداوت کی جو نفسیاتی خلیج پائی جاتی ہے، ان کے مابین جو یہ دشمنی کا بیج روز بروز اُگنے کے ساتھ ساتھ پھیلایا بھی جا رہا ہے، یہ برصغیر کے مسائل حل ہونے میں مانع ہے۔ یورپین طاقت جس کا سکہ اور جس کی چودھراہٹ برصغیر میں اس لئے چل رہی ہے کیونکہ کہ برصغیر بٹاہوا ہے، ان کے درمیان جو ممالک آباد ہیں وہ ایک دوسرے سے اس قدر نالاں وپریشان ہیں کہ دور سے ان کا یک جٹ ہونا محال دکھائی دے رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جو برصغیر سے باہر رہنے والے نام نہاد ترقی پسند ممالک کی کارستانیاں ہیں۔ پاک بھارت تعلقات میں تلخیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اگر کسی حد تک حل ہو سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف کشمیر حل سے ہو سکتا ہے۔ مسئلہ جو 60سال سے زائد عرصہ سے لٹکا چلا آرہا ہے۔ اس دوران ہزاروں نہیںبلکہ لاکھوں کی جانیں تلف ہو گئیں، ہزاروں بہنیں بیوہ ہو گئیںاور ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے جن پر سوچ کر بھی رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہی کشمیر حل باقی ہے۔ بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی ہے کہ ’’جموں وکشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے‘‘ اور پاکستان کا یہ کہنا کہ ’’جموں وکشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘۔ اس آپسی بیان بازیوں کے درمیان جموںوکشمیر کی عوام آج تک کٹتی جاری ہے، اسے دن و رات کے جس لمحے بھی چاہیں پابند زنداں کیا جاسکتا ہے، گھروں میں توڑ پھوڑکے علاوہ لوٹ مار کی جا سکتی ہے، پرامن احتجاج کے دوران گولیوں سے جواب دے کر انسانوںکی لاشوں کاڈھیر کیا جاسکتا ہے۔ غرض کہ یہاں کے لوگ پاک بھارت تعلقات اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کٹے مرے جا رہے ہیں ۔ بھارت کی نئی سرکار اگر چاہے تو مسئلہ کشمیر کے بارے میں روایتی ہٹ دھرمی کو خیر باد کر کے پرامن طریقے سے پاکستان اور ریاست جموںوکشمیر کے عوام کے منتخب اور حریت پسند سیاسی لیڈران کوایک جگہ جمع کر کے اس دیرینہ مسلے کا حل نکال سکتی ہے۔ بہرصورت یہ مسئلہ حل ہو گیا تو کسی حد تک پاک بھارت تعلقات میں اصل معنی میں تبدیلی تو آ نی ہی ہے مگر نریندر مودی کا قد تاریخ کے پنوں میں اتنا اونچا وہوگا کہ شاید ہم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے    ؎
امیدوں کے سہارے جئے جا رہے ہیں
ورنہ حقیقت کا منظر کچھ اور ہی ہے