Monday 23 June 2014

قلت وکثرت ایک لاحاصل بحث

٭ابراہیم جمال بٹ
....................


تاریخ اس بات پرگواہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی انقلاب آیا اس کااکثریت کے بجائے اقلیت نے ہی ساتھ دیاہے۔ ہر دور میں کسی نہ کسی سطح کے انقلابات آئے ، جن میں کئی عوامی انقلابات تھے اور کئی سیاسی سطح کے انقلابات، کہیں اصلاحی تحریکوں نے اصلاحی انقلاب لائے تو کہیں سماجی، سیاسی، معاشی اور اسی طرح دیگر انقلابات لائے گئے، غرض جس قسم کا بھی انقلاب آیا، اس کے لانے والے اکثریت میں نہیں اقلیت میں رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اکثر مذہبی انقلابات بھی اقلیت میں شمار لوگوں نے لائے بلکہ وہ بھی ایک قلیل تعداد کی وجہ سے ہے لائے جا چکے ہیں۔ چنانچہ اس تناظر میں آج کے حالات پر غور کیا جائے تو دنیا میں فی الوقت کئی ایسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ آئندہ اس دنیا میں ایک ایسے انقلاب کی خاموش آواز سنائی دے رہی ہے جس سے پوری دنیا میں ایک تبدیلی رونما ہو گی۔ اس قدر تبدیلی کہ دنیا میں بسنے والے لوگ اس انقلاب کے بیچوں بیچ اپنے آپ کو پُر سکون محسوس کریں گے۔ اس کی صدائیں آج پوری دنیا سے آرہی ہیں، یہ انقلاب آئے گا لیکن اس انقلاب کو لانے والا نہ تو کوئی خاص قوم ہو گی اور نہ ہی کوئی خاص ذات، بلکہ اس انقلاب کولانے والا دنیا کی ایک قلیل تعداد ہو گی، جس سے تاریخ کے اوراق پر ایک بار پھر سنت الٰہی کا وہ قاعدہ سامنے آئے گا کہ ایک چھوٹی سے جماعت پوری قوم، انسانیت، اور دنیا میں بسنے والے لوگوں کے لیے باعث ِفخر ،امن وسکون کا موجب قرار پائے گا۔ یہ چھوٹی موٹی جماعت جس کی افرادی قوت اگرچہ مخصوص اور قلیل تعداد ہو گی، تاہم ان میں ایسا ولولہ اور جزبہ ہو گا جو قلت کے باوجود اکثریت پر غالب ہو کر انقلاب کا باعث بن جائیں گے۔ سابقہ تواریخ کی ورق گردانی بھی کریں تو یہی کچھ سمجھ آتا ہے کہ انقلاب کثرت (Quantity) نہیں بلکہ (Quality)چاہتی ہے اور جب بھی کوئی انقلاب آیا تو اسی اصول پر آیا۔ غرض آج جس انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں وہ تو دیر سویر آکر ہی رہے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس میں ہمارا کس قدر حصہ ہو گا۔ لہٰذا اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے انقلابی صفات پیدا کر کے، اپنے اندر ولولہ وجذبہ ٔانقلاب پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ ولولہ اور جذبۂ انقلاب کوئی ایسی چیز نہیں کہ انسان چاہے تو حاصل کر سکتا ہے،بلکہ اس جذبہ اور ولولہ کے لیے ایک سہارے کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ سہارا ہے خدائے ذوالجلال۔ خدا کا فضل ۔ انسان کی کوشش اور مسلسل استقامت کے ساتھ اللہ کی تائید و نصرت کا خیال کرتے ہوئے انقلاب کی خواہش رکھنا ہی انقلاب برپا ہونے کی دلیل ہے۔ آج جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں وہاں بہت سارے لوگ جو اپنے آپ کو ’’داعیٔ انقلاب‘‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ انقلاب ایک ایسی شئے ہے کہ ایک بڑی تعداد کو  جمع کر کے انقلاب لایا جا سکتا ہے، لیکن ان کی یہ سوچ تب تک ’’خیالی سوچ ‘‘ہی کہلائے گی جب تک نہ ان کے اندر اس بات پر ایمان مستحکم ہو جائے کہ’’ انقلاب میں قلیل و کثیر کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ قلیل ہی اکثر و بیشتر کثرت پر غالب ہو کر اس کے باعث بن چکے ہیں‘‘ حق اور ناحق کا فیصلہ کرنا ہو تو یہ ضروری نہیں کہ اکثریت جس طرف ہو، وہی حق اور قلت جس جانب ہو گی وہی ناحق کہلائیں گے بلکہ تاریخ ِاسلامیہ میں یہ رقم طراز ہے کہ میدان اُحدمیں جب جیت مسلمانوں کی ہو رہی تھی تو صحیح اور غلط میں تمیز کرنا خدائے ذوالجلال کا اصل منشا ء تھا، قلت وکثرت کی عمومی سوچ پر ضرب لگانی مقصود تھی، کہ جس مختصر سی جماعت کو جو غالباً چالیس صحابیوں سے زیادہ نہ تھے کو ایک درّے پر رکھ دیا گیا، جنہیں حکم دیا گیا تھا کہ جو کچھ بھی جنگ کا فیصلہ ہو ، اس درّے سے نہ ہٹنا، اورجب مسلمانوں نے کفار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور وہ پیٹھ پیچھے بھاگتے نظر آئے ، تو اس درّے پر یہ جانثار صحابی جنہیں اللہ کے آخری ومکمل پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺنے اس درے سے کسی بھی حالت میں نہ ہٹنے کا حکم دیا تھا جب انہی میں سے ایک بڑی تعداد (غالباً 40میں سے30) نے اس درّے سے ہٹتے ہوئے مالِ غنیمت وغیرہ جمع کرنا شروع کیا تو جنگ کی دوسری ہی حالت سامنے آئی۔ جس درّے پر چالیس مسلمانوں کا پہرا تھا اس پر اب چند گنے چنے مسلمانوں ہی رہے… جیت کے اس لمحہ میں جنگ کے دوران ایسا پلٹ وار ہوا کہ بے شمار مسلمان شہید ہو گئے… لیکن اس قلیل اور کثیر کے فیصلے پر ایک ضرب لگانی تھی سو اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیغمبرِ اسلامﷺ کے ذریعے سے مسلمانوں تک یہ پیغام پہنچا دیا کہ جو قلیل تعداد ہونے کے باوجود، جیت کا سماں دیکھتے ہوئے بھی درّے پر ہی برابر کھڑے رہے، اگرچہ ان کی تعداد میں اب تین حصے کم ہو گئے تھے، وہی اس وقت صحیح تھے بجائے کثیر تعداد کے۔ غرض اس دنیا میں جب بھی کوئی انقلاب آیا تو اس انقلاب میں قلیل وکثیر بحث ایک لاحاصل عمل رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی ہوئی ہے کہ انقلاب کثرت تعداد نہیں بلکہ خصوصیات کے حامل لوگوں کو دیکھتی ہے۔ آج بھی اگر ہم دیکھیں تو کئی لوگ اسی زعم میں مبتلا ہیں کہ ایک بڑی تعداد جمع کی جائے تاکہ ایک انقلاب لایا جائے لیکن ان کے سامنے اسلامی تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں کہ انقلاب ہمیشہ انقلابی لوگوں نے لائے ہیں اور وہ لوگ اکثر وبیشتر قلیل ہی ہوتے آرہے ہیں۔ چنانچہ ان حالات میں عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو یہی کچھ سامنے آرہا ہے کہ جہاں بھی کوئی اصل تبدیلی آئی اس کے پیچھے مخصوص اور محدود صالح عنصر کارفرما تھا ۔ آج دنیا کے جس کونے میں بھی دیکھیں تو بظاہر بے شمار تبدیلیوں کے اشارے مل رہے ہیں لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ جن سے تبدیلیوں کا اشارہ مل رہا ہے ان کا بھی یہی ذہن بن چکا ہے کہ جب تک نہ افرادی قوت میں اضافہ ہو جائے کوئی مضبوط اور مستحکم انقلاب نہیں لایا جا سکتا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اسلامی تاریخ کا ہی مطالعہ غور سے کریں تو وہاں بھی یہی کچھ نظر آتا ہے کہ ایک طرف پوری عرب دنیا اور دوسری جانب مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد ہے، لیکن اس کے باوجود بھی اسلامی انقلاب آیا … ایسا انقلاب کہ جس نے اپنے پیچھے آج تک اپنے وہی اثرات چھوڑے ہیں کہ آج بھی اسی انقلاب کی باتیں ہی نہیں بلکہ انتظار ہو رہا ہے۔ اس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی انقلاب کی آمد آمد کی جو آج کل باتیں ہو رہی ہیں، انشاء اللہ وہ اصل صورت میں آئے گا، لیکن اس کے لیے کسی ایسے خیال میں رہنا کہ جب لوگوں کی ایک جم غفیر جمع ہو گئی تو یہ انقلاب آئے گاایک لاحاصل سوچ ہے جس کا حاصل کچھ نہیں ہے۔ 
٭٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment