Monday 17 February 2014

آہ…! وہ خلافت کا نظام


٭ابراہیم جمال بٹ
....................

قائد تحریک ِاسلامی، مایہ ناز سپوت ،بزرگ رہنما ،جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد جس کی ولولہ انگیز تقاریر سے  شاید ہی کوئی سننے والا متاثر نہ ہوا ہو۔ ایک مرتبہ پاکستان کے ایک جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے جب سامعین حضرات نے کھڑے ہو کر ولولہ انگیز شخصیت کا اثر لئے ہوئے انقلابی نعرے بلند کئے۔ ان نعروں میں ایک طرف اللہ کی تکبیر (نعرۂ تکبیر) بلند ہو رہے تھے اور دوسری جانب ’’لاشرقیہ ولا غربیہ…اسلامیہ اسلامیہ‘‘ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ اسی دوران سامعین میں ایک نوجوان نے جب پاکستان کا مطلب کیا؟ کا نعرہ بلند کیا تو ہر جانب سے ایک ہی صدا سنائی دی : ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ پھر ایک اور نعرہ بلند کیا گیا : ’’یہاں کیا چلے گا؟… نظام مصطفیﷺ‘‘تو یکا یک قاضی حسین مرحوم جس کے ہونٹ اس سے قبل نعروں کا جواب میں ہل رہے تھے، نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھا کر سامعین کی طرف ایسے اشارہ کیا کہ محسوس ہوا کہ لوگوں سے چپ رہنے کی کہہ رہے ہیں۔ چند ہی لمحوں بعد جب انقلابی نعروں کے درمیان لوگوں نے یکایک خاموشی اختیار کر لی ،تو قاضی مرحوم نے ایک ایسی بات کہہ ڈالی کہ سب لوگ جن میں ڈائس کے آس پاس موجود تحریکی زعما ء اور سامعین سن کردھنگ رہ گئے۔ قاضی حسین مرحوم نے کہا: ’’میرے دوستو! میرے عزیز نوجوانو! مجھے ایک بات کا جواب دو… جب ہی میں سمجھوں گا کہ آپ دل ودماغ کی پوری یکسوئی سے نعرے دے رہے ہیں۔ مجھے یہ بتائو کہ اگر ہمارے ملک عزیز ’’پاکستان‘‘ میں آج ابھی اس وقت اعلان ہو جائے کہ اس سرزمین پر شریعت نافذ کرو ، تو آپ میں سے کون ہے جو اس شرعی نظام ’’خلافت‘‘ کے سسٹم کو کو نافذ کرنے کے لیے ایک ’’پولیس مین ‘‘کا کردار ادا کرے؟ چنانچہ یہ سنتے ہی سب لوگوں پر خاموشی طاری ہوگئی، کسی کے منہ سے کوئی جواب نہیں، کوئی زبان نہیں ہلی، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سب سامعین و ڈائس پر موجود زعماء گھونگے اور بہرے ہو گئے ہیں۔اس حالت کا مشاہدہ کر کے قاضی حسین مرحوم نے ایک بار پھر اپنی زبان کھولی اور کہا : ’’جب تم میں سے اس نظام کے لیے کوئی ’’پولیس والا‘‘ بننے کے لیے ابھی تیار نہیں ،تو کس زبان سے یہ نعرے ’’یہاں کیا چلے گا…نظامِ مصطفی‘‘ اور ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ‘‘ دے رہے ہو۔اس نظام کے لیے تم میں سے کوئی ’’پولیس والا‘‘ بننے کو تیار نہیں تو اسلامی نظام کا تمہارے ہاتھوں کیا حشر ہو گا۔ اس سرزمین پر اسلام کا نفاذ ہو گا لیکن اس کے لیے ہمیں تیاری کرنی چاہئے۔ اس کا ایک ادنی سپاہی بننے کے لیے اپنے اندر امانت داری کے ساتھ ساتھ بہادری کا وصف پیدا کرنا چاہئے۔ ‘‘چنانچہ اگر حقیقت کی آنکھوں سے دیکھا جائے، دل اور دماغ کو صحیح استعمال کر کے سوچا جائے تو اس بات میں صد فیصد دم ہے کہ ہم کس نظام کی بات کر رہے ہیں۔نعروں کی گونج سے نہ آج تک کوئی انقلاب آیا ہے اور نہ ہی آنے کی آئندہ توقع رکھنی چاہئے۔ بلکہ گرم گر م جذبات کے ساتھ جب تک صحیح تیاری نہ ہو تب تک اسلامی نظام کا نفاذ اصل صورت میں نہیں ہو سکتا ۔ اسلامی نظام کوئی ایسا نظریہ نہیں جو انسانوں کے اذہان کی اختراع ہے بلکہ یہ نظام خدا برتر واعلیٰ کا مکمل اور لاثانی نظام ہے۔ اس نظام کو دنیا میں نافذ کرنے کے پیغمبر آخر الزماں محمد مصطفی ﷺ نے ایک طرف لوگوں کے اذہان تیار کئے اور دوسری طرف اس کے نفاذ کی کوشش میں بیش بہا قربانیںپیش کیں۔ گویا افراد سازی کے ساتھ ساتھ اس کے قیام کے لیے ایک ایسی جماعت تیار کی جس میں ہر طرح کے انسان پائے جاتے تھے۔ خلیفۃ المسلمین کی ذمہ داری کے لیے ایک طرف ابوبکر وعمر تو دوسری جانب عثمان وعلی رضی اللہ عنہم اجمعین کو پروان چڑھایا۔سپہ سالاری کے لیے کس کس کا نام لیا جائے، ہر ایک صحابی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہر دم تیار رہتا تھا۔ نظام اسلامی کے جن شعبوں کے لیے بھی کوئی ضرورت پڑتی تو کوئی مشکل نہیں تھا، ایک سے بڑھ کر ایک فرد تیار تھا۔ غرض یہ کہ نظامِ اسلامی افراد سازی چاہتا ہے۔ یہ نظام قربانیاں چاہتا ہے۔ یہ نظام مستقل مزاجی کا طلب گار ہے، یہ نظام محبت، ایمان داری، بہادری، جذبہ جہاد، اور مالی، جانی اور وقتی قربانی چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ نہ ہو تو ہمارے نویہ نعرے جو اکثر وبیشتر سنائی دیتے ہیں کھوکھلے ثابت ہوں گے۔ کیوں کہ ان نعروں کی جو اصل حقیقت ہے اس سے ہم کوسوں دور ہیں۔ تو ضرورت ہے اس بات پر سوچنے کی، اس جذبہ جو کہ صحیح جذبہ ہے کہ پورا عالم اسلام کے سائے تلے آجائے کے لیے ہر حیثیت سے تیاری مطلوب ہے۔ جذبہ صحیح ہو مگر تیاری نہ ہو تووہ کچھ نہیں پایا جا سکتا جو خیال ہو، بلکہ جذبہ کے ساتھ ساتھ جب تک امت مسلمہ اٹھ کر اس کے لیے ذہنی، فکری اور نظریاتی طور سے کھڑی نہ ہو جائے تب تک یہ خیال است محال است کے مصداق ہے۔ 
٭٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment