Thursday, 7 August 2025

غزہ پر مکمل قبضہ۔۔۔۔۔

 غزہ پر مکمل قبضہ: 

نیتن یاہو کا فیصلہ 

یا تاریخ کی تکرار


جب ظلم عادت بن جائے، تو مزاحمت فطرت بن جاتی ہے۔

آج مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر دھواں دھواں ہے، اور غزہ کی پٹی، جو کبھی زیتون کے درختوں کی خوشبو اور ثقافت کی پہچان تھی، اب راکھ، لاشوں، اور ٹوٹے خوابوں کا استعارہ بن چکی ہے۔


اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا تازہ ترین اعلان غزہ پر "مکمل قبضہ" صرف ایک فوجی فیصلہ نہیں، بلکہ ایک سیاسی جوا ہے۔ ایک ایسا جوا جس میں انسانی جانوں کی قیمت لگائی جا رہی ہے، اور اس کی میز پر بیٹھے وہ لوگ ہیں جو طاقت کے نشے میں حقیقت سے اندھے ہو چکے ہیں۔


سیاست بمقابلہ عسکریت: دراڑ واضح ہوتی جا رہی ہے


نیتن یاہو کا غزہ پر مکمل قبضے کا اعلان صرف فلسطینیوں ہی کے لیے خطرناک نہیں بلکہ خود اسرائیلی ریاست کے اندر ایک نئی کشمکش کی بنیاد بن چکا ہے۔ جب ایک جمہوری ریاست کا سربراہ اپنی ہی فوجی قیادت کو یہ کہے کہ "اگر تمہیں یہ فیصلہ پسند نہیں تو استعفیٰ دے دو"، تو سوال صرف پالیسی کا نہیں رہتا، بلکہ اقتدار کی ہولناکی کا بن جاتا ہے۔


جنرل ایال ضمیر جیسے سینئر عسکری رہنماؤں نے واضح کیا کہ یہ قدم نہ صرف یرغمالیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالے گا، بلکہ اسرائیل کو ایک ایسے دلدل میں دھکیل سکتا ہے جہاں سے نکلنا کئی نسلوں کے بس کی بات نہ ہو۔


فلسطینیوں کا مقدمہ: امیدوں کا خون


فلسطینیوں کے لیے یہ اعلان صرف ایک فوجی کارروائی نہیں بلکہ ایک حتمی پیغام ہے کہ اب بات چیت، جنگ بندی، اور دو ریاستی حل کی تمام راہیں بند کی جا رہی ہیں۔

یہ "مکمل قبضہ" نہیں، بلکہ "مکمل انکار" ہے۔ اس حق کا انکار جو ایک قوم کو اپنی زمین، شناخت اور مستقبل پر ہوتا ہے۔


غزہ کے عوام جو پہلے ہی قحط، بیماریوں، اور انسانی بحران کا شکار ہیں، اب ایک نئی یلغار کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی برادری کی خاموشی اس معاملے کو اور زیادہ سنگین بنا رہی ہے۔


نیتن یاہو کی سیاست: بقا یا بربادی؟


داخلی سطح پر نیتن یاہو کو عوامی احتجاج، عدالتی دباؤ، اور سیاسی زوال کا سامنا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ وہ جنگ کو طول دے کر اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے: اگر کوئی لیڈر اپنی بقا کے لیے ہزاروں جانوں کی بربادی پر آمادہ ہو جائے تو کیا وہ واقعی لیڈر کہلانے کے لائق ہے؟


عالمی ضمیر کا امتحان



آج کا دن صرف غزہ یا اسرائیل کا امتحان نہیں، بلکہ یہ عالمی ضمیر کا بھی کڑا امتحان ہے۔ کیا اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور دنیا کی بڑی طاقتیں اس "مکمل قبضے" کو یونہی دیکھتی رہیں گی؟ کیا تاریخ ایک بار پھر ہمیں ظالم کے ساتھ کھڑے ہونے کا تماشا دکھائے گی؟ یا ہم مظلوم کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی ہمت کریں گے؟


یاد رہے کہ : 

غزہ جل رہا ہے، اور اس کی آگ صرف فلسطینی بچوں کے بستروں تک محدود نہیں، بلکہ یہ انسانیت کی روح تک پہنچ رہی ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی، تو کل جب ظلم ہمارے دروازے پر دستک دے گا، تو شاید کوئی آواز ہمارے لیے بھی نہ اٹھے۔