Thursday, 22 December 2016

انسانی حقوق کا عالمی دن انسانیت کے نام پرخون ناحق کا بہاؤ

images-1

انسانی حقوق کا عالمی دن انسانیت کے نام پرخون ناحق کا بہاؤ


ابراہیم جمال بٹ

ہر سال کی طرح امسال بھی 10 دسمبر کو ’’حقوق انسانی کے تحفظ کا عالمی دن‘‘ منایا جاتاہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے اس عالمی دن کے موقع پر دنیا بھرمیں مختلف قسم کی تقاریب اور کانفرنسوں وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے، جن میں انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے اپنے خیالات پیش کئے جاتے ہیں۔ اس بات پر تبصرہ کیا جاتا ہے کہ فی الوقت پوری دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے کیا کچھ ہو رہا ہے، کیا ہو چکا ہے اور آئندہ اس حوالے سے کہاں پر کیا کچھ ہونے کا احتمال ہے۔ اس ساری صورت حال پر اس عالمی دن کے موقع پر محاسبہ کیا جاتا ہے۔
جہاں تک حقوق انسانی کے تحفظ کا سوال ہے تو بحیثیت ایک انسان کے یہ حق بنتا ہے کہ دنیا میں اسے تحفظ فراہم ہو سکے۔ انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اسے ہر حیثیت اور ہر مقام پر تحفظ فراہم ہو سکے۔ انسان اس دنیا میں آزاد پیدا ہوا ہے اس لئے انسان کو جب تک ہر حیثیت سے آزادی نصیب نہیں ہوتی تب تک اس کی زندگی کا کوئی صحیح مطلب نہیں ہے۔ انسان اپنی مرضی کا آپ مالک ہے لہٰذا وہ کیا چاہتا ہے، اس لحاظ سے انسان کو کہنے، سننے کا پورا پورا حق ملنا چاہیے، جب تک یہ سب کچھ انسان کو میسر نہ ہوں تب تک انسان فطری طور پر ایک چوپایہ سے کم نہیں۔ جانور چاہے جس قدر بھی فائدہ مند ہو لیکن بہر حال جانو ر ہی رہتا ہے۔ اس کا منافع بخش ہونا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ اسے جانوروں کی فہرست سے نکال کر کسی اور مخلوق میں شمار کیا جائے۔ برابر اسی طرح ایک عام انسان کو اگر اپنے فطری حقوق سے محروم کر کے رکھ دیا جائے تو اگرچہ وہ بحیثیت انسان، انسان ہی رہے گا لیکن اس کے ذریعے سے وہ کچھ بھی حاصل نہیں ہو پائے گا جو اس کی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ اس اصل مقصد کے لئے انسان کی آزادی ضروری ہے تاکہ وہ انسانی فطرت کے لحاظ سے فیصلہ کرے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ انسان بلا روک ٹوک اور خوف کے یہ فیصلہ کر سکے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ انسان فطرتاً آزاد پیدا کیا گیا ہے اور فطرت کے ساتھ جنگ چھیڑ کر اس کی آزادی کو سلب کرنا انسانیت پر حملہ کرنے کے برابر ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو انسانی حقوق کا تحفظ تب تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک اس دنیا میں انسان شخصی ، فکری اور قومی غلامی سے آزاد نہ ہو۔ ہر انسان غلامی سے پاک ہو کرانسانیت کے تحفظ کا مقام حاصل کر سکتا ہے، کیوں کہ انسان کو پیدا کرنے والے خدائے ذوالجلال نے بھی اس پر زور زبردستی سے کوئی بات منوانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اسے آزاد رکھ کر اوراس پر واضح کر کے اس کے سامنے دو راستے رکھے، اب اس کی مرضی کہ کس کو پسند کرے اور کس کو ناپسند؟ صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنا اب ا س کے ہاتھ میں رکھا گیا ہے۔ اس لحاظ سے ہر حیثیت سے انسان آزاد ہونا چاہیے تاکہ وہ آزادی کے ماحول میں اپنی زندگی کا فیصلہ کر سکے۔ انسانیت کا تحفظ انسان کی ہی آزادی میں مخفی ہے۔ جب تک انسان کو انسان بن کر رہنے نہ دیا جائے تب تک نہ تو کسی کو تحفظ فراہم ہو سکے گا اور نہ ہی یہ دنیا صحیح معنوں میں ترقی کر سکتا ہے۔
پوری دنیا میں 10 دسمبر کے دن اگرچہ انسانی حقوق کے تحفظ کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کا انسان کئی حیثیتوں سے غلام ہو کر انسانیت کے نام سے دور جا چکا ہے، جس کا خمیازہ پوری دنیا اٹھا رہی ہے۔ دنیا کا وہ کون سا حصہ ہے جہاں امن ہے۔۔۔؟ چہار جانب بدامنی، ظلم و فساد، جنگ و جدل، قتل و غارت گری، لوٹ مار، اغوا کاری، بے راہ روی اور ایک دوسرے کا حق مارنا جیسے قبیح حرکات میں انسان محو ہے۔ گویا انسان انسان نہیں ،مثل چوپایہ بن چکا ہے کہ اسے یہ خیال نہیں رہتا کہ وہ کب کیا کر رہا ہے۔ آج انسان کسی دوسری مخلوق کا نہیں بلکہ انسان کا ہی دشمن بن چکا ہے۔ ایک دوسرے کو مارنا ، ایک دوسرے کی آزادی چھین کر اسے غلام بنانا، ایک دوسرے کے حقوق پر حملہ کر کے خود خوش رہنے کی کوشش کرنا، یہ سب کچھ آج یہی انسان کر رہا ہے۔ شخصی غلامی سے لے کر قومی اور فکری غلامی میں انسان کو مبتلا کیا جا چکا ہے، جس کا نتیجہ پوری دنیا میں واضح ہے۔ کسی انسان یا قوم پر کوئی چیزجبراً ٹھونسنا ا انسانیت کا تحفظ نہیں بلکہ صریح طور پر انسانیت کی تذلیل ہے۔ انسانیت کا تحفظ انسان کی خوش حالی میں مضمر ہے اور انسانیت کا تحفظ اس کے حقوق سلب کرنے میں نہیں بلکہ حقوق دینے میں ہے۔ انسان کے بے شمار حقوق میں سے اس کی شخصی، فکری اور قومی آزادی ہے۔ جب تک یہ میسر ہے تب تک انسانیت موجود ہے اور جب اس آزادی پر حملہ کیا جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں انسان سے یہ سب کچھ چھین کر انسانیت کی تذلیل کر کے جینا لاحاصل عمل ہے۔ اس حوالے سے اگر آج کی دنیا پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو صاف واضح ہوتا ہے کہ آج انسان سے اس کے فطری حقوق چھین کر پوری دنیا میں اندھیرا چھا چکا ہے۔ آج انسان کو بے شمار غلامیوں میں مبتلا کیا جا چکا ہے۔ شخصی غلامی، فکری غلامی، قومی غلامی ، اونچ نیچ کی غلامی، زبان، رنگ و نسل کے تفاخر کی غلامی ، ان ساری قبیح غلامیوں میں انسان کو مبتلا کر کے رکھ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ بارود کا ڈھیر کب پھٹ جائے کچھ خبر نہیں، اپنی اپنی فکر میں سب مشغول ہیں۔ وادی کشمیر میں جاریہ ایجی ٹیشن کے دوران وادی میں سینکڑوں افراد جسمانی طور معذور ہوچکے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ انسانی حقوق کے دن کے موقعے پر پر ان کی کوئی داد رسی کا کوئی امکان نہیں۔پہلے یہاں سمیناروں اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا تھا اور ایسی روایت ہر ملک میں ہے لیکن یہاں وادی میں اب ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا حالانکہ آج کل یہاں اس کی اہمیت کچھ زیادہ ہی تھی۔وادی میں جاریہ ایجی ٹیشن کے دوران فورسز کی کارروائی میں قریباً 100افراد کی جانیں چلی گئیں، 120کے قریب افراد جسمانی طور پر معذور ہوگئے ہیں جس میں سے آنکھوں پر پیلٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے تاہم ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔معالجین کا کہنا ہے کہ جسمانی طور پر ناخیز افراد کو مختلف زمروں میں شامل کیا جاتا ہے اور اس کیلئے مختلف پیمانے مرتب کئے گئے ہیں۔8جولائی کو حزب کمانڈرر برہان وانی کے جان بحق ہونے کے ساتھ ہی وادی میں شروع ہوئی احتجاجی لہر اور سیکورٹی کی مختلف ایجنسیوں کی کارروائیوں میں16ہزار کے قریب لوگ زخمی ہوئے جن میں مجموعی طور پر1600کے قریب لوگوں کی آنکھوں میں پیلٹ لگے۔اعدادو شمار کے مطابقپانچماہ تک کے عرصے میں زخمی ہونے والوں میں سے120کے قریب لوگ جسمانی طور پر نا خیز ہوئے جن میں پیلٹ لگنے کی وجہ سے آنکھوں کے نور سے محروم ہونے والوں اور آنکھوں کے نقائص سے جھوجھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔صحت کی عالمی سطح پر نگہداشت کرنے والے بین الاقوامی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنایشن کی جسمانی طور پر ناخیزی کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے ’’ معذوری، جسمانی نقائص کے بنیادوں پرسرگرمیوں کی شرکت میں پابندی و حد بندی کی مشترکہ اصطلاح ہے‘‘۔محکمہ صحت اور طبی تعلیم کے علاوہ میڈیکل کالج سرینگر کے زیر اثر چلنے والے اسپتالوں کے پاس اگر چہ اس بارے میں مکمل تفصیلات معلوم نہیں ہیں کہ کتنے لوگ جسمانی طو ر پر ناخیز ہوئے تاہم جو اعداوشمار ان کے پاس موجود ہیں اس سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ قریب120لوگ جسمانی طور پر نا خیز ہوئے ہیں اور اس میں ممکنہ طور پر اضافہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ قبل از وقت نہ ہی کسی کو جسمانی طور پر ناخیز قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو مستثنیٰ رکھا جاسکتا ہے۔ میڈیکل کالج سرینگر کے پرنسپل ڈاکٹر نے کہا کہ ابھی تک اگر چہ جسمانی طور پر ناخیز افراد کے بارے میں صحیح معلومات جمع نہیں ہوئی اور نہ ہی دستیاب ہے،تاہم کچھ عرصے کے بعد ہی کچھ کہا جاسکتا ہے۔ڈاکٹرصاحب نے کہا’’ زخمیوں اور مریضوں کے مرض کی نوعیت کی تشخیص کرنے سے ہی اصل صورتحال سامنے آتی ہے اور کچھ کہا جا سکتا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ بیشتر زخمیوں کی مرض کی نوعیت کی تشخیص ابھی جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جسمانی طور پر ناخیز افراد کو قرار دینے کیلئے پہلے ہی قواعد طے کئے گئے ہیں اور اس سلسلے میں میڈیکل بورڑ بھی تشکیل دئے جاچکے ہیں جو طے کرتے ہیں کہ کون شخص جسمانی طور پر ناخیز ہے۔انہوں نے کہا کہ جسم کے الگ الگ حصوں کیلئے علیحدہ علیحدہ طریقہ کار طے کیا گیا ہے۔معروف معالج ڈاکٹر نٹراجن نے اس سلسلے میں پہلے ہی کہا تھا کہ پیلٹ سے زخمی ہونے والے افراد کی زخموں کی اصل نوعیت اور اس میں پیش رفت کا6ماہ کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے۔اس دوران آنکھوں پر پیلٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ بیشتر معالجین کا کہنا ہے کہ چونکہ ابھی بیشتر زخمیوں کا علاج و معالجہ جاری ہے اور ڈاکٹروں نے بھی اپنی کاوشیں جاری رکھی ہیں اس لئے قبل از وقت جسمانی طور پر ناخیز افراد کی صحیح تعداد بتانا مشکل ہے۔ یہ سب کچھ وادی کشمیرمیں نہیں بلکہ دنیا کے چپے چپے پر ہو رہا ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ فلسطین کا خون ناحق اسرائیل بہا رہا ہے، پاکستان میں ایک دوسرے سے لڑا کر خون بہایا جا رہا ہے، عراق اور افغانستان میں عالمی دہشت گرد ’’امریکہ بہادر‘‘ خون مسلم بہا رہا ہے، مصر میں وہاں کی کٹھہ پتلی فوجی آمریت وہاں کے جمہوری طور سے برسراقتدار آنے والی حکومت کا تختہ پلٹ کر انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔ اسی طرح شام کی صورت حال ہے۔ اس سب کے ہوتے ہوئے تحفظ حقوق انسانی کی باتیں کرنا سب فضول نظر آتا ہے۔ اس ایک دن پر کانفرنسیں، جلسے جلوس، ریلیاں، مظاہرے، قرار دادیں اور اس طرح کے بے شمار طریقے اختیار کیے جاتے ہیں لیکن سب کچھ خانہ پوری محسوس ہوتی ہے۔ بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن عملاً ٹائیں ٹائیں فش ، حقوق انسانی کے تحفظ پر خطابات ہوتے ہیں لیکن مقررین خود اصل معنی میں حقوق انسانی کے معنی سے نابلد نظر آتے ہیں۔ جس کی مثال پوری دنیا میں دیکھی جا سکتی ہے۔ فلسطین میں لاکھوں لوگوں کو قبروں میں پہنچا دیا گیا مگر آج تک یہ نہیں دیکھا گیا کہ اتنی بڑی تعداد میں فلسطینی کیوں مارے گئے؟ حقوق انسانی کا تحفظ کا جذبہ کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ اسی طرح مصر، فلسطین ،پاکستان، کشمیر، افغانستان، عراق، شام ، لبنان، چیچنیا، داغستان وغیرہ ممالک میں جو خون مسلم بہایا جا رہا ہے کسی حقوق انسانی کے نام نہاد علم بردار کے کان میں اصل معنی میں آج تک جوں تک نہیں رینگی، اپنی اپنی جگہ سب خاموش تماشائی بن کر صرف بیان بازی تک محدود نظر آتے ہیں۔ تحفظات کا راگ الاپ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دوسروں کو دھوکہ دینا نہیں بلکہ اپنی دنیا آپ برباد کرنے کے برابر ہے، جیسی کرنی ویسی برنی والا معاملہ ہے۔ آج ہم دوسروں کو غلامی میں جکڑنے کے خواب میں خود ہی مشکلات و مصائب کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں پوری دنیا میں امن قائم ہو جائے تو کیسے۔۔۔؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر کوئی بآسانی جان سکتا ہے لیکن معلوم نہیں کیوں جان بوجھ کر انسان انسانیت سے دور بھٹکتا جا رہا ہے؟ کیوں اس کا ذہن روز بروز تعمیر کے بدلے تخریب کاری پر ہی اترتا جا رہا ہے؟دراصل اس سب کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔ برسر اقتدار حکمرانوں نے وقت وقت پر قوموں کے قوم تباہی کے دہانے پر پہنچا دئے، صرف اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لیے، اپنی چودھراہٹ کے نشے میں چور، ان حکمرانوں کی وجہ سے دنیا جہنم میں تبدیل ہو چکی ہے اور جہنم خوشبو کا نام نہیں بلکہ اس کے برعکس بدبو اور درد ناک بارود کا نام ہے،جس کا کام جلانا اور تباہ و برباد کرنا ہے۔ لوگوں کے حقوق سلب کر کے وہ کچھ پانے کا خواب دیکھنا جس کی انسانی فطرت منکر ہے، سب لاحاصل عمل ہے اور اس لا حاصل سعی و کوشش میں اپنا قیمتی وقت صرف کرنا اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی سے وار کرنے کے برابر ہے۔ آج کے حکمران جو بار بار اپنی تقریروں اور بیانات میں حقوق انسانی کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کرتے نظر آتے ہیں، اپنے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے لیے دنیا کو جہنم میں تبدیل کر رہے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چور یہ طاقتیں صرف آج دیکھتے ہیں لیکن کل کیا کچھ ہو سکتا ہے اس پر انہیں نظر ڈالنے کی صحیح معنوں میں فرصت ہی نہیں ملتی۔ اس طبقے کی وجہ سے جو پوری دنیا تباہی وبربادی کی طرف دھکیل دی گئی ہے اس کی روک تھام کرناضروری ہے۔ اس کی لگام کو پکڑنا پوری دنیا کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ عنقریب یہ دنیا نہ تو عوام الناس کے لیے رہے گی اور نہ ہی اس حکمران طبقے کے لیے۔رہنے کے لئے یہ عمدہ جگہ (دنیا) کوبارود کے ڈھیر پر کھڑا کر دیا گیا ہے ، اب یہ ہماری سوچ ہے کہ ہم دیکھتے رہیں کہ کس طرح بارود کے ڈھیر پر رکھا ہوا یہ دنیا راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو کر پوری دنیا کا خاتمہ کرے۔ بہرحال جو کرنا ہے عوام کو کرنا ہے۔ ’’مَن جَدَّ فَوَجَدَ‘‘ (جس نے سعی وکوشش کی اس نے پایا) انسان کی سعی و کوشش اور خدائے ذوالجلال کی مدر ونصرت، یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کی ضرورت اور اہمیت سے واقف ہونا لازمی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ ان دونوں چیزوں کا انسان کی زندگی میں ایک اہم رول ہے، انسان کی کوشش اورخدا کی نصرت ومدد انسان کے لیے کافی ہے۔

Friday, 13 May 2016

مضطرب فرد منتشرسماج خودفراموشی کی اندھی دوڑ ہے



مکان جل رہا تھا اور نہ صرف عام لوگ بلکہ وہ افرادِ خانہ بھی جنہوں نے اس گھر کی تعمیر کی تھی، اس کو ہر حیثیت سے مزین کیا تھا ، اس کے مالکانہ حقوق ان کے نام تھے،بھی اس آگ کا دور سے تماشا دیکھ رہے تھے…! کیا کبھی آپ نے ایسی حالت دیکھی یا سنی ہے…؟ اگر دیکھی ہے تو آپ کو ضرور عجیب سا لگ گیا ہو گا لیکن ایسی حالت سے آپ کو سامنا نہیں کرنا پڑا تو میری یہ بات ذرا غور سے سنئے کہ ایسا ہونا آج کی دنیا میں کوئی عجیب واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے واقعات اب آئے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ یہ نہ صرف وادیٔ کشمیر میں بسنے والے لوگوں کی حالت ِزار کی تصویر ہے بلکہ یہ اور اس جیسے واقعات عمومی طور پر ہرزوال آمادہ ملک اور ہرروبہ تنزل قوم میں عیان وبیاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہاں ،ا س کو دیکھنے  اور تاڑنے کے لئے چشم بصیرت اور دیدہ ٔ بینا چاہیے ۔ اس غلط روش کی وجوہات کیا ہیں؟ بالفاظ دیگر ایسا کیوں ہو رہا ہے…؟ ان سوالات کا جواب ذی حس اور باہوش لوگ تلاش کریں تو کیا کچھ معلوم نہیں ہو سکتا۔ پوری دنیا کی بات کریں تو ایک لمبی بحث چھڑے گی اور ہمیںبہت ساری مثالوں میں غرق ہو نا پڑے گا ۔ اب طوالت کو اختصار کی قنچی سے کا ٹ کاٹ کے اگر برصغیر کی ہی بات پر محدودرہیں تو اس کے لیے بھی ورق ہا ورق کم پڑیں گے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ اول خویش بعد درویش کے مصداق ہم اپنی سرزمین یعنی وطن ِ عزیز کشمیر کی بات کریں تو کسی حد تک ان سوالات کا جواب معلوم کر نے کے لئے سوچ بچار کے سمندر میں فکر کا سفینہ ڈال کر حالات کی لہروںسے اخذ کر سکتے ہیں کہ ایسا کیوں اور کس لیے ہو رہا ہے…؟ ممکنہ طورایسے سوالات کا تشفی بخش جواب مل سکتا ہے، باایں ہمہ تڑپ یہ ہونی چاہیے کہ انسانیت کی بابت دردِ دل ہمارے وجود کے بحر میں موجزن رہے  تب ہی ہم ان جوابات یہ سب مستفید ہو نے کی امید کرسکتے ہیں۔ 
ا نفراد ی حالت: 
اپنے گھر کا معاملہ ہی دیکھیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے ہر فرد میں بس ایک چیز رچی بسی ہے کہ کس طرح مال وجائیداد میں اضافہ ہو، کس طرح نوکری ، گاڑی اور دیگر سامان تعیش میسر ہوں… تاہم اس کے لیے ہر سطح کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن گھر کا نظام بگڑ رہا ہے… گھر جل رہا ہے… گھر کے ہر فرد میں خدا فراموشی کے جرثومے جنم لے ر ہے ہیں، ماں باپ ہی نہیں، بھائی بہن بھی گھر سے بے گھر ہو رہے ہیں۔ بیٹا بیٹی کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کی ملکہ ’’بیوی‘‘ بھی گھر سے بغاوت کر کے گھر میں فساد کی موجب بن رہی ہے، ہر طرف مادی دوڑ دھوپ ، جذبۂ مسابقت اوراخلاق باختگی کی آگ ہی آگ ہے جو ہمارے گھروں میں لگ چکی ہے… یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق گھر کا ذمہ دار یا خانہ دا ریہ سب کچھ دیکھ کر بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے بلکہ دور کا تماشائی بنا اس سب کا نظارہ کھلی آنکھ سے کر رہا ہے۔ گویا گھر کا ذمہ دار اپنی بربادی پہ  بے فکری کی نیند سو رہا ہے اور لا اُبالی پن سے بغیر کسی ند امت وپشیمانی کے اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ رہی ہماری انفرادی حالت کی ایک خفیف جھلک ۔
اجتماعی حالت: 
گھر کے بعد اپنے علاقے، اپنے محلے، اپنے گائوں، اپنی ریاست اور اپنے آس پاس کے انبوہ ِ انسانی پر نظر دوڑاتے ہیںتو اسی فساد و بے نیازی کی بو ہر مقام پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ گھر میں فساد، علاقہ میں فساد، دفتروں میں لوٹ مار، قریہ قریہ خون خرابہ، دکانوں، کارخانوں، سرکاری وغیر سرکاری اداروں حتیٰ کہ ایسے اداروں جہاں انسان کے اخلاق کی تعمیر ہوا کرتی تھی، جہاں آدمیت کی نشوونما ہوا کرتی تھی، جہاں انسان بطور انسان بن کر جینے اور رہنے کے قواعد سیکھتا ، وہاں بھی صدارتوں ،امارتوں اور مال پر ہاتھ مارنے کے فتنے فساد پنپ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اورانسانیت کی معماری کے دعوے دار بس تماشا بین بنے ہوئے ہیںاور کہیں بحالت مجبوری کہیں بر ضا و رغبت سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر رہے ہیں، حال یہ ہے کہ ان کے چہرے مہرے کے تاثرات سے ایسے لگ رہا ہے جیسے کچھ غلط ہوہی نہیں رہا ہے۔ 
آخر ایسا کیوں…؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کیا جا سکتا ہے اور کیا بھی جانا چاہیے، مگر تب ہی ممکن ہے جب ہم اس ہمہ گیرآگ کو بجھا سکتے ہوں یا اس کی تڑپ رکھتے ہوں۔ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ آگ کی فطرت جلانا ہے تب تک اس سے کوئی خوف اور غم لاحق نہیں سکتا، بچہ ِاس آگ سے ناواقف ہوتا ہے، اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ آگ ہر چیز کو جلا دیتی ہے، اس کا کام ہی ہر شئے کو خاک میں ملا دینا ہے۔جب یہی حالت ایک ذمہ دارشخص اور قوم کی بھی ہو جائے، تو برابر اسی صورت حال کا سامنا ہونا لگ بھگ طے ہے۔اس شخص کے اندرون میں ہی نہیں بلکہ بیرون میں بھی اسی آگ کے شعلے بھڑک اٹھیں گے۔ ہاں اگر پہلے سے معلوم ہو جائے کہ آگ کا کام جلانا ہے، آگ کا کام خاک میں ملانا ہے، آگ کا کام بادشاہی سے فقیری میں تبدیل کرنا ہے، آگ کا کام ہر بنائی ہوئی چیز کو نیست ونابود کرنا ہے، تو ہم انتھک کوشش کریں گے کہ اس آگ سے کہیں سابقہ ہی نہ پڑے۔ اس آگ کے نمودار ہونے کے بعد پھر ہم کاہے کو تماشا بین بنیں گے ؟۔ اس لئے بہتر بلکہ ا فضل ترین یہی ہے کہ اس سوال کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے کہ آگ کیوں لگی، بحث ومباحثے کے لئے نہیں ، تقریر بازی کے لئے نہیں ، چندہ پیٹیاں بھر نے کے لئے نہیں ، انجمن سازی کے لئے نہیں،  اکیڈمک ڈسکورس کی کتابیں اور رپورٹوں سے لا ئبرئریون میں سجانے کے لئے نہیں بلکہ ایک جذبہ ٔ دل اور ایثار کے چھڑکاؤ سے اس آگ کو صرف بجھانے کے لئے تاکہ انسانیت فساد کی آگ سے بچائی جا سکے۔ ایک انسان جب صبح گھر سے کام دھندے، ملازمت، یا کسی اور غرض کے نکلتا ہے تو اس گھر سے نکلتے وقت اسے معلوم ہونا چاہیے کہ گھر کے تئیں میری ذمہ داریاں کیا کیا ہیں؟ وہ ساری ذمہ داریاں ادا کر کے اگر گھر سے نکل پڑے تو اس گھر میں فساد برپانہیں بلکہ اس گھر کے اندرون کے ساتھ ساتھ بیرون بھی باقی علاقہ میں رہنے والے لوگوں کے لیے خوشبو پھیلانے کا باعث بن سکے گااور اگر اپنی ذمہ داریاں گھر کے مالک ہی بھول گیا تو اس گھر میں آگ نہیں تو اور کیا ہوگا؟ اسی طرح جو گھر آٹھوں پہر گھر کی ملکہ کا دارلسلطنت ہے اسے بھی اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ خاوند کے گھر سے نکلتے ہی میری ذمہ داریاں کیا کیا ہیں؟ میں اپنے گھر کی ہی نہیں بلکہ اس میں پل رہے بچوں کی بھی نگہداروذمہ دار ہوں ۔ اپنی عزت وعصمت کی حفاظت کرنا، اپنے خاوند کے مال وجائیداد کا خیال رکھنا، یہ سب میری اپنی کلیدی ذمہ داریاں ہیں۔ جب بیوی ایسے انداز سے گھر کی ملکہ بنتی ہے تو وہ گھر آگ کی شکار نہیں ہو سکتا۔ برابر اسی طرح جب گھر سے بیٹا یا بیٹی سکول کالج کے لیے نکلے تو اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں، وہاں جانے کا مدعا ومقصد کیا ہے، وہاں کس وقت تک رہنا ہے اور وہاں سے کب واپس گھر کی جانب لوٹ کر آنا ہے۔ انہیں جواب دہی اور احساس ِ ذمہ داری ہونی چاہیے۔ انہیں اپنی ذمہ داری کا خیال رہنا چاہیے، انہیں اس بات کا شوق وجذبہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو ہی علم کے نور سے منور کرنے کے لیے نہیں بلکہ گھر ،اپنے آس پاس کے ماحول کو اخلاقیات کی خوشبوؤں سے معطر کرنے کے لیے بھی اپنے گھر سے نکلے ہیں۔ ہماری زندگی ایسی گزرنی چاہیے کہ ہمیں دیکھ کر باقی پڑوسی و دیگر ہماری طرف دیکھ کر محسوس کریں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اپنی اپنی صحیح طور ذمہ داریاں ادا کرنے سے ہی بدامنی مٹ سکتی ہے، امن برپا ہو سکتا ہے۔خالی نعرے اور خیالی باتیں، خشک وعظ ونصیحت، خالی پریس بیانات وغیرہ سے نہ تو معاشرہ فساد سے بچ سکتا ہے اور نہ ہی بدامنی کو امن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔  
email: ibrjamal38@gmail.com


Thursday, 12 November 2015

گوہر نذیر۔۔۔کس جرم کی بھینٹ چڑھا؟ ...............کتنی آہیں ، کتنی چیخیں ، کتنی قبریں چاہیے

Saturday, 3 October 2015

رضائے الٰہی کے لیے قربانیاں لازم

٭ابراہیم جمال بٹ
...................

چند روز قبل ہی عید الاضحی کی مبارک ساعتیں ہم سے رخصت ہوئیں۔اس عید کے موقعہ پر ہم نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکرانہ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی تکبیرات بلند کرتے ہوئے عید نماز ادا کی۔ عید الاضحی کی حقیقت کیا ہے؟ جب یہ سوال اللہ کے رسول ﷺ سے کیا گیا تو رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ ’’ یہ تمہارے باپ کی سنت ہے۔‘‘ سیدنا ابراہیم ؑکی پوری سیرت پاک توحید کی اقامت اور اس کی پاسداری کی خاطر غیر معمولی تلاش وجستجو،ہجرتوں اور قربانیوں سے عبارت ہے، یہ حق تعالیٰ کے لئے جینے اور مرنے کا فارمولہ اور ابتلاء و آزمائش کا مرقع ہے۔ آپؑ کی پوری زندگی بعد کے لوگوں کے لئے اُسوہ طیبہ ہے اور اسلام کی سچی مثال اور حقیقی تفسیر ہے۔ حضرت خلیل الرحمٰن ؑصحیح معنوں میں مسلمِ حنیف تھے۔ اسلام کے مثالی نمونے کی توضیح انبیائی عظمتوں  کے ساتھ سیدنا ابراہیم و اسماعیل نے از خودکی۔ اس کے بالمقابل اسلام کی یہ تفسیر و تعبیر بتاتی ہے کہ یہ اپنے مزاج ومنہج، نتائج و ثمرات اوراپنے مطالبات اور تقاضوں کے اعتبار سے سراپا عمل اور جہد مسلسل کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی انقلابی زندگی سے عبارت ہے جس میں ہر آن اللہ کی رضا جوئی کی دُھن مومن کے قلب وجگر پر سوار ہو اور اس کے ہر اشارے کی بہر صورت تکمیل ہو، یہاں سر تسلیم خم کر تے ہوئے آگ اور خون سے گزرنا پڑ تا ہے،یہاں اپنی پسند و ناپسند میں، جائز و ناجائز میں، حلال و حرام میں ہر حیثیت سے اور ہر وقت ’’سمعنا و اطعنا‘‘ کی بالا دستی قائم ودائم رہتی ہے۔
اسلام کو روبہ عمل لانے کے لئے حضرت ابراہیم ؑ کی پاک زندگی کا ایک ایک پل اللہ تعالیٰ سے لولگا نے ا ور اس کی خوشنودی کو ہر چیز پر مقدم رکھنے اور اس کے علاوہ اسی راہ میں عشق کے تقاضوں اور عقل کے مطالبات پورا کر نے کی جان فزا تصویر ہمارے سامنے لاتا ہے۔ اس سیرت ِمحبت و جہد مسلسل میں دنیا ئے عمل سے مصلحت پسندانہ فرار نہیںبلکہ محبّانہ اقدام، عارفانہ جفاکشی اور پیغمبرانہ معرفت اور سرمستی کی انتہا ملتی ہے۔
آج اس حُب سے مشرف ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور حقیقت کی پہچان کی اشد ضرورت ہے۔ ایک مسلم کی حقیقت کیا ہے؟ کیا اس کے سوا کچھ اور کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میںایک بکا ہوا مال اور اللہ کا زر خرید غلام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین کے جان ومال کو جنت کے عوض خر ید لیا ہے۔جنت کتنی بے بہا اور تصور سے ماورا دولت ہے ،اس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ اس کے بالمقابل جس جان کی حفاظت کے لئے ہم اورآپ جس محبت کا دامن تھامے رہتے ہیں اس کی بے وقعتی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ روزِ قیامت جہنم سے رستگاری اور عذابِ آخرت سے نجات کی خواہش میں یہ تمنا کی جائے گی کہ اے کاش! بیوی، بیٹے اور دیگر اہل خانہ حتیٰ کہ سارے عالم کے لوگوں کی جانیں بطورِ فدیہ لے کر عذاب سے نجات دی جائے۔ لیکن روزمحشر کو اتنی ساری جانیں اور قربانیاں خوشی خوشی پیش کرنے کے باوجودبھی، جن سے دامن بچا بچاکر ہم نے چند روزہ دنیوی زندگی میں حقیقی اسلام سے بے وفائی کی تھی، ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی ہیں۔ کتنی بے وقعت ہے یہ انسانی جان لیکن کتنا بڑا معاوضہ دیا ہے اس کا ہمارے رب نے کہ وہ مردمومن کی ایک جان کے عوض اسے محض عذابِ جہنم سے نجات ہی نہیں بخشتا بلکہ جنت کے انعام واکرام سے بھی نوازتا ہے۔ یقینا یہ مستقل منافع کا سودا حضرت ابراہیم نے اللہ عزوجل سے کیا۔ 
’’اسوہ ٔابراہیمی ؑکی روشنی میں یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ حق تو دراصل وہی ہے جو باطل کی آنکھوں کا کانٹا بن جائے اور اس سے باطل کی نیند حرام ہو جائیں۔ وہ’’ حق ‘‘حق نہیں ہے جسے باطل نہ صرف یہ کہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر ے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی اور بسا اوقات نوبل پرائز کا ڈھنڈورا پیٹ کر اس کی عزت افزائی بھی کرتا پھر ے کیونکہ ’’ حق ‘‘ کا فرضی وجود  باطل وابلیس کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ حق دراصل ایک پیمانہ ہے جس کو پرکھنے کے لئے قربانیوں کا آلۂ پیمائش استعمال کر کے کھرے اور کھوٹے کی تمیز اور پہچان کرائی جاتی ہے۔آج بھی اگر’’ حق ‘‘کا دعوے دار کوئی فرد یا کوئی جماعت یا گروہ ایسا موجود ہو جسے باطل کی سرپرستی اور شاباشی حاصل ہو تو جان لینا چاہئے کہ وہ منافقت کے پر دے میں باطل کا آلۂ کار ہے۔ اللہ ہم کو ایسے’’ حق ‘‘کے شر ور سے محفوظ رکھے۔ آمین



Saturday, 8 August 2015

محبت نہ ہو تو محبوب سے کیا رشتہ!


٭ابراہیم جمال بٹ
...................


محبوب کی محبت ایک فطری عمل ہے لیکن اگر اس محبت کے بیچ محبوب کی پسند وناپسند کا خیال نہ رکھا گیا ہو تو یہ محبت نام کی ایک ’’مشق گردانی‘‘ کہلائے گی۔ محبت محبوب کی ہر عمل پر وقت، پیسہ حتیٰ کہ جان بھی قربان کردینے کا نام ہے۔ اس کی ہر ادا ہی نہیں بلکہ ہر حکم کی تعمیل میں محبت لفظ کی تشریح موجود ہوتی ہے،بلکہ اگر یوںکہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اس کے دوستوں اور ہمنوائوں کی قدرکرنے میں محبوب کی ہی کی خوشبو محسوس کی جا سکتی ہے۔ مرزا غالب ؔنے کیا ہی خوب کہا ہے    ؎’’غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست‘‘غرض محبت ایک ایسے عمل کا نام ہے جس میں مٹھاس ہے، جس کی مٹھاس کا نتیجہ تازہ تازہ پھل اور پھولوں کی خوشبو ہے۔ یہ تازہ پھل اور گلابی خوشبو جس شخص کو حاصل ہو جائے اسے اور کیا چاہیے۔ ایک طرف لذیز اور تازہ پھل اور دوسری جانب رہنے کو پھولوں سے بچھا ہوئی ایسا نرم نرم بچھونا کہ چاہتے ہوئے بھی کوئی اس سے نہ اُٹھے۔ آج دیکھئے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں پوری دنیا میں اس محبوب کے محب ستارے ہر جانب چمکتے نظر آرہے ہیں۔ ہر ستارہ انسانی دلوں پر راج کر رہا ہے، زبانوں پر ان کا نام ادب واحترام سے لیا جا رہا ہے، اور جب کبھی بھی ان ستاروں کے متعلق بات چھیڑی جاتی ہے تو ہر جانب آہ آہ کی صدا ئیں سنائی دیتی ہے۔ یہ سب کچھ اسی اصل محبت کا نتیجہ توہے۔ اس کی ہر ادا ہے میری جانوہ جان ہی کیا جو نہ ہو اُس پر قربانلیکن! محبوب نے جو کہا ہم نے اس پر غور نہیں کیا… اس کو سنا مگر سنتے ہی رہ گئے، نہ حکم کی تعمیل، اور نہ ہی سن کر کوئی ہمارے اندر وبیرون کوئی تبدیلی رونما ہوئی،بس سنتے ہی رہ گئے۔ محبوب کی بات سننی تھی تو ہم نے لبیک کہا… جب قریب سے دیکھا تو لبیک کے سوا کچھ نہ پایا… محبوب کی محبت کا اصل (اس کی ہر ادا اور ہر حکم پر قربان ہونا) مقصد ہی نہیں پایا۔ محبت کی راہ میں جو اقرار کرنے کا وقت آیاتو زبان پر صرف محبوب محبوب ہی نکل رہا تھایاد رہے! وہ دعوی ہی کیا جس میں زبان پر محبت ہو لیکن عمل سے خالی ، وہ محبت نہیں بلکہ خود اپنے آپ کو ہی دھوکاہے۔ جس دل میں خمیرِ محبت کے ساتھ ساتھ قربان علی المحبوب کا جذبہ نہ ہو اس محبت میں کوئی دم نہیں۔ افسوس ہم لوگ محبت کے معنی، مفہوم اور مقصد وغایت سے ناآشنا ہونے کی بنا پرہی ’’زبانی محبت‘‘ کو اصل محبت سمجھ بیٹھے ہیں۔ نتیجہ سامنے ہے کہ ایک جانب محبوب کی زبانی محبت ہے اور دوسری جانب محبت کی ہر ادا اورہر پسندو ناپسند پر ہمارا عملی انکار۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل اور مطلوب ومقصودِ محبت کی کوئی حیثیت ہمارے دلوں میں موجود ہی نہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے دلوں  میں محبت اور محبوب کی ہر خواہش پر عمل ہے۔ جس انسان میں محبت کے ساتھ اتباعِ محبوب نہیں، اس کے اندر مطلوبہ محبت نہیںہے۔ دراصل ان کے دل محبت کے نور سے خالی پڑے ہیں۔وہ دل محبت کے اصل جوہر سے خالی ہیں، جو اگرچہ زبان سے بکھیر دیتے ہیں محبت کے پھول، مگر عملی اعتبار سے محبوب کے وفادار نہیں ہوتے ہیں۔محبوب سے محبت کرنے والے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ:’’اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو (میرے محبوبؐ) کی اتباع کرو، میں تم سے محبت کروں گا۔‘‘اے کاش ہم نے بات مانی ہوتی!آج ہم اس قدر ذلیل وخوار نہ ہوتے، ہم محکوم ومجبور نہ ہوتے، ہم اعلیٰ سے ادنی نہ بن جاتے، ہم ہر کسی کا نوالہ نہ بن جاتے۔ یہ بات واضح ہے کہ جب تک ہم محبوب کی اصل محبت میں کام کر رہے تھے تو دنیا کی کوئی بھی شئی ہماری تابع وفرماں برداری سے خالی نہ تھی اور جب ہم نے راہ بدلی تو دنیا کی ہر حقیر شئی ہم پر غالب وحاکم ہو گئی۔ ٭٭٭٭٭


Sunday, 12 July 2015

ماہ رمضان : ایک عہد وپیماں


٭ابراہیم جمال بٹ 

.......................

ماہ رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں ہم سے رُخصت ہو رہی ہیں… اس میں ہم نے محنت کر کے اللہ کی رضا جوئی حاصل کرنے کی انتھک کوشش کی… فرض نمازوں کی وقت پر پابندی، نوافل کا زیادہ سے زیادہ اہتمام، قرآن کی تلاوت میں مزید اضافہ… نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا… اور اسی طرح دیگر ایسے کام کئے جن سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشی حاصل ہو جاتی ہے… الحمد للہ علی ذالک… اس پر جتنا بھی اللہ کے دربار میں شکر ادا کیا جائے کم ہے… ہم نے مسلسل روزہ رکھ کر یہ اعلان کیا کہ ہم وقت آنے پر پیٹ پرپتھر باندھ سکتے ہیں…ہم بھوکے رہ سکتے ہیں… لیکن اللہ کی نافرمانی نہیں کر سکتے… اس کے حکم کی تعمیل میں بھوک کی حالت میں جان بھی نکل جائے تو مضائقہ نہیں… ہم نے مسلسل اور وقت کی پابندی کا خیال کر کے نماز کی پابندی کا مزاج اپنے اندر پیدا کیا… یہ اس بات کا اعلان ہی تو ہے کہ ہم اللہ کے دربار میں سلامی دینے کے لیے ہر وقت تیار ہیں… جب اللہ کے دربار سے منادی آئے گی، ہم حاضر ہونے کے لیے تیار ہوں گے… اُس کے آگے جھکنے اور دوسروں سے ’’لا‘‘ کرنا اسی نماز کا ایک اہم درس ہے… ہم نے فرائض نماز کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی بڑے ذوق وشوق سے اہتمام کیا… یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کے حکم (فرض) کے علاوہ بھی اس کے آگے جھکنے (نوافل) میں اپنی زندگی گزار کر اپنے باغ کو مزید پھولوں اور خوشبو سے منور کر سکتے ہیں… ہم نے صبح سے لے کر شام تک جب بھی فارغ وقت پایا بلکہ وقت نکال نکال کر تلاوت قرآن پاک میں گزارا… یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن ہماری رہبر ورہنما کتاب ہے… اسی کی روشنی سے ہمیں وہ راستہ مہیا ہو سکتا ہے جس کے ہم متلاشی ہیں… ہم دُعا کرتے ہیں… اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا… وہ راستہ جس پر آپ نے انعام رکھا ہے… اس راستے پر چلنے اور کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے، قرآن واحد کتاب ہے… گویا کہ دوسرے الفاظ میں ہم اعلان کرتے ہیں کہ اس دنیا میں اگر امن وآشتی کا پیغامبر ہے تو وہ یہی قرآن ہے… اس دنیا پر اگر کوئی نظام حق ہے تو وہ اسی قرآن کا نظام ہے… اس دنیا پر بسنے والے لوگوں پر اگر کوئی قانون صحیح اور کامیاب ہو سکتا ہے تو وہ اسی قرآن کا قانون ہے… اس ماہِ مبارک کے آخری ایام ہم اب شب خوانی میں گزارہے ہیں… جس میں نوافل نماز میں افضل ترین نماز ’’تہجد‘‘ کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے… یہ بھی اسی اعلان کی ایک کڑی ہے کہ ہم نہ صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے دن میں کام کر سکتے ہیں بلکہ کبھی کبھار رات کی نیند کو بھی قربان کر سکتے ہیں… ہم اللہ کی راہ میں دن کے شاہسوار اور رات میں پہرہ داری کی ذمہ داری بھی انجام دے سکتے ہیں…ہمارا دن اللہ کی راہ میں گزر سکتا ہے اور ہم رات بھی اسی کے لیے قربان کر سکتے ہیں… اس ماہ ہم نے اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا… زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ صدقات وخیرات بھی دل کھول کر دئے… یہ اس بات کا تو اظہار ہے کہ اللہ کی راہ میں وقت… دن ورات… پیسہ… اور صلاحیتیںقربان کر سکتے ہیں… یہ اس بات کا اعلان تھا کہ… مال دینے والی اللہ کی ذات ہے… اور اسے اسی کی راہ میں قربان کرنابھی عبادت ہے… ۔ غرض اس ماہ مبارک میں ہم نے اللہ کے ساتھ بے شمار عہدوپیمان کئے ہیں… اس کی ہر ادا پر قربان ہونا… اس کی سلامی کاوقت پر جواب دینا… اس کی راہ میں اپنا جیب خالی کرنے میں خوشی کا اظہار کرنا… یہ سب عہد وپیمان ہی تو ہیں جو ہم نے اس ماہ مبارک میں کئے… اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس ماہ کے اختتام کے بعد شوال کے مہینے میں اپنے عہدو پیمان پر برقرار رہ پائیں گے یا نہیں… اللہ کا جو اس ماہ کے روزوں کا مقصدانسان کے اندر ’’تقویٰ ‘‘پیدا کرنا ہے… جب ایک مومن اللہ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اور اللہ کی رضا کی خاطر روزہ رکھتا ہے تو اس کے دل میں تقویٰ کا شعور اجاگر ہوجاتا ہے…یہ تقویٰ ہی ہے جو دلوں کا نگہبان ہے اور جو انسان کو روزے کے احکام کی خلاف ورزی سے بچاتا ہے…اگرچہ وہ ایسی معصیت سے بھی انسان کو بچاتاہے ،جو کسی حد تک محض وسوسہ ہو۔قرآن کریم کے اول مخاطب صحابہ کرام ؓا س کے معنی سے اچھی طرح واقف تھے۔وہ جانتے تھے کہ اللہ کے ہاں تقویٰ کس قدر وزنی ہے۔اس لئے تقویٰ ہی ان کا نصب العین تھا۔وہ برابر اس کی طرف بڑھتے جاتے تھے اور روزہ ذرائع حصول ِتقویٰ میں سے چونکہ ایک ذریعہ ہے اس لئے یہ فرض کیا گیا۔دراصل روزہ وہ راہ ہے جس کی آخری منزل تقویٰ ہے۔یوں لگتا ہے کہ قرآن مجید ،ایک بلندمقام پر ،بالکل سامنے تقویٰ کا ایک روشن نشان رکھ دیتا ہے اور اہل ایمان کی آنکھیں اس نشانہ پر جم جاتی ہیں اور وہ روزہ کے واسطے اورروزے کی امداد سے تقویٰ تک پہنچنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ تقویٰ ہمیں حاصل ہوتا ہے یا نہیں…؟ ماہ رمضان المبارک کی ساعتیں گزرنے کے بعد ماہ شوال کے پہلے ہی دن معلوم ہو جائے گا کہ ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا… تقویٰ و پرہیز گاری حاصل ہوئی یا کچھ اور… ؟ماہ رمضان المبارک سے قبل جس قدر ہماری حالت تھی اگر وہی حالت برابر قائم رہی… تو ہمارا احتساب آخر کب ہو گا… اس ماہ بھی اگر ہم نے وقت ضائع کیا تووقت سے کب فائدہ اٹھا پائیں گے۔؟ 



Friday, 17 April 2015

خبردار :سوائن فلو کی ہے یلغار !

٭ابراہیم جمال بٹ

.....................

’’سوائن فلو‘‘ نے گزشتہ کئی ماہ سے ایک ایسی خوفناک صورت حال اختیار کی ہے کہ ہر کوئی پریشان و بے حال ہے۔ ہر جانب لوگ اس سے بچائو کی تدابیر کے بارے میں اظہار خیال کرتے نظر آرہے ہیں ، لیکن کیا کیا جائے ابھی تک اس کا رکائو نہیں ہو رہا ہے ،البتہ میڈیا نے کسی حد تک اس شہ سرخی کو چھوڑ دیاہے۔ حالانکہ اکثر لوگ ابھی تک چہرے پر ’’ماسک‘‘ لیے پھرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا ہے کہ’’ ماسک‘‘ پہننا فضول عمل ہے بلکہ کہنے کا مقصد بس یہ ہے کہ لوگ پریشان ہیں اور جان کی حفاظت کرنے کے لیے ہی ایسا کرتے ہیں۔ 
اب ذرا اس سوائن فلو جس نے اتنا تہلکہ مچا دیا ہے… کو غور وفکر کا نقطہ بنا کر اپنی اپنی جگہ سوچیں کہ کیا ہم ہر اس جان لیوا شئی سے برابر اسی طرح پرہیز کر کے، ان سے بچنے کی سوچتے ہیں…؟ اگر ہمارا حال ہر ایسی چیز کے بارے میں جس سے ہمارا نقصان ہو رہا ہو یہی ہے تو الحمد للہ… اور اگر اس سے مختلف ہے تو ذرا سوچئے…! یہ تضاد کیوں؟ 
سوائن فلو سے متاثرہ انسان سے بچنے کے لیے بے شمار اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں کیوں کہ یہ جان لیوا وائرس ہے۔ حالاں کہ ہمارے موجودہ معاشرے میں اِس سے زیادہ مہلک ترین بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن ان سے بچنے کی تدابیر نہیں کی جاتی، بلکہ ان کے پھیلائو کو ’’ماڈریٹ‘‘ کے لقب سے مذین کیا جاتا ہے۔ معاشرے میں ہر طرف بے حیائی کا بازار گرم ہے… ہر طرف لوٹ مار، قتل وغارت گری، ظلم وفساد، بے راہ روی، بددیانتی، رشوت خوری، اور دھوکہ دہی جیسی بیماریاں روز بروز پھیلتی ہی جا رہی ہیں اور ان کے پھیلائو سے کوئی انسان پریشان وبے حال نہیں ہوتا… ایک طبقہ تو انہیں وقت کی ضرورت کہتا ہے اور ایک دوسرا طبقہ مجبوری کا بہانہ بنا کر اپنی آنکھیں بند کر یہ سب کچھ دیکھ کرمطمئن نظر آتا ہے۔ آخر اتنا تضاد کیوں…؟ کیا معاشرے میں پھیل رہی بے راہ روی اور فحاشی ہمارے لیے سمِ قاتل نہیں؟ کیا دھوکہ دہی،لوٹ مار، قتل وغارت گری، ظلم وفساد، بے راہ روی، بددیانتی اور رشوت خوری ہمارے معاشرے کے لیے جان لیوا اور مہلک ترین بیماریوں میں سے نہیں …؟ 
اصل حقیقت یہ ہے کہ بنی نوع انسان اچھی طرح سے سمجھ رہا ہے کہ یہ سب مہلک ترین بیماریاں ہیں، ان سے نہ صرف انسانی جان کو خطرہ لاحق ہے بلکہ منجملہ پوری قوم و انسانیت کو نقصان پہنچ رہا ہے، لیکن پھر بھی انسان آنکھیں موندھ کر اندھوں اور بہروں کی طرح زندگی کے یہ گنے چنے ایام گزار رہے ہیں۔ کسی چیز کی بھی فکر نہیں۔ اپنا آج کا دن اچھی طرح سے گزرے، یہی ہماری سوچ بن چکی ہے۔ اسی لیے جب ’’سوائن فلو‘‘ جیسی بیماری کا اعلان ہو جاتا ہے تو دل تھر تھر کانپنے لگتا ہے اور جلد ہی بچائو کی تدابیر کی جاتی ہیں۔ یعنی موت کا کومحسوس کر کے، ’’آج‘‘ کا نقصان نظر آتا ہے، اسی لیے تدابیر کے طور پر ’’ماسک‘‘ وغیرہ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ’’آج‘‘ کا بچائو اور اس کا خطرہ دیکھ کرکیا جاتا ہے ۔ لیکن وائے افسوس! ’’آج ‘‘ کا خطرہ محسوس کیا جاتا ہے لیکن کل اور آنے والے ایام کے ساتھ ساتھ پوری زندگی، اور عالم انسانیت کو ہونے والے نقصان کا اندازہ ہونے کے باوجود بھی کوئی تدبیر نہیں کی جاتی۔ افسوس… صد افسوس!
زندگی انمول شئی ہے اور جہاں یہ گزر رہی ہو وہاں کا ماحول اس سے بھی انمول ہے۔ اس لحاظ سے ترجیحات کی بنیاد پر اولیت اور ثانویت کی بنیاد پر ہمارا قدم اُٹھنا چاہیے۔ سوائن فلو جیسی مہلک بیماری سے بچائو کی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُن ساری بیماریوں کا تدارک اور بچائو کی صورتیں نکالنا بھی ضروری اور لازم ہیں جن سے پوری قوم وملت متاثر ہو کر   نیست نابود ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔ زندگی قیمتی ہے لیکن جس معاشرے میں ہم جی رہے ہوں وہ کس قدر قیمتی ہے اس کا اندازہ لگانا چاہیے اور پھر اس میں پھیل رہی بیماریوں کا تدارک بھی کرنا چاہیے۔   ٭٭٭٭٭