Wednesday 18 December 2013

کیا انسانیت کاتحفظ ہو رہا ہے؟

ابراہیم جمال بٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہر سال کی طرح امسال بھی 10 دسمبر کو ’’حقوق انسانی کے تحفظ کا عالمی دن‘‘ منایا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے اس عالمی دن کے موقع پر دنیا بھرمیں مختلف قسم کی تقاریب اور کانفرنسوں وغیرہ کا اہتمام کیا جا تا ہے، جن میں انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے اپنے خیالات پیش کئے جاتے ہیں۔ اس بات پر تبصرہ کیا جاتا ہے کہ فی الوقت پوری دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے کیا کچھ ہو رہا ہے، کیا ہو چکا ہے اور آئندہ اس حوالے سے کہاں پر کیا کچھ ہونے کا احتمال ہے۔ اس ساری صورت حال پر اس عالمی دن کے موقع پر محاسبہ کیا جاتا ہے۔

جہاں تک حقوق انسانی کے تحفظ کا سوال ہے تو بحیثیت ایک انسان کے یہ حق بنتا ہے کہ دنیا میں اسے تحفظ فراہم ہو سکے۔ انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اسے ہر حیثیت اور ہر مقام پر تحفظ فراہم ہو سکے۔ انسان اس دنیا میں آزاد پیدا ہوا ہے اس لئے انسان کو جب تک ہر حیثیت سے آزادی نصیب نہیں ہوتی تب تک اس کی زندگی کا کوئی صحیح مطلب نہیں ہے۔ انسان اپنی مرضی کا آپ مالک ہے لہٰذا وہ کیا چاہتا ہے، اس لحاظ سے انسان کو کہنے، سننے کا پورا پورا حق ملنا چاہیے، جب تک یہ سب کچھ انسان کو میسر نہ ہو تب تک انسان فطری طور پر ایک چوپایہ سے کم نہیں۔ جانور چاہے جس قدر بھی فائدہ مند ہو لیکن بہر حال جانو ر ہی رہتا ہے۔ اس کا منافع بخش ہونا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ اسے جانوروں کی فہرست سے نکال کر کسی اور مخلوق میں شمار کیا جائے۔ برابر اسی طرح ایک عام انسان کو اگر اپنے فطری حقوق سے محروم کر کے رکھ دیا جائے تو اگرچہ وہ بحیثیت انسان، انسان ہی رہے گا لیکن اس کے ذریعے سے وہ کچھ بھی حاصل نہیں ہو پائے گا جو اس کی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ اس اصل مقصد کے لئے انسان کی آزادی ضروری ہے تاکہ وہ انسانی فطرت کے لحاظ سے فیصلہ کرے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ اس کے لیے انسان کو ہر حیثیت سے آزادی درکار ہے،جس سے وہ بلا روک ٹوک اور خوف کے یہ فیصلہ کر سکے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ انسان فطرتاً آزاد پیدا کیا گیا ہے اور فطرت کے ساتھ جنگ چھیڑ کر اس کی آزادی کو سلب کرنا انسانیت پر وار کرنے کے برابر ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو انسانی حقوق کا تحفظ تب تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک اس دنیا میں انسان شخصی ، فکری اور قومی غلامی سے آزاد نہ ہو۔ ہر انسان غلامی سے پاک ہو کرانسانیت کے تحفظ کا مقام حاصل کر سکتا ہے، کیوں کہ انسان کو پیدا کرنے والے خدائے ذوالجلال نے بھی اس پر زور زبردستی سے کوئی بات منوانے کی آج تک کوشش نہیں کی بلکہ اسے آزاد رکھ کر اوراس پر واضح کر کے اس کے سامنے دو راستے رکھے، اب اس کی مرضی کہ کس کو پسند کرے اور کس کو ناپسند؟ صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنا اب ا س کے ہاتھ میں رکھا گیا ہے۔ اس لحاظ سے ہر حیثیت سے انسان آزاد ہونا چاہیے تاکہ وہ آزادی کے ماحول میں اپنی زندگی کا فیصلہ کر سکے۔ انسانیت کا تحفظ انسان کی ہی آزادی میں مخفی ہے۔ جب تک انسان کو انسان بن کر رہنے نہ دیا جائے تب تک نہ تو کسی کو تحفظ فراہم ہو سکے گا اور نہ ہی یہ دنیا صحیح معنوں میں ترقی کر سکتا ہے۔

پوری دنیا میں 10 دسمبر کے دن اگرچہ انسانی حقوق کے تحفظ کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کا انسان کئی حیثیتوں سے غلام ہو کر انسانیت کے نام سے دور جا چکا ہے، جس کا خمیازہ پوری دنیا اٹھا رہی ہے۔ دنیا کا وہ کون سا حصہ ہے جہاں امن ہے…؟ چہار جانب بدامنی، ظلم و فساد، جنگ و جدل، قتل و غارت گری، لوٹ مار، اغوا کاری، بے راہ روی اور ایک دوسرے کا حق مارنا جیسے قبیح حرکات میں انسان محو ہے۔ گویا انسان انسان نہیں ،مثل چوپایہ بن چکا ہے کہ اسے یہ خیال نہیں رہتا کہ وہ کب کیا کر رہا ہے۔ آج انسان کسی دوسری مخلوق کا نہیں بلکہ انسان کا ہی دشمن بن چکا ہے۔ ایک دوسرے کو مارنا ، ایک دوسرے کی آزادی چھین کر اسے غلام بنانا، ایک دوسرے کے حقوق پر حملہ کر کے خود خوش رہنے کی کوشش کرنا، یہ سب کچھ آج یہی انسان کر رہا ہے۔ شخصی غلامی سے لے کر قومی اور فکری غلامی میں انسان کو مبتلا کیا جا چکا ہے، جس کا نتیجہ پوری دنیا میں واضح ہے۔ کسی انسان یا قوم پر کوئی چیزجبراً ٹھونسنا ا انسانیت کا تحفظ نہیں بلکہ صریح طور پر انسانیت کی تذلیل ہے۔ انسانیت کا تحفظ انسان کی خوش حالی میں مضمر ہے اور انسانیت کا تحفظ اس کے حقوق سلب کرنے میں نہیں بلکہ حقوق دینے میں ہے۔ انسان کے بے شمار حقوق میں سے اس کی شخصی، فکری اور قومی آزادی ہے۔ جب تک یہ میسر ہے تب تک انسانیت موجود ہے اور جب اس آزادی پر حملہ کیا جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں انسان سے یہ سب کچھ چھین کر انسانیت کی توقع کر کے جینا لاحاصل عمل ہے۔ اس حوالے سے اگر آج کی دنیا پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو صاف واضح ہوتا ہے کہ آج انسان سے اس کے فطری حقوق چھین کر پوری دنیا میں اندھیرا چھا چکا ہے۔ آج انسان کو بے شمار غلامیوں میں مبتلا کیا جا چکا ہے۔ شخصی غلامی، فکری غلامی، قومی غلامی ، اونچ نیچ کی غلامی، زبان، رنگ و نسل کے تفاخر کی غلامی ، ان ساری قبیح غلامیوں میںانسان کو مبتلا کر کے رکھ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ بارود کا ڈھیر کب پھٹ جائے کچھ خبر نہیں، اپنی اپنی فکر میں سب مشغول ہیں۔ فلسطین کا خون ناحق اسرائیل بہا رہا ہے، پاکستان میں ایک دوسرے سے لڑا کر خون بہایا جا رہا ہے، عراق اور افغانستان میں عالمی دہشت گرد ’’امریکہ بہادر‘‘ خون مسلم بہا رہا ہے، مصر میں وہاں کی کٹھہ پتلی فوجی آمریت وہاں کے جمہوری طور سے برسراقتدار آنے والی حکومت کا تختہ پلٹ کر انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔ اسی طرح شام کی صورت حال ہے۔ کشمیر میں وردی پوشوں کے ہاتھوں معصوم اور نہتے نوجوان کشمیریوں کا خون بہا یا جاتا رہا ہے۔ اس سب کے ہوتے ہوئے تحفظ حقوق انسانی کی باتیں کرنا سب فضول نظر آتا ہے۔ اس ایک دن پر کانفرنسیں، جلسے جلوس، ریلیاں، مظاہرے، قرار دادیں اور اس طرح کے بے شمار طریقے اختیار کیے جاتے ہیں لیکن سب کچھ خانہ پوری محسوس ہوتی ہے۔ بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن عملاً ٹائیں ٹائیں فش ، حقوق انسانی کے تحفظ پر خطابات ہوتے ہیں لیکن مقررین خود اصل معنی میں حقوق انسانی کے معنی سے نابلد نظر آتے ہیں۔ جس کی مثال پوری دنیا میں دیکھی جا سکتی ہے۔ فلسطین میں لاکھوں لوگوں کو قبروں میں پہنچا دیا گیا مگر آج تک یہ نہیںدیکھا گیا کہ اتنی بڑی تعداد میں فلسطینی کیوں مارے گئے؟ حقوق انسانی کا تحفظ کا جذبہ کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ اسی طرح مصر، فلسطین ،پاکستان، کشمیر، افغانستان، عراق، شام ، لبنان، چیچنیا، داغستان وغیرہ ممالک میں جو خون مسلم بہایا جا رہا ہے کسی حقوق انسانی کے نام نہاد علم بردار کے کان میںاصل معنی میں آج تک جوں تک نہیں رینگی، اپنی اپنی جگہ سب خاموش تماشائی بن کر صرف بیان بازی تک محدود نظر آتے ہیں۔ تحفظات کا راگ الاپ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دوسروں کو دھوکہ دینا نہیں بلکہ اپنی دنیا آپ برباد کرنے کے برابر ہے، جیسی کرنی ویسی برنی والا معاملہ ہے۔ آج ہم دوسروں کو غلامی میں جکڑنے کے خواب میں خود ہی مشکلات و مصائب کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں پوری دنیا میں امن قائم ہو جائے تو کیسے…؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر کوئی بآسانی جان سکتا ہے لیکن معلوم نہیں کیوں جان بوجھ کر انسان انسانیت سے دور بھٹکتا جا رہا ہے؟ کیوں اس کا ذہن روز بروز تعمیر کے بدلے تخریب کاری پر ہی اترتا جا رہا ہے؟دراصل اس سب کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔ برسر اقتدار حکمرانوں نے وقت وقت پر قوموں کے قوم تباہی کے دہانے پر پہنچا دئے، صرف اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لیے، اپنی چودھراہٹ کے نشے میں چور، ان حکمرانوں کی وجہ سے دنیا جہنم میں تبدیل ہو چکی ہے اور جہنم خوشبو کا نام نہیں بلکہ اس کے برعکس بدبو اور درد ناک بارود کا نام ہے،جس کا کام جلانا اور تباہ و برباد کرنا ہے۔ لوگوں کے حقوق سلب کر کے وہ کچھ پانے کا خواب دیکھنا جس کی انسانی فطرت منکر ہے، سب لاحاصل عمل ہے اور اس لا حاصل سعی و کوشش میں اپنا قیمتی وقت صرف کرنا اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی سے وار کرنے کے برابر ہے۔ آج کے حکمران جو بار بار اپنی تقریروں اور بیانات میں حقوق انسانی کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کرتے نظر آتے ہیں، اپنے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے لیے دنیا کو جہنم میں تبدیل کر رہے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چور یہ طاقتیںصرف آج دیکھتے ہیں لیکن کل کیا کچھ ہو سکتا ہے اس پر انہیں نظر ڈالنے کی صحیح معنوں میں فرصت ہی نہیں ملتی۔ اس طبقے کی وجہ سے جو پوری دنیا تباہی وبربادی کی طرف دھکیل دی گئی ہے اس کی روک تھام کرناضروری ہے۔ اس کی لگام کو پکڑنا پوری دنیا کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ عنقریب یہ دنیا نہ تو عوام الناس کے لیے رہے گی اور نہ ہی اس حکمران طبقے کے لیے۔رہنے کے لئے یہ عمدہ جگہ (دنیا) کوبارود کے ڈھیر پر کھڑا کر دیا گیا ہے ، اب یہ ہماری سوچ ہے کہ ہم دیکھتے رہیں کہ کس طرح بارود کے ڈھیر پر رکھا ہوا یہ دنیا راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو کر پوری دنیا کا خاتمہ کرے۔ بہرحال جو کرنا ہے عوام کو کرنا ہے۔ ’’مَنْ جَدَّ فَوَجَدَ‘‘ (جس نے سعی وکوشش کی اس نے پایا) انسان کی سعی و کوشش اور خدائے ذوالجلال کی مدر ونصرت، یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کی ضرورت اور اہمیت سے واقف ہونا لازمی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ ان دونوں چیزوں کا انسان کی زندگی میں ایک اہم رول ہے، انسان کی کوشش اورخدا کی نصرت ومدد انسان کے لیے کافی ہے۔ ٭٭٭٭٭



No comments:

Post a Comment