Tuesday 21 October 2014

کمر ٹوٹی پر کیا دل بھی ٹوٹا…؟

(ابو محمد حمزہ…سرینگر) 
..................................


وادیٔ کشمیر کے عزیزو!حالیہ سیلاب نے کس قدر ہماری کمر توڑ ڈالی اس کا اندازہ کرنا اگرچہ بہت مشکل ہے تاہم ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ سیلاب سیلاب نہیں بلکہ ایک ایسا طوفان تھا جس نے بستیوں کی بستیاں اُجاڑ کر رکھ دیں، بے شمار علاقوں کوزمین بوس کر دیا، کئی مقامات پر اس قدر جانی نقصان ہوا کہ جس کی تلافی ناممکن ہے، جانی نقصان کے ساتھ تجارت سے وابستہ لوگوں کی مالیات کانظام اس قدر متاثر ہوا کہ شاید برسوں لگ جائیں گے اُسے پھر سے حاصل کرنے میں۔ لاکھوں نہیں، کروڑوں نہیںبلکہ اربوں اورکھربوں کی مالیت کا نقصان ہوا، سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا، پانی کے اس طوفانی ریلے نے اس قدر اچانک تباہی مچا دی کہ کئی لوگ آج آنکھیں موندھ رہے ہیں کہ شاید یہ کوئی خواب تھا… پر کیا کریں یہ خواب نہیں ایک زندہ حقیقت ہے، آنکھیں موندھ لینے سے حقیقت خواب میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔ یہ ایسا طوفان تھا جس سے یہ بات عیاں ہو کر سامنے آگئی کہ جب خدا کی مار پڑتی ہے تو اس طرح پڑتی ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ کہاں سے پڑی؟ خدا کا غضب ہو یا خدا کی طرف سے آزمائش، یہ دونوں صورتیں اچانک اپنا جلوہ دکھاتی ہیں۔ یہ سیلابی طوفان جس نے وادیٔ کشمیر کو اپنی گرفت میں لے لیا، ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ طوفان خدا کا غضب تھا یا آزمائش… لیکن اگر خود کو اپنی اپنی جگہ جانچ لیں تو ضرور معلوم ہو گا کہ یہ کیا کچھ تھا…؟ 
وادیٔ کشمیر کی بہنو اور بھائیو! خدا کی طرف سے بھیجا گیا یہ سیلابی طوفان اب جو کچھ بھی تھا … آگیا، لیکن اس طوفان سے ہم نے دیکھا کہ اس نے وہاں وہاں قدم ڈالے جہاں کے ساکنین اس کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، جہاں کے لوگوں کو خیال تھا کہ ’’ہم وہاں رہ رہے ہیں جہاں ایسے طوفانوں کا سایہ بھی نہیں پڑ سکتا‘‘ اس طوفان نے نہ آئو دیکھا نہ تائو، جہاں جی چاہا گھس آیا، جسے مٹانا چاہامٹا دیا، جس رکھنا چاہا اسے اس طرح محفوظ رکھا کہ لوگ دیکھتے ہی رہ گئے۔ مجموعی طور سے یہ سیلابی ریلا ایک عبرت ناک اور وحشت ناک منظر تھا، اس ریلے نے ایک طرف جانی نقصان کا نظارہ کرایا تو دوسری جانب مالی نقصان سے اس قدر دوچار کرایا کہ عمر بھر کی کمائی یکدم خاک میں ملا دی۔ اس کی مار نے نہ گائوں دیکھا اور نہ ہی شہر … نہ اسلام آباد وکولگام دیکھا نہ شہر سرینگر کا دل لال چوک ، نہ ہی کرن نگر دیکھا اورنہ ہی بمنہ بلکہ جہاں جہاں اس سیلابی ریلے کو اجازت ملی تھی اس نے وہاں گھس کر تباہی مچا دی۔ 
میرے عزیزو! طوفان آیا اور اب لگ بھگ ایک مہینہ گزرنے کے بعد تھم گیا، اس طوفان نے کیا کچھ دیا اور کیا کچھ لیا اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے لیکن میرے عزیزو! یہ جان لینا چاہیے کہ یہ طوفان طوفان نہیں بلکہ ایک قیامت تھی، قیامت کا ایک ایسا منظر تھا جب النفسی النفسی کا عالم ہو گا، جب لوگ بھاگنے کی کوشش کریں گے لیکن وہ دن ایسا ہو گا کہ اس کا بھاگنا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا، اس کو گھیر لیا جائے گا، اس پر اس قدر گھیرائو کیا جائے گا کہ بھاگنے کی سوچ بھی لے تو بھی نہیں بھاگ سکتا اور اگر بھاگ بھی جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ سیلابی طوفان جب آیا اس نے بھاگنے کا موقع بھی نہیں دیا، اس قدر چڑھا کہ یکدم منزلوں کی منزلیں پانی میں گم ہو گئیں۔جہاں لوگوں کے مسکن تھے وہاں پانی ہی پانی نظر آرہا تھا، چھتوں کے اوپر سے کشتیوں میں درماندہ لوگ سفر کر رہے تھے۔ لوگوں کی تین تین منزلہ عمارتیں بھی کم پڑ گئیں۔ 
وادیٔ کشمیر کی بہنو اور بھائیو! ہم نے اس سیلابی سفر کا نظارہ کر لیا، اس کا مشاہدہ ہو چکا، اس کے خطرات سے ہم فی الحال نکل چکے، اس کی تباہی دیکھ چکے۔ اب ہماری سوچ کیا کچھ کہتی ہے؟ کیا یہ طوفانی ریلا آزمائش تھی یا خدا کا غضب اور عذاب…؟ عزیزو! کیا ہم نے اس پر غور کیا ہے؟ یا پھر اسی طرح دن گزار رہے ہیں جس طرح اس سے قبل کی زندگی گزر رہی تھی۔ کیا ہم نے اپنے نفس کا خود ہی جائزہ لیا؟ کہ یہ طوفان عذاب تھا یا آزمائش؟ اگر آزمائش تھی تو اس کا ثمر ’’زاد ایمانھم‘‘ ہے اور اگر عذاب تھا تو ہم نے اپنی تبدیلی کا کیا کچھ سوچا ہے؟ کہیں ایسا نہ کہ ہم پھر سے گھیر لیے جائیں… کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کو پھر اس طرح کے مناظر دیکھنا پڑھیں… مشہور مقولہ ہے کہ ’’اپنا حساب لو قبل اس کے کہ آپ کا حساب لیا جائے‘‘۔ میرے بھائیو! حساب و جائزہ کا وقت آگیا ہے۔ 
اس طوفان نے ہماری کمر توڑ ڈالی لیکن ہمارا دل ابھی بھی ویسا ہی ہے جیسا اس سے قبل تھا؟ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’کمر ٹوٹی مگر دل نہ ٹوٹا‘‘ کہیں یہ سچ تو نہیں؟ اگر اس سیلابی طوفان سے ہماری کمر کے ساتھ ساتھ دل بھی ٹوٹ چکے ہیں تو تبدیلی آنی ضروری ہے، تبدیلی آئے گی تو خدا کا یہ ایک اور موقعہ ہم کو اپنی منزل پانے کا ایک ذریعہ بن جائے گا اور اگر زندگی برابر اسی نہج پر چلتی رہے جس پر اس سے قبل چل رہی تھی تو خدا کا یہ دیا ہوا ایک اور موقعہ شائد ہماری مکمل تباہی و خسرانِ دارین کا موجب بن جائے گا۔ 
یاد رکھئے جب ایسے مناظر پیش آتے ہیں تو کوئی کسی کا اصل مدد گار نہیں بنتا، سب اپنی اپنی راہ چلتے دکھائی دیتے ہیں، خدا کی دی ہوئی یہ زندگی جو اب بھی باقی ہے… شائد ایک اور موقعہ عنایت فرمایا گیا ہے، ہمیں اس کا فائدہ اُٹھانا چاہیے، اس ایک موقعے کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہو گا کہ ہم پلٹ کر اپنے وجود کا حساب لیں، ہم وہ سب کچھ چھوڑ دیں جس کی پاداش میں ہمیں اس طوفان نے آگھیر لیا… جس کی وجہ سے ہم کو برسوں کی کمائی کا خسارہ دیکھنا پڑا۔ 
خیالی باغ دکھانے والے ہم کو اس طوفان میں اکیلے چھوڑ گئے… کوئی حامی ومددگار نہیں دکھائی دیا… ہم سب نے جو کچھ کیا بس وہی کچھ تھا… باقی خواب دکھانے والے لوگ یا تو خود بھاگ گئے یا اس قدر خاموش رہے کہ جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا تھا۔ بھانت بھانت کی بھولیاں بھولنے والے لوگ اپنی کرسیاں اور اپنا الو سیدھا کرنے اب ہمارے شہروں، علاقوں اور گھروں کا رخ کر رہے ہیں، کہیں نامنہاد ریلیف کے نام پر تو کہیں چادر اور چاول وغیرہ کے نام پر۔ لیکن ان کا اصل مقصد کیا کچھ ہے اس کا اندازہ شائد ہم کو ہو گیا ہو گا۔ جب ہم گرفتارِ طوفان تھے تو نظر نہیں آئے اور اب جب ہم کو ایک اور مہلت نصیب ہوئی تو دور سے ہمیں زندہ دیکھ کر واپس ہماری طرف آئے… ا س طرح آئے کہ جیسے کہ وہ سچ مچ ہمارے مسیحا ، حامی ومددگار ہوں، لیکن حقیقت پر سے پردہ نہیں ہٹایا جا سکتا، وہ لوگ کس قدر بے وقوف اور نادان ہوں گے جو اب بھی ان کی شاطرانہ چالوں کا شکار ہو کر اپنی زندگی کو خطرات کے بھنور میں دکھیل دیں۔ یہ نادانی ہی نہیں بلکہ مستقل خسران اور تباہی کا نظارہ ہو گا۔ 
میرے عزیزو!ہم میں تبدیلی ضروری ہے، تبدیلی ایسی کہ دوبارہ ایسی جان لیوا صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہماری زندگی گزارنے کی سوچ بدل جانی چاہیے۔ ہمارا رہن سہن، ہماری تجارت، ہماری تعلیم وتعلم، ہماری سیاست ومعیشت، ہمارا چلنا پھرنا، ہمارا ایک ایک لمحہ گزارنا، اس سب میں تبدیلی ضروری ہے۔ 
میرے بھائیو اور عزیز بہنو! ہمیں دل کا جائزہ لے کر ،اپنے اعمال کا حساب لے کر، ایک ایسا طریقہ اختیار کرنا ہے جس میں فلاح وکامیابی ہو، جس میں دارین کی خوشیاں ہوں، جس میں ترقی اورامن وسکون ہو۔ 
یہ ایک درد بھری پکارہے ، اس پکار کو کوئی تحریر نہ سمجھ لیں بلکہ یہ پکار دل کی ایک آواز ہے، ایک بد نصیب کی زبان ہے، جس نے سمجھ لیا ہے کہ یہ طوفان اس کے لیے ایک عذاب تھا نہ آزمائش۔ اُٹھئے اور خود کا جائزہ خود ہی لیجئے، اپنا مفتی آپ بنئے، اپنے طور طریقے کے انداز کو خود دیکھئے اور جاننے کی کوشش کیجئے کہ ہم کو کس نے گھیر لیا ،کیوں گھیر لیا؟ اور اب کیوں ایک اور مہلت دی گئی۔ ؟؟؟اللہ ہمارا حامی وناصر ہو،آمین۔ 
///……///

……………………