ابراہیم جمال بٹ ۔۔۔ سری نگر
.................۷ نومبر کو وزیراعظم ہند نریندر مودی سری نگر میں سرکاری سطح پر جمع کئے گئے ایک مختصر سے مجمعے میں اپنی تقریر دلپذیر میں کشمیر یت ، جمہوریت اور انسانیت کے ہم وزن الفاظ کا وِرد ہی کررہے تھے کہ ان تینوں ہم قافیہ الفاظ کے معنی سی آرپی ایف نے زینہ کوٹ میں گوہر نذیر ڈار کی جان لے کر عوام الناس کو بخوبی سمجھائے۔ گوہر اسی طرح قتل ِ عمد کا شکار ہو اجیسے زاہد بٹ کو ادہم پورہ جموں میں ہندو بلوائیوں نے جان بحق کیا ، فرق صرف یہ ہے کہ جواں عمر زاہد کو بم حملے کا نشانہ بنانےوالے بلوائی بے وردی تھے اور خوب رُو گوہر کو قبر میں اُتارنے والے وردی والے تھے ، مقصد کے اعتبار سے مشن دونوںکا ایک ہی ہے کہ کشمیری نوجوانوں کو بہانے تراش تراش کر تہ ِ تیغ کرو،ا ن کے حقِ حیات پر ڈاکے ڈال دو ، وہ سر اٹھا نے کی جسارت کریں تو اُنہیں کچل دو،اُن کے پتھر کا جواب گولی سے دو۔ یہ ۷۴ءسے وردی پوش ابابیلوں کی طرف سے ہماری نسل کشی کا وہ آزمودہ حربہ ہے جس کی حقیقت چھپانے کے لئے نرسمہا راو ¿ نے ”آسمان کی حدتک“ کا جھوٹاخواب لوگوں کو دکھایا، جسے باجپائی نے ”انسانیت کے دائرے“ کی فریب کارانہ اصطلاح وضع کر کے رائے عامہ کو گمراہ کر نے کا سیاسی کھیل کھیلا ، جسے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے”زیروٹالرنس “ کی بانسری بجا کر فورسز کے ہر جرم اور پاپ کی پردہ پوشی کی اور جسے مودی اپنی تقریری ڈائیلاگ بازی سے کشمیرکو ”جنت نما“ کہہ کر حقوق انسانی کی گردن مروڑ ر ہے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ گوہر نذیر کے والدصاحب پر کیا بیت گئی ہوگی جب اس کے بائیس سالہ دُلہے کا خون سے لت پت لاشہ ان کی نگاہوں کے سامنے لایا گیا ہوگا؟ ان کی والدہ اور دیگر اہل ِ خانہ کے دل وجگر پر کتنی چھریاں چلی ہوں گی جب اپنے اس لاڈلے کی بے حس وحرکت میت ان کے روبرو آئی ہوگی؟ پتہ نہیں کیا کیا خواب سجائے تھے انہوں نے کہ بیٹا پڑھ لکھ کر گھر کی شان بڑھا دے گا ، بڑھاپے میں والدین کا سہارابنے گا، دھوم دھام سے اس کی شادی رچائی جائے گی مگر ان بے چاروں کو کیا معلوم تھا کہ” کشمیریت اور انسانیت“ کے محافظ ان کے معصوم گوہر نذیر پر گولی چلاکر سرراہ بے گور وکفن ہی نہ چھوڑ دیں گے بلکہ ایک ایک کر کے اس کے عزیز واقارب کو تاعمر درد کی ٹیسوں کا شکار بناکرزندہ درگور کردیں گے۔ کشمیر کے اکثر وبیشتر گھر انوں کی اسی جیسی کہانی پڑھنے کو ملتی ہے۔ ہمارے ہر ہر علاقے سے مقتول جوانوں کایہ سوال لگاتار ضمیر وں کے درودیوار سے ٹکراتا ہے کہ ”مجھے کس جرم کی پاداش میں قتل کر رہے ہو؟“ یہ تیکھا سوال دل کو جھنھوڑنے والی ایک ایسی آواز ہے کہ جس میں درد بھی ہے اور ایک خونچکاں داستان بھی چھپی ہے۔ کشمیری عوام کب تلک ان خون آشام واقعات کا مشاہدہ کرتے رہیں ؟گزشتہ اٹھائیس برس میں اس سوال نما آواز نے بار بار پورے عالم میں لوگوں پر واضح کردیا کہ کشمیر میں جمہوریت، کشمیریت یا انسانیت پر صرف سیاسی تقریر بازیاں ہوتی ہیں ، جب کہ یہ چیز یںسطحِ زمین پر کہیں بھی موجود ہی نہیں۔دلی کے حکمران اور سری نگر میں ان کے حواری ببانگ دہل اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ وہ امنِ عامہ کے خواہاں ہیں، حقوق البشر کے محافظ ہیں ، انسانیت کے رکھوالے ہیںبلکہ نوع ِانسانی کے خیر خواہ ہیں مگر یہ سب دکھاوا ہے، ڈھکوسلہ ہے ، کذب بیانی ہے۔ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ یہاں انسانیت ماری جارہی ہے؟ یہاں جمہوریت کا دَم گھٹ رہاہے، یہاں بندوق کی نوک پر بدامنی پھیلائی جارہی ہے ، لوگوں کا تحفظ اور ان کی خیر خواہی تو ودر کی بات، یہاں معمولی سنگریزے کا جواب گولیوں اور توپوں سے دیا جا رہا ہے ۔ افسوس کہ نامساعد حالات کی زبانی اس حق گوئی کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوتی جب کہ کشمیر کے مظلوم عوام زیادہ سے زیادہ ایک ودسرے کو اپنا درد بتاکر اپنا غم غلط کر تے ہیں اور زخم سہلاتے ہیں۔
یہ آج کی ہی خونچکاں داستان نہیں بلکہ گزشتہ 28برسو ں سے وادی میں آئے روز گوہرجیسے المیے وقوع پذیر ہوتے چلے آرہے ہیں۔المیے جو ایک سے بڑھ کر ایک ہیں دل دہلانے والے، المیے جو آنکھوں میں آنسوو ¿ں کی موجیں ، لبوں پر آ ہ وفغان اور سینوں میں درد کی ٹیسیں اُٹھاکر کشمیریوں کو بے موت مار ہے ہیں۔ ان ہی درد انگیز المیوں کی لمبی فہرست میں مصطفی آباد کے گوہر کے جاں بحق ہونے کی سر گزشت اب آہوں اور سسکیوں کی زبانی درج ہو چکی ہے۔ جواں عمری کی دہلیز پر پڑھائی میں محنت مشقت کے پہاڑ سر کرتے ہوئے گوہر اب زندگی کی اہم ذمہ داریاں اپنے شا نوں پر اٹھانے کے لیے تیاریوں میں تھا کہ موت کے فرشتے نے اس پر بجلی گرا دی اور پلک جھپکتے ہی اسے اُچک لیا۔ پڑھائی لکھائی میں کٹھن محنت اور اپنا خون پسینہ ایک کر کے گوہر اس دن کے انتظار میں بیٹھا پل پل گن رہاتھا کہ اپنے والد کا بوجھ کس طرح ہلکا کر سکوں مگر آہ ! اُسے معلوم نہ تھا کہ یہ دن اسے دیکھنا ہی نصیب نہ ہو گا بلکہ بہت جلد وہ خود روتے بلکتے سوگواروں، دوستوں ، رشتہ ادروں اورہمسایوں کے کندھوں پر سوار ہو کر مقبر ے کی زینت بنے گا۔ اب گوہر حیاتِ مستعار کے محدود لمحات ختم کر کے منوں مٹی نیچے آرام فرماہے اور اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں۔ وادی ¿ کشمیر میں یہ تازہ کر ب ناک واقعہ معمولات ِ زندگی سے جڑا ایک ایسا دلخراش واقعہ ہے جس کی صدائے بازگشت ہم برس ہا برس سے سنتے آرہے ہیں۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس سے سابقہ واقعات کی طرح پھر ایک بار آنکھوں سے خون ٹپکتا ہے۔ ایسے دلآزار واقعات انجانے میں نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر نسل کشی کے ارادے سے فورسز اور بلوائیوں کے ہاتھوںکرائے جاتے ہیں۔ یہ نیا غم انگیز سانحہ بھی اسی بیمار سوچ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تازہ واقعہ کے عینی شاہدین کاکہنا ہے کہ گوہر کے سر کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔یہ ایک امر واقع ہے کہ جوکچھ دنیا میں ہوتا سب باذن اللہ ہوتا ہے مگر کسی قتل ناحق کا طوق جس کسی ظالم کے گلے میں پڑ جائے، اس کا نام جریدہ ¿ عالم میں ہمیشہ سیاہ حروف سے لکھا جا تا ہے۔ ظلم کے ہاتھ اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ ان کو پکڑنا آسان بنتا ہے لیکن انہیں کبھی کبھار کارخانہ ¿ قدرت سے ایسی چھوٹ دی جاتی ہے کہ نہ صرف ظالم کے ہاتھ بظاہرلمبے نظر آتے ہیں بلکہ محسوس یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ایک ایک کر کے سب کو ظلم کا شکار بناتا بھی پھرے کوئی اس کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔ ہر گز نہیں ، جس کسی کو خدا کے ”سپریم پاور “ہونے کا احساس رگ وپے میں پیوست ہو ، اُسی کا خوف ہمہ وقت لاحق ہو، اُسی کے بے لاگ انصاف اور قدرت کی بے آواز لاٹھی یا قانون ِ مکافات ِ عمل پر ایمان و یقین کامل ہو، اُسے اس بات پر شر ح صدر حاصل ہوتا ہے کہ ظلم کی سیاہ رات چاہے کتنی بھی طویل کیوںنہ ہو، آخر کار اس کا خاتمہ ہو کر ہی رہتا ہے۔ یہی وہ انمول عقیدہ ہے جس سے ہما رے ارادوں کو تقویت اور اُمیدوں کو نئی زندگی ملتی ہے۔ اس لئے یہ بات سو فی صد طے ہے کہ ظالموں کا سامان ِ حرب وضرب اور لاو ¿ لشکروادی ¿ کشمیر میں خونِ مسلم بہاتا جائے لیکن ایک دن ایسا آئے گا کہ جب قانون قدرت کے عین مطابق ان کا حشر سوویت یونین ، ہٹلر اور اس جیسے ظالموں کا ہونا ہی ہے۔ گو ہر نذیر کے قتل میں ملوثین اور اُن کے سیاسی وقانونی پشت پناہ جان لیں کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔ا ن حضرات کے لئے بہار میں مودی اِزم کا حال چشم کشا ہونا چاہیے۔ بے گناہ گوہر نذیر ڈار ولد نزیر احمد ساکنہ مصطفی آباد ایچ ایم ٹی کا جنازہ اٹھنا تھا سو اُٹھا ،اُس پاک نفس نوجوان نے ایک لاکھ سے زائد قبروں میں ایک اور مرقد کا اضافہ کیا، اُس کی یاد میں اہل ِخانہ ، دوست احباب برسوں سینہ کوبیاں کر تے رہیں گے ، آہیں بھر تے رہیں گے ، غم والم سے نڈھال ہوتے رہیں گے لیکن اس جنازہ کے ساتھ ہی ظالمانہ کارستانیوں اور حقوق البشر کی پامالیوںکے باوجودظالم کے ہاتھ مضبوط اور توانانہیں بلکہ صرف ظلم کے خون سے کہنیوں تک بھر گئے ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا بر آمدہو نا ہے، دیر سویر ظلم کے پرستار کھلی آنکھوں سے ا س کا نظارہ ضرورکر یں گے۔ اگر کسی فرد بشر کو ہلاک کر نے یا کسی قوم کو تہ تیغ کر نے سے ظالم کا سکہ رائج ہوتا تو افغانستان میں نہ روس بے آبرو ہوکر اوربے سروسامان افغانوں کے ہاتھوں ہزیمتیں اُٹھا کر دُم دبا کر بھا گ جاتا اور نہ امریکہ ذلیل وخوار ہوکر اپنے لئے راہ ِفرارکی تلاش اور جان کی اما ن میں طالبان کے پاو ¿ں پڑ تا۔ اسی طرح کسی ظالم وجابر کو اگر فوری طور اس دنیا میں سزا نہیں ملتی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یزید یت کی جیت ہوتی ہے ۔ کسی نے کیا ہی اچھی بات کہی ہے:”دنیا میں نوعِ انسانی کی زندگی کی بقا منحصر ہے اس پر ہے کہ ہر انسان کے دل میں دوسرے انسانوں کی جان کا احترام موجود ہو اور ہر ایک دوسرے کی زندگی کے بقاءوتحفّظ میں مددگار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل حیاتِ انسانی کے احترام سے اور ہمدردیِ نوع کے جذبہ سے خالی ہے، لہٰذا وہ پوری انسانیت کا دشمن ہے“۔اس قماش کے لوگوں کا انجام کیا ہو تاہے ہٹلر کے خاتمے کو دیکھ کرسمجھ لیجئے ۔ بایں ہمہ گوہرکے والدین، اس کے بڑے بزرگ اور دوست واحباب واقعی ان سب پر مصائب کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے (اللہ تعالیٰ ان کو صبر جمیل سے نوازے، ان کو یہ صدمہ ہمت اور ان کے حوصلے سے برداشت کر نے کی توفیق دے، انہیں اپنے لاڈلے گوہرکی حیاتِ جاوداں کا قدردان بنائے)۔ قابل غورہے کہ سری نگر میں اس روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے آپ کو ہیرے کی کان جتلا کر کشمیر میںدودھ اور شہد کی نہریں بہانے کا سپنا دکھا رہے تھے۔ اُدھر مودی جی مالی پیکج کی لن ترانی کا ساز بجارہے تھے ،اِدھر کشمیر ی آہنی حصاروں اور بندشوںکے اندر اس ساز اورسپنے کا مذاق بنا رہے تھے۔ ملین مارچ نہ ہو ،ا س کے لئے پورا کشمیر یرغمال بنایا گیا! کشمیر میں بسنے والے انسانوں کو معلوم ہے کہ بھارت کے ان خوشنما مگر خیالی پیکجوںکا مطلب کیا ہے۔ اگر بھارت کو اہل کشمیر کے لئے کوئی پیکج دینا ہی ہے تو اُسے فوراّسے پیش تر افسپا واپس لینا چاہیے ، اُسے گوہر اور زاہد سمیت تمام بے گناہوں کے قاتلوں کو کڑی سزا دینی چاہیے ،ا ُسے یہاں انسانی حقوق کا قلع قمع کر نے والوں سے حساب لینا چاہیے ، اُسے قتل وغارت گری بند کرکے مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈنا چاہیے، اُسے قتل وانہدام میں ملوث فورسز کی شبابا شی کے بجائے ان کےخلاف قانون کے مطابق ایکشن لینا چاہیے ۔۔۔کیوں کہ انہوں ہمارے پُرا من وطن کے طول وعرض میں معلوم اور نامعلوم قبرستانوں کی زینتیں بڑھا دی ہیں ، عصمت ریزیوں سے قوم کو آسیاو ¿ں اور نیلوفروں کے جیسے دکھ دئے ہیں۔ ہمارے لئے وہی پیکج قابل قبول ہوسکتاہے جو ”واندر راج “کے تسلسل کے لئے ”افسپا“ کو مقدس صحیفے کا درجہ دینے سے گریز اں ہو، جوگوہر کی مظلومانہ موت سمیت اٹھائیس برس کے دوران دوسرے جوانوں، بچوں،بچیوں، خواتین اوربزرگوںکی ماورائے عدالت بہیمانہ قتل کا حساب قاتلوں سے لے سکے ۔ کیا یہ پیکیج کبھی کشمیر کے نام کیا جائے گا یا ابھی ہمیں مزید آہوں ، چیخوں اور قبروں سے گزرنا ہوگا؟ مختصر اّیہ سب دلدوز واقعات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ کشمیر کے قضیے کی جانب اصل توجہ نہیں دی جاتی بلکہ کشمیریوں کی مبنی برحق آواز دبانے کے لئے ظلم کے ہتھکنڈے آزما ئے جا ر ہے ہیں۔ یادرکھیں جب جب ظلم بڑھتا ہے تو مظلوم کی پکار ٹوٹے دلوں سے آہ بن کرنکل کر مملکتوں اور سلطنتوں کو ڈھا جاتی ہے ، استکبار کی عمارتیں زمین بوس ہوجاتی ہیں ، سامان ِ حرب وضرب کے انبار بے معنی ہوجا تے ہیں، ظلم وجبر کی آندھیاں تھم جا تی ہیں ۔ تاریخ کابے لاگ فیصلہ یہی ہے ۔ بہرکیف گوہر کے داغِ مفارقت نے ہمیں اس کا بھی من حیث القو م مقروض بنایااور زیر بارا حسان کیا اور ایسی بیش قیمت قربانیوں کا قرضہ چکانا ہمارا اجتماعی فرض ہے۔ ہمیں یہ بات گرہ میں باندھ لینی چا ہیے کہ قوموں میں مثبت تبدیلی آنا اس کی مستقل مزاجی پر منحصر ہے۔ اگر وادی ¿ کشمیر کے لوگوں میں وقتی تماشوں کے مکروفریب کے دام ِ ہم رنگ زمین سے دور رہیں، خدا خوفی، احتسابِ نفس اور ایک دوسرے کے تئیں نیک گمانی کی خُو پیداکریں تو خدائے لم یزل کے سامنے یہ کون سی بات ہے کہ اس قوم کو وہ مصطفی آباد سری نگرکے مقتول گوہر نذیرکے پاک خون کے طفیل ظالموں کے نظام ِ جبر سے نجات دے۔ البتہ اس کے لئے ضرورت ہے تواتحادواتفاق، صبرو ثبات اور مستقبل مزاجی ، نظریاتی ہم آہنگی اور یک رنگی کی۔ |
Thursday, 12 November 2015
گوہر نذیر۔۔۔کس جرم کی بھینٹ چڑھا؟ ...............کتنی آہیں ، کتنی چیخیں ، کتنی قبریں چاہیے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment