Tuesday 11 March 2014

خلافت علی منہاج النبوہ ، شبھات اور حقائق

سید علی گیلانی

.................


سورہ فتح کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، عالمِ انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے اور جو دین حق ، جو ہدایت کا پیغام انکو عطا کیا گیا ہے وہ دنیا پر غالب ہو جائے۔ یہ ہدایت اور دین حق ماتحت رہنے اور باطل کے سائے تلے زندہ رہنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لئے بھیجا گیا ہے کہ وہ تمام ادیان پر غالب ہو جائے اور اس کے لئے اللہ کی گواہی کافی ہے اسکے کسی اور کی گواہی طلب نہیں کرنا ، اسکے لئے کسی سامراج اور کسی استعمار اور کسی فرماں روائے اقتدار اور لشکر جرار سے اجازت طلب اور تصدیق حاصل نہیں کرنا ہے۔ اللہ کی گواہی کافی ہے، دین کے غلبے کو قرآن پاک میں مختلف مقامات پر مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا ہے، اسی کو اقامت دین سے تابیر کیا گیا ہے اور کئی مقامات پر اسے خلافت سے موسوم کیا گیا ہے۔
خلافت علی منہاج النبوہ کا قیام اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز فرض ہے، جس طرح روزہ، حج، اور زکوٰۃ فرض ہے، اور جس طرحشہادت دینا فرض ہے اللہ کے واحد ہونے کی، اور رسول ؐ کے رسول اور خاتم النبین ہونے کی، ٹھیک اسی طرح خلافت علی منہاج النبوہ قائم کرنے کی جدوجہد کرنا فرض بنتا ہے ان لوگوں پر ، اس امت پر جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ آج بیسویں صدی کے آخری عشرے (موجود اکیسویں صدی) میں جب یہ بات کہی جاتی ہے کہ خلافت کا نظام قائم کرنا ہے تو مسلم ملت میں بھی انتشار پیدا ہو جاتا ہے، وہ بھی سوال کرنے لگتے ہیں، کیا یہ دور ہے خلافت کے قیام کا؟ اور بعض لوگ تو کھل کر کہتے ہیں کہ یہ بے وقت کی راگنی ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ انہونی بات ہے، اور بعض لوگ کہتے ہیں یہ حالات کا صحیح تجزیہ نہیں ہے۔ جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں (یعنی ہندوستان) جہاں مسلمان منتشر ہوں، (یعنی پوری دنیا) جہاں مسلمان تسبیح کے بکھرے دانوں کی طرح ہوں، جہاں مسلمانوں کی کوئی مرکزیت نہ ہو، اور پھر ایسے ماحول میں خلافت کا نام لینا خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنا یہ مسلمانوں کے لئے اور مسلمانوں کے حق میں کوئی بہتر اور قابل عمل پروگرام نہیں ہو سکتا۔ یہ باتیں مسلمان کہتے ہیں۔ اور جہاں تک غیر مسلم بھائیوں کا تعلق ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان اپنا قومی غلبہ چاہتا ہے وہ اسی حیثیت سے اسے تابیر کرتے ہیں کہ مسلمان ہمارے اوپر غالب ہونا چارہے ہیں۔ دونوں طرف غلط فہمیاں ہیں اور جو لوگ خلافت علی منہاج النبوہ کا فریضہ انجام دینے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ان کیلئے پہلا مرحلہ یہی ہے کہ وہ غلط فہمیاں دور کریں۔ مسلمانوں سے صرف اتنا کہنا ہے کہ آپ یہ بتائیں کہ کیا یہ فرض ہے؟ اگر یہ فرض ہے، قرآن میں بھی اسے واضح الفاظ میں کہہ دیا گیا ہے کہ یہ فرض ہے۔ خلافت کا نظام قائم کیا جائے، دین حق کو غالب کیا جائے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی ایک پسندیدہ دین ہے۔ :’’ومن یبتغ غیر الاسلام دین فلن یقبل منہ وھو فی الآخرت من الخاسرین‘‘ (جو لوگ اسلام کے بغیر زندگی کا کوئی اور طریقہ اختیار کریں وہ اللہ کے نزدیک قبول نہیں ہو گا اور وہ لوگ آخرت میں خسارے اور گھاٹے سے دوچار ہوں گے)۔ 
تو یہ مسلمان سے کہنا ہے جوخلافت کے، نظام کی جدوجہد کو بے وقت کی راگنی کہتے ہیں ، ان سے یہ کہنا ہے ، کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں بتائو یہ فرض نہیں ہے؟ اور وہ نہیں بتا سکے گا کہ نہیں۔ وہ قرآن کو تحریف نہیں کر سکیں گے، قرآن تحریف سے محفوظ رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک محفوظ رہے گا۔ پھر ان سے یہ کہیں کہ جب یہ فرض ہے تو پھراس کے قیام کے لئے اٹھنا پڑے گا۔ یہ کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وقت کا اقتدار انکا ساتھ دیگا اور یہ شرط تو کوئی بھی فریضہ انجام دینے کیلئے نہیں لگائی جا سکتی۔ فرض انجام دینے کے لئے اٹھنا ہے، اٹھنے کے بعد وہ فرض انجام دیا جا سکے یا نہیں یہ اٹھنے والی کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ایک شخص کو حج کرنے کی استچاعت ہے اس پر حج فرض ہے وہ تیاری کرتا ہے حج کو جانے کے لئے، اس کو کوئی گارنٹی نہیں دی سکتا کہ وہ حج پر پہنچ جائے گا، لیکن ان کو جانا ہے۔ یہ فرائض جو ہونے ہیں تو انکو ادا کرنے کیلئے شرطیں عائد نہیں کی جا تیں، اور مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ خلافت کا نظام قائم کریں، دین کو قائم کریں، جب تک دین قائم نہیں ہو گا مسلمان کی زندگی اسلام کے سانچے میں نہیں ڈھلے گی۔ آپ کے یہاں ہندوستان میں بڑ کا پیڑ ہوتا ہے اور ہمارے ہاں (کشمیر ) میں بڑ کی قدوقامت کا چنار ہوتا ہے، آپ بڑ کے پیڑ کے نیچے اس کے سائے میں کوئی آم کا پیڑ لگائیں وہ پنپے گا نہیں، چنار کے پیڑ کے سائے تلے اگر ہم سیب کا پیڑ لگائیں وہ پنپے کا نہیں۔ ٹھیک اسی طرح باطل کے سائے میں اسلام کا پیڑ نہیں پنپے گا، باطل کا سایہ جہاں ہوتا ہے، باطل اپنا سایہ پھیلاتا ہے۔ باطل کے سائے میںسورج کی روشنی بند ہو جاتی ہے، باطل کے سائے میں اسلام کی روح مردہ ہو جاتی ہے، باطل کے سائے میں مسجد کی چار دیواریاں بھی محفوظ بھی نہیں رہتی(جیسے بابری مسجد) اس لئے باطل کے سائے میں اسلام کے مطابق زندگی گزارنا ایسا ہی ہے جیسے کہ بڑ کے سائے میں آپ کوئی سبزی کا چمن لگائیں۔ اس لئے ضروری ہے جس دین کو ہم اپنا دین مانتے ہیں اس کے قیام کی ہم کوشش کریں اور خلافت کا نظام یہی کوشش ہے۔
جہاں تک غیر مسلموں کا سوال ہے ان سے یہ کہنا ہے کہ ہم قومی غلبہ نہیں چاہتے ۔ہم ایک اصول کی بالادستی چاہتے ہیں، اور اصول کسی قوم کی میراث نہیں ہوتے۔ سورج پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے، سورج چمکتا ہے کوئی خدا کو نہ بھی مانتا ہو لیکن سورج کی روشنی اسے بھی مل جاتی ہے۔ پانی پر کسی قوم کی اجارہ داری نہیں ہے، ہر ایک کے لئے ہے، سور جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے وہ بھی دریا پر جاکر پانی پی سکتا ہے۔ ہوا پر کوئی اجارہ داری قائم نہیں کر سکتا، جس طرح یہ نعمتیں ہیں ہیں اللہ کی ٹھیک اسی طرح اسلام بھی اللہ کی نعمت ہے، اور اس نعمت سے ہر انسان کو استفادہ کرنے کا موقع ہے۔ جب خلاف تک نظام قائم ہو گا تو یہ ضروری نہیں ہیں کہ آج کا کوئی مسلمان خلیفہ بنے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آج جو لوگ اسلام کے دائرے سے باہر ہیں وہ اسلام میں آجائیں اور وہی خلیفہ بنیں۔ حضرت عمر فاروقؓ رسالت کے ابتدائی دور میں مسلمان نہیں تھے وہ رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنے کے ارادرے سے نکلے اللہ نے ان کو اسلام کی نعمت سے نوازا اور وہ خلیفہ دوم بنے۔ تو یہ خلافت کا نظام ہمارے غیر مسلم بھائیوں کو گھبرانا نہیں چاہئے، انہیں خوف و ہراس میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ 
پھر تیسری بات ، کیا خلافت کی ضرورت ہے اس دور میں؟ : ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ دنیا کا انسان کیا چاہتا ہے؟ ہم دیکھیں گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ دنیا کا ہر انسان امن چاہتا ہے، خوشحالی اور فراغت چاہتا ہے، عدل و انصاف چاہتا ہے۔ یہ انصاف کی فطرت ہے ہے ، تو دیکھنا یہ ہے کہ یہ چیزیں ملتی ہیں آج کے زمانے میں؟ آج کے زمانے میں نظریات پیدا کئے گئے، یہی دعوہ لیکر نظریات سامنے لائے گئے کہ انسان کی امیدیں اور تمنائیں پوری کی جائیں گی۔ اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا میں کو مختلف نظریات لائے گئے کیا انہوں نے دنیا میں امن قائم کیا؟ آپ دیکھ لیجئے دو عظیم جنگیں دنیا میں لڑی گئیں، جنگ عظیم اول میں اور جنگ عظیم ثانی میں کتنی جانیں ضائع ہوئی ہیں، کتنا مالی نقصان ہوا اس کا کوئی اندازہ لگایا نہیں جا سکتا۔ لیگ آف نیشن وجود میں لائی گئی، مقصد تھا کہ یہ ادارہ دنیا میں امن قائم کرے گا اور اس کے سائے تلے دو عالمی جنگیں لڑی گئیں۔ اس کے بعد اقوام متحدہ (اصلاً جو اقوام متفرقہ ہے) کا ادارہ وجود میں لایا گیا، اس میں اس وقت ایک سو چوراسی (۱۸۴) ملک ہیں، آپ نے سنا ہو گا امریکہ کا صدر بھی اسے قبول کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کے وجود میں آنے کے بعد بیس ملین (بلکہ اس سے زیادہ) لوگ اب تک ہلاک ہو چکے ہیں، جو اقوام متحدہ امن قائم کرنے کی امیدوں کے ساتھ وجود میں لائی گئی تھی اس کے سائے تلے اس کی ناک کے نیچے بیس ملین لوگ اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ آج اقوام متحدہ پر اجارہ داری ہے، چند اجارادار ہین۔ پانچ ملک جن کے پاس ویٹو کا اختیار ہے۔ روس، چین، برطانیہ، فرانس اور امریکہ اسے ایک لونڈی کی حیثیت سے استعمال کر رہا ہے، اقوام متحدہ نے قراردادیں پاس کی فلسطین کے بارے میں، لیکن اسرائیل نہیں مانتا ، اور اسے کوئی نہیں چھوڑتا، اس کے ساتھ کوئی اقتصادی بائیکاٹ نہیں کرتا، اس لئے کہ وہ امریکہ کا پروردہ ہے، وہ امریکہ کا پالتو ہے۔ اور اسی طرح بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روند ڈالا، جو جموں و کشمیر کے ایک کروڑ  تیس لاکھ لوگوں کے بارے میں اقوام متحدہ نے پاس کی تھیں کہ انہیں (Right to Self Determination ) دیا جانا چاہئے، تاکہ وہ اپنے مستقبل کا تعین کر سکیں، لیکن بھارت نے اقتدار کے نشے میں طاقت کے بلبوتے پر ان قراردادوں کو روند ڈالا اور آج بھی ۶ لاکھ فوجیں کشمیر کی زمین پر انسانی کھوپڑیوں کے ساتھ فٹبال کی طرح کھیل رہی ہیں۔ اقوام متحدہ انصاف نہیں دے سکا، آج اقوام متحدہ ایک معچل ادارہ بن چکی ہے۔ 
دوسری امن کی کوشش یہ کی جارہی ہے کہ جمہوریت کو فروغ دیا جائے، اسے پروان چڑھایا جائے، تاکہ زندگی کے مسائل حل ہوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جمہوریت کے راستے سے جب الجزائر میں اسلام آگے آتا ہے تو جمہوریت کا راستہ روک دیا جاتا ہے کہ نہیں یہ جمہوریت ہمیں منظور نہیں، جس کے راستے سے اسلام سامنے آجائے۔ ترکی میں جن جمہوریت کے ذریعے اسلام آتا ہے تو اس کا راستہ روک دیا جاتا ہے۔ یہ جمہوریت بھی ایک فریب ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ    ؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے جوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری 
یہ تو ظلم کا دیو ہے، جس نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، اسی جمہوریت کے سائے تلے ہندوستان میں بقول مولانا اسعد مدنی  ؒ تیس ہزار مسلم کش فسادات ہوئے، اسی جمہوریت کے سائے تلے بابری مسجد کو شہید کیا گیا، جو لوگ شہید کرنے والے تھے انکی ساری کارکردگی اس وقت کے وزیر اعظم دیکھ رہا تھا، اس نے ایک گولی بھی نہیں چلوائی، جب مسجد کو شہید کردیا گیا اور مسلمان مجروح جذبات کے ساتھ سڑکوں پر نکل آیا تو بارش کی طرح گولیاں برسائی گئیں اور دو ہزار مسلمان شہید ہوئے، یہ جمہوریت ہے۔ ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۴ ؁ء کو اندرا گاندھی کو اپنے محافظوں نے قتل کیا وہ سکھ تھے، یہ کونسی جمہوریت ہے کہ ایک طرف سے پورے چار دن تک دہلی میں سکھ قوم کا صفایا کیا گیا، اور پانچ ہزار سکھ مارے گئے۔ اسی جمہوریت کے سہارے ہم سے کہا جارہا ہے کہ جمہوریت امن قائم کرے گی۔ جس جمہوریت نے انسان کے جان و مال کا، عزت و آبرو کا تحفظ نہ کیا ہو جس میں اعتقاد و ایمان کا تحفظ نہ ہو، جس میں لوگوں کی عبادت گاہ کا تحفظ نہ ہو وہ جمہوریت بے کار ہے، اس کے سہارے جیا نہیں جاسکتا، اس کا علاج سوچنا ہے۔ اور علاج اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ دین قائم ہو، خلافت علی منہاج النبوہ قائم ہواور یہ تو ایسا فریضہ ہے کہ اگر اس کے لئے ہماری جانیں قربان ہو جائیں تو اس سے بڑھ کر کوئی قیمت نہیں ہو گی کہ وہ دنیا کو امن دینے کیلئے ، ایک ایسا نظام لانے کے لئے قربانیاں دی گئی جو نظام عدل و انصاف کا واحد ضامن ہے۔ 
  نوٹ:یہ محترم مولانا سید علی گیلانی صاحب کی ایک تقریر  ہے۔ آیڈیو اور ویڈیو ٹیپ کی مدد سے اسے تحریری شکل میں قارئین کے پیش خدمت کیا جا رہا ہے ۔
(ابراہیم جمال بٹ)


No comments:

Post a Comment